آزاد ہندوستان کے پہلے دستور کا اجرا - 26 جنوری 1950 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2020-01-26

آزاد ہندوستان کے پہلے دستور کا اجرا - 26 جنوری 1950


26/جنوری 1950 کو آزاد ہندوستان کا پہلا دستور بنایا گیا تھا (گو کہ آج کی تاریخ تک اس دستور میں تقریباً 100 سے زائد ترمیمات کی جا چکی ہیں)۔ اکتوبر 1951 میں پروفیسر بی۔بنرجی کی زیرادارت انٹرمیڈیٹ/گریجویشن کی ایک تعلیمی نصابی کتاب "جمہوریۂ ہند کے دستور پر تنقیدی اشارے [A Crtical study of Constitution of India]" میں دستور ہند پر چند تنقیدی اشارے بیان کیے گئے تھے، اسی کتاب کے کچھ ابواب، یومِ جمہوریہ ہند (26/جنوری) کی مناسبت سے یہاں پیش ہیں۔

26/جنوری 1950 کو آزاد ہندوستان کا پہلا کانسٹی ٹیوشن [Constitution] یعنی دستور اساسی عمل میں لایا گیا۔ یہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا دستور ہے جسے ہندوستان کے باشندوں نے خود بنایا ہے۔ اس سے پیشتر 1935ء کے دستور کو برطانوی پارلیمنٹ نے بنایا تھا۔
آزاد ہندوستان کا نیا دستور ساز اسمبلی [Constituent Assembly] نے تقریباً تین (3) سال کی محنت کے بعد بنایا۔ لیکن اس دستور ساز اسمبلی کے ممبر فقط 14 فیصدی ہندوستانیوں کے نمائندہ تھے یعنی آزاد ہندوستان کا نیا دستور فقط ہندوستانی آبادی کے 14 فیصدی باشندوں کی رائے کے مطابق بنایا گیا ہے۔
اس نئے دستور پر لوگوں کی مختلف آرا ہیں۔
آنجہانی شری سرت چندر بوس نے اس نئے دستور کو سیاسی دھوکہ (Political Fraud) کہا ہے۔ ان کے مطابق یہ دستور مکمل طور پر غیرجمہوری ہے اور صدر جمہوریہ کی لاتعداد و لامحدود طاقت کو تاناشاہی بتایا ہے۔
مشہور سوشلسٹ لیڈر شری جے پرکاش نرائن کے مطابق ہندوستان کا نیا دستور ایک مغالطہ ہے، ان کی رائے کے مطابق یہ دستور 1937ء سے کسی حالت میں کم تاناشاہی یا سامراجی نہیں ہے۔
مسٹر ایم۔این۔رائے اپنی کتاب [A glance at the Indian Constitution] میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا دستور فقط کانگریس پارٹی کے خیالات کے مطابق بنایا گیا ہے اور وہ شخص جو کہ آزاد خیالات رکھتا ہے اس کے حقوق بالکل کچل دئیے گئے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارا موجودہ دستور اساسی ملک کے صرف 14 فیصد باشندوں کے نمائندوں کے ذریعہ بنایا گیا ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ صدر جمہوریہ کی طاقت لامحدود ہے لیکن اگر ہم اس دستور کا غور سے مطالعہ کریں تو ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کی خامیوں کے برعکس خوبیاں زیادہ ہیں۔
موجودہ دستور فیڈرل یعنی "وفاقی" ہے، جو باتیں "وفاقی ریاست" کے لیے ضروری ہیں وہ اس میں پائی جاتی ہیں مثلاً تحریری دستور [Written Constitution] ، مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان طاقت کی تقسیم اور "عدالت عالیہ" اس دستور میں موجود ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کناڈا، فرانس، جرمنی وغیرہ جمہوری ممالک کے دستور کی جھلک ہمارے دستور میں پائی جاتی ہے۔ لیکن 80 فیصد [Gandhian Model] (گاندھیائی ماڈل) پر قائم ہے۔ سب سے خاص بات اس دستور میں یہ ہے کہ تحریری دستور ہونے کے باوجود ہمارا نیا دستور لچکدار یعنی [Flexible] ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس دستور کے مطابق ہندوستان ایک غیر مذہبی جمہوریہ [Secular Democratic State] بن گیا ہے۔
انصاف، مساوات و آزادی ہمارے ملک کے نئے دستور کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ مذہبی، سماجی، سیاسی آزادی خاص طور پر اس دستور کے عطیہ ہیں۔
وفاقی ہونے کے باوجود ہمارے ملک کا دستور پارلیمانی ہے۔

نئے دستور کے مطابق آزاد جمہوریہ ہندوستان کا حاکم اعلیٰ صدر کہلاتا ہے۔ اس صدر کا انتخاب ہندوستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے ارکان اور ریاستوں کی لیجسلیٹیو اسمبلی کے ممبران کے ذریعہ بالواسطہ طریقہ سے ہوگا۔ ایک انتخابی کالج جس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ممبر اور ریاستی مجالس قانون ساز کے ممبر صدر کو منتخب کریں گے۔
وہی شخص صدر کے انتخاب کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے جو ہند یونین کا شہری ہو اور 35 سال سے کم عمر کا نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہی تمام شرائط پوری کرتا ہو جو ایوان عام کی رکنیت کے لیے ضروری رکھی گئی ہیں۔ صدر پانچ سال تک کام کرے گا لیکن اسے مستعفی ہونے کا حق حاصل ہے، اور اگر وہ دستور کے خلاف کوئی کام کرے گا تو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان اسے استعفیٰ دینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔

صدر کے اختیارات:
نئے دستور کے مطابق صدر جمہوریہ کو مندرجہ ذیل اختیارات دئیے گئے ہیں:
(1) صدر، یونین کی مجلس انتظامیہ کا حاکم اعلیٰ ہے، اس کے علاوہ بحری، بری اور ہوائی فوج کا بھی حاکم اعلیٰ ہے۔
(2) ہند یونین کی بڑی بڑی ملازمتیں مثلاً ریاستوں کے ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر، سپریم کورٹ کے ججوں کا تقرر یعنی آڈیٹر جنرل آف انڈیا [Auditor General of India] ، اٹارنی جنرل آف انڈیا [Attorney General of India] اور مرکزی پبلک سروس کمیشن کے چیرمین [UPSC Chairman] و ممبران کا تقرر صدر کرے گا۔
(3) وزیراعظم کا تقرر اسی کے ہاتھ میں ہے اور جب وہ چاہے وزیراعظم کو برخاست کر سکتا ہے۔ دیگر وزرا کی تقرری کے لیے بھی اس کی اجازت ضروری ہے۔
(4) صدر کو قانون سازی کے کافی اختیارات دئیے گئے ہیں، بغیر اس کی مرضی کے، کوئی بھی قانون نہیں بن سکتا ہے خواہ وہ بل ریاستی ہو یا مرکزی۔
(5) صدر کو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر خاص قوانین یعنی [Constitution] بنانے کا حق حاصل ہے۔
(6) اگر صدر چاہے تو کسی بل کو قانون بنا سکتا ہے۔
(7) صدر کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ کسی مالی بل کو قانون نہیں بنا سکتی۔
(8) اگر صدر چاہے تو اپنے حکم کے بموجب ملک کے عام انتخابات [General Elections] کو ملتوی کر سکتا ہے۔

مذکورہ بالا اختیارات کے علاوہ صدر جمہوریہ کو خاص اختیارات حاصل ہیں جو ہنگامی یا ناگہانی حالت میں وہ استعمال کر سکتا ہے۔
نمبر (1): اگر ملک میں ہنگامہ برپا ہونے کا اندیشہ ہے یا بیرونی حملہ کا خطرہ ہے یا کوئی اندرونی بغاوت کا اندیشہ ہے تو صدر کو اختیار ہے کہ پارلیمنٹ کی مرضی کے بغیر خاص قوانین جاری کر سکتا ہے لیکن تین ماہ کے عرصہ کے بعد اس کو لازم ہے کہ پارلیمنٹ کے روبرو ان قوانین کو پیش کرے۔
نمبر (2): اگر صدر کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ دستور کی مشین چلنے کے قابل نہیں ہے یا مرکزی حکومت یا کوئی ریاستی حکومت اس قابل نہیں ہے کہ ٹھیک طرح چل سکے تو وہ خاص اختیارات کے بموجب دستور میں تبدیلی کر سکتا ہے اور انہیں رد بھی کر سکتا ہے، اور مرکزی حکومت انتظامیہ یا کسی ریاستی حکومت انتظامیہ کے کل اختیارات اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔
نمبر (3): اس میں شک نہیں کہ نئے دستور کے مطابق ہندوستان کے صدر جمہوریہ کو نہایت وسیع، لاتعداد اور بےانتہا اختیارات دئیے گئے ہیں جو کہ جمہوریت کے بنیادی اصول کے خلاف ہیں۔ واقعی صدر کو وہی اختیارات حاصل ہیں جو کہ جرمنی میں ہٹلر کو اور اٹلی میں مسولینی کو حاصل تھے۔ پروفیسر کے۔ٹی۔شاہ [K. T. Shah] نے اپنی ایک تقریر میں سچ کہا کہ:
"میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آزاد جمہوریہ ہند کے صدر اور برٹش گورنر جنرل کے اختیارات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمارے صدر کو بھی وہی اختیارات حاصل ہیں جو کہ 1919ء اور 1935ء کے دستور کے مطابق برطانوی گورنر جنرل کو حاصل تھے۔ اور ان اختیارات پر ہمارے کانگریسی لیڈر بری طرح نکتہ چینی کیا کرتے تھے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آزاد ہندوستان کا قومی صدر اپنی مرضی کے مطابق عوام کے ذریعہ منتخب شدہ مجلس قانون ساز کو توڑ سکتا ہے، ایسا اختیار نہ تو امریکہ کے صدر کو حاصل ہے اور نہ ہی فرانس کے صدر کو۔"

اگرچہ دستور میں یہ بات صاف طور پر نہیں لکھی گئی ہے تو بھی عموماً صدر اپنے ان اختیارات کو استعمال نہیں کرے گا۔ ایک سال کے عرصہ میں (1950 سے 1951 تک) ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے موجودہ صدر نے اپنے اختیارات کا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ لیکن پھر بھی ایک جمہوری حکومت کے صدر کو اس قدر وسیع اور لامحدود اختیارات کا دینا مناسب نہیں ہے۔ علاوہ ازیں صدر کا انتخاب بذریعہ عوام ہونا چاہیے جیسا کہ امریکہ میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:
چھبیس (26) جنوری - ہندوستان کا یوم جمہوریہ
یوم جمہوریہ - قانون کے نفاذ کی خوشی اور عدم نفاذ کے غم کا ملا جلا اثر
یومِ جمہوریہ ہند - آج یہ آزادی مسلمانوں کی رہین منت ہے

ماخوذ:
جمہوریہ ہند کے دستور پر تنقیدی اشارے۔
تصنیف: پروفیسر بی۔ بنرجی (ایم۔اے، لندن) ، سن اشاعت: 1951 (آئیڈیل پبلشنگ بیورو، لکھنؤ)۔

Critical study of Constitution of India by: Prof. B. Banerjea

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں