قاعدہ بےقاعدہ خاکوں کا تعارف - شوکت تھانوی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-08-19

قاعدہ بےقاعدہ خاکوں کا تعارف - شوکت تھانوی

qaida-beqaida-shukat-thanvi

معروف و ممتاز مزاح نگار شوکت تھانوی کی ایک دلچسپ اور قابل مطالعہ کتاب "قاعدہ بےقاعدہ" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش کی جا چکی ہے۔
اسی کتاب کا پیش لفظ (عرض مصنف) اور دیباچہ (ابتدائیہ) ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔

ابتدائیہ -- از: محمد طفیل
اس بے قاعدہ کو اپنی طرف سے بڑے قاعدے کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے باوجود چند اسباق بے قاعدہ ہو گئے ۔
یہ قاعدہ آج سے کئی برس پہلے لکھا گیا تھا۔ اس وقت حرفوں کی زد میں آنے والے تمام ادیب زندہ تھے ۔ آج جب یہ قاعدہ چھپ کر بازار میں آرہا ہے ، تو ان میں سے منٹو مولانا ظفر علی خان۔ پطرس اور یگانہ اللہ کو پیارے ہوکر بھی زندہ ہیں۔میرا جی کو بھی تھوڑی سی رعایت کے ساتھ زندوں میں شمار کرلیجئے ۔
شوکت تھانوی صاحب کی یہ کوشش تھی کہ اس قاعدہ میں صرف زندہ ادیبوں کا ذکر آئے گا۔ مگر وہ اپنی کوشش میں پورے کامیاب نہیں ہوئے ۔ان میں بعض زندہ ادیب مرے ہوئے بھی ہیں۔مثال کے طور پر راقم الحرو ف اور اس کے ساتھ وغیرہ وغیرہ۔
اس قاعدہ میں واقعات کی غلطی بھی کھٹکے گی۔ اس میں مصنف کا کوئی قصور نہیں۔جب دنیا ہی کے حالات ہر لحظہ بدلتے ہوں تو اہل قلم کے حالات جوں کے توں کیسے رہتے ۔ یہی وجہ ہے کہ جو ادیب آج سے پہلے باکار تھا۔ آج بے کار ہوچکا ہے یا جو آج باکار ہے وہ پہلے بے کار تھا۔ کچھ کے مشغلے بدلے اور منصب بھی، جیسے غلام مصطفی تبسم آج سے پہلے گورنمنٹ کالج میں اردو پڑھاتے تھے ، آج خود فکر معاش کا درس لے رہے ہیں۔ پطرس اب سے پہلے پاکستان کے یو۔ این ۔او میں نمائندہ تھے ۔ آج وہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کا دورہ کرنے آتے ہیں۔ ایسے تمام تغیر و تبدل کے باوجود اس قاعدہ کی ہمہ گیری اور افادیت میں کوئی فرق نہ آئے گا۔
یہ قاعدہ پختہ عمر کے بچوں کے لئے لکھا گیا ہے، اس کے مطالعہ سے شعور بالغ ہوگا۔

عرض مصنف -- از: شوکت تھانوی
یہ ادبی قاعدہ، بے ادبی معاف، لاکھ بے قاعدہ سہی مگر وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے حسب حال ضرور ہے۔ زمانہ بدل کر کچھ کا کچھ ہوچکا ہے، مگر ہماری تعلیم کا سنگ بنیاد یعنی ہمارا قاعدہ آج بھی وہی ہے جو ہمارے آبا و اجداد کے زمانے میں تھا۔ حالانکہ وہ زمانہ دوسرا تھا۔ اس وقت پڑھنا زیادہ ضروری تھا اور آج پڑھنا اتنا ضروری نہیں جتنا لکھنا ضروری ہے ۔ یہ بے شمار ادبی رسالے اور ان رسالوں میں لکھ نے والوں کا ٹڈی دل اس بات کا ثبوت ہیں کہ ادب کا پیٹ صرف علم سے نہیں بلکہ جہل سے بھی بھرا جاسکتا ہے ، اور ہمارا موجودہ ادب جو آج خدا کے فضل و کرم سے اس قدر فروغ پر ہے کہ اس کے لئے برتھ کنٹرول کی صورت میں پیپر کنٹرول کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ۔ یقینا سسک سسک کر دم توڑ دیتا اگر قید صرف یہ ہوتی کہ صرف پڑھے ہوئے لوگ لکھیں تو نہ اس قسم کے لوگ ملتے ، نہ رسالوں کا پیٹ بھرتا اور نہ یہ رسالے ہمارے ادب میں چہل پہل پیدا کرتے ۔ وہ تو کہئے کہ خدا کا کرنا کچھ ایس ہوا کہ ادیب اور شاعر بننے کے لئے صرف تلمیذ الرحمن ہونا کافی سمجھا گیا اور ہر خدا کے بندے کو یہ پیدائشی حق حاصل رہا کہ وہ خواہ کچھ اور بن سکے یا نہ بن سکے مگر شاعر اور ادیب تو جب چاہے بن سکتا ہے ۔ نہ اس کے لئے کسی سند کی ضرورت ہے نہ کسی لائنسنس کی ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمارے فنون لطیفہ میں سے ہمارا ادب جس قدر لطیفہ بنا ہے اور کوئی فن اس سیلابی کیفیت میں مبتلا نہ ہو، اخیر کچھ بھی ہو مگر اس کی بدولت اردو زندہ ضرور رہی خواہ درگور رہ کر زندہ رہی ہو ۔
تجربہ سے ثابت یہ ہوا ہے کہ اردو کو اگر واقعی آئندہ بھی زندہ رکھنا ہے تو اسی قسم کی زبردستی کرنا پڑے گی۔ یہ تو ہونے سے رہا کہ ہم صحیح قسم کے پڑھے لکھے لوگ پیدا کرنا شروع کردیں ۔ کسی زبان اور کسی ادب میں اتنے پڑھے لکھے لوگ ممکن ہی نہیں جتنے ارد وکو یا یوں کہئے کہ اردو کے ادبی رسالوں کو درکار ہیں۔نتیجہ یہ کہ ہم کو پڑھے نہیں بلکہ صرف لکھے ہوئے لوگوں پر قناعت کرنا پڑے گی اور یہی ہمارے ادیب، ہمارے شاعر ، ہمارے ادب کے علمبردار اور ہماری زبان کے سرپرست بن کر اردو کو مارمار کر زندہ رکھیں گے یعنی اردو کو مرنے کی بھی اجازت نہ ہوگی۔
آپ حیران نہ ہوں اور صرف لکھے لوگ کی ترکیب ہے اتنے اجنبی بننے کی کوشش نہ کیجئے ۔ یہ آپ کے ادب اور آپ کی شاعری کے محسن ہیں جو اس وقت کام آئے ۔ جب آپ کی اردو، یہ بے ماں کی بچی موت کے منہ میں جاچکی تھی ۔ ایک مہذب اور متمدن خاتون کے مرنے کے بعد اس کی بچی کو ایک انا کے سپرد کردیاجاتا ہے۔اور یہ احتیاطیں سامنے نہیں ہوتیں کہ انا کون ہے ، کیاہے، خواہ وہ گنوار ہو ، پست اقوام میں سے ہو۔بد صورت اور گھناؤنی ہومگر چونکہ اسی کا دودھ پی کر یہ بچی زندہ رہ سکتی ہے لہٰذا وہ اسی کے سپرد کردی جاتی ہے۔اردو بھی ایک ایسی ہی بچی ہے ، اس کی والدہ کا انتقال پر ملال ہوچکا ہے اور اب وہ اپنی انا کی گود میں پل رہی ہے ۔ اردو کی یہ انا یہی پڑھے لوگ ہیں، جو جلدی میں تھوڑا بہت پڑھ کر اب اطمینان سے بیٹھے لکھ رہے ہیں۔ اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ تم کیا لکھ رہے ہو ۔ اور کیوں لکھ رہے ہو؟
قصہ در اصل یہ ہے کہ ہمارے یہاں پڑھے لوگ اول تو اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے اور جب وہ پیدا ہوجاتے ہیں اور پڑھ جاتے ہیں تو ان کی بلا کو کیا غرض پڑی ہے کہ وہ اردو کی خدمت کریں اور اس اردو کی جو خود اپنے وطن میں مہاجر انہ زندگی بسر کررہی ہے، وہ زندہ زبانوں کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور مادری زبان کو گھر کی کھیتی سمجھ کر اجڑنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ اردو کو اپنا محسن ان ہی کو سمجھنا پڑے گا ، جو پڑھے لکھے ، نہیں بلکہ صرف لکھے لوگ ہیں۔
یہ لکھے لوگ در اصل پیدائشی ادیب اور شاعر ہوتے ہیں اور ان کا سہارا صرف یہ مقولہ ہے کہ ادیب یا شاعر بنتا نہیں بلکہ پیدا ہوتا ہے، چنانچہ آپ اس سے تو یقینا انکار نہیں کرسکتے کہ یہ پیدا ہوئے ہیں اور چونکہ یہ پیدا ہوچکے ہیں لہذا ان کے کے لئے یہ ناممکن ہے کہ یہ ادب کی خدمت نہ کریں ۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو اسی خدمت کے جوش میں مکتبوں سے بھاگے ہیں۔ بہت سے وہ ہیں جو اسی ولولے سے مجبور ہوکر تعلیم کی تکمیل کا انتظار نہ کرسکے ۔ اور زیادہ تعداد ان بے گناہوں کی ہے جو ایمانداری کے ساتھ ادب کی خدمت نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ زندگی کے لئے کسی اور سہارے کی تلاش میں تھے۔انبے چاروں نے دفتروں کے چکر لگائے مختلف تجارتی دھندے آزمائے ، سعی اور سفارش کا کوئی امکان باقی نہ چھوڑا ضرورت ہے کے اشتہار پڑھ پڑھ کر اپنی عینکوں کے نمبر بڑھائے اور پھر جب کچھ نہ بن سکے تو ادیب اور شاعر بننا ہی پڑا بے چاروں کو ، یہی ان کے بس کا ایک دھندا تھا ۔ جس میں وہ لگ گئے اور آپ جانتے ہیں کہ جو ایک مرتبہ شاعریا ادیب بن گیا پھر وہ دنیا کے کسی کام کا نہیں رہتا ۔ کرے تو کیا کرے ؟ آپ خود ہی بتائیے کہ اگر شاعروں کے پلیٹ فارم اتنے مرنجاں مرنج نہ ہوتے جتنے وہ نظر آتے ہیں تو ریلوے پلیٹ فارم کے علاوہ یہ بیچارے اور کس پلیٹ فارم پر پہنچ سکتے تھے ۔اتنی آسانی سے کسی اور فن کا فنکار اس قدر نہیں اچھل سکتا ، جس قدر یہ شعر بنانے والے صناع اچھل جاتے ہیں۔ ایسی سستی شہرت اور کہاں حاصل ہوسکتی ہے ۔ ہلدی لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آئے۔ یہ سچ ہے کہ بظاہر یہ مشغلہ ذریعہ معاش نہیں مگر شگل بیکاری تو ہے اور اگر قسمت ساتھ دے جائے تو روزی کو حیلہ تو چاہئے وہ شعر و شاعری کا حیلہ بھی ہوسکتا ہے ۔
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے اب یہ روز بروز طے ہوتاجارہا ہے کہ اس دور میں پڑھنا اتنا ضروری نہیں تھا جتنا لکھنا ضروری ہے اور چونکہ کچھ نہ کچھ لکھ سکنے کے لئے اردو کی ایک آدب کتاب پڑھنا بھی ضروری ہے لہذا ہمیں ضرورت ہے اب ایسے قاعدے اور ایسی پہلی دوسری کتاب کی جو صرف اتنا پڑھا سکے کہ طالب علم بس لکھنا شروع کردے پھر تو اللہ مالک ۔ املا وغیرہ کی غلطیاں لکھنے سے خود بخود یا تو رائج ہوجائیں گے ورنہ دور ہوجائیں گے ۔ تذکیر و تانیث کے جھگڑے یوںبھی مختلف فیہ ہیں اور مستقل طور پر فساد کی جڑ اس طرح یا تو مستقلاً مختلف فیہ ہوجائیں گے ۔ ورنہ یہ اختلاف ہی ختم ہوجائے گا۔ آخر بغیر تذکیر و تانیث کے بھی اکثر زبانیں زندہ رہ تی ہیں ۔ مطلب تو یہ ہے کہ کسی طرح اردو زندہ رہے ۔ اردو کے سلسلے میں بار بار ان خاص صاحب کی مثال سامنے آرہی ہے کہ خدا نے بڑھاپے میں ایک اولاد نرینہ عطا فرمائی تو اس نے ہوش سنبھالتے ہی مرنا شروع کیا حسینوں پر، اور جب محلے والوں کی شکایتیں آنا شروع ہوئیں کہ خانصاحب آ پ کے صاحبزادے بد معاشی پر اتر آئے تو خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ اس باپ کو، بڑے خلوص سے کہا کہ صاسحب میں تو صرف اس کی زندگی چاہتاہوں، وہ بد معاش ہوکر ہی جی جائے تو بہت ہے ۔ اردو کے متعلق بھی اس غوروفکر کا اب زمانہ نہیں رہا کہ وہ کیا تھی اور کیا ہوگئی ہے ، شکر ادا کیجئے اگر وہ ندہ ہی رہ جائے ۔ اور دیکھ لیجئے گا اس کو اگر زندہ رکھیں گے تو یہی لکھے لوگ یہی اردو کے رسائل کا پیٹ بھرنے والے یہی مشاعروں میں اپنے تخلص لے کر شرکت کرنے والے یہی خودروادیب اور یہی خود ساختہ شاعر۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادیب اور شاعر بنتے کیسے ہیں؟ اس تفصیل کا اجمال تو صرف یہ ہے کہ بس بن جاتے ہیں، مگر یہ اجمال شاید باعث تشکیل نہ ہو۔
شاید تری سمجھ میں روداد غم نہ آئے
ڈرتا ہوں آرزو کی تشریح مختصر سے
اس لئے تفصیل میں جانا ہی پڑے گا سیاسی اعتبار سے نام اسی وقت اچھل سکتا ہے جب لیڈری کے درجہ تک پہنچے پہنچتے آدمی خاصہ لنڈورا بن چکتا ہے ۔ بیوی اس کی زندگی ہی میں اپنے کو بیوہ سمجھ کر صبر کرلیتی ہے ۔ بچے یتیم خانے میں داخل ہوچکتے ہیں۔ اور یہ حضرت ہر طرف سے بے نیاز ہوکر صرف سیاست کے نیاز مند باقی رہ جاتے ہیں۔ آدھی زندگی جیل میں اور آدھی جیل کی تمنا میں بسر کرچکتے ہیں ۔ اسی طرح نامور طبیب، نامور پہلوان، نامور وکیل اور ہر طرح کا نامور ہونے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا بھی پڑتا ہے ۔ صرف یہ آسانی منجانب اللہ ادب اور شعر کو حاصل ہے کہ ایک غزل پڑھ کر اور مشاعرے کے سامعین کو اپنی خوش الحانی سے بے وقوف بناکر ایک آدمی شاعر مشہور ہوسکتا ہے ایک مضمون لکھ کر اور مضمون کے ساتھ ایک تصویر چھپوا کر آدمی مضمون نگار بن جاتا ہے۔ اس آسانی سے اگر کوئی فائدہ نہ اٹھائے تو یہ کفران نعمت کے سوا اور کیا ہے ۔
یہ ادیب اور شاعر جب رسالوں میں ادیبوں اور شاعروں کو حضرت اور مولانا لکھا ہوا دیکھتے ہیں تو خود بھی حضرت اور مولانا بننے کو جی چاہتا ہے ۔ یہ ادیب اور شاعر مشاعروں میں دیکھتے ہیں کہ ایک واجبی سا آدمی اسٹیج پر گیا اور داد کے خزانے لوٹ لایا تو ان کو بھی ایک تخلص و جستجو ہوتی ہے اور اگلے مشاعرے میں وہ بھی ایک تخلص لے کر شرکت کرتے ہیں اور داد پاکر ان کو احساس ہوتا ہے کہ ہم خواہ مخواہ اب تک گمنامی میں پڑے رہے۔ ان ادیبوں اور شاعروں کو ادیب اور شاعر بننے کا شوق ان ادیبوں اور شاعروں کی شہرت سے کچھ اور بھی زیادہ ہوتا ہے جو بے شمار پاپڑ بیل کر اس شہرت کے مستحق ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ ان کے چربے اتارتے ہیں۔ ان کے نقوش قدم ڈھونڈتے ہیں اور ان ہی کے راستوں سے ان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی قسم کے چند مشہور ادیب اور شاعر اس قاعدے میں جمع کردئیے گئے ہیں، تاکہ ان کے متعلق تازہ واردان بساط ادب و شعر کوابتدائی معلومات حاصل ہوجائیں ۔ یہ تازہ واردالف سے انڈا نہیں چاہتے ، وہ تو امتیاز علی تاج کی طرح انار کلی کے مصنف کی حیثیت سے مشہور ہونا چاہتے ہیں لہذٰا ان کو الف سے امتیاز علی تاج ہی کیوں نہ پڑھا جائے تاکہ صرف یہ قاعدہ پڑھ کر وہ براہ راست امتیاز علی تاج بننے کی کوشش شروع کردیں ۔ یعنی امتیاز علی تاج اپنی کوشش سے امتیاز علی تاج بنے ہیں تو وہ بغیر کسی کوشش کے امتیاز علی تاج بن جائیں ۔
یہ قاعدہ جس قدر بے قاعدہ ہے اسی قدر براہ راست ہے تعلیم کا مقصد جب تعلیم تھا وہ دورگزر چکا۔ اب تعلیم کا مقصد وہ ہے جو اس قاعدے سے حاصل ہوگا ۔ اس قاعدے میں جن ادیبوں اور شاعروں کا ذکر ہے ان کی شہرت کو رشک سے دیکھنے والے یہی تو چاہتے ہیں کہ وہ خود بھی ان ہی جیسے بن جائیں ۔ چنانچہ ابتدا ہی میں ان سے تعارف کرادینا ضروری سمجھا گیا۔
اس قاعدے کو محکمہ تعلیم منظور کرے یا نہ کرے مگر یہ قاعدہ منظور نظر ضرور بن کر رہے گا۔ اس لئے کہ یہ بڑی مقصدی چیزہے، محکمہ تعلیم کامقصد تو کلرک سازی ہے یہ قاعدہ اردو کے محافظ ، اردو کے مسیحا اور اردو کے وہ محسن پیدا کرے گا جو اردو کو اگر ماربھی ڈالیں تو بھی ادب اردو کو زندہ رکھیں گے ۔ انشاء اللہ۔

ماخوذ از کتاب:
قاعدہ بےقاعدہ
مصنف : شوکت تھانوی

Qaida Beqaida preface. By: Shaukat Thanvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں