معمارِ جاوداں - سرسید احمد خاں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-03

معمارِ جاوداں - سرسید احمد خاں

sir-syed-ahmed-khan

بر گزیدہ اور بلند پایہ شخصیتیں دنیا میں کبھی کبھی پیدا ہوتی ہیں۔ سر سید احمد خاں اُن برگزیدہ شخصیتوں میں سے تھے جن کی گوناگوں خدمات قوم و ملّت کے لئے مشعل راہ بھی ہیں اور نئے سماجی نظام سے ہم آہنگ ہونے کا وسیلہ بھی۔
سر سید احمد خاں ایک ایسی صدی میں پیدا ہوئے جو انتشاروافتراق کی صدی تھی۔ اُس دَور کا اگر ہم گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُس وقت سیاسی تبدیلیاں عروج پرتھیں۔ مغلیہ سلطنت کا اندرونی نظام انتشار اور پراگندگی کا شکار تھا۔ تہذیبی زندگی میں تعیش اور سہل پسندی گھن بن کرداخل ہوگئی تھی۔ کیا عوام کیا خواص، سب ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آ رہے تھے۔ مرکزی حکومت کی گرفت ڈھیلی ہونے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے صوبے داروں کو سر اٹھانے کے مواقع میسّرہوئے۔دلّی تباہ ہوئی اور لکھنؤ رنگین بنا۔ یہاں غم غلط کرنے کے تمام تر اسباب مہیا تھے اور کلفتِ ایّام سے نجات کی ممکنہ راہیں ہموار ہوگئی تھیں۔ ان شواہد سے یہ عیاں ہے کہ تہذیبی سطح پر رنگینی اور خوش طبعی اس طرح سے حاوی ہو رہی تھی کہ تقدس کا دامن تار تار ہوتا جا رہا تھا، اخلاقی قدریں رو بہ زوال تھیں اور تہذیب پامال ہوتی جا رہی تھی۔ اُمراء کی زندگی نااہلی اور بے سمتی کا شکار ہو چکی تھی، جس کا اثر عوامی زندگی پر بھی پڑ رہا تھا۔ عوام، خواص کے شعار کو بساط بھر قبول کرنے میں مشغول تھے۔ مختصر یہ کہ پورا لکھنوی معاشرہ ایک ہی رنگ میں رنگا نظر آرہا تھااور نظامِ حیات میں زبردست تبدیلیاں رو نما ہونے لگی تھیں۔ ایسے وقت میں ایک نئی طاقت ابھر کر سامنے آتی ہے جو انگریزوں کی طاقت سے منسوب ہے۔ انگریز رفتہ رفتہ تجارت سے دُور ہو کر مُلک گیری اور حکمرانی کا ذہن بناتے ہیں اور اپنے تدبّر اور تعقّل کی بنیاد پرمکمل ہندوستان کو اپنی قلم رو میں لے لیتے ہیں۔ انگریزوں کی نئی طاقت اور اُن کے استبداد کی انتہا کے سامنے ہندوستانی قوم بے دست و پا نظر آتی ہے۔ اس صورتِ حال نے ہندوستان کی معاشی زندگی کو متزلزل کر دیا۔ غیر ملکی قوم کو بھلا ہندوستان یا یہاں کے باشندوں سے محبت اور ہمدردی کیوں ہوتی۔ وہ ہر طرح سے انہیں اپنا جانی دشمن تصور کرتے اور اسی منافرت کے نتیجے میں انگریز اس قدر برہم اور برگشتہ ہوئے کہ پھر ظلم وستم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مظالم اتنے بڑھے کے صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا چلا گیا۔ ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت اور بغاوت کا جذبہ پروان چڑھنے لگا، تصادم کے شعلے بھڑکنے لگے اور پھر غدر کا واقعہ پیش آیا۔ اس دَور انتشار اور عالمِ نا سوت میں سرسید احمد خاں نے آنکھیں کھولیں اور ایک سچّے ہادی کی شکل میں قوم کو قعرِ مَذلّت سے نجات دلا نے کے لئے نئی راہ اور صحیح سمت دکھانے کی حتی الوسع کوششیں کیں لیکن اپنے اس فرض کی ادائیگی میں انہیں نامساعد حالات سے بھی گزرنا پڑا اور اُن کی شخصیت بھی متنازع فیہ بنی رہی۔ ایک حلقہ ایسا بھی سامنے آیا جس نے سر سید پر الزام تراشی میں کوئی بھی کسر باقی نہیں رکھی۔
مسلمانوں کے معاشرہ کی اصلاح ، فکر کی تجدید اور احیائے ملّی کی خاطر جن مصلحین نے مسلسل اور پُر خلوص جدّوجہد کی اُن مین سر سّید احمد خاں کا نام ہمیشہ سنہرے حرفوں سے لکھا جائے گا۔ انہوں نے مسلمانوں کی سماجی اصلاح کی نئی راہیں ہموار کیں اور فکرونظر کے نئے سانچے تیار کئے۔ دراصل وہ دَورِ جدید کے پہلے مسلمان ہیں جنہوں نے آنے والے زمانے کے ایجابی مزاج کی جھلک بخوبی دیکھ لی تھی اور اپنی جدّوجہد کا رخ اسلام کی نئی توضیح وتعبیر کی جانب موڑ دیا تھا۔
سرسید احمد خاں ایک جاں باز قوم کے سپاہی تھے۔ اُن کی شخصیت جتنی دل کش تھی اتنی ہی ہمہ گیر بھی تھی۔ وہ بیک وقت معاشرہ کے پُرزور علم بردار، غیر معمولی بصیرت کے ماہرِ تعلیم، روشن خیال مذہبی مفکّر اور نہایت مؤثر وفکر انگیز طرزِ تحریر کے مالک تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے علم وادب،مذہب وتمدن اور تہذیب و معاشرت، جس میدان میں بھی قدم رکھا اپنی شخصیت کا نہ مٹنے والا نقش ثبت کر دیا۔ انہیں اپنی ذات کی فکر کم اور قوم کی زبوں حالی اور اس کے پچھڑنے کا خیال زیادہ تھا۔صحیح معنوں میں وہ مسلمانوں کے ایک سچّے رہنما اور رہبر تھے۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نا گہانی دَور میں اگر قوم کی دست گیری نہ کی گئی تو معاشی، تہذیبی اور سیاسی میدان میں کمزور اور پیچھے رہ جانا ہی ان کا مقدر ہوگا۔ چنان چہ انہوں نے اپنے طور پر مختلف زاویوں سے قوم کی بہتری اور اس کی ترقی کے لئے تا دمِ مرگ خدمت کی۔ اُن کی نگاہ میں قوم کا تصور بہت وسیع تھا۔ اُن کی نظر میں قوم محض ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ مُلک کے شہری اور باشندے کو وہ قوم گردانتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ہندو اور مسلمان کو دو آنکھیں سمجھتے تھے اور اسی اعتبار سے انہوں نے قوم کی خدمت انجام دی تاہم خصوصی توجہ مسلمانوں کی صورت حال پر صرف کرنا اپنا فرض عین سمجھا۔ انہوں نے سیاسی، سماجی اور تہذیبی خدمات کے علاوہ علمی وادبی خدمات بھی انجام دئے۔
سر سید احمد خاں جدید سائنسی فضیلتوں سے بھی رو شناس ہوئے تھے اور انگریزوں کی لائی ہوئی سائنسی ایجادات کو لبیک کہا تھا۔ غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اس کی ایک مثال ہے جس کا مقصد مسلم نو جوانوں میں سائنس کی روح پھونکنا تھا تا کہ قوم نئے تقاضوں سے آشنا ہو، اس میں جمود کی کیفیت پیدا نہ ہواور قوم کو آگے بڑھنے نیز ترقی کرنے کے مواقع فراہم ہوں۔
سر سید احمد خاں نے انگریزوں کے مظالم کو دیکھ کر 1857ء میں غدر کے اسباب پر مبنی ایک کتاب “اسبابِ بغاوتِ ہند ”کے عنوان سے لکھی۔ یہ محض ایک کتابچہ نہیں بلکہ تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو ہر لحاظ سے حق وصداقت کا عکّاس ہے۔ سر سید نے انگریز حکمرانوں کی کمزوریاں، نااہلیاں نیز اُن کے مظالم کو ان کے سامنے اُجاگر کیا تھاتا کہ وہ آئندہ ظلم وستم سے گریز کریں۔ اُن کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کی حکومتوں کے زوال کے ذمہ دار انگریز نہیں بلکہ خود مسلمانوں کی نا اہلی اور عیش پرستی ہے۔ اس طرح نئی طاقت کی صورت میں انگریزوں کا ہندوستان پر قابض ہونا کوئی غیر فطری عمل نہیں تھا۔ پھر یہ کہ فاتح جب تک مفتوح کو سینے سے نہیں لگاتے اور اُن کے دکھ درد کا خیال نہیں رکھتے تب تک ان کی حکومت امن و سکون اور فلاح کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ چنان چہ انگریزوں کی حکمرانی کی بہبودی بھی اسی حقیقت میں پنہاں ہے کہ رعایا یا محکوم کا ہر زاوئیے سے خیال رکھا جائے اور اُن سے ہمدردی کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ سر سید احمد خاں کی ان ہی کوششوں کے نتیجے میں انگریزوں نے اپنا جائزہ لیا اور حتی الامکان مظالم سے دُور رہنے کی حکمت عملی اپنائی اور پھر ہندوستانیوں کو ملازمتیں دی جانے لگیں اور ملکہ وکٹوریہ کا منشور جاری ہوا۔
یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب کوئی قوم فاتح کی حیثیت سے کسی مُلک پر اپنا تسلط جماتی ہے تو وہ اپنے ساتھ صرف شمشیروسپر ہی نہیں لاتی بلکہ تہذیب وتمدن اور رقص و رباب بھی سمیٹ لاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فاتح کی زندگی کا مفتوح پر گہرا اثر پڑتا ہے اور اُن کی تقلید نا گزیر بن جاتی ہے۔ رفتہ رفتہ زبان، سیاست، تہذیب اور ثقافت ہر میدان میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ انگریز قوم اپنے ساتھ طرز ِ حکومت کے علاوہ طرزِتعلیم اور طرزِ زندگی بھی لاتی ہے جن کا دیر پا اثر ہوتا ہے اور ہندوستانی اس نئی تہذیب و سیاست کے سانچے میں ڈھلنے لگتے ہیں۔
سرسید احمد خاں ایسے ہی وقت میں قوم کی دست گیری کرتے ہیں اور نئے نظام کا خیر مقدم فرض عین سمجھتے ہیں۔ اُن کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی نئی تہذیب کی طرف مائل ہوتے ہیں بالخصوص مسلمان بڑے شوق سے اسے گلے لگاتے ہیں۔ تعلیم کے روایتی نظام میں زبردست تبدیلی آتی ہے اور لوگ انگریزی تعلیم کے دُور رس نتائج اور فوائد سے آشنا ہو کر اسے قبول کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں سر سید کو اُس طبقے کی، جو مشرقیت کا دل دادہ تھا ، زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مخالفین میں اکبرالٰہ آبادی، امدادالعلٰی، علی بخش شرر اور مولانا رشید گنگوہی نمایاں نام تھے۔
ہندوستان میں مغربی تعلیم کے پھیلنے میں جو چیز سب سے زیادہ رکاوٹ بنی ہوئی تھی وہ مسلمانوں میں پھیلی ہوئی مذہبی عصبیت اور انگریزی تعلیم سے اُن کی نفرت تھی۔ سر سید احمد خاں کو یقین تھاکہ اگر لوگ تعلیم یافتہ ہو جائیں گے تو تمام خرابیاں خود بخود دُور ہو جائیں گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو قوم کا پستی کے دلدل میں دھنستے چلے جانا یقینی ہے۔ تعلیمی پسماندگی کا مسئلہ مسلمانوں میں پیچیدہ تھا کیوں کہ مسلمانوں نے زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ اپنے قدیم طرزِ فکراور طور طریقوں کو اپنائے ہوئے تھے۔ اس مقصد کے تحت سر سید نے 1859ء؁ میں مراد آباد میں فارسی ذریعۂ تعلیم کا ایک مدرسہ قائم کیا۔غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کا قیام سر سید کی تعلیمی تحریک کا ایک دوسرا سنگِ میل ہے جس کا مقصد انگریزی کی معیاری کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا تھا تا کہ مغربی خیالات سے لوگ واقف ہوں۔ اس کے دو ماہ بعدسر سید نے غازی پور میں ايک اسکول قائم کیا جس کا مقصد جہالت کی تاریکی کو دُور کر کے اپنے ہم وطنوں میں علم کی شمع روشن کرنا تھا۔ سر سید احمد خاں کا انگلینڈ کا سفر ( 1869ء؁ تا 1870ء؁) اُن کے تعلیمی پروگرام کی تشکیل کے لئے بڑا اہم ثابت ہوا۔ انہوں نے بہت سے تعلیمی اداروں کا معائنہ کیا، اُن کے طریقۂ تعلیم کا مشاہدہ کیا، بہت سے عالموں سے ملاقاتیں کیں اور تقریباً ہر طرح کے جلسے میں شریک ہوئے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ سر سید کی مغربی نظامِ تعلیم کے بارے میں گہری نظر پیدا ہوئی اور انہیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ہندوستانی نظامِ تعلیم اس معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ آخر کار جب وہ ہندوستان واپس آئے تو “تہذیب الاخلاق” نام کا ایک رسالہ جاری کیا جس نے مسلمانوں کو تنگ نظری کے غارسے نکال کر وقت کی رفتار کے ساتھ لا کھڑا کیا۔ اپنی قوم کی تعلیم کے سلسلے میں یہی گہری دل چسپی تھی جس کے باعث انہوں نے تعلیم کا لائحہ عمل تیار کیا۔ 24؍ مئی 1875ء؁ کو علی گڑھ میں مُسلِم اینگلو اورینٹل کالج قائم کیا اور یکم جون 1875ء؁ سے وہاں با قاعدہ تعلیم شروع ہو گئی۔ سر سید احمد خاں کا اس کالج کو قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ کالج جدید و قدیم خیالات اور مشرق و مغرب کے درمیان ایک پُل کا کام دے۔ چنان چہ جب انہوں نے مغربی علوم کو سیکھنا ضروری قرار دیا تو اسی کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم کے حاصل کرنے پر بھی زور دیا۔
ہندوستان کے عوام جس اخلاقی اور معاشی گراوٹ کے شکارہو چکے تھے انہیں نئی راہ پر لانے کی خاطر سر سید نے بعض موقعوں پرسیاسی جماعتوں میں شمولیت بھی اختيار کی اور بعض اوقات مقصد کی تکمیل کے لئے اختلافات بھی بنائے رکھا لیکن اس قرب وبُعد میں بھی ہمیشہ قوم کی اصلاح اور فلاح اُن کے پیش نظر رہی۔
سرسید احمد خاں سب سے پہلے ایک مصلح تھے اور ایک مصلح کی زندگی کے ہر شعبے میں اصلاح طلب گوشے مل جاتے ہیں۔ سرسید کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی سماجی تحریک کے دوران اس کے متوازی ایک مکمل ادبی تحریک جاری رکھی جس کے ذریعہ ایک ادبی انقلاب پیدا ہوا۔ اردو ادب کے نئے سوتے جاری ہو گئے اور اس کے ذریعہ زندگی کے اعلیٰ مقاصد کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی۔ سرسید کی ادبی خدمات اُن کی لا تعداد تحقیقی، تنقیدی، مذہبی ، معاشرتی، تاریخی اور علمی تحاریر میں نمایاں ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں پراثر پذیری کی صلاحیت پیدا کی۔ اُن کی مذہبی معرکہ آرائیوں نے اُردو زبان کو تصنّع اور تکلّف سے پاک کر دیا۔ چوں کہ سرسید کی نظر مقصد و مدعا پر رہتی تھی اس لئے عبارت میں نا ہمواری اور کھردرا پن پیدا ہونا فطری بات تھی لیکن ان تحریروں میں جذبے کی صداقت تاثیر کی ضامن ہے۔
یہ اردو ادب کے ارکا ن خمسہ تھے جنہوں نے ادب کو نئی بلندیاں عطا کیں۔ يہ ارکان خمسہ سرسید تحریک سے وابستہ تھے۔ سر سيد کے رفقا میں حالی ، نذیر احمد، راشدالخیری، شرر ، شبلی وغیرہ جدیدنثر کے بانيوں میں سے ہیں۔ سر سيد نہ ہوتے تو شايد نہ راشدالخیری ہوتے ، نہ نذیر احمد، نہ حالی اور اگريہ نہ ہوتے تو اردونثر کو پختگی بھی حاصل نہ ہوتی ۔ سر سيد نے ہی حالی سے’مسدس’ لکھوائی، وہی مسدس جس کے متعلق سر سيد کا کہنا تھا کہ خدااگر مجھ سے پوچھے گا کہ تو دنيا سے میرے لئے کيا لايا تو وہ کہیں گے کہ “مسدس حالی” لکھوا لائے۔ سچ تو يہ ہے کہ اپنی تحریک کے مختصر سے وقفے میں سر سيداحمد خاں نے اردو ادب کے مزاج کو بدل ڈالا۔ آ ثار الصنادید لکھ کر اروو ادب کونئے افق پر پہنچا يا۔ علم و ادب کی ذمہ داريوں میں صنعت و حرفت اور عمارت سازی کی يادگاروں کا تحفظ اور اس کے پردے میں اپنے ماضی کا تحفظ بھی شامل ہے، يہ ہمیں پہلی بار سر سيد نے بتايا۔ حالی نے سر سيد، شبلی اور غالب کی بايو گرافی سائنٹفک بنيادوں پر لکھی تو اس کا سہرا بھی بالواسطہ طور پر سر سيد کے سر بندھتا ہے کہ اس طرح کے کاموں کے لئے ذہن انہوں نے ہی تيار کیا۔ سر سيد نے مسلمانوں کے لئے صرف تعلیمی تحریک ہی نہیں چلائی بلکہ اردو نثر کو سادگی کا زیور بھی عطا کيا،ذہنوں کی ایسی تربيت کی کہ شعرو ادب نے بھی افاديت اور مقصديت کے جوہر کا تاج پہن ليا۔
سرسید محض ایک نام نہیں ، وہ تو ایک تحریک تھی، ایک ایسی تحریک جو آج بھی جاری ہے۔ ایک ایسی تحریک جو ذلّت و رسوائی کے داغ دھونے اور علمی کمال کو پہچاننے کے لیے تھی۔ سرسید کو صرف علی گڑھ مُسلم یونیورسیٹی کے قيام کے تناظر میں دیکھنا کم نظری ہوگی۔ انہوں نے ہمارے ذہنوں میں علم کی قدر و منزلت پیدا کی، ہمیں اپنی خودی کو پہچاننے کا شعور بخشا۔ علی گڑھ مُسلم یونیورسیٹی کی شاخیں اب پھیلنے لگی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنے قومی تشخص کی تلاش اور باز یافت میں سر گرداں ہیں۔ یہ درست ہےکہ اس تحریک کی قيادت اب سر سيد کے ہاتھوں میں نہیں اس لئے ہم کبھی کبھی بھٹکتے بھی ہیں لیکن یہ تحریک آج بھی سرسید کے دئے ہوئے شعورسے بہرہ ور ہے۔ وہ شعور زندہ ہے تو سر سيد بھی جاوداں ہیں۔ اس لئے گمان ہوتا ہے کہ سرسید احمد خاں آج بھی زندہ و جاوید ہمارے آگے آگے ایک ہیولیٰ کی طرح ہماری رہنمائی کر رہے ہیں اور ہم ان کی قیادت میں اپنی اصلاح کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی کوشش کا نام تو سر سید احمد خاں ہے۔

***
بشکریہ:
موجِ قلم - 2012 (بزمِ نثّار، کلکتہ کا پہلا سالانہ مجلّہ)
Mushtaq Mushfiq, 23/B/H/2, Mufidul Islam Lane, Kolkata-700014
Mob.: 9831846423

Sir Syed Ahmed Khan, the ever lasting Architect. Article: Mushtaq Mushfiq.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں