ریشمی رومال تحریک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-12-06

ریشمی رومال تحریک

Reshmi-Rumal-Movement
جنگ آزادی کا ذکر ریشمی رومال کے ذکر کے بغیر ادھورا رہے گا۔
یہ وہ تحریک تھی جس کے بانیاں محبان وطن علماء تھے۔ اس تحریک میں جس ایک ہستی کانام سب سے اوپر آتا ہے وہ تھے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندیؒ ۔ ان کے علاوم مولانا شاہ رحیم رائے پوری، مولانا عبید اﷲ سندھی، مولانا محمد صادق، مولانا محمد میاں منصور انصاری بھی اس تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ ریشمی رومال اور اس کے بانیوں کی قربانی کو آج بھی حکومت ہند بھولی نہیں ہے۔ رواں سال کے شروع میں صدرجمہوریہ پرنب مکرجی نے مرکزی وزراء کپل سبل اور کے رحمن خان کی موجودگی میں ایک خصوصی ڈاک ٹکٹ جاری کیا تھا۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں مسٹر مکھرجی نے مذکورہ تحریک اور اس سے جڑے محبان وطن بالخصوص علماء کی ناقابل فراموش قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ ان کی قربانیوں کا ملک کی آزاد میں جو نمایاں رول رہا ہے، انہیں یاد رکھے جانے اور انہیں خراج تحشین پیش کئے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات کیلئے محکمہ ڈاک کی تعریف کی تھی کہ اس نے جنگ آزادی کے متوالوں اور ان گروپوں اور تحریکوں کی یاد میں، ان کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وقت وقت پر خصوصی ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا ہے۔ صدر جمہوریہ نے اس وقت کے وزیر برائے کمیونکیشن اینڈ انفارمیشن ٹکنالوجی کپل سبل کی بھی تعریف کی اور حوصلہ افزائی کی تھی جنہوں نے اس خصوصی ڈاک ٹکٹ کو ریشمی رومال تحریک سے منسوب کیا تھا۔ تحریک ریشمی رومال (Silk Letter Movement) جنگ آزادی کی وہ تحریک تھی جس میں دیو بند کے علماء ایک ایسی تحریک کو حتمی شکل دینا چاہ رہے تھے جس میں ترکی، جرمنی اور افغانستان کی مدد سے ہندوستان پر قابض برطانوی فوج پر حملہ کرکے انہیں زیر کرنا اور ملک سے مار بھگانا تھا۔ مگر بدقسمتی کہیں یا چند ایک ہندوستانیوں کی قوم سے غداری پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل ہی برٹش حکمرانوں کو اس کی بھنک لگ گئی اور اس میں پیش پیش تمام علماء بشمول مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا محمود حسن کو گرفتار کرلیا گیا۔ چونکہ یہ پورا پلان ریشم کے کپڑے کے رومال پر تحریر کرکے ایک دوسرے تک پہنچایا جارہا تھا، اس لئے اسے ریشمی رومال تحریک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس پلان کے مطابق برٹش حکومت کے خلاف ایک فوج کھڑی کرنی تھی اور برٹش مخالف بین الاقوامی طاقتوں کی مدد سے انہیں شکست فاش کرکے ایک قومی حکومت تشکیل دینی تھی۔ اکتوبر1915ء میں جب پہلی جنگ عظیم میں برطانوی حکومت پھنسی ہوئی تھی، مولانا محمودحسن جو اس وقت دارالعلوم دیوبند کے صدر مدرس تھے ان کے شاگرد رشید مولانا عبید اﷲ سندھی نے افغانستان کا رخ کیا۔ ان کا مقصد ہندوستان کے قبائلی علاقوں میں مسلمانوں کو برٹش حکومت کی ہند مخالف کارناموں سے آگاہ کرکے انہیں انگریز حکومت کے خلاف بغاوت کیلئے تیار کرنا تھا۔ شیخ الہندؒ نے عبید اﷲ سندھی کو افغانستان کے امیر کے پاس بھیجا جنہیں اس بات ر راضی کرنا چاہتے تھے کہ وہ برطانیہ کے خلاف جنگ کا اعلان کریں۔ مولانا انصاری کو سرحدی علاقوں میں بھیجا جہاں قبائلیوں کی بڑی تعداد آباد تھی اور یہ وہ قوم تھی جو اپنی آزادی کیلئے کچھ بھی کر گزرتے۔ جبکہ مولانا محمود حسن خود ترک کے خلیفہ غالب پاشا کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اس وقت سعودی عرب کے دارالحکومت حجاز چلے گئے جہاں سے ترکی جانا تھا۔ خلیفہ غالب پاشا سے انہوں نے نہ صرف ملاقات کی بلکہ برٹش حکومت مخالف جنگ کیلئے ان کا دستخط شدہ اعلامیہ حاصل کرلیا۔ وہاں سے شیخ الہند بغداد اور بلوچستان ہوتے ہوئے سرحدی علاقہ پہنچنا چاہتے تھے۔ ادھر کابل میں عبید اﷲ سندھی سے کئی طلباء بھی جا ملے جو ترک خلیفہ کے برطانیہ مخالف جہاد میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ مگر عبید اﷲ سندھی کا خیال تھا کہ ہندوستان کے حق میں یہ بہتر ہوگا کہ اس تحریک کو ہند پر ہی مرکوز کیا جائے۔ برلن ۔ انڈیا کمیٹی جو 1915ء کے بعد انڈین انڈپینڈنس کمیٹی کے نام سے مشہور ہوئی ایک طرز پر ایک انڈو۔ جرمن ترک مشن بھی وجود میں آیا جو ہند۔ ایران سرحد پر بسے قبائلیوں کو برٹش مفادات کے خلاف کھڑا کرنے کے پلان پر کام کرنے لگا۔ اس گروپ سے دیوبند کے علماء کی ملاقات دسمبر 1915ء میں کابل میں ہوئی۔ ان علماء کی یہ تمام کاوشیں رنگ لارہی تھیں۔ ترک، جرمن حتی کہ مصر کے عباس حلمی بھی اس مشن کا ساتھ دینے کیلئے تیار تھے۔ ان تمام کی کوشش یہی تھی کہ امیر افغانستان کو برٹش انڈیا کے خلاف جنگ کیلے کھڑا کیا جائے۔ یہ افغان حکومت سے اپنے فری پاس کے حقوق حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ اپنی کوششوں میں کافی حد تک کامیاب ہورہے تھے مگر اس سے قبل کہ شیخ الہند سرحدی علاقہ پہنچتے ان کا ایک خط ایک ہندوستانی غدار نے برطانوی حکام کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایک برٹش گورنر کو سونپ دیا۔ پھر کیا تھا، حضرت مولانا محمود حسن( شیخ الہند) کو مکہ میں گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے ساتھ مولانا مدنی کو بھی گرفتار کرلیا گیا اور انہیں مالٹا کی جیل میں بند کردیا گیا۔ اس جیل سے رہا ہوتے ہوتے (1920) انہیں ٹی بی نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ یہ تحریک بھلے ہی عملی شکل نہ لے سکی مگر شیخ الہندؒ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہے۔ انہوں نے نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم تیار کرلی جن کے دلوں میں وطن عزیز پرمرمٹنے کا، وطن کی آزادی کیلئے جام شہادت نوش کرلینے کا بیحد مضبوط جذبہ پیدا ہوچکا تھا جو بعد کی برٹش مخالف تحریکوں میں کھل کر سامنے بھی آیا۔

Reshmi Rumal Movement

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں