حیدرآباد کے قریب معین آباد میں ڈٹینشن سنٹر کے قیام کی افواہیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-16

حیدرآباد کے قریب معین آباد میں ڈٹینشن سنٹر کے قیام کی افواہیں

detention-centers-moinabad

کیا حیدرآباد کے قریب معین آباد میں " ڈٹینشن سنٹر" تیار کر لیا گیا ہے ؟
سوشیل میڈیا پر باقاعدہ تصاویر کے ساتھ آڈیو وائرل ، مسلمانوں میں خوف کا ماحول!

عام اور بھولے بھالے مسلمانوں کیلئے اب سوشیل میڈیا انتہائی کرب اور احساس کمتری کا شکار بنانے کا واحد ذریعہ بن گیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہیکہ خود مسلمانوں کو خوفزدہ ، ذہنی طور پر ہراساں و پریشان کرنے ، ان کے حوصلوں کو پست کرنے والا زیادہ تر مواد خود مسلمان ہی ذاتی طور پر مختلف وہاٹس اپ گروپس میں پھیلانے میں مصروف ہیں۔

ایک حدیث پاک کا مفہوم ہیکہ "آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنی سی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان کرنا شروع کر دے "
اس کے باوجود جھوٹے ویڈیوز، مواد اور سنی سنائی افواہوں اور من گھڑت باتوں کو "السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" کیساتھ لفظوں کی شکل میں یا پھر لکھنے کی صلاحیت نہ رکھنے والے زیادہ تر غیر ذمہ دار لوگ آڈیو ریکارڈنگ اور فرضی تصاویر کیساتھ ایسے من گھڑت پیغامات سوشیل میڈیا بالخصوص واٹس اپ اور فیس بک پر پھیلانے میں مصروف ہیں، جس سے قوم انتہائی پریشانی ، خوف اور ان دیکھے اندیشوں کا شکار ہو رہی ہے۔
جب سے مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کی منظوری اور ملک بھر میں این آر سی اور این پی آر کے نفاذ کا اعلان ہوا ہے، جس کے خلاف سارا ملک سڑکوں پر احتجاج میں مصروف ہے ایسے میں چند ناعاقبت اندیش لوگ سوشیل میڈیا پر چند تصاویر اور ایک ویڈیو کے ذریعہ یہ پیغام پھیلانے میں مصروف ہیں کہ حکومت تلنگانہ کی جانب سے مرکزی حکومت کی ہدایت پر این آر سی اور این پی آر میں مطلوبہ تمام دستاویزات پیش نہ کرنے والوں کیلئے ایک "ڈٹینشن سنٹر" (حراستی مرکز ) کی تعمیر مکمل کر لی گئی ہے جس کا آغاز 2015ء میں کیا گیا تھا !
اس آڈیو میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہیکہ اس حراستی مرکز کے مسئلہ پر معین آباد کے مقامی مسلمانوں نے عہدیداروں کی پٹائی بھی کی ہے!
اس آڈیو کی گفتگو سے پتہ چلتا ہیکہ یہ کسی واٹس اپ گروپ میں پوسٹ کیا گیا تھا جہاں سے یہ گزشتہ چار دن سے ہر گروپ میں کئی کئی مرتبہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ اس آڈیو کے ساتھ وائرل کی جا رہیں تصاویر کو دیکھ کر مسلمانوں میں اس بات کو تقویت حاصل ہو رہی ہیکہ معین آباد میں ڈٹینشن سنٹر تیار ہو چکا ہے !
اسی سبب مسلمانوں بالخصوص خواتین میں بہت زیادہ خوف محسوس کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کے ذہنی کرب میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ راشٹریہ سہارا کے اس نمائندہ کو بھی کئی افراد نے یہ آڈیو اور تصاویر واٹس اپ پر بھیجی ہیں اور اس کی تصدیق کی خواہش کی جا رہی ہے۔ جس کے بعد اس نمائندہ نے گوگل میں ڈٹینشن سنٹر کے متعلق سرچ کیا تو ایسا کوئی مواد موجود نہیں مل سکا!
البتہ 6/جنوری کو اس سے متعلق انگریزی روزنامہ دکن کرانیکل کی ایک رپورٹ ضرور موجود ہے جس کی وضاحت آگے آئے گی۔ پہلے اس آڈیو کے مواد اور معین آباد میں ڈٹینشن سنٹر کی تعمیر کا انکشاف ضروری ہے۔
دراصل اس جھوٹے اور قوم کو خوفزدہ و ہراساں کرنے والے آڈیو کے ساتھ جو چار تصاویر وائرل کی گئی ہیں وہ تصاویرحیدرآباد سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود معین آباد کے "رادھا سومی ست سنگ بیس" نامی آشرم کی ہیں جو زائد از 20 سال قبل قائم کیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں مزید تصدیق کیلئے اس نمائندہ نے معین آباد کے ساکن محمد مقبول سابق ایم پی ٹی سی ، پرجا پریشد ، معین آباد ، ضلع رنگاریڈی جو کہ رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے بھی وابستہ ہیں، سے معین آباد میں کسی ڈٹینشن سنٹر ( حراستی مرکز) کی تعمیر کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے خود حیرت ظاہر کی کہ ایسی افواہیں پھیلا کر قوم کو کیوں پریشان کیا جا رہا ہے ؟
انہوں نے مکمل ذمہ داری کیساتھ اس بات کی تردید کی کہ معین آباد میں ایسا کوئی ڈٹینشن سنٹر تعمیر ہی نہیں کیا گیا ہے اور تعمیر کی غرض سے کوئی اراضی حکومت نے حاصل بھی نہیں کی ہے !
محمد مقبول نے بتایا کہ معین آباد انتہائی پرسکون و امن وامان کا مقام ہے جہاں اب تک شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف تین مرتبہ کل جماعتی احتجاج کیا جا چکا ہے۔ معین آباد میں موجود اس "رادھا سومی ست سنگ بیس" نامی آشرم کے متعلق محمد مقبول نے انکشاف کیا کہ اس آشرم میں ہر سال ماہ جنوری میں صرف ایک مرتبہ مذہبی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں پنجاب کے کوئی سکھ مذہبی پیشواء شریک ہوتے ہیں اور اس تقریب میں ملک کے کونے کونے سے مختلف مذاہب کے عقیدت مند بھی شریک ہوتے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ ہفتہ ہی اس "رادھا سومی ست سنگ بیس" میں مذہبی تقریب منعقد ہوئی تھی۔

6/جنوری کو انگریزی روزنامہ دکن کرانیکل کی ویب سائٹ پر شائع شدہ ڈٹینشن سنٹر سے متعلق بات کی جائے تو اس مضمون کی سرخی ہے :
"حکومت تلنگانہ نے ڈٹینشن سنٹر کا معاملہ التوا میں رکھا"
اس خبر میں سرکاری عہدیداروں کے حوالے سے لکھا گیا ہیکہ یہ معاملہ ریاستی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے ! ساتھ ہی اس خبر میں لکھا گیا ہیکہ دراصل 2018ء میں مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی حکومت کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے ہدایت دی تھی کہ شہر حیدرآباد کے اطراف و اکناف کسی مقام پر ایک ڈٹینشن سنٹر تعمیر کیا جائے اور ایسے ہی مکتوب ملک کی تمام ریاستوں کو مرکزی وزارت داخلہ نے روانہ کیے تھے جس کے بعد کرناٹک میں ڈٹینشن سنٹر کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے تاہم ریاست تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت نے اس معاملہ کو سرد خانہ میں ڈال دیا ہے۔ اخبار کی اس رپورٹ کے بموجب ڈٹینشن سنٹر کی تعمیر کا مقصد تلنگانہ اور حیدرآباد میں غیرقانونی طور پر مقیم افغانستان، صومالیہ ،سوڈان، یمن، عراق ، ایران ،نائجریہ اور بنگلہ دیش کے شہریوں کو اس حراستی مرکز میں رکھنا ہے یا پھر غیر قانونی ، غیر سماجی سرگرمیوں میں ملوث غیر ملکی باشندوں کو اس ڈٹینشن سنٹر میں رکھا جانا ہے!
ضرورت شدید ہیکہ حکومت تلنگانہ ، ریاستی وزیر اعلیٰ کے سی آر، کارگزار صدر ٹی آر ایس و وزیر آئی ٹی و بلدی نظم نسق کے ٹی آر اور وزیر داخلہ جناب محمد محمود علی سوشیل میڈیا پر زیر گشت اس آڈیو اور تصاویر کو پھیلانے والوں کی شناخت کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں اور اس ڈٹینشن سنٹر کے قیام سے متعلق مسلمانوں میں پھیلے خوف کو دور کرنے کیلئے سرکاری طور پر اس کی تردید کریں کیونکہ اس غلط پروپگنڈہ سے حکومت تلنگانہ کی شبیہ مسلمانوں میں متاثر ہو رہی ہے جس کا سیدھا اثر جاریہ ماہ ہونے والے بلدی انتخابات کے نتائج پر پڑ سکتا ہے۔
ساتھ ہی ضرورت شدید ہیکہ موجودہ ملکی حالات میں سخت کرب کا شکار مسلمانوں کو مزید خوفزدہ کرنے کی غرض سے سوشیل میڈیا پرپھیلائے جانے والی من گھڑت افو اہوں پر فوری یقین کرنے سے گریز کیا جائے اور بنا تصدیق ایسے کسی بھی موادکو نہ پھیلایا جائے جس سے قوم مزید خوفزدہ اور احساس کمتری کا شکار ہو جائے۔ ؎
ویسے بھی ماہر ین نفسیات نے انکشاف کیا ہیکہ جب سے شہریت ترمیمی قانون ، این آر سی اور این پی آر کا مسئلہ اٹھا ہے تب سے ڈپریشن اور مایوسی کے شکارافراد کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے !اور یہ سب سوشیل میڈیا پر انہی ناعاقبت اندیش افراد کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت انگیز زہر،جھوٹے اور بے بنیاد مواد کو پھیلانے کا اثر ہی کہا جا سکتا ہے !

***
بشکریہ: راشٹریہ سہارا، حیدرآباد ایڈیشن

False rumours of Detention center in Moinabad.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں