انکساری - رفعت اور بلندی کا سبب‎ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-17

انکساری - رفعت اور بلندی کا سبب‎

knowledge-humbleness

انکسار کا معاملہ عجیب ہے۔ انسان انکسار کے گیت گاتا ہے مگر تکبر کو پسند کرتا ہے۔ انسان کچھ بھی نہیں ہوتا مگر وہ تاثر دیتا ہے کہ وہ سب کچھ یا کم از کم بہت کچھ ضرور ہے۔ انسان مانتا نہیں ورنہ ہر انسان میں ایک چھوٹا موٹا فرعون چھپا ہوتا ہے۔ جو کبھی "میں" کا پرچم بلند کرتا ہے اور کبھی کسی اور کی "میں" کو للکار کر اعلان کرتا ہے کہ وہ کتنا بڑا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ انکسار کا مطلب کیا ہے؟
سلیم احمد نے کہیں لکھا ہے کہ انکسار کا مطلب یہ نہیں کہ کسی پر وحی آئے تو وہ ابوجہل کی دلجوئی کیلئے وحی کا انکار کر دے۔ جس پر وحی آئے اسے وحی کا اعلان کرنا چاہیے۔
سلیم احمد کے بقول انسان کچھ لوگوں سے بڑا اور کچھ لوگوں سے چھوٹا ہوتا ہے، چنانچہ انسان کو لوگوں سے ان کے مراتب کے مطابق سلوک کرنا چاہیے، یہی انکسار ہے۔

سلیم احمد کے اس بیان کی روشنی میں انکسار کا مطلب ہے: اپنی حیثیت کو پہچاننا۔
بلاشبہ انکسار کا ایک مفہوم اپنی حقیقت سے آگاہ ہونا بھی ہے، لیکن انکسار پر مزید گہرائی میں غور کیا جائے تو انکسار کا مطلب خاص ہو کر عام بن جاتا ہے۔
اس کی سب سے بڑی مثال رسول اکرم ﷺ ہیں۔ آپ ﷺ سردار الانبیاء تھے۔ خاتم النبیین ﷺ تھے مگر آپ ﷺ کے انکسار کا عالم یہ تھا کہ آپ ﷺ صحابہ کرام میں اس طرح گھل مل کر بیٹھ جاتے تھے کہ اجنبی لوگ پہچان نہیں پاتے تھے کہ محمد ﷺ کون ہیں؟
چنانچہ رسالت کے ابتدائی زمانے میں صحابہ کرام نے یہ طریقہ اختیار کر لیا تھا کہ جب کوئی شخص یا وفد باہر سے آتا تو صحابہ رسول اکرم ﷺ سے الگ ہو کر بیٹھ جاتے تاکہ آنے والے کی توجہ آتے ہی صرف آپ ﷺ پر مرکوز ہو اور آنے والے کی غلط فہمی سے صحابہ کرام کو شرمندگی نہ ہو۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ کی محفل میں بسا اوقات یہ ہوتا تھا کہ باہر سے آنے والا کسی صحابی کو محمد ﷺ سمجھ لیتا۔ رسول اکرم ﷺ تمام صحابہ کے محبوب تھے مگر آپ ﷺ صحابہ کے ساتھ کہیں جانے کیلئے نکلتے تو ازراه انکسار و تواضع آپ ﷺ صحابہ سے آگے چلنے کی کوشش نہ کرتے۔

سیرت طیبہ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ رسول الله صلي الله علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ جنگل میں قیام کیا اور صحابہ کرام نے جنگل میں قیام کے حوالے سے مختلف کام اپنے ذمہ لے لئے تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
"میں کھانا بنانے کیلئے لکڑیاں چن کر لاؤں گا"

نبی اکرم ﷺ گھر میں ہوتے تو اپنے جوتے خود گانٹھ لیتے اور پھٹا ہوا کپڑا خود سی لیتے تھے۔ امہات المومنین کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان ہوتے تو معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ کوئی اولوالعزم نبی ہمارے درمیان موجود ہے۔
آپ ﷺ امہات المومنین کی دلجوئی کرتے اور انہیں خوش کرنے کیلئے آٹا تک گوندھ کر دے دیتے تھے۔ آپ ﷺ کی عمر اور حضرت عائشہ کی عمر میں بڑا فرق تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے حضرت عائشہ کو ہم پلہ بناتے ہوئے ان کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کیا۔

کفار اور مشرکین کے ساتھ معاہدہ ہوا تو آپ ﷺ نے اپنے اسم مبارک کے ساتھ رسول الله (ﷺ) بھی لکھا۔ کفار نے کہا کہ ہم آپ کو رسول مانتے تو پھر جھگڑا ہی کیا تھا؟ اس لئے آپ کو اپنے نام کے ساتھ لگا ہوا "رسول الله" کا ٹکڑا منانا ہوگا۔ آپ ﷺ نے حضرت علی سے فرمایا: "میرے نام کے ساتھ لکھے ہوئے رسول اللہ کو مٹا دو"۔
مگر حضرت علی نے ازراہ ادب ایسا نہ کیا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے الفاظ کو مٹا دیا۔ رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ سے صحابہ کرام نے بھی گہرا اثر قبول کیا اور صحابہ کرام انکسار کا نایاب نمونہ بن کر ابھرے۔

حضرت ابوبکر صدیق کپڑا فروخت کرتے تھے چنانچہ خلیفہ بننے کے اگلے روز وہ حسب سابق گھر سے کپڑا فروخت کرنے کیلئے نکلے تو صحاب نے پوچھا: آپ کہاں جا رہے ہیں؟
آپ نے جواب دیا: اپنے کام سے۔
صحابہ نے کہا: اب آپ خلیفۃ المسلمین ہیں۔ آپ کپڑا فروخت کرنے جائیں گے تو رعایا کے معاملات کی دیکھ بھال کون کرے گا؟
کہنے لگے کہ: اس صورت میں میرا گھر کیسے چلے گا؟
صحابہ کرام نے کہا کہ آپ کے گھر کے اخراجات کیلئے بیت المال سے وسائل مہیا کر دیئے جائیں گے۔

اس واقعہ کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ حضرت ابوبکر کے نفس پر خلیفہ بننے کا اتنا بھی اثر نہ تھا کہ آپ ایک دن انتظار کر لیتے کہ اب خلیفہ کے معاملات کیسے چلیں گے؟ اس کے معانی یہ ہیں کہ خلیفہ بن کر بھی ابوبکر ہی رہے۔ خلافت نے آپ کے اندر رتی برابر بھی خود پسندی پیدا نہ کی۔

حضرت عمر کے زمانے میں مسلمان مالدار ہوتے تھے اور شادیوں میں زیادہ مہر کا رواج عام ہو رہا تھا۔ اس صورتحال سے عام مسلمان متاثر ہورہے تھے چنانچہ حضرت عمر نے مہر کی حد مقرر کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مجلس میں اس کا اظہار کیا۔ حضرت عمر کی بات سن کر ایک عام عورت اٹھی اور کہا کہ جب اللہ تعالی نے قرآن میں مسلمانوں کو اپنی حیثیت کے مطابق مہر مقرر کرنے کی اجازت دی ہے تو آپ اس سلسلے میں حد مقرر کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ حضرت عمر نے یہ بات سنی تو کہا:
"ایک عام آدمی بھی عمر سے زیادہ جانتا ہے"
یہ کہا اور مہر کی حد مقرر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ حضرت عمر کو بیت المقدس کے پادری نے دورے کی دعوت دی تو آپ ایک غلام کے ساتھ محو سفر ہوئے۔ آپ بیت المقدس کے قریب پہنچے تو حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے آپ کا استقبال کیا اور آپ کو ایک قیمتی جوڑا اور گھوڑا پیش کیا۔ آپ نے لباس پہن لیا اور چند لمحوں کیلئے گھوڑے کی سواری کر لی پھر فرمایا کہ مجھے اس لباس سے تکبر کی بو آتی ہے اور گھوڑا بہت شوخیاں کر رہا ہے چنانچہ سیدنا عمر نے نئے لباس اور گھوڑے دونوں کو ترک کیا۔
آپ بیت المقدس میں داخل ہو رہے تھے تو آپ کے جسم پر ایسا لباس تھا جس میں 14 پیوند لگے ہوئے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب آپ بیت المقدس میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت اونٹ پر بیٹھنے کی باری غلام کی تھی۔ غلام نے بہت کہا کہ اب آپ اونٹ پر بیٹھ جائیں مگر حضرت عمر نے کہا کہ تمہاری باری ہے تو تم ہی بیٹھو۔ پادری نے یہ منظر دیکھا تو پوچھا: ان دونوں میں عمر کون ہیں؟
اسے بتایا گیا کہ اونٹ پر بیٹھا ہو شخص غلام ہے اور اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلنے والے خلیفۃ المسلمین حضرت عمر ہیں۔ پادری نے یہ سنا تو گم صم ہو کر رہ گیا۔

سوال یہ ہے کہ انکسار کی بنیاد کیا ہے؟ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم بالکل واضح ہے۔
انکسار کی سب سے بڑی بنیاد تعلق باللہ ہے۔
یہ تعلق انسان کو بتاتا ہے کہ ہر نیک عمل، ہر اچھائی اور ہر خوبصورتی کی توفیق اللہ تعالی کی طرف سے ملتی ہے۔
انسان صاحب علم ہے تو الله تعالی کی عطا سے ہے۔ انسان صاحب اقتدار ہے تو اللہ تعالی کی عنایت سے ہے۔ انسان دولت مند ہے تو اللہ تعالی کا انعام ہے۔ انسان خوبصورت ہے تو اس میں اس کا اپنا کوئی کمال نہیں۔ بلاشبہ انسان کمال کے حصول کیلئے محنت کرتا ہے مگر محنت کی توفیق بھی اللہ تعالی کی طرف سے ملتی ہے۔ انسان جب حقیقی معنوں میں ان حقائق کا قائل ہو جاتا ہے تو پھر اس سے حقیقی انکسار پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہ انکسار کا ایک پہلو ہے۔

انکسار کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان نقائص کا مجموعہ ہے اور اس کا ہرقص اس کی شخصیت سے منسوب ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو انسان کی حیثیت یہ ہے کہ اس کا کوئی کمال اس کا اپنا نہیں اور اس کا ہر نقص اس کا اپنا ہے۔ اس صورت میں انسان منکسر نہ ہو تو کیا ہو؟
انسان اگر انکسار سے محروم ہوتا ہے اور تکبر میں مبتلا ہوتا ہے تو اس لئے کہ وہ اپنے کمال کو اپنی ذات سے منسوب کرتا ہے اور اپنے نقص کو کبھی تقدیر کے کھاتے میں ڈالتا ہے، کبھی دوسروں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور کبھی اس سلسلے میں ماحول پر الزام لگاتا ہے۔

انکسار کی دوسری حقیقی بنیاد محبت ہے۔
انسان جس انسان با جس چیز سے محبت کرتا ہے، خود کو اس سے چھوٹا محسوس کرتا ہے۔ انسان کو اپنے ماں باپ سے محبت ہوتی ہے اور محبت اس سے کہلواتی ہے کہ میرے اندر جو خوبی ہے میرے ماں باپ کی وجہ سے ہے۔ انسان اساتذہ سے محبت کرتا ہے اور اپنے تمام علم اور اہلیت کو اساتذہ سے منسوب کرتا ہے۔ انسان کو اپنی تہذیب اپنی تاریخ اور اپنے معاشرے سے محبت ہوتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ اس کی ہر کامیابی کا سبب اس کی تہذیب، اس کی تاریخ اور اس کا معاشرہ ہے۔ یہاں تک کہ انسان محبت کی وجہ سے اپنے بچوں سے بھی چھوٹا بن جاتا ہے۔ محبت نہ ہو تو انسان خود کو انسان کیا، تاریخ و تہذیب یہاں تک کہ مذہب سے بھی بڑی چیز سمجھنے لگتا ہے۔
علامہ اقبال نے کہا ہے :
اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی
نہ ہو تو مرد مسلماں بھی کافر و زندیق

انسان کے دل میں محبت ہو تو وہ اندھیرے سے بھی روشنی کشید کر لیتا ہے اور حقیر سے حقیر انسان کا بھی احترام کرنا سیکھ جاتا ہے۔ بقول شاعر:
آواره گرد شہر کو پتھر نہ مارنا
آداب آشنا نہ سہی آدمی تو ہے

انکسار کی تیسری بنیاد علم ہے۔
صحیح علم جہاں انسان کو یہ بتاتا ہے کہ وہ کیا ہے وہی انسان کو یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ کیا نہیں۔ انسانی تاریخ میں انسان نے جس تکبر کا مظاہرہ کیا ہے اس میں اس کی معبودِ برحق سے لاتعلقی اور محبت سے محرومی کیساتھ ساتھ لاعلمی کا بھی بنیادی کردار ہے۔ مثلاً فرعون کا علم اس کو یہ تو بتا رہا تھا کہ وہ کیا ہے مگر یہ نہیں بتا رہا تھا کہ وہ کیا نہیں؟
اس عدم توازن نے فرعون کی فرعونیت کو پیدا نہیں کیا ہوگا مگر اسے تقویت ضرور فراہم کی۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی معنوں میں جتنے لوگ صاحب علم ہوئے وہ سب کے سب منکسر المزاج قرار پائے ہیں۔

غور کیا جائے تو تکبر، غلامی اور انکسار ایک آزادی ہے۔ جو انسان خود کو کچھ نہیں سمجھتا وہی سب کچھ بن سکتا ہے۔ جو شخص کچھ بن کر اس کے تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ اپنی ذہنی و نفسیاتی، جذباتی اور روحانی نشو و نما کے امکانات کو محدود سے محدودتر کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی شخصیت میں نمو کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔

بشکریہ:
روزنامہ اردو نیوز (جدہ) ، 'روشنی' مذہبی سپلیمنٹ، 17/جنوری 2014۔
***
نوٹ:
جدہ (سعودی عرب) سے شائع ہونے معروف و مقبول اردو روزنامہ "اردو نیوز" کے پرنٹ ایڈیشن کا آغاز 8/مئی 1994 کو ہوا تھا اور تقریباً چوتھائی صدی بعد 22/مارچ 2019 کو اس اردو اخبار نے اپنے طویل و اہم سفر کا اختتام کیا۔ البتہ اس اخبار کا ویب ایڈیشن یہاں جاری ہے۔
'اردو نیوز' ہر جمعہ کو چار صفحات کا خصوصی مذہبی سپلیمنٹ "روشنی" کے زیرعنوان شائع کیا کرتا تھا جس میں عصری سماجی، نفسیاتی اور علمی و دینی موضوعات پر مبنی دلچسپ و مفید مضامین، مستند مذہبی تعلیمات کے حوالے سے شامل کیے جاتے رہے۔ آج سے 6 سال قبل (2014)، آج ہی کی تاریخ 17/جنوری کو جمعہ کا دن واقع ہوا تھا، اور اسی دن کے "روشنی" سپلیمنٹ سے یہ مضمون پیش خدمت ہے۔

Humility, the attitude towards gloriousness.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں