بابا فرید گنج شکرؒ کی فکری اور شعری تعلیمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-25

بابا فرید گنج شکرؒ کی فکری اور شعری تعلیمات

baba-fareed-ganj-shakar-teachings

پنجاب میں چشتیہ تعلیمات کی تجسیم بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی صورت میں ہوئی۔ ان کی ذہنی رویے کی نشاندہی علامتی انداز میں اس واقعہ سے ہوتی ہے کہ جب ایک عقیدت مند نے بابا فرید ؒ کو ایک قینچی پیش کرنا چاہی تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے قینچی نہ دو کہ میں کاٹنے والا نہیں ہوں۔ مجھے سوئی دو کہ میں جوڑنے والا ہوں۔ بابا فرید ؒ کا ترکیبی رویہ اس حد تک وسیع تھا کہ انہوں نے ریاضت کے بہت سے ہندوؤانہ طریقہ اعلانیہ اختیار کرلئے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا سلسلہ ہند کے وسیع و عریض علاقے تک پھیلا ہوا تھا ۔ ہزاروں لاکھوں افراد اس سے باقاعدہ طور ر وابستہ تھے ۔ اس کی اہمیت محض روحانی نہیں رہی تھی بلکہ عوام کی بے پناہ عقیدت کی بنا پر اسے روز بروز سیاسی اہمیت بھی حاصل ہونے لگی تھی۔ یہاں تک کہ سلاطین دہلی اسے اپنے تخت وتاج کے لئے خطرہ تصور کرنے لگے تھے۔
اقتدار سے بیزاری اور سادگی بابا فریدؒ کی شخصیت میں بہت تھی ۔ اس لئے انہوں نے کوشش کی کہ تصادم شدید نہ ہو۔ وہ ریاستی معاملات سے کوئی سروکار نہ رکھتے تھے۔ حکمرانوں سے دور رہتے تھے، اور اپنے ساتھیوں اور مریدوں کو بھی دور رہنے کی تلقین کرتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دارالسلطنت سے دور رہنے کو ترجیح دی۔ دہلی کو تیاگ دیا اور پنجاب میں اجودھن پنجاب کا سب سے بڑا ثقافتی ،علمی اور روحانی مرکز بن گیا۔ یہاں ہندو مسلم ثقافتوں کے ملاپ سے ایک نئی اسلامی ثقافت پروان چڑھنے لگی ۔ بابا فرید کی بنا ر تصوف پنجاب میں ایک عوامی تحریک بن گیا۔ روحانی نجات کی جستجو میں لوگ جوق در جوق دور دراز سے اجودھن کا رخ کرنے لگے ۔ روحانیت کا چرچا ہونے لگا ، تعصبات مٹنے لگے، شاعری اور موسیقی رواج پانے لگی اور خود بابا فرید نے اسی زبان میں شاعری کی۔

ان کا تعلق عوام سے تھا، ان کے مفادات عوام سے وابستہ تھے ۔ وہ عوامی ثقافت کے محافظ تھے۔ طبقاتی نظام اور اونچ اونچ کے مخالف تھے ۔ سادگی پسند تھے ۔ مساوات کے قائل تھے ، انسان دوستی کا درس دیتے تھے ۔ حاکم و محکوم کی تقسیم ختم کرنا چاہتے تھے ۔ سب کے لئے یکساں انصاف کے طالب تھے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دن بدن حکمران طبقوں سے کٹ کر عوام کے ساتھ گھل مل گئے ۔

بھگتی تحریک اصل میں چشتیہ مکتبہ فکری ہی کی ایک ترقی یافتہ اور ہندو پس منظر میں یش کی جانے والی تحریک تھی ۔ پنجاب میں اسے فروغ بابا گورونانک کی جدوجہد سے ملا ۔ اس دانشور گورو نے بھگت کبیر کے گہرے اثرات قبول کئے تھے۔ یہاں تک کہ گورو گوبند سنگھ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ بھگت کبیر کا مذہب اب خالصہ ہوگیا ہے ۔ صوفیوں اور بھگتوں کی طرح بابا گورو نانک نے بھی مذہب کی ظاہری صورتوں اور عبادتوں پر اس کی روح کو ترجیح دینے کا درس دیا ۔ کہ حقیقی مذہبی زندگی، باطن پاکیزگی سے عبارت ہے ۔ صداقت ای ہے ، جو ظواہر کی لا محدود سطحوں کے پس پردہ کار فرما ہے ۔ ہندومت اور اسلام اسی ایک صداقت کے دو مظاہر ہیں۔ جب تک طبقات موجود ہیں یکساں اور عالمگیر محبت کے آدرش شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے ۔

پنجاب میں سید علی ہجویری کے بعد جس صوفی بزرگ نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا وہ بابا فرید الدین مسعو د گنج شکر ہیں ان کا تعلق تصوف کے چشتی مکتبہ فکر سے تھا۔ تصوف کی چشتیہ روایت کا آغاز دسویں عیسویں میں اس وقت ہوا جب سلطان محمود غزنوی کے حملوں کے دوران اس روایت کے علمبردار بہت سے بزرگوں نے پنجاب کا رخ کیا اور یہیں آباد ہوگئے۔ بابا فرید خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ کے بعد ہند میں اس روحانی سلسلے کے رہنما مقرر ہوئے تھے ۔ انہوں نے اپنے عہد کے مروجہ ظاہری علوم کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اس کے بعد انہوں نے دہلی کا قصد کیا اور اپنے مرشد کی نگرانی میں روحانی تربیت کا آغاز کیا اور دہلی پہنچنے کے بعد انہوں نے شدید ریاضت اور مجاہدے شروع کئے۔ اس سلسلے میں خصوصی طور ر چلہ معکوس( چالیس دن تک کنویں میں الٹے لٹکے رہنا) کا ذکر کیا جاتا ہے، اس کے بعد انہوں نے اپنے مرشد کی اجازت سے ہانسی میں رہائش اختیار کی ۔ اسی دوران مرشد کا انتقال ہوگیا ۔ اور انہیں چشتیہ سلسلے کا سر بارہ بنادیا گیا اور انہوں نے پنجاب میں واقع اجودھن نامی قصبے کو اپنا مرکز بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ رفتہ رفتہ یہاں بھی ان کی شہرت ہونے لگی اور لوگ جوق در جوق ان کی جانب رجوع کرنے لگے ۔ بابا فرید نے یہاں صوفیانہ روایت کے مطابق ایک جماعت خانے کی بنیاد رکھی ۔ اجودھن کی خانقاہ میں ایک صوفیانہ درس گاہ کی تمام جملہ خصوصیات موجود تھیں۔ جماعت خانے میں بہت سے دانشور اور صوفی ہر وقت موجود رہتے ۔ بابا فرید ؒ کی شاعری ہم تک آدگرتھ کے شلوکوں کے ذریعے پہنچی ہے ۔

بابا فرید ؒ کی تعلیمات بنیادی طور پر وہی ہیں جو ان سے دو صدیاں پہلے سید علی ہجویری متعارف کراچکے تھے ۔ اس اعتبار سے بابا فرید کی تعلیمات کو پنجاب کی زریں روایت کا تسلسل تصور کرنا چاہئے ۔ ان کے ہاں بھی مذہبی قانون اور داخلی صوفیانہ صداقت میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا رجحان غالب نظر آتا ہے۔ بابا فرید ؒ کی بنا پر تصوف پنجاب میں ایک عوامی تحریک بن گیا تھا ۔ بابا فرید کے خیال میں تصوف اور گوشہ نشینی ہم معنی قرار پاتے ہیں۔ جہاں وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ صوفی وہ ہے جس کا ظاہر اور باطن صفات سے خارج نہ ہو۔ وہیں وہ اس امر کو بھی واضح کردیتے ہیں کہ صوفی کے لئے دنیا کی آسائشوں اور بشریت کی گندگی سے محفوظ رہنابھی ناگزیر ہے ۔ ان کے نزدیک جب تک کوئی شخص اپنے باطن کو دنیا کے تمام معاملات سے پاک نہیں کرلیتا اسے واجب نہیں خرچہ پہنے، خرقہ انبیاء اور اولیا کا لباس ہے ۔

اپنے مخصوص نقطہ نظر کے لحاظ سے بابا فریدؒ نے انسانوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلی قسم میں مکمل طور پر دنیا دار لوگ ہیں۔ دنیاوی جاہ و جلال اور مال و دولت کے لئے تگ و دو ان کا شیوہ ہے ۔ دوسرے وہ ہیں جو دنیا سے عداوت رکھتے ہیں ۔ وہ دنیا کا ذکر حرص، رنجش اور خصوصیت کے بغیر نہیں کرتے ۔ تیسرے وہ ہیں جو قطعی طور ر دنیا سے بے نیاز ہیں۔ وہ اسے دوست ہی رکھتے ہیں اور نہ ہی اسے دشمن سمجھتے ہیں۔ بابا فرید کے نزدیک یہ آخری گروہ پہلے دونوں گروہوں سے بہتر ہے ۔ نظری سطح پر رہبانیت کا پرچار کرنے کے باوجود عملی طور پر بابا فرید انسانوں سے دور نہیں تھے بلکہ ان کے ہاں گوشہ نشینی کا وہ تصور نہیں ملتا جو انسانوں کو اپنے ہی ہم جنسوں سے بیزار کردیتا ہے ۔ بابا فرید کے نزدیک اعلی ترین خیرروحانی پاکیزگی کا حصول ہے ۔ دل کی اصلاح کے بغیر روحانی پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی۔

بابا فرید ؒ کا نظام فکر مجموعی طور پر اعتدال پسندانہ رجحان کا حامل ہے ۔ انہیں نہ تو راسخ العقیدہ لوگوں میں شامل کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی آزادخیال گروہ میں۔ وہ ان دونوں کے بین بین رہتے ہیں۔ مذہبی قوانین سے ان کا رشتہ مستحکم رہتا ہے تاہم بہت سے مسائل میں ان کی رسائی عقیدہ پرست دانشوروں سے مختلف ہوجاتی ہے ۔ اس نقطہ نظر کی وضاحت کے لئے ہم صحو اور سکر کے صوفیانہ مسئلے کو لے سکتے ہیں ۔ قرون وسطی کے صوفیانہ دانش کے مرکزوں میں اس مسئلے کو خاص اہمیت حاصل تھی ۔ عقیدہ پرست دانشور صحو کو سکر پر ترجیح دیتے تھے۔ بابا فرید بھی عام طور پر یہی رائے رکھتے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ افشائے حقیقت کے باب میں سکر کو صحو پر برتری حاصل ہے ۔ شیخ بدرالدین اسحاق نے ان سے یہ جملہ منسوب کیا ہے کہ اے درویش جس طرح کی سخت آگ درویشوں کے سینے میں دبی ہوتی ہے اگر اس میں سے ذرا سی بھی خدانخواستہ سکر کے عالم میں باہر پھوٹ پڑے تو عرش سے فرش تک سب کو جلا کر بھسم کردے۔ سکر کے بارے میں یہ رویہ فی الواقعہ ایک مکمل نظام فکر کا ناگزیر ضمنی نتیجہ ہے ۔ اس نظام فکر میں فنون لطیفہ کے لئے جگہ بہرحال موجود رہتی ہے ۔

چنانچہ دیگر چشتی مفکرین کی طرح بابا فرید ؒ بھی موسیقی کے شائق تھے ۔ عقیدہ پرستوں کو یہ بات ناگوار گزرتی تھی ، ان کی نکتہ چینی کے جواب میں بابا فرید نے کہا کہ بڑائی تو صرف اللہ کی ذات کے لئے ہے ۔ کوئی تو عشق الٰہی کی آگ میں جل کر فنا ہوگیا ہے اور دوسرے جواز اور عدم جواز کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں۔ مگر ایک بات ضرور تھی کہ ان کا نقطہ نظر موسیقی کے ضمن میں اگرچہ سید علی ہجویری سے مشابہ تھا مگر ان میں اختلاف بھی موجود تھا ۔ سید علی ہجویری موسیقی کے حق میں جمالیاتی جواز کو اہم سمجھتے ہیں اور بابا فریدؒ مذہبی دلائل پر انحصار کرتے ہیں۔ موسیقی کے باب میں بابا فرید سے یہ قول بھی منسوب کیا گیا ہے کہ رحمت باری تعالیٰ کا نزول تین مواقع پر ضرور ہوتا ہے ۔ ایک تو سماع کے موقع پر دوسرے درویشوں کے احوال بیان کرنے کے موقعے پر اور تیسرا عاشقوں کے انوار تجلی کے عالم میں غرق ہوجانے کا موقعہ ہے۔

پنجابی زبان میں سب سے پہلے جس شاعر کا کلام ہم تک پہنچا وہ حضرت بابا فریدؒ گنج شکر ہی ہیں۔ مگر بابا فرید ؒ کے اشلوکوں کی زبان بڑی حد تک منجھی ہوئی اور معیاری ہے ، جس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ وہ پہلے شاعر نہیں تھے بلکہ ان کی شعری خصوصیات کی بنا پر ان سے پہلے بھی شعرا یقینا موجود ہوں گے ۔ جن سے انہوں نے شعوری یا لاشعوری طور پر استفادہ کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں جو زبان استعمال کی ہے وہ صدیوں کے بعد اس معیار تک پہنچی تھی ۔ بابا فرید کے بعد شیخ فرید ثانی کا نام شعری حوالوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے ۔ ان کے بھی کچھ اشلوک اور کافیاں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک نصیحت نامہ بھی لکھا۔ گورونانک کا زمانہ ۱۴۶۹ء سے ۱۵۳۸ء تک تھا۔ ان کے علاوہ سکھوں کے دوسرے گورؤں نے بھی پنجابی میں باقاعدہ شاعری کی ۔ ان میں گوروانگدجی دوسرے گورورام داس، گروامرداس اور گوروار جن دیو شامل ہیں۔ انہوں نے بھی درویشانہ خیالات کے اشعار کہے۔ اس کے بعد سولہویں صدی عیسوی پنجابی کے نامور صوفی شاعر شاہ حسین کا زمانہ ہے ۔ یہاں ایک بات تعجب کا باعث ہے کہ بابا فرید سے لے کر شاہ حسین تک سوا تین صدیوں کے طویل عرصے میں ہمیں پنجابی شاعری کا سلسلہ منقطع نظر آتا ہے ۔ جو ناقابل یقین بات ہے ، اس لئے پورے وثوق کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ اس عرصے میں بھی کئی شاعر ہوئے ہوں گے اور انہوں نے یقینا شاعری کی روایت کو آگے بڑھایا ہوگا ۔ مگر وقت کی بے رحمی کے ہاتھوں ان کا کلام محفوظ نہ رہ سکا اور یا پھر انہیں سند قبولیت حاصل نہ ہوسکی ۔ جس کی بنا پر لوگ آج ان کے نام تک سے ناواقف ہیں۔ بہر صورت شاہ حسین کے بعد یہ سلسلہ کہیں نہیں ٹوٹتا۔

بابا فریدؒ کی شاعری میں مواد، لفظ، معنی، زبان اور اسلوب کی وہ گہرائی پائی جاتی ہے ، جس نے ہر شخص کو متاثر کیا۔ اس تاثر میں مذہب ، عقیدہ اور مزاج بھی رکاوٹ نہیں بن سکے۔ یہی کلاسیکی ادب کی سب سے بری خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ ادب ہر وقت ہر شخص کے لئے پر کشش ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس میں عالمگیر سچائیوں کی بات کی گئی ہوتی ہے ۔ ان کے شلوکوں میں علم بیان، علم بدیع اور عروض کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور اس کے علاوہ راگنی کے سر تال بھی جابجا ملتے ہیں۔ جوکہ ان اشلوکوں میں گہری تاثیر پیدا کردیتے ہیں۔ موسیقی کی تخلیق میں عروض کے ضابطے ، عام شاعری سے کسی حد تک مختلف ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ راگنی کا وزن سرتال کی اونچ نیچ کی بنا پر پرکھاجاتا ہے مثلاً وہ کہتے ہیں۔
فریدا روٹی میری کاٹھ دی دی لاون میری بھکھ
جنہاں کھاہدی چوپڑی گھنے سہن گے دکھ

علم بیان میں دلالت کے معانی اس طرح ہیں کہ ایک چیز، اس دوسری چیز کا پتہ دے جس کا پہلے پتہ نہیں ہے ۔ یعنی ہمارا ذہن اور عقل پہلے بتائی گئی چیز سے معلومات اخذ کرکے دوسری شے تک پہنچ جائیں۔
وہ کہتے ہیں:
فرید اور درویشی گا کھڑی چلاں دنیابھت
بنھ اٹھائی پوٹلی کتھے ونجاں گھت

بابا فرید گنج شکر ؒ اپنی شاعری میں تشبیہات کے استعمال میں ید طولی رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں:
جند ووہٹی مرن ورلے جاسی پرنائے
آپن ہتھیں جوں کے کیں گل لگے دھائے

ان کی تشبیہات ان کے اپنے علاقے کے گرداگرد ہی سے لی گئی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے جن لوگوں کے لئے شاعری کی تھی۔ وہ زیادہ تر ان پڑھ اور جاہل تھے۔ اس لئے ایسے لوگوں کی تربیت کے لئے تشبیہات کا انتخاب بھی انہوں نے ایسا کیا تھا جو ان کی عقل و فکر سے باہر نہ ہوں۔ کہتے ہیں:
فریدا سوئی سروور ڈھونڈئیے جتھ لیھی وتھ
چھپڑاڈھونڈے کیا ہوئے چکڑ ڈبے ہتھ

اسی طرح بابا فرید نے استعارات کا استعمال بھی بھرپور کیا ہے، کہتے ہیں:
فریدا ایہہ دِس گندلاں ، دھریاں کھنڈ بواڑ
اک را ہندے را ہندے رہ گئے اک رہندی گئے اجاز
یا پھر
کوک فریدا کوک توں ، جیوں را کھا جوار
جب لگ ٹانڈاتاں گرے، تب لگ کوک پکار

یہاں زندگی کے لئے 'ٹانڈے' کا استعمال کس قدر مکمل اور بے نظیر ہے۔ بابا فرید ؒ نے دوسرے صوفی شاعروں کی طرح اپنے ماحول پر بھی نظر رکھی اور اپنی بات کو بہتر انداز میں سمجھانے کے لئے اپ نے ارد گرد کے ماحول کو بھی مدنظر رکھا۔ کہتے ہیں:
کلر گیری چھپڑی آتے لتھے ہنجھ
چنجوں بوڑ نہ پیون اڈن سندی ڈونجھ

یعنی کلر کے تالاب پر ہنس آکر بیٹھ گئے ہیں۔ وہ اپنی چونچ پانی میں ڈبوکر پانی نہیں پیتے بلکہ نہ ختم ہونے والی پیاس سمیت دوبارہ اڑنے کے لئے تیار ہیں۔ ان کے یہاں صنعت مرعات النظیر بھی ایک خاص ڈھب کے ساتھ سامنے آتی ہے ، کہتے ہیں:
فریدا چنت کھنولا وان دکھ برہ و چھاون لیف
ایہہ ہمارا جیوناں توں صاحب سچے ڈیکھ

ان کی شاعری میں تمثیلی اندازبھی جابجا ملتا ہے جو کہ صوفی شعراء کا ا پنا ایک رنگ ہے۔ کہتے ہیں:
فریدا جن لوئین جگ موہیا، سو لوئین میں ڈٹھ
کجل دیکھ نہ سہندیاں سے پنکھی سوئے بیٹھ

بابا فرید نے شعری ، محض شعر کہنے کے لے نہیں تھی۔ بلکہ وہ اس خطے کے لوگوں کو وہی کچھ بتانا چاہتے تھے ، جس کا روحانی تجربہ از خود کرچکے تھے ۔ اس لئے وہ طریقت اور شریعت کے ملے جلے ڈھنگ کو ا پنا کر عوام کی اپنی زبان میں ان سے مخاطب ہوتے تھے۔ وہ کسی کا دل دکھانا نہیں چاہتے تھے ۔ اسی لئے وہ سادگی کے ساتھ اپنی شاعری میں اپنے آپ ہی سے مخاطب ہوتے تھے۔ یہی خوبی بعد ازاں دوسرے صوفی شعراء نے بھی اپنائی ۔ انہوں نے حتی المقدور کوشش کی کہ اپنی بات کرنے کے لئے مقامی ماحول اور روایت ہی کو مد نظر رکھا جائے ۔ اس کے بعد ان کے یہاں یہ خصوصیت بھی کھل کر سامنے آتی ہے کہ مقامی ماحول میں محاورے اور کہاوتیں استعمال کرتے تھے وہ کہتے تھے:
فریداجے توں عقل لطیف ہیں کالے لکھ نہ لیکھ
اپڑیں گریوان میں سرینواں کرکے دیکھ

اسی طرح:
کندھی اتے رکھڑا کچرک بنے دھیر
فریدا کچے بھانڈے رکھئے کچرک تائیں نیر

اس شاعری اور اس کی مابعد الطبیعی فکر کی، آج کے انسان کو تو از حد ضرورت ہے۔ وہ اس لئے کہ جتنا ذہنی اور عملی انتشار اور جتنا علم و عمل میں تفاوت اور قول و فعل میں تضاد، آج کے دور میں ہونے لگا ہے ۔ اتنا پہلے کبھی نہ تھا۔ اس دور میں انسان کو اتنے رول ادا کرنے پڑتے ہیں کہ تصادم ہوجانا یقینی سی بات ہے ۔ اب تو اسی ضرورت کا احساس حد سے زیادہ بڑھتا جارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح انسان پھرسے ایک ہوجائے۔ یعنی اس کثرت میں کوئی وحدت پیدا ہوجائے ۔ اور یہ ضرورت اس نوع کی شاعری ہی پورا کرسکتی ہے ۔ کیونکہ فکر مابعد الطبیعات ایک زندہ توانا، رواں اور محرک حقیقت بھی بن سکتی ہے ۔ مگر اس شکل میں جب کہ یہ جدید ضروریات فرد سے ہم آہنگ ہو۔ اگر بنظر غائر دیکھاجائے تو بابا فرید کی شاعری اس ہم آہنگی کے لئے ہمہ وقت مستعد اور مکمل معلوم ہوتی ہے ۔ اور اس شاعری نے پنجاب کی سوندھی مٹی کے سفیر کی حیثیت سے ہر عصری دور میں، نوع انسان کے تمام تضادات کو دور کرنے اور سب رشتے جوڑنے کے لئے ہی مقدور بھی مساعی کی ہیں۔ اور کامیابیوں نے اس کے قدم چومے ہیں۔

بابا فریدؒ کی شاعری اور روایت ہمیں اپنی جڑوں کی تلاش، قومی تشخص کا فہم اور اجتماعی شخصیت کا شعور حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے ۔ بابا فرید ؒ کے افکار و تعلیمات ، انسانی فکرونظر ، تہذیب و ثقافت کے فروغ اور اخلاقی پاکیزگی کے آدرش تک رسائی کے لئے نہ صرف راہیں متعین کرتی ہیں بلکہ انکشافات ذات اور راہ نجات کے در بھی وا کرتی ہیں تاکہ ہم روشن تر منزلوں کی جانب سفر کرسکیں ۔ بقول ایک دانشور کہ کیا ہمارے لئے یہ امر باعث فخر و انبساط نہیں کہ ہم دنیا کی ایک نہایت عظیم الشان فکری روایت کے امین ہیں۔


Teachings of Baba Fareed Ganj Shakar.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں