ثریا - بالی ووڈ فلم نگری کے اپنے دور کی متمول ترین اداکارہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-18

ثریا - بالی ووڈ فلم نگری کے اپنے دور کی متمول ترین اداکارہ

Suraiya, a tycoon of Bollywood Film industry

فلمی دنیا کی وہ سلیقہ شعار ایکٹریس جس نے لاکھوں کما کر لاکھوں جمع بھی رکھے۔ بلڈنگیں بنوائیں، بنگلے اور فلیٹس سجائے۔ اور اب بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہی ہے۔ شادی تو اس نے کی نہیں۔ اگر اس کی شادی ہو چکی ہوتی تو میں یہ کہتا کہ اس کی دس، بارہ پشتیں بھی اگر کچھ نہ کریں اور صرف پاؤں پر پاؤں رکھے بیٹھی رہیں تو بھی انہیں کسی کا دست نگر نہ ہونا پڑے گا۔
ثریا نے بچپن سے کمانا سیکھا ہے اور بچپن سے جمع کرنے کی عادت اس نے ڈالی ہے۔ نجانے وہ کس قسم کی پنجابن ہے اور کس قسم کی مسلمان ہے۔ اس کے اس اندازِ پس اندازی سے تو ایسا لگتا ہے کہ اسے کسی چیکو مارواڑی کے گھر میں جنم لینا چاہیے تھا۔ اور اگر میں آواگون کا قائل ہوتا تو میں یہی سمجھتا کہ ضرور وہ پچھلے جنم میں کٹر قسم کی مارواڑن رہی ہوگی۔ فلمی دنیا میں پیسہ صرف دو ہی آرٹسٹوں نے جمع کیا ہے: اشوک کمار مارواڑی نمبر ایک اور ثریا مارواڑن نمبر دو۔ دونوں نے خوب کمایا اور خوب پس انداز کیا۔

ثریا نے سب سے پہلے پرکاش پکچرز کی فلم "اسٹیشن ماسٹر" میں بےبی ثریا کے نام سے ایک بچی کا رول کیا تھا۔ پھر وہ جے۔کے۔ نندا کے "اشارے" میں آئی۔ اور ایسا کھپ کر چمک گئی وہ اس فلم میں کہ سبحان اللہ۔ اور پھر ثریا کا نام چمکنے لگا۔
کاردار پروڈکشنز کی پہلی فلم "شاردا" میں ثریا نے مہتاب کا پلےبیک دیا۔ "پنچھی جا پیچھے رہا ہے بچپن میرا، اسے منا کے لا" آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔ ثریا کا مارکٹ دن بدن بڑھتا گیا۔ اور وہ اتنا آگے بڑھی کہ پورے ملک میں اس کے نام کا طوطی بولنے لگا۔ جتنی سلور جوبلی فلمیں ثریا کی قسمت میں آئی ہیں وہ کسی اور کی قسمت آج تک نہیں بن سکیں۔
ڈائرکٹر صادق میرے دوست تھے اور ثریا ان کی محبوب ہیروئین تھی۔ "کاجل" میں اس نے کام کیا تھا اور صادق بابو اس کی ایک ایک ادا پر نثار تھے۔ اور انہیں کے سیٹ پر ایک بار ثریا سے کچھ عجیب و غریب طریقہ پر بالکل ڈرامائی انداز میں تعارف ہوا۔
میں کیمرے کے پیچھے ذرا کافی فاصلہ پر ایک کرسی پر بیٹھا ہوا صادق بابو سے باتیں کر رہا تھا کہ ثریا آئی۔ اور اتفاق کی بات کہ اس نے فرش پر بچھے ہوئے قالین کے فولڈ سے کچھ اس طرح ٹھوکر کھائی کہ اوندھے منہ آ کر پوری کی پوری مجھ پر گر پڑی۔ اور میں گھبرا گیا۔ اور صادق بابو پریشان ہو کر کھڑے ہو گئے اور لوگ بھی اس حادثہ کی تاب نہ لا کر اس جگہ جمع ہو گئے۔ آخر کو ثریا نے ٹھوکر کھائی تھی، کچھ معمولی بات تو تھی نہیں کہ لوگ نظرانداز کر دیتے۔
"شکریہ ۔۔۔" ثریا نے اپنے ہوش و حواس جمع کر کے میرا شکریہ ادا کیا۔
"کس بات کا شکریہ؟" میں نے پوچھا۔
"اگر آپ بیچ میں نہ ہوتے تو میں ضرور پکے فرش پر گر کر اپنا چہرہ لہو لہان کر لیتی"۔
"میں ہمیشہ گرتے ہوؤں کو سنبھال لیا کرتا ہوں"۔ میں نے مذاق کے طور پر کہا: "اس سے مجھے خوشی ہوتی ہے"۔
"اور اس وقت تو اور بھی خوشی ہوئی ہوگی"۔ کسی کی آواز آئی۔
"ایسے حسین حادثے تو قسمت والوں ہی کے ساتھ ہوا کرتے ہیں"۔
"سچ ہے"۔ ثریا بولی۔ "واقعی میں خوش قسمت ہوں"۔
"آپ کو نہیں کہنے والے نے مجھے خوش قسمت کہا ہے" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ثریا بولی :
"کہنے والے کو کیا معلوم کہ ادیب کی قدر و قیمت کیا ہوتی ہے۔"
"ادیب ۔۔۔!" میں حیرت سے بولا : "آپ کو کیا معلوم کہ میں کون ہوں؟"
"آپ کو نہ معلوم ہوگا کہ آپ کیا ہیں۔" وہ مسکرائی۔ "مگر آپ کیا ہیں عادل رشید صاحب، یہ چیز مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔"
"آپ ۔۔۔! میرا مطلب ہے کہ آپ مجھے جانتی ہیں۔"
"جو آپ کو نہیں جانتا، وہ جاہل ہے"۔
'آپ عادل رشید صاحب ہیں"۔ صادق بابو ہکلانے لگے۔ "اور آپ میرے بڑے پرانے دوست ہیں"۔
"اور آپ نے آج تک اپنے پرانے دوست سے میرا تعارف نہیں کرایا"۔ ثریا بولی۔
اور اس پر صادق بابو اور بوکھلا گئے۔
"میرا خیال تھا کہ تم انہیں جانتی ہو۔ اور جیسا کہ تم جانتی ہو انہیں ۔۔۔"
"مگر تعارف کے بغیر بات چیت جو نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ آپ کا فرض تھا کہ ۔۔۔"
اور اس پر صادق بابو بولے:
"دیر آید درست آید۔ اب تو تم نے ان کے اوپر گر کر اپنا تعارف خود کرا لیا ناں ۔۔ چلو چھٹی ہوئی۔"
یہ کہہ کر صادق بابو کیمرے کے سامنے جا کر واسطی کو ہدایات دینے لگے۔ اور ثریا نے مجھ سے کہا:
"میں آپ کی چیزیں کافی دلچسپی کے ساتھ پڑھتی ہوں۔"
"یہ آپ کی ذرہ نوازی ہے۔"
"آپ صادق بابو کے یہاں اکثر آتے ہیں۔ کئی دفعہ جی چاہا کہ آپ سے خود ہی متعارف ہو جاؤں۔ مگر ہمت نہ پڑی"۔
"جی ۔۔۔"
اور پھر ثریا سے کچھ دیر اور باتیں ہوتی رہیں کہ صادق بابو نے اسے ریہرسل کے لیے آواز دے لی۔ اور میں تھوڑی دیر بیٹھ کر سیٹ پر سے واپس چلا آیا۔ ثریا نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں اس کے گھر ضرور آؤں۔ مگر میں وعدہ کر کے بھی نہ جا سکا۔ اور یہ میری سب سے بڑی کمزوری کی وجہ تھی۔ نہ جانے کیوں میں ایسا کرتا ہوں۔
اور پھر ثریا سے کبھی کبھار علیک سلیک ہوتی رہی۔ گاہے گاہے کبھی یہاں اور کبھی وہاں، کبھی اس اسٹوڈیو میں اور کبھی اس اسٹوڈیو میں۔ کبھی پریمئر پر کبھی کسی مہورت پر۔

ایک بار مجھے کے۔ آصف سے کچھ کام تھا۔ میں رنگ محل اسٹوڈیوز میں "جانور" کے سیٹ پر چلا گیا۔ پہرہ تو سخت تھا، مگر مجھے کسی نے بھی نہ روکا اور میں اندر پہنچ گیا۔ اور اندر جا کر خود مجھے بےحد ندامت ہوئی۔
"جانور" کے سیٹ پر ایک کونے میں شوٹنگ ہو رہی تھی۔ دلیپ کمار ہنٹر ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔ وہ کیمرے کے سامنے ہنٹر مارنے کی ریہرسل کر رہا تھا۔ اور ثریا بالکل میرے سامنے بےحد نیم عریاں لباس میں سر جھکائے کرسی پر بیٹھی تھی، وہ تقریباً ننگی تھی۔ اور وہ مجھے اپنے بالکل نزدیک منہ کے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ کر اور بھی شرما گئی تھی۔ میرا بیٹھنا اس جگہ مشکل ہو گیا۔ اور میں چند منٹ اسی جگہ کرسی پر پہلو بدل کر واپس آ گیا۔ میں نے چلتے وقت آصف سے کہا کہ میں تم سے پھر ملوں گا یار۔ اور میں آصف سے بات چیت کیے بغیر واپس آ گیا۔
"جانور" ایک فلم تھی جو آصف بنا رہے تھے۔ اور اس میں پہلی بار ثریا اور دلیپ کمار ایک ساتھ آ رہے تھے۔ مگر یہ فلم کچھ تھوڑی سی بن کر رک گئی۔ ثریا نے نیم عریاں حالت میں اس فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا اور یہ فلم ڈبے میں بند ہو گئی تھی اور آج تک بند ہے۔
اور پھر اس دن کے بعد سے ثریا سے میری ملاقات آج تک نہیں ہو سکی۔ کبھی اتفاق نہیں ہوا ملنے کا۔ ایک آدھ بار میری نظر اس پر پڑی۔ مگر کچھ اس طرح کہ بات چیت نہ ہو سکی۔ اور ہم اپنے اپنے راستے لگ گئے۔
ایک بار اڈوانی کے ساتھ ثریا کی ورلی والی بلڈنگ ضرور دیکھی ہے۔ میں نیچے گاڑی میں بیٹھا رہا اور اوپر نہیں گیا۔ اس نے بہت کہا مگر میں نے کہا کہ تم جا کر بات کر لو۔ میں کیا کروں گا جا کر؟ (اڈوانی ثریا کو میری نئی کہانی "لکھنؤ کے بانکے" میں کاسٹ کرنا چاہتا تھا)۔ چنانچہ وہ میوزک ڈائرکٹر بلو۔ سی۔ رانی کے ساتھ اوپر چلا گیا۔ اور میں گاڑی میں بیٹھا رہا۔
البتہ "مرزا غالب" دیکھ کر میرا دل خود بخود یہ چاہا کہ میں خاص طور پر ثریا کے گھر جاؤں اور اسے اس کے اتنے شاندار پرفارمنس پر مبارکباد دوں۔ "غالب" میں ثریا کی اداکاری نے کمال کی انتہا کر دی ہے۔ ثریا کے علاوہ اگر کوئی اور ایکٹریس ہوتی تو وہ اس رول کو اتنا اچھا نہیں نبھا سکتی تھی، یہ میرا ایمان ہے۔
ثریا نے اس فلم میں اداکاری نہیں کی بلکہ اس نے اپنا کلیجہ نکال کر سامنے رکھ دیا ہے۔ "مرزا غالب" میں ثریا کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ جی چاہتا ہے کہ "مرزا غالب" میں ثریا کے فن کو سجدے کیے جائیں۔ اور شاید جب بھی ہم اس کے فن کو خراج تحسین و عقیدت پیش کرنے میں ناکام رہیں گے۔

ثریا ہندوستانی پردۂ سیمیں کی بہت بڑی اداکارہ ہے۔ کاش اس نے بےتحاشا فلموں میں کام کر کے اپنے کو اتنا نہ گرا لیا ہوتا۔
"اشارہ" کے بعد "مرزا غالب" ثریا کی آخری فلم ہے جس میں ہم اس کے فن کو بامِ ثریا پر دیکھتے ہیں۔ اور بس ۔۔۔!

یہ بھی پڑھیے:
بالی ووڈ گلوکارہ اداکارہ - ثریا

***
ماخوذ از کتاب:
فلمی مہرے - از: عادل رشید (اشاعت: 1957ء)۔

Suraiya, a tycoon of Bollywood Film industry.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں