ڈاکٹر ذاکر حسین (پ: 8/فروری 1897 ، م: 3/مئی 1969)
ہندوستان کے ان منفرد دانشوروں اور ماہرین تعلیم میں سرفہرست ہیں جنہوں نے بےمثال ذہنی دیانتداری، بےباکی اور بےلوث وطن دوستی کا یادگار نقش چھوڑا ہے۔ دہلی میں قائم کیا گیا ان کا تعلیمی ادارہ "جامعہ ملیہ" ان کی عظمتِ فکر کا جیتا جاگتا مظہر ہے۔ زندگی بھر ان کی یہی کوشش رہی کہ وہ تعلیم کے ذریعہ قومی زندگی میں داخل ہو جانے والی کثافتوں اور خباثتوں کو دور کریں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی فکر و عمل اور ان کی بےلوث خدمت گذاری کا اعتراف مہاتما گاندھی، مولانا ابوالکلام آزاد اور پنڈت جواہر لال نہرو جیسے جلیل القدر قائدین نے بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین پہلے نائب صدر جمہوریہ اور بعد میں صدر جمہوریہ ہند کے عہدہ پر فائز رہے اور اسی عہدہ پر رہتے ہوئے ان کا انتقال ہوا۔
حیدرآباد کی ڈاکٹر ذاکر حسین میموریل کمیٹی نے 1972 میں ڈاکٹر صاحب کی حیات و خدمات پر ایک یادگار کتاب کی اشاعت عمل میں لائی تھی جو حیدرآباد ہی کے ایک ممتاز صحافی اور ادیب جناب احسن علی مرزا کی ایک قابل تحسین ادبی کاوش ہے۔
یہ یادگار اور دلچسپ سوانح حیات تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 10 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس کتاب کے تعارف میں فکر حیدرآبادی اور علی احمد حذقی لکھتے ہیں ۔۔۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں بعض شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں بجا طور پر تاریخ ساز کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کا شمار بھی انہیں تاریخ ساز ہستیوں اور عظیم شخصیتوں میں ہوتا ہے، جن کی عظمت کا اعتراف نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا نے کیا ہے۔ انہوں نے اپنے پیچھے افکار و کردار کے ایسے روشن نقوش چھوڑے ہیں جو عرصہ دراز تک آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے رہیں گے۔
ذاکر صاحب نے تعلیمی میدان میں کچھ ایسے انوکھے تجربے کیے جن کی وجہ سے تعلیمی اور سماجی اقدار و نظریات کی شرح و تعبیر میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ ان انقلابات نے قدرتی طور پر ان کے بہت سے مخالف پیدا کر دئیے، جیسا کہ تاریخ کے ہر دور میں ہوتا آیا ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے نظریات نے لاکھوں دلوں کو فتح کر لیا۔ حتیٰ کہ ان کے بدترین ناقدوں نے بھی ان کا لوہا مان لیا۔
ذاکر صاحب کی ہستی خدمتِ قوم و وطن کے لیے وقف تھی۔ ان کا غم قوم کا غم ، ان کی فکر قوم کی فکر تھی۔ انہوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کو عالم انسانیت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ان کو کبھی بھی شہرت، دولت اور مرتبہ کی فکر نہیں رہی۔ ان کو تو بس اپنا پیغامِ علم و دانش زیادہ سے زیادہ انسانوں تک پہنچانے کی فکر دامن گیر رہی اور بلاشبہ وہ اپنے اس مشن میں کامیاب رہے۔ اگرچہ کہ ذاکر صاحب نے اپنی سرگرمیوں کو زیادہ تر تعلیمی خدمات اور سماجی اصلاحات تک محدود رکھا تھا اور عملاً سیاست سے اپنا دامن بچائے رہے لیکن اس کے باوجود ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے لے کر حصولِ آزادی کے بعد کے زمانے میں بھی ان کا جذبۂ خدمت خلق اور پیغام خلوص و محبت، سیاست کے ہولناک طوفانوں میں بھی ایک سنگلاخ چٹان کی طرح اٹل رہا:
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے
ایک معلم سے لے کر صدر جمہوریہ ہند تک، ڈاکٹر ذاکر حسین کی زندگی خدمتِ خلق کے عظیم جذبات اور بےمثال واقعات سے بھرپور ہے۔ نکبت و افلاس اور معاشی بحران کے بدترین ایام میں بھی ان کے قدم کبھی ڈگمگانے نہیں پائے بلکہ وہ استقلال سے اپنی منزل کی طرف آگے ہی بڑھتے رہے اور اس وقت تک دم نہیں لیا جب تک کہ خود منزل نے آگے بڑھ کر ان کے قدم چوم نہیں لیے۔
ذاکر صاحب کی ناقابل فراموش جدوجہد، قربانیوں اور علمی خدمات سے بھرپور کتاب "ڈاکٹر ذاکر حسین" آپ کی خدمت میں ذاکر حسین میموریل کمیٹی (حیدرآباد) کی جانب سے پیش کی جا رہی ہے جسے حیدرآباد کے کہنہ مشق ادیب و صحافی احسن علی مرزا نے اپنے مخصوص اندازِ تحریر اور شگفتہ اسلوب سے سنوارا ہے۔ امید ہے کہ باذوق قارئین اس ادبی کاوش کو ضرور پسند کریں گے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین (سابق صدر جمہوریہ ہند) کے چند اقوال زریں:(1)
ہندوستان میں ایک ملا جلا سماج قائم ہے لہذا ایک آزاد ملک کی حیثیت سے قائم رہنے کے لیے بنیادی شرائط یہ ہیں: اس سماج کے عوام کا مشترکہ قومی اور ثقافتی پس منظر ہو، جس کی جڑیں تاریخ میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہوں اور اس کے علاوہ مختلف لسانی گروہوں میں رواداری اور پرخلوص جذبہ کارفرما ہو۔
(2)
چھوت چھات کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہمارے آئین کی رو سے بلاشبہ چھوت چھات کو غیرقانونی قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ آثار ابھی تک ہمارے ذہنوں اور روزمرہ کی زندگیوں سے دور نہیں ہوئے ہیں۔
(3)
ہمارے کام کا ایک اقتصادی پہلو ہے۔ ہمیں اپنی ضرورتیں خود کم کرنی ہیں تاکہ ہماری حکومت ضرورت کے مطابق صنعتی وسائل کا استعمال کر سکے۔ ہمیں قیمتوں کی سطح برقرار رکھنے اور منافع خوروں کو ان کے مکروہ کاروبار سے باز رکھنے میں مدد کرنی ہے۔
(4)
قومی زندگی کا محل کبھی مکمل نہیں ہوتا، یہ ہمیشہ زیرتعمیر رہتا، بڑھتا اور پھیلتا رہتا ہے۔ اس کے وسیع تعمیراتی خاکوں کے اندر تفصیلات کو مستقل طور پر واضح کرتے رہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے بےشمار عناصر کا بنیادی توازن قائم رکھنا پڑتا ہے کیونکہ ان میں ہر عنصر تمام عناصر پر اثرانداز ہوتا ہے اور ان سے اثر قبول بھی کرتا ہے۔
(5)
اگر غلط باتوں کے ازالہ کے لیے خواہ وہ فرضی ہوں یا حقیقی، تشدد کا استعمال بڑھتا رہا تو خود ملک کے اندر ہماری جمہوریت کی قدروں کے منتشر ہونے کا خطرہ پیدا ہوگا۔
***
نام کتاب: ڈاکٹر ذاکر حسین (شخصیت اور خدمات)
تصنیف: احسن علی مرزا
تعداد صفحات: 200
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 10 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Dr Zakir Hussain.pdf
ڈاکٹر ذاکر حسین :: فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
الف | پیش لفظ (محمد ابراہیم علی انصاری) | 5 |
ب | دیباچہ (سید رحمت علی) | 7 |
ج | عرض حال (سبودھ کمار سین) | 9 |
د | حرفِ آخر (فکر حیدرآبادی ، علی احمد حذقی) | 11 |
1 | مسلمان اور جنگِ آزادی | 17 |
2 | شرافت نفس کی پہلی فتح | 20 |
3 | جامعہ ملیہ سے پہلے | 28 |
4 | طفولیت | 36 |
5 | ہندوستان کو مسلم صوفیا کی دین | 40 |
6 | اینگلو اورینٹل کالج علیگڈھ | 46 |
7 | جامعہ ملیہ کی تاسیس | 52 |
8 | بیرونی سفر | 55 |
9 | پھر وہی جامعہ | 64 |
10 | ذاکر صاحب - ایک ادیب، مصنف اور مقرر | 86 |
11 | عجب آزاد مرد تھا | 92 |
12 | بٹوارہ کے پرآشوب دن | 112 |
13 | علیگڈھ میں | 124 |
14 | ذاکر صاحب - پارلیمنٹرین سے گورنر تک | 136 |
15 | یونیسکو میں ہندوستانی وفد کی قیادت | 138 |
16 | نائب صدر جمہوریہ ہند | 141 |
17 | نائب صدارت کا دور | 156 |
18 | صدارتی انتخاب | 162 |
19 | صدر جمہوریہ ہند | 168 |
20 | ایک شائستہ صاحبِ نظر | 181 |
21 | ذاکر صاحب کا مذہبی نقطۂ نظر | 190 |
22 | مرگِ بدن | 197 |
Dr. Zakir Hussain, His Life History & Services, by Zakir Hussain Memorial Committee (Hyderabad).
پیش لفظ۔ابراہیم علی انصاری
جواب دیںحذف کریں