یوم جمہوریہ - قانون کے نفاذ کی خوشی اور عدم نفاذ کے غم کا ملا جلا اثر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-26

یوم جمہوریہ - قانون کے نفاذ کی خوشی اور عدم نفاذ کے غم کا ملا جلا اثر

republic-day-26-jan
یوم جمہوریہ؛ جو کہ امسال (2015ء میں) پیر کے روز ہے، ملک بھر میں اس کی تیاریاں نہایت اہتمام سے کی جا رہی ہیں، ایسے موقعوں پر عوام میں بھی خاصا جوش و خروش دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن ہماری طبیعت ہے کہ اس وقت بھی غم گین ہے اور ہمارے قلب و جگر پر ایک افسردگی چھائی ہوئی ہے، ہم سمجھ ہی نہیں پا رہے ہیں کہ اس موقع پر جمہوری قانون کے نفاذ کی خوشیاں منائیں یا پھر اس قانون کی ہمارے ملک میں جو دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، اس پر ماتم کریں! آئین کی اہمیت سے انکار نہیں، وہ تو تمام ملکی قانون کا منبع ہے، ہمارے کرب کی وجہ تو یہ ہے کہ جس آئین کی رو سے مذہب و ملت، ذات پات، علاقہ اور رنگ و نسل کی بنیاد پر کوئی تفریق کیے بغیر ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو یکساںحقوق فراہم کیے جاتے ہیں، آج ہم ان اس آئین کی پرواہ کیوں نہیں کرتے؟ کیوں ہم اس آئین کے یوم نفاذ کی رسمی سی خوشیاں منانے کی تگ و دو میں تو لگے رہتے ہیں، لیکن ہر دم اس آئین کی اہانت یا استہزا اور تمسخر بنائے جانے کی فکر نہیں کرتے؟
26؍جنوری کا دن ہمیں ہندوستانی آئین کے نفاذ کی "کوشش کی"یاد دلاتا ہے۔ آزادی کے تقریباً ڈھائی برس بعد26؍ جنوری 1950ء کو وطن عزیز ہندوستان میں ہندوستانی آئین کے نفاذ کا اعلان کیا گیا تھا، آج اس واقعے کو تقریباًپینسٹھ برس بیت گئے، اس کے باوجود پورے اہتمام سے اپنا قومی یوم جمہوریہ منانے والے اس جانب کوئی پیس رفت کیوں نہیں کرتے کہ یہ آئین اصحاب اقتدار کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر نہ رہ جائے؟ بس انھیں سب وجہوں سےہمارے لیے یوم جمہوریہ خوشی اور غمی کا امتزاج ہے اور ہمارے دل میں آئین کے نفاذ کی خوشی اور دماغ میں آئین کے عدم نفاذ کی فکرہے؟ اور ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ آخر یوم جمہوریہ منائیں تو منائیں کیسے؟
"یوم جمہوریہ ہندــ" ایک قومی تعطیل ہے، جسے ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس دن سے دستور ہند کی عمل آوری ہوئی۔ دستور ساز اسمبلی نے دستور ہند کو مکمل طورسے 26؍ نومبر 1949 ء کو مرتب کیا اور 26 جنوری 1950 کو اسے عمل آوری کے لیے پاس کردیا گیا۔ دستورِ ہند کی عمل آوری سے ہندوستان میں جمہوری طرز حکومت کی عمل آوری ہوئی۔ہندوستان میں عوامی تعطیلات کے اہم اور لازمی تین تعطیلات میں سے ایک یوم جموریہ ہے، جب کہ دیگر دو؛ یوم آزادی ہنداور گاندھی جینتی ہیں۔ اس مناسبت سے اہم اور خاص تقاریب تو نئی دہلی میں منعقد کی جاتی ہیں، اس دن، ہندوستان کے صدر کی صدارت اور موجودگی میں یہ تقاریب و اجلاس بڑے ہی دھوم دھام سے منائے جاتے ہیں۔ملک کے دار الحکومت نئی دہلی میں راشٹرپتی بھون کے قریب ان تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ اس تقریب کی شروعات میں، وزیر اعظم گلدستوں سے باب ہند (India gate)کے پاس، گمنام شہید فوجیوں کو خراج پیش کرتے ہیں، اس کے بعد صدر اس تقریب میں شریک ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں ہر ریاست، ضلع یہاں تک کہ چھوٹے بڑے اسکول اور مدارس میں بھی یہ تقریب منعقد کی جاتی ہے بلکہ ملک کے باہر بھی، وہ ممامک اور مقامات جہاں ہندوستانی عوام رہتی ہے، یہ تقریب مناتی ہے۔ اس موقع پر اسکولوں کو سجایا جاتا ہے، ہفتوں پہلے سے اس کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، کھیل کے، ادبی اور سائنسی مقابلے رکھے جاتے ہیں، جیتنے والے طلبا کو انعامات اور اسناد تقسیم کیے جاتے ہیں اور اگر سکول میں ائر ونگ، اسکاؤٹس ایند گائڈس، نیشنل گرین کور، یا پھر کوئی ایسا خصوصی گروپ ہوتو ان کی پریڈ پیش کی جاتی ہیں۔ہندوستانی پرچم لہرایا جاتا ہےاوراس کو سلامی دی جاتی ہے۔ اس کے بعد تقاریر، انعامات، پھر ثقافتی (کلچرل) پروگرام وغیرہ ہوتے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں۔
اہل لغت کی تشریح سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان میں جمہوریت کا لفظ اپنے عربی مآخذ ــــــ " الجمہور" کے لغوی مفہوم کی بنیاد پر معروف ہوا ہے، اس کے معنی "اپنے ماحول سے بلند تر" اور "اکثریت" کے ہیں ۔ عام بول چال میں جمہوریت سے مراد "اکثریتــ (کی مرضی )کی حکومت" ہوتی ہے اور یہ انگریزی زبان کے لفظ Democracy کے متبادل کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور انگریزی کا لفظ ڈیموکریسی، یونانی لفظ ”ڈیموکریٹیا“ سے مشتق ہے جو دو لفظوں ”ڈیموس“ یعنی لوگ اور ”کریٹیا“ یعنی طاقت یا اقتدار سے مل کر بنا ہے، اس طرح جمہوریت کے معنیٰ ہوئے: لوگوں کی طاقت یا لوگوں کا اقتدار یعنی ایک ایسا نظام حکومت جس میں اقتدار کی باگ ڈور لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، نہ کہ فرد واحد یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں۔ شاید اسی لیے عوام میں ڈیموکریسی کی یہ عام سی تعریف بہت مشہور ہے:
Democracy is a government of the people, by the people, and for the people.
یعنی عوام کی ایسی حکومت جو عوام کی بنائی ہوئی ہو اور عوام کے لیے ہو۔
آج جمہوریت کو دنیا تہذیب وتمدن کی علامت اور ایک فطری طرز حکومت کے طورپر تسلیم کرچکی ہے۔ بیشتر ممالک میں جمہوری نظام سیاست قائم ہوچکا ہے اور جہاں اب تک جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکا ، وہاں بھی جد وجہد جاری ہے۔ لیکن ایک صدی قبل دنیا کو جمہوریت سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ آج تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اس کی وجوہات شاید یہ ہیں کہ جمہوریت کے علمبرداروں اور اس کا خیر مقدم کرنے والوں نے درحقیقت اس کے مفہوم کو آج تک خود بھی نہیں سمجھا اور وہ اسی غلط فہمی یا خوش فہمی میں رہ مبتلا رہے کہ بس اس نظام کی قائم ہوتے ہی از خود ہر طرف عدل وانصاف اور آزادی ومساوات کا دور دورہ ہو جائے گا، مگر یہ ان کا ایسا خواب تھا جو آج تک شرمندہ ٴ تعبیر نہ ہوسکا، دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نظام کو قائم کرنے والوں نے حقیقی معنوں میں یہ نظام آج تک قائم ہی نہیں کیا۔
قومی یوم جمہوریہ کی مناسبت سے ہم اس وقت بس اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ وطن عزیز ہندوستان، جسے لوگ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر یاد کرتے ہیں، ہمیں یہاں حقیقی جمہوریت کو قائم و مستحکم کرنے کی فکر و سعی کرنی چاہیے، جب تک ایسا نہیں ہو جاتا ان چند رسمی تقریبات کا منعقد کر لینا کچھ کارگر چابت نہیں ہو سکتا!

***
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
alfalahislamicfoundation[@]gmail.com
مولانا ندیم احمد انصاری

Republic Day & enforcement & non-enforcement of Law. Article: Nadim Ahmed Ansari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں