مہاتما گاندھی (پ: 2/اکتوبر 1869 ، م: 30/جنوری 1948) کے 150 ویں جنم دن کے موقع پر ان کی زندگی کے ایک اہم سفرنامے پر مبنی کتاب ملاحظہ فرمائیں۔ سن 1938 کے موسم خزاں میں گاندھی جی نے ایک عرصے تک صوبۂ سرحد میں قیام کیا اور خان عبدالغفار خاں کے ساتھ صوبے کا دورہ کرتے ہوئے وہاں کے پٹھان باشندوں کے بیچ عدم تشدد (اہنسا) کے فلسفے کی تعلیم و تبلیغ کا فریضہ انجام دیا تھا۔
یہ سفرنامہ گاندھی جی کے سکریٹری شری پیارے لال نے ان کی وفات کے سال بھر بعد ہندی دیوناگری میں قلم بند کیا تھا۔ جس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر سید عابد حسین نے کیا ہے۔
تعمیرنیوز کی جانب سے اس یادگار سفرنامے کا ڈیجیٹل ورژن پیش ہے۔ 374 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 23 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین اس کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ۔۔۔گاندھی جی کی روحانی فتوحات میں صوبہ سرحد کی فتح بڑی حیرت انگیز سمجھی جاتی ہے۔ ناواقف لوگوں کو بڑا اچنبھا ہوتا ہے کہ ان کی اہنسا (عدم تشدد) کی تعلیم نے جنگ جو پٹھانوں کے دلوں پر اتنا گہرا اثر کیسے ڈالا؟ لیکن جو لوگ اہنسا کی حقیقت سے واقف ہیں اور سرحدی پٹھانوں کو بھی جانتے ہیں ان کو اس میں کوئی تعجب کی بات معلوم نہیں ہوتی۔
اہنسا بہادروں کا ہتھیار ہے۔ پٹھان صرف جنگ جو ہی نہیں بلکہ سچے معنوں میں سپاہی اور اچھے ہتھیاروں کے قدرداں ہیں۔ پھر بھلا انہیں اہنسا کی تیغ جوہردار، جس کا لوہا دنیا کی سب سے بڑی سلطنت نے مانا ہے، کیوں نہ پسند آتی؟
سرحد میں گاندھی جی کی کامیابی کی ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہاں انہیں ستیہ گرہ کی لڑائی میں ایک ایسا سپہ سالار مل گیا جس کی کھری سچائی میں کھوٹ کا نام تک نہ تھا۔ خان عبدالغفار خاں جو "سرحدی گاندھی" کے نام سے مشہور ہیں، چند گنتی کے آدمیوں میں سے ہیں جنہوں نے عدم تشدد کو وقتی غرض کی بنا پر نہیں بلکہ اپنے قلب اور روح کے تقاضے سے اختیار کیا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس کی آب و تاب کو سیاسی مصلحت کا رنگ نہیں لگنے دیا۔ اور اس سے اسی طرح کام لیا جیسے گاندھی جی چاہتے تھے۔
شاید کہنے والے یہ کہیں کہ سرحد میں اہنسا کا ظہور محض ایک وقتی چیز تھی۔ آج اہنسا کہاں ہے؟ اور ایک سرحد ہی پر کیا موقوف ہے، ہندوستان میں بھی تو کہیں نظر نہیں آتی۔
مگر یہ نظروں کی کوتاہی ہے۔ اہنسا آج بھی اس برصٖغیر میں، جو کل تک ہندوستان کہلاتا تھا، اس سرے سے اس سرے تک موجود ہے۔ مگر کہاں؟
وہیں جہاں پہلے تھی!
خدا کے چند نیک بندوں کے دلوں میں۔ صرف اتنی بات ہے کہ اربابِ سیاست جنہوں نے اسے عارضی مصلحت سے اختیار کیا تھا آج اس کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ اس لیے وہ ایک عام تحریک کی حیثیت سے دکھائی نہیں دیتی۔ مگر اب بھی وہ ایک قوت ہے اور جھوٹ، نفرت، تعصب، ظلم کی قوتوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔
بہرحال پٹھانوں کو اہنسا کا پیام پہنچانے کی یہ داستاں جو پیارے لال جی نے لکھی ہے، بڑی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے صرف لطف ہی نہیں بلکہ فائدہ بھی اٹھائیں گے۔
- ذاکر حسین
(جامعہ نگر، 24/ستمبر 1950ء)
یہ بھی پڑھیے:
***
نام کتاب: گاندھی جی بادشاہ خاں کے دیس میں
تصنیف: پیارے لال ، مترجم: ڈاکٹر سید عابد حسین
تعداد صفحات: 374
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 23 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Gandhi Ji Badshah Khan Ke Des Mein.pdf
گاندھی جی بادشاہ خاں کے دیس میں :: فہرست مضامین | ||
---|---|---|
نمبر شمار | مضمون | صفحہ نمبر |
1 | تقریب | 7 |
2 | خدائی خدمت گار اور بادشاہ خاں | 9 |
3 | پش لفظ | 19 |
4 | تمہید | 21 |
5 | پہلا باب: تضاد کا قانون | 33 |
6 | دوسرا باب: تاریخی جائزہ | 47 |
7 | تیسرا باب: سڑکیں اور حملے | 60 |
8 | چوتھا باب: ایک عجیب و غریب مظہر | 73 |
9 | پانچواں باب: دہلی سے ایک خط | 105 |
10 | چھٹا باب: سرحدی گاندھی کے گاؤں میں | 113 |
11 | ساتواں باب: پٹھانوں کے درمیان | 140 |
12 | آٹھواں باب: گاندھی جی اور بادشاہ خاں | 160 |
13 | نواں باب: رمضان میں | 172 |
14 | دسواں باب: بنوں | 193 |
15 | گیارہواں باب: تشدد اور روحانیت | 210 |
16 | بارہواں باب: آزاد قبائل میں | 227 |
17 | تیرہواں باب: عدم تشدد کی وضاحت | 244 |
18 | چودھواں باب: جدائی | 257 |
19 | پندرہواں باب: پشاور کی کھادی کی نمائش | 266 |
20 | سولہواں باب: ٹیکسلا (نمبر 1) | 275 |
21 | سترہواں باب: ٹیکسلا (نمبر 2) | 289 |
22 | اٹھارہواں باب: خاتمہ (مطلع پر بادل چھا گئے) | 297 |
Gandhi Ji Badshah Khan Ke Des Mein, a travelogue, by Pyaray Laal, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں