عظیم روسی قلمکار میکسم گورکی کی دلچسپ آپ بیتی - میرا بچپن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-10-24

عظیم روسی قلمکار میکسم گورکی کی دلچسپ آپ بیتی - میرا بچپن

maxim-gorky

تحریری میدان میں، میں کسی مخصوص نظریے کی پابند نہیں۔ جو سچ جانا اسے لکھنے کی کوشش کی۔ ارد گرد جو کچھ 'جبری انداز' دیکھا دل تڑپا تو اسی اذیت کو صفحۂ قرطاس کے سینے میں گھونپ دیا۔ گویا اس ناہموار و نا انصاف زندگی نے جو دیا وہ اس کے منہ پر لفظوں کی صورت دے مارا۔ اس لیے کسی سے اثر لینے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ مگر کچھ لوگ تھے، جو اپنے رویوں اور اپنے لفظی جذبوں کی صورت بوند بوند میرے احساس پر برستے رہے۔ امرتا پریتم نے نہ صرف میرے اندر سسکاریاں بھریں بلکہ اس کی "رسیدی ٹکٹ" کے طفیل ٹالسٹائی، ٹیگور اور میکسم گورکی کے نام میرے نہاں خانوں میں آ بسے۔
اور پھر میکسم گورکی کا شہرہ آفاق ناول 'ماں' میرے ہاتھ لگا جس میں روسی عوام کے تہی دست طبقے کی ترجمانی ہوئی تھی۔ (اسی ترجمانی کے سبب روس میں 'ادبی انقلاب' برپا ہوا تھا) اس ناول نے میرے دل میں بسی ممتا کو ایک نیا جذبہ عطا کیا۔ اور یوں مجھے گورکی کی تحریروں کی تلاش کا روگ لاحق ہوا۔

"گورکی کی آپ بیتی - میرا بچین" اسی متلاشی مسافت کی آبلہ پائی ہے بلکہ یوں کہیے کہ ثمر ہے۔ ویسے تو گورکی نے اپنی تحریروں سے "ادب برائے مقصد" کا فلسفہ ہی متعارف کروایا ہے۔ اس کے افسانے اور ناول سماجی جبر و افلاس کی دلدل میں دھنسے انسانوں کے عکاس ہیں۔ جن کے واقعات اور کردار اس کے اس فلسفۂ حیات کے خدوخال میں شدت پیدا کرتے ہیں کہ:
"دیکھو! میں زندگی کی 'صدائے حق' ہوں۔ میں ان ٹھکرائے اور روندے مظلوموں کی آواز ہوں جو سماج کے سب سے نچلے زینے پر پڑے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنا فسانۂ غم سنانے بھیجا ہے "

مگر میری ذاتی رائے ہے کہ میرا بچپن (گورکی کی آپ بیتی) اس عظیم قلمکار کی بہترین تحریر ہے۔ اس لیے روسی عوام نے اسے "قبول عام" بخشا اور پوری دنیا میں اس آپ بیتی کی دھوم مچ گئی کیونکہ یہ "دکھ بیتی" نہ تھی۔ یہ ایک آوارہ گرد مشاہدہ بین قلمکار کی ذاتی ڈائری تھی جس میں ہر سانحے کو ٹھوکر مار دی گئی تھی۔ اس میں ایک یتیم بچے کا احساس محرومی بھی ہے اور بچپن کی معصوم خواہش بھی۔ اور یہ سب کچھ بندغم یا امیدی کی طرف نہیں جاتا بلکہ یہاں زیست نئی روشن امید سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہ ادبی کاوش آوارہ گردوں کی اس فطرت کی آئینہ دار ہے۔ گورکی نے میرا بچپن (حصہ اول) کے آخری حصے میں اپنے ادبی نکتۂ نظر پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈالی ہے کہ: "جب روس کی اس وحشیانہ زندگی (عورتوں خصوصاً بیویوں کی مار پیٹ) کی ہیبتوں کا خیال آتا ہے تو میں اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں۔ کہ اس کا ذکر کیوں کیا جائے؟ مگر مجھے جواب ملتا ہے
یہ ذکر جائز ہے۔۔۔
کیونکہ وہ حقیقت پر مبنی ہے اور یہ غمناک حقیقت آج بھی باقی ہے۔ یہ وہ بِس پیٹر ہے جس کی جڑ تک ہمیں پہنچنا ہے۔ اسے لوگوں کی روحوں اور ذہنوں سے نکالنا اور اپنی مکروہ و تاریک زندگی سے مٹانا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری اس عجیب و غریب زندگی میں صرف فطرت کے حیوانی پہلوؤں کو ہی فروغ نہیں ملا۔ بلکہ اس بربریت کے باوجود، تخلیقی اور تعمیری شے پروان چڑھ رہی ہے۔۔۔
ایسی انسانیت، جو ہمیں اپنی نو زندگی کا مژدہ سناتی ہے۔"

گورکی کی اس دلگداز آپ بیتی میں کسی ناول سے بھی زیادہ دلچسپی پائی جاتی ہے۔ اور مفلوک الحال روسی عوام کی جفاکش و دقت طلب زندگی کے انوکھے پل سامنے آتے ہیں۔ کیونکہ اس نے دل کے یہ چھالے لطف اٹھانے کے لیے نہیں دکھائے بلکہ اسے ایک واضع مقصد کی خاطر لکھا۔ تاکہ غربت کی پیپ سامنے آئے اور اس ناسور کا علاج ہو۔
گورکی کی تحاریر میں ناصحانہ پہلو شدت سے موجود ہوتا ہے۔ مثلاً ناول "ماں" کا آخری تہائی حصہ مخصوص نظریات اور لمبی لمبی تقریروں کی وجہ سے بڑا بھاری بھرکم بلکہ بوجھل ہو گیا ہے۔ اور یہ گورکی کا تحریری عیب ہے۔ مگر "میرا بچین" اس ادبی عیب سے مبرا ہے۔ اس کاوش میں گورکی کا قلم نہ تو احتجاج کرتا ہے اور نہ ہی انقلاب کا پرچار کرتا ہے۔ بلکہ اس نے سیدھے سادے طریقے سے لڑکپن کے واقعات بتائے ہیں۔ اپنی اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی کتاب زندگی کی ورق گردانی کی ہے۔
انقلاب روس سے پہلے، اسے جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ اس نے اطالیہ کے دور دراز جزیرے 'کاپری' میں دن گزارے اور انہی دنوں کے طفیل دنیا کا بہترین ترقی پسند ادب تخلیق ہوا۔ گورکی نے اوائل عمر کی کسمپرسی اور قلبی پھپھولے بڑی سادگی بلکہ سچائی سے پھوڑے۔ حالانکہ جزیرہ 'کاپری' میں اس کے اردگرد بہار کی رنگینیاں تھیں۔
( یہ ہرا بھرا ٹاپو سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ نیپلس کی بندرگاہ سے کوئی گھنٹہ بھر کی مسافت نیلے پانیوں میں تیرتے اس جنت نگاہ جزیرے تک پہنچا دیتی ہے۔ اور لوگ اس مکان کو ضرور دیکھتے ہیں جہاں جدید ادب کے اس پیامبر نے اپنے بچپن کی امر کہانی لکھ کر، پوری دنیا کو روس کی طرف متوجہ کیا تھا)۔

روس سے دور بیٹھ کر، جدائی کے درد میں بھیگے اس آوارہ گرد قلمکار کے خیالات میں مزید وسعت آئی۔ اس لیے اس آپ بیتی کے مشاہدات اور خیالات میں بڑا توازن ہے۔ نگاہ بلند ہے۔ اور جان پر سوز کی حکایتیں ہیں، روس کے اندر اس کا تحریری بیان جوش و جذبے کے ہنگامی انداز میں
سامنے آتا رہا تھا۔ مگر جزیرۂ کاپری کی نیلگوں وسعتوں اور سبزے نے اسے اس بیکراں زندگی کا احساس دلایا جسے افلاس ڈسی زندگیاں فراموش کر دیتی ہیں اور افرا تفری ہی سامنے رہتی ہے۔

"میرا بچپن" کی ایک اور خوبی مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ کہ گورکی کو اس دور کے کئی ورق جوں کے توں یاد ہیں۔ اس کا حافظہ غضب کا ہے۔ اور مشاہدے کی باریکی با کمال۔۔۔ اوائل عمر کے کتنے ہی ساتھی اپنی اپنی کہانی اور کردار خوبیوں خامیوں کے ساتھ، وہ ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے۔ ہم ساشا، سنکا، کوسترم اور خابی جیسے اٹھائی گیر ساتھیوں کی تصویری جھلکیاں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں گورکی اپنے تعفن چھلکاتے ان دنوں کی پردہ پوشی نہیں کرتا اور نہ ہی ہمارے اردو شاعر کی طرح التجا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ ان عذابوں سے فراریت کی راہ نہیں ڈھونڈھتا بلکہ ان کی نقاب کشائی کر کے اس زندگی کا مہیب چہرہ دکھاتا ہے، مثلاً:
"میں بھی چند پیسے کمانے لگا تھا۔ چھٹی کے دن صبح سویرے میں ٹوکرا لیے نکل جاتا۔ اور سڑکوں گلیوں میں کترن، ہڈیاں، کیلیں وغیرہ چنا کرتا۔ آدھ من لوہے، کاغذ یا کترن کے لیے کباڑیا مجھے چونی اور آدھ من ہڈی کے لیے دویی ( دو آنے ) دے دیتا۔ اسکول کے بعد شام کو بھی، میں یہ کام کرتا اور سنیچر کو ایک آدھ روپیہ کا کوڑا کباڑیے کو بیچ آتا۔ نانی یہ پیسے جھٹ اپنی گرہ میں چھپا کر میری بلائیں لیتی:
'خدا تیری عمر میں برکت دے میرے لاڈلے ! اس سے آج گھر بھر کی روٹیاں نکل آئیں گی۔ تو نے بڑا کام کیا۔'
ایک روز میرے ہاتھ سے اکنی لے کر وہ چپ چاپ رونے لگی اور میں نے دیکھا کہ آنسو كا ایک میلا قطرہ، اس کی آنکھ سے ٹپک کر ناک کے نیچے ٹھہر گیا تھا۔"

"کوڑا کرکٹ بٹورنے سے زیادہ مفید مشغلہ تو ندی کنارے کے ساگوان کے گوداموں سے تختوں اور شہتیروں کی "چوری" تھی۔ یہاں جب میلا لگتا تو لوہے کی بکری کے لیے عارضی دکانیں کھڑی کی جاتیں جو بعد میں اٹھا دی جاتیں اور تختے و شہتیر گوداموں میں ڈال دیے جاتے۔ ایک مضبوط تختہ دونی میں بک جاتا تھا۔ لیکن یہ تب ہی تھا جب موسم خراب ہو۔۔۔۔ ہمارے گاؤں میں چوری کا شمار کسی جرم میں نہ ہوتا تھا۔ یہ ایک رسم عام بن کر رہ گئی تھی اور غریب دیہاتیوں کے لیے ، اس کے سوا روٹی کھانے کا ذریعہ نہ تھا ۔۔۔"

اور اپنی پرورش و پرداخت کرنے والی نانی کا وہ "میلا آنسو" پونچھنے کے لیے گورکی نے کوڑے سے رزق اور چوری سے روٹی کمانا شروع کی۔
یہ گورکی کے یخ بستہ روس اور افلاس گزیدہ گاوں کا المیہ ہی نہیں۔ یہ دردناک اذیت پوری دنیا کی رگوں سے رس رہی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 2003 میں، میں نے ایک کالم "روڑی پھرول اور عید" لکھا اور پھر ان حقائق کو افسانوی رنگ دے کر ایک افسانہ لکھا "روڑی پھرول" ۔۔۔ کیونکہ گورکی کی آنکھ کا ایک 'میلا آنسو' میں نے کسی جوڑی کے حسرت و یاس میں ڈوبے چہروں پر مچلتے محسوس کیا۔ یہ ایک 'سچا واقعہ' تھا۔ جو افسانے میں ڈھلا اور میں نے اسے شاہد بخاری (نائب مدير ادب لطیف و سفید چھڑی) کو بھیج دیا۔
دوسرے دن تحسین و توصیف بھری ایک طویل ٹیلی فون کال موصول ہوئی، اتنی تعریف کہ مجھ جیسی بخیل قلمکار شرمسار ہوتی رہی۔ بہرحال "روڑی پھرول" میرے مستقل ڈائجسٹ "سیارہ" میں چھپنے کے علاوہ "سفید چھڑی (لاہور و سرگودھا)" میں بھی چھپا۔ پھر نکھار انٹرنیشنل اسلام آباد اور عوامی مزدور محاذ کے زیر اہتمام ماہنامہ "عوامی مشور" کے حوالے سے قارئین کے وسیع حلقے تک پہنچا۔ بعد ازاں یہ افسانہ، "یہ میرے دل پر گرنے والا آنسو" کولکتہ کے معروف ادبی پرچے "انشاء"
کے ذریعے دنیا بھر کے ادبی قارئین تک رسائی حاصل کر چکا تھا۔ اس افسانے کے حوالے سے مجھے ڈاکٹر صفات اے علوی ( بریڈفورڈ، برطانیہ) کا ایک مقالہ شدت سے اس وقت، ان سطور میں یاد آ رہا ہے۔ جو انہوں نے سال گزشتہ (2007) لکھا۔

"فرخ کے دس افسانے"
ان دس افسانوں میں "روڑی پھرول" بھی تھا۔ (یہاں میں اپنے غیر پنجابی قارئین کے لیے وضاحت کرتی چلوں کہ "روڑی" برصغیر کی معروف مقبول پنجابی زبان میں "کوڑے کرکٹ کی ڈھیری" کو کہا جاتا ہے۔ جبکہ "پھرول" وہ لوگ ہیں جو الٹ پلٹ کر اس میں سے اپنے مطلب کی روزی روٹی ڈھونڈتے ہیں)۔ ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ مقالے میں یہ بتا کر حیران کر دیا کہ 'روڑیوں' کو ذریعہ روزگار جاننے والے تیسری دنیا کے باسی ہی نہیں بلکہ دنیا کے انتہائی مہذب اور ترقی یافتہ ملک برطانیہ (جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا اور اس سورج کو اہل برطانیہ نے برطانیہ کو "برطانیہ عظیم" بنا ڈالنے کے لیے 'حرص و ہوس کی سرچ لائٹ' کے طور استعمال کیا۔ جس کی روشنی میں انہوں نے تیسری دنیا اور خصوصاً برصغیر کے 'خام مال' پر شب خون مارا۔ خود خوشحال ہو گئے، اور افلاس کی صدیوں رسیدہ سنڈیاں اس "سونے کی چڑیا" کے لیے چھوڑ گئے) میں بھی بہت بڑی تعداد ڈسٹ بنوں اور کوڑا دانوں سے اپنا رزق تلاش کرتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہیں 'روڑی پھرول' کی بجائے ویگرنٹ "VEGRANT" کہا جاتا ہے۔ بقول ڈاکٹر صاحب:
فرخ! یہ بات صرف تیسری دنیا میں ہی نہیں بلکہ مغرب اور بالخصوص امریکہ، برطانیہ کے خانگی کوڑے دانوں کی بھی ہے۔ یہاں پر روڑی پھرولنے کے لیے گندے جٹاواں بال لیے عورتیں اور مرد ہیں۔ اس فعل کو ویگرانسی کہتے ہیں۔ اور ویگرانٹ شاید تیسری دنیا کے غریب سے بھی زیادہ کسمپرسی میں اپنی زندگی گزار رہا ہے۔
اور اب 'گورکی کی آپ بیتی' بھی اپنے صفحات 319-318 پر خصوصاً اور پورے حصہ اول میں عموماً یہی افلاس راگ الاپ رہی تھی جسے اس داستان کو مختلف کردار ابھار کر سامنے لاتے ہیں۔ کردار نگاری کے ضمن میں کہا جاتا ہے کہ انہی کے افعال و اعمال اور عمل و ردعمل سے تحریریں تشکیل بھی پاتی ہیں۔ اور قارئین میں اپنا موثر حلقہ بناتے ہیں۔

"گور کی کی نانی" اس آپ بیتی میں سے میرا پسندیدہ کردار ہے۔ خود گورکی کی زندگی اور شخصیت کی تعمیر و توازن میں اسی ان پڑھ روسی خاتون کا حصہ ہے۔ اس لیے جہاں وہ اس کردار کا ذکر کرتا ہے اس کا قلم بھی ایک سرشار محبت میں بوند بوند ٹپکتا ہے۔ اس داستان حیات کے کئی ضمنی اور ذیلی کردار، ایک اسی کردار ( نانی اماں) کے برگد تلے نمایاں ہوتے ہیں۔ اس حقیقت پسند اور توانا کردار کے بغیر شاید یہ داستان اتنی مشہور نہ ہوتی اور نہ ہی گورکی "گورکی" بنتا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اس سوانح نگاری ٹائپ کی آپ بیتی کے مقدمہ میں بجا طور پر کہا ہے کہ:
"اس کتاب کے سب کردار نام بدل دیں تو 'زندۂ جاوید' ہر گلی کوچے میں چلتے پھرتے ملیں گے۔ اور نانی اماں کہانیاں سناتی، تہی دست طبقے کی عکاسی کرتی نظر آئے گی۔"

درد شناسی کا فلسفہ بھی اسی تانی نے گورکی کی رگوں میں اتارا تھا۔ جس نے اسے انسانوں اور نظاروں کے بارے میں غور کرنا سکھایا:
" دیکھو!۔۔۔ ایک ستارا گر رہا ہے۔ یعنی کوئی مظلوم روح درد میں مبتلا ہے۔۔۔ یا کوئی ماں اس دنیا کو یاد کر رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی گھڑی کسی نیک مرد یا عورت کا جنم ہوا ہے۔"

"ماں" یہ وہ شہرۂ آفاق ناول ہے جس کی بدولت میرا میکسم گورکی سے تعارف ہوا اور وہ مجھے روسی ادب کے حقائق کی طرف لے گیا۔ اس سوانح نگاری میں بھی ماں اور ماں کی ماں کا ذکر بڑی دلچسپی یا پھر بڑے درد کے ساتھ ملتا ہے۔
گورکی کا اصل نام الکسی پیشکوف تھا۔ وہ 30 مارچ 1868ء میں 'نزنی نووا گورو' میں پیدا ہوا۔ اس کا شفیق باپ اس کے ایام طفلی میں ہی اسے یتیم کر گیا۔ پرورش مہربان نانی اور کڑے تیوروں والے جابر فطرت نانا نے کی۔ اور ماں دوسری شادی کر لیتی ہے۔ گویا "میرا بچپن" ایک یتیم کی کہانی ہے۔ اور یہ معصوم و تشنہ رام کہانی، بین الاقوامی ادب میں خاص مقام رکھتی ہے، جس میں گورکی مبلغ نہیں بلکہ آرٹسٹ الکسی کے مشاہدے کا اوج کمال ہے۔ اس پر اس کی یادداشت غضب کی ہے۔ وہ آوارہ گردی کے ایام میں ملنے والے ہزاروں واقفان کار کے ہر اشارے و کنائے اور جملے کو اپنے ذہن کی ڈائری میں محفوظ کر لیتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
"میرا بچپن شہد کا ایک چھتا تھا۔ جس طرح شہد کی مکھیاں وہاں شہد لے لے کر آتی ہیں۔ سیدھے سادے اور گمنام انسان اپنے تجربے اور مشاہدے لے لے کر میرے پاس آئے اور اپنے تحفوں سے میری روح کو مالا مال کر گئے۔"
اور اس درد کے خزانے میں آخری صفحات اس ہستی سے منسوب ہیں جو اس کی ماں تھی اور جو کئی برس بعد اس کے پاس، اس کے نانا کے چھوٹے سے افلاس گزیدہ گھر میں لوٹ آئی تھی۔ مگر اس کی خوبصورتی ، طنطنہ، رعب و دبدبہ اس کے سوتیلے رنڈی باز عیاش اور قلاش باپ نے نچوڑ دیا تھا۔
"وہ تقریباً بےزبان ہو گئی تھی۔ اس کی گونج دار آواز اب نجانے کہاں چلی گئی تھی۔ اپنے کونے میں، دن بھر چپ چاپ، بے حرکت پڑی ہوئی ، وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بجھتی جا رہی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ موت کے۔ قریب ہے۔"
اور پھر اپنی ماں کے ساتھ گورکی کی زندگی کا وہ آخری صفحہ:
"اس کے بعد، جب میں گھر لوٹا۔ تو اماں (خلاف معمول) سجی سنوری، کنگھی چوٹی کیے کرسی پر بیٹھی تھی۔ اور پہلے کی طرح شاندار لگ رہی تھی۔ ڈرتے ڈرتے میں نے پوچھا:
"اب آپ کی طبیعت کچھ بہتر ہے کیا؟"
مجھے گھور کر اس نے کہا: "یہاں تو آنا۔ تو اب تک کہاں تھا؟"
جواب سننے سے پہلے، اس نے میرے بال پکڑ لیے اور ایک لمبی سی کپکپاتی ہوئی چھڑی، کئی بار ہوا میں گھما کر، اس کی موٹھ سے مجھے مارا اور چھڑی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر پڑی:
"اسے اٹھا کر مجھے دینا"۔۔۔۔۔۔
پر کرسی سے اٹھ کر، وہ اپنے پلنگ پر جا لیٹی اور رومال سے منہ کا پسینہ پونچھنے لگی۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ دو مرتبہ اس کے ہاتھ منہ کی بجائے تکیے سے جا لگے۔
"ایک گھونٹ پانی!"
جب میں کٹورے میں پانی بھر کر لایا تو بمشکل سر اٹھا کر، اس نے ذرا سا پانی پیا۔ پھر اپنے سرد ہاتھوں سے میرے ہاتھ کو ہٹا کر، اس نے ایک گہری سانس لی۔ پھر اس کونے کی طرف نظریں پھیر کر جہاں شہ نشیں ( مذہبی لوازمات ) تھا، اس نے مجھے ایک نظر دیکھا اور ہونٹوں کو ایسے جنبش دی گویا مسکرا رہی ہو۔۔۔
تب اس کی لمبی لمبی پلکوں نے آہستہ آہستہ آنکھوں کو ڈھانپ دیا۔
اس کی کہنیاں پسلیوں سے لگی ہوئی تھیں اور اس کے ہاتھ جن کی انگلیاں تڑپ رہی تھیں، سینے سے اٹھ کر گلے کی طرف گئے۔ اس کے چہرے پر ایک سایہ سا گزرا اور اس کی رنگت کو زردی دے کر، اعضاء میں ایک ابھار سا پیدا کر گیا۔ اس کا منہ یوں کھلا ہوا تھا گویا وہ محویت کے عالم ہو۔
لیکن اس کی سانس سنائی نہ دیتی تھی۔
معلوم نہیں میں کب تک بت بنا ہاتھ میں گلاس لیے، اپنی ماں کے پاس کھڑا رہا۔"
واقعی ! انسان یونہی کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے۔ اور باقی ساری عمر وہ لمحہ۔۔ ہجر کا وہ اذیت ناک لمحہ۔۔ اس سے جدا نہیں ہوتا۔ کہ بقول جگر:
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں

دائمی جدائی کا دردناک منظر۔ لمحہ بہ لمحہ خود میری روح کا درد اس وقت بنا جب میری زندگی کی سب سے دخیل، سب سے مشفق، سب سے مہربان سایہ دار ہستی مجھ سے جدا ہو رہی تھی۔ میرا باپ روح و تن کی کشمکش میری آنکھوں میں اتار کر چلا گیا۔ تب ان کا لس لس کرتا وہ لمبی لمبی انگلیوں کی نزم پوروں والا ہاتھ، میرے ہاتھوں میں بھنچا ہوا تھا۔ دل فریاد کر رہا تھا۔
مگر جانے والے چلے جاتے ہیں
اور منظر آنکھوں میں ٹھہر جاتے ہیں

لیکن گورکی کے ساتھ کچھ اور بھی ہوا، جب اس دلخراش ابدی منظر کی چیھن کے محض چند روز بعد اس کے نانا نے کہا:
"میاں الکسی! اب میں تمہارا بار اٹھا نہیں سکتا۔ میرے گھر میں تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دنیا میں جاؤ اور اپنی راہ تلاش کرو۔"
اور اس قہربار دن، گورکی نے ابھی عمر کے پہلے عشرے کو بھی مکمل نہیں کیا تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آپ بیتی گورکی کی بہترین تصنیف ہے۔
عظیم محقق و نقاد اطہر رضوی (کینیڈا) روسی ادب کے بارے میں بالکل بجا کہتے ہیں کہ :
روسی عوام کے لیے کسی بڑے مصنف یا شاعر کی تخلیق کی اشاعت اور تقریب اجراء کی خبر ایک غیر معمولی واقعے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بک سیلرز کے دروازوں پر ایسا ہجوم ہوتا ہے، اور سڑکوں پر وہ اژدہام کہ ٹریفک پولیس کا اضافہ کرنا پڑتا ہے۔

***
ماخوذ از رسالہ:
ماہنامہ انشاء (کولکاتا) ، شمارہ: جنوری-فروری-2011

My childhood, the autobiography of Maxim Gorky. Article: Ms. Farrukh Sabari

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں