کیا خوب آدمی تھا - ریڈیو کا سلسلہ تقاریر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-09

کیا خوب آدمی تھا - ریڈیو کا سلسلہ تقاریر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

آل انڈیا ریڈیو (جس کا بعد میں نام "آکاش وانی" یعنی 'آسمانی آواز' رکھا گیا) کا آغاز غیرمنقسم ہندوستان میں 1936 میں ہوا تھا، جو ترقی پسند تحریک کی بنیاد کا بھی سال رہا ہے۔ 1939-40 کے دوران اس ریڈیو نے اپنے ایک 'سلسلۂ تقریر' میں اپنے سامعین کو ملک کے کچھ ایسے ممتاز و مقبول لوگوں کی کہانیاں سنائیں، جو بعد میں بصورت تحریر کتابی شکل میں بھی پیش کی گئیں۔
یہ کتاب تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔ تقریباً 120 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اپنے آغاز 1936 سے سن 1949تک آل انڈیا ریڈیو سے خبریں ہندوستانی زبان میں نشر کی جاتی تھیں۔ خبروں کے لئے اردو اور ہندی کی مخلوط زبان کا استعمال اس لئے کیاجاتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ عام لوگ سمجھ سکیں۔
آل انڈیا ریڈیو نے ابتدائی زمانے سے ہی انفارمیشن ایجوکیشن اور انٹر ٹینمنٹ یعنی اطلاعات ، تعلیم اور تفریح کا ایک مرکب تیار کیا تھا۔ ریڈیو نے ایک طرف اطلاعات فراہم کرنے کا کام کیا تو دوسری جانب تعلیمی بیداری اور صحتمندتفریح کا سامان بھی فراہم کیا۔ ریڈیو پروگرام میں تعلیم تفریح اور اطلاعات کا تناسب بدلتا رہتا ہے ۔ اسی لئے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی ریڈیو میں آج بھی دلچسپی برقرار ہے ۔
ریڈیو نے ہر فکر، ہر عمر اور ہر پسند کے لوگوں کا خیال رکھا ہے ۔ اسی سبب ریڈیو اپنی افادیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہے ۔ بات خبروں کی ہو یا فلمی نغموں کی ، ریڈیو نے سامعین کی پسند کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے وقار اور اعتبار کا بھی خیال رکھا ہے ۔ پسند ناپسند اپنی جگہ لیکن اپنے طویل سفر میں آل انڈیا ریڈیو نے کبھی اپنے اعتبار کو مجروح نہیں ہونے دیا ، یہ بڑی بات ہے۔

اس کتاب کے "تعارف" ڈاکٹر سید عابد حسین لکھتے ہیں ۔۔۔
انسانوں کی زندگیاں کائنات کے سمندر میں لہروں کی طرح ہیں جو تھوڑی دیر کے لئے سطح بحر سے ابھرتی ہیں اور پھر اسی میں مل جاتی ہیں۔ یہ لہریں دیکھنے والوں کو ایک سی دکھائی دیتی ہیں اور ایک ہی ڈھرے پر چلتی ہوئی معلوم ہوئی ہیں مگرکبھی کبھی ہوا کے تھپیڑے سے کوئی زبردست موج اٹھتی ہے، جس کی قوت اور حرکت اس یکسانی اور سکون کے طلسم کو توڑ کر دور تک سطحِ آپ میں ہلچل پیدا کر دیتی ہے۔
ایسی جاندار اور جاں بخش شخصیت ہر زمانے میں، خصوصاً اس جمود کے دور میں، جس سے ہمارا ملک گزر رہا ہے، عام لوگوں کے لئے دلکش بھی ہوتی ہے اور صبر آزما بھی۔ وہ اس کی طرف کچھ شکر کی، کچھ شکایت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں:
کوئی ہو محرمِ شوخی ترا تو میں پوچھوں
کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

آل انڈیا ریڈیو مبارکباد اورشکریے کا مستحق ہے کہ اس نے ہمیں ایک سلسلۂ تقریر میں اپنے ملک کے کچھ ایسے لوگوں کی زندگی کی کہانیاں سننے کا موقع دیا جنہوں نے اپنے جامد ماحول میں کسی نہ کسی قسم کی حرکت پیدا کی یا شاعرکی زبان میں "بزمِ عیش جہاں" کو کسی نہ کسی حد تک برہم کیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اسے ان بزرگوں میں سے اکثر کے "محرمِ شوخی" ہاتھ آ گئے، جنہوں نے ہمیں ان کی زندگی کے بھید، کانوں کے سنے نہیں بلکہ آنکھوں کے دیکھے کہہ سنائے۔
ہمیں "حالی پبلشنگ ہاؤس" کا بھی شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے آواز کی مضطرب لہروں کو حرفوں کے نقوش میں قلمبند کر کے ہمارے لیے ایک پائیدار ازلی نعمت مہیا کرد ی۔

- ڈاکٹر سید عابد حسین۔ 28/جولائی 1941

علامہ راشد الخیری کی شخصیت پر نشرکردہ اپنے خاکے میں ملا واحدی کہتے ہیں ۔۔۔
مولانا شادی کی محفلوں میں زیادہ شریک نہ ہوتے تھے، لیکن تکلیف اور غم اپنے تو اپنے غیروں کے ہاں بھی سنتے تو تڑپ جاتے۔ غریب سے غریب مسلمان کے جنازے کے ساتھ چالیس قدم جانا اب صرف مولانا پر فرض رہ گیا تھا۔ نصیر خان اور اس کی بیوی مولانا کے "تربیت گاہ بنات" میں ملازم تھے۔ بڑھیا بچیوں کو گھروں سے لانے کا کام کرتی تھی اور بڈھے کے سپرد ڈیوڑھی بانی تھی۔ بڈھا مرنے لگا تو راشد الخیری اپنی بیگم کو ساتھ لے کر اس کے تنگ اور تاریک مکان میں جا بیٹھے اور پوری رات مرنے والے کے سرہانے آنکھوں میں کاٹ دی۔

ممتاز حسین ، علامہ اقبال کی خوش مذاقی کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں ۔۔۔
اقبال کی خوش طبعی ایک خاص چیز تھی۔ موضوع کتنا ہی متین کیوں نہ ہو، اسے وہ اکثر مذاق کی چاشنی دے دیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ ایک صاحب جو اقبال کی خدمت میں اکثر حاضر ہوا کرتے تھے، کچھ دنوں کے وقفہ کے بعد ملنے آئے۔ اقبال نے دیر سے آنے کا سبب پوچھا۔ ان صاحب نے افسوس کے لہجے میں فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب، کیا کریں عجیب مصیبت ہے۔ دنیا کے دھندے ایسے ہیں کہ فرصت اگر مل بھی جاتی ہے تو وقت نہیں ملتا۔
اقبال یہ سن کر بہت ہنسے اور ان صاحب سے کہا کہ آج تم نے وہ بات کہی جو آئین اسٹائن کے باوا کے ذہن میں بھی نہ آئی ہو۔

منشی پریم چند کی شخصیت کے ایک پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے جے۔ نندر کمار کہتے ہیں ۔۔۔
مجھے وہ دن یاد ہے، کلکتہ سے لوٹا تھا، پریم چند کھاٹ پر پڑے تھے۔ بیمار تھے اور وہ موت کی بیماری ثابت ہونے والی تھی۔ جسم زرد ہو گیا تھا، ہڈیوں کے سوا اس تن میں کیا باقی رہ گیا تھا؟
لیکن دیکھتا ہوں کہ ان کی آنکھوں میں اب بھی میٹھے سپنے بھرے ہیں اور چہرے پر بشاشت ہے۔ ان کے دل میں نہ کوئی شکایت ہے اور نہ کوئی میل ہے۔ بیماری کے وقت شدت مرض میں تقدیر سے ہر کوئی ناراض ہو جاتا ہے اور طبیعت چڑچڑی ہو جاتی ہے لیکن کھاٹ پر پڑے پڑے پریم چند کو اس دن بھی اپنی حالت کی فکر نہیں تھی، بلکہ انہیں یہ فکر تھی کہ ہم کو کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی ہے؟
بولے: جےنندر، دکھ میں ایشور ملا کرتے ہیں لیکن مجھے اب بھی اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوئی ہے، معلوم ہوتا ہے آخر تک ایشور کو تکلیف نہیں دوں گا۔
آج بھی اس حالت کو معلوم کر کے میں تعجب کرتا ہوں کہ وہ کیا طاقت تھی جو موت کے سر پر آ جھولنے پر بھی پریم چند کو پرسکون بنائے رکھتی تھی؟

یہ بھی پڑھیے:
ہندوستانی نشریات کا ابتدائی منظر نامہ
وودھ بھارتی - تاریخ کے کچھ اوراق - رفعت سروش

***
نام کتاب: کیا خوب آدمی تھا (ریڈیو سے نشرشدہ خاکے)
مرتب: ڈاکٹر سید عابد حسین
تعداد صفحات: 120
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Kya khoob Aadmi tha, Radio Speeches

Direct Download link:

کیا خوب آدمی تھا - آل انڈیا ریڈیو سے نشرشدہ خاکے :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانقلمکارصفحہ نمبر
1مولانا راشد الخیریملا واحدی5
2مولانا الطاف حسین حالیخواجہ عبدالمجید دہلوی14
3مولوی نذیر احمد دہلویمولوی عبدالرحمن23
4چکبست لکھنویپنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی32
5داغ دہلویبےخود دہلوی44
6منشی پریم چندجے نندر کمار52
7مسیح الملک حکیم اجمل خاںحکیم ذکی احمد دہلوی64
8ڈاکٹر مختار احمد انصاریمحمد غالب دہلوی78
9علامہ اقبالممتاز حسین88
10سر راس مسعودخواجہ غلام السیدین99
11مولانا محمد علیمولانا عبدالماجد دریاآبادی110

Kya khoob Aadmi tha, a collection of radio speeches at AIR, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں