پچاس سال قبل حیدرآباد میں اسٹوڈنٹس کنونشن کا پہلا سشن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-08

پچاس سال قبل حیدرآباد میں اسٹوڈنٹس کنونشن کا پہلا سشن

students-convention-at-hyderabad-state

پچاس سال قبل نومبر 1943ء میں آل حیدرآباد اسٹوڈنٹنس کنونشن کا پہلا سشن حیدرآباد شہر میں منعقد ہوا تھا۔ اس سشن کے بارے میں آندھرا پردیش اسٹیٹ آرکائیوز سے اہم راز کا مواد دستیاب ہوا ہے جس میں سشن کی تفصیلی روائداد پر مبنی راز کی باتیں بھی شامل ہیں۔
اس سے ایک سال قبل بھی اس یونین کے کنونشن کا 11/دسمبر 1942ء کو انعقاد عمل میں آچکا تھا لیکن اس میں شرکا کی تعداد کم تھی۔ صدر استقبالیہ کے شریک نہ ہونے کی وجہ سے جو خطبہ استقبالیہ اور صدارت ملتوی کر دئے گئے تھے اس کے علاوہ ریاست کی کوئی اہم اور ممتاز شخصیت اس میں شریک نہیں تھی غالباً یہی وجہ تھی کہ نومبر 1943ء میں منعقد ہونے والے سشن کو آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس کنونشن کا پہلا سشن کہا گیا۔
آرکائیوز سے دستیاب شدہ مواد کے ذریعے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ پچاس قبل حیدرآباد کے باشعور نوجوان کن رجحانات کے حامل تھے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے حیدرآباد میں نئی نسل کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونے والی شخصیتیں کون سی تھیں۔ اس زمانے کے حالات کیا تھے اور ان کی جانب طلبہ اور نوجوانوں کا رویہ کیا تھا۔ اس بات سے بھی آگاہی ہوتی ہے کہ تعلیم یافتہ اور زیر تعلیم نئی نسل پر بائیں بازو کے خیالات کی چھاپ گہری تھی جو چند سال بعد نمایاں طور پر کم ہو گئی۔ اس کے علاوہ حکومت وقت کی جانب سے تحریر و تقریر کی آزادیوں اور دیگر بنیادی حقوق پر جس قسم کی تحدیدات اس زمانے میں موجود تھیں اس پر بھی روشنی پڑتی ہے۔

آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس کنونشن کے پہلے سشن کے راز کی رپورٹ جسے اس وقت کے کوتوال بلدہ حیدرآباد رحمت یار جنگ نے معتمد تعلیمات و امور عامہ کو پیش کی تھی بڑی اہمیت رکھتی ہے اس سے نہ صرف 'سہ روزہ سشن' کی تفصیلات منظر عام پر آتی ہیں بلکہ حیدرآباد میں طلبہ کی ابتدائی یونین سر گرمیوں کا ایک واضح خاکہ بھی ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ طلبہ کی سرگرمیوں سے حیدرآباد کی چند نامور شخصیتوں کی دلچسپی اور وابستگی کا بھی پتہ چلتا ہے جن میں سے اکثر ملک گیر یا بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں ، جیسے سروجنی نائیڈو، پدمجانائیڈو، قاضی عبدالغفار، ڈاکٹر سید عبداللطیف، ڈاکٹر ایشور ناتھ ٹوپا، علی اختر، اکبر وفاقانی، مخدوم محی الدین، ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، صاحبزادہ میکش اور سلیمان اریب وغیرہ۔
کوتوال بلدہ حیدرآباد کے راز کی رپورٹ کے مطابق سشن کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:

آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس کنونشن کا پہلا سشن، آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے زیر اہتمام خانگی طور پر 12، 13 اور 14 نومبر 1943ء کو منعقد ہوا۔ تقریباً تین ہزار طلبہ اور دیگر افراد کو دعوت نامے جاری کئے گئے تھے لیکن شرکت کرنے والوں کی تعداد حوصلہ افزا نہیں تھی اور کسی بھی نشست میں چار سو سے زیادہ طلبہ موجود نہیں تھے یہ سشن حسب ذیل پروگرام پر مشتمل تھا۔
1۔ اصل اجلاس (Proper Session) بصدارت قاضی عبدالغفار، ایڈیٹر پیام۔
2۔ مشاعرہ زیر صدارت سید محمد اکبر وفاقانی
3۔ کلچرل کانفرنس۔ سشن کی آخری نشست بصدارت ڈاکٹر سید عبداللطیف۔

اصل اجلاس (Proper Session)کا آغاز سینٹ جارجس جمنازیم میں 12 نومبر کو 9 بجے صبح پرچم کشائی کی تقریب سے ہوا۔ مس پدمجا نائیڈو نے ایک بڑا سرخ پرچم ساٹھ طلبہ کے اجتماع میں لہرایا۔ جس پر آزادی، امن اور ترقی کے الفاظ تحریر تھے۔ پرچم کشائی کے بعد مس پدمجا نائیڈو نے مختصر تقریر کی۔ جس میں انہوں نے طلبہ سے اپنے آپ کو اس رول کے لئے تیار کرنے کے لئے کہا جو انہیں مستقبل میں ادا کرنا ہے۔
انہوں نے موجودہ نازک دور میں دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے باخبر رہنے کی تاکید کی لیکن عملی سیاست میں داخل نہ ہونے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد مسز سروجنی نائیڈو کا پیام پڑھ کر سنایا گیا۔ مسز سروجنی نائیڈو نے اپنے پیام میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ وہ امور جو طلبہ سے متعلق ہیں ان کے علاوہ ایسے بھی امور جو بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ مثلاً غذائی مسئلہ وغیرہ اس سشن کے پروگرام میں شامل کئے گئے ہیں اپنے پیام کے آخر میں انہوں نے طلبہ کو ان کے مختلف فرائض کی جانب ان الفاظ میں توجہ دلائی:
"اگرچہ طلبہ کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ تعلیم کے لئے وقف کردیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی تعلیم کے ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے کہ طلبہ دنیا کی تاریخ پر اثر انداز ہونے والی تحریکوں میں بھی اپنی ذہانت کی اتھاہ گہرائیوں کے ساتھ وسیع تر دلچسپی لیں اور ترقی کے متعلق تمام عصری خیالات و نظریات سے بھی آگاہ رہیں۔ ریاست حیدرآباد کے نوجوانوں کا وقت اور حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ مشن یہ بھی ہوگا کہ وہ ریاست کے تمام طبقات میں جو ریاست کے جزولاینفک ہیں اتحاد اور اشتراک باہم کو فروغ دیں"۔

کوکب دری ، ایل۔ ایل۔ بی کے طالب علم اور صدر نشین استقبالیہ کمیٹی نے ایک طویل خطبہ استقبالیہ پڑھا جس میں انہوں نے وہ تمام باتیں کہیں جو کمیونسٹ طلبہ جلسہ عام کو مخاطب کرنے کا موقع ملنے پر بیان کرتے ہیں ، مثلاً فسطائیت کی مخالفت، ہندوستان کے خلاف جاپانی جارحیت کی مزاحمت ، کانگریس اور مسلم لیگ میں مفاہمت کی حمایت، قومی حکومت کا قیام، خوراک کے مسئلہ کا حل وغیرہ۔
اپنے خطبہ کے آخر میں کوکب دری نے حیدرآباد کے تعلیمی نظام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام صرف دفتر کے اہلکار پیدا کر رہا ہے اس سے اچھے محب وطن شہری پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ جو کہ قوم کے لئے اثاثہ ہوتے ہیں۔
قاضی عبدالغفار ایڈیٹر اخبار پیام کے مختصر صدارتی خطبہ کی نوعیت کم و بیش پدرانہ نصیحت کی تھی جس میں طلبہ کو کیا کرنا اور کیا نہیں کرناچاہئے کی ہدایت دی گئی تھی، انہوں نے طلبہ کو مشورہ دیا کہ وہ پہلے اپنی پڑھائی کی جانب توجہ دیں اور اس کے بعد بچے ہوئے وقت کو تعلیم کی اشاعت اور دیہی باز تعمیری کاموں کے لئے صرف کریں ، انہوں نے کہا کہ طلبہ کو یقیناً سیاسیات کا مطالعہ کرنا چاہئے لیکن سیاست میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لینے کے خلاف انہوں نے سخت انتباہ دیا اور کہا کہ طلبہ اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔ آخر میں انہوں نے طلبہ کو غیر دور اندیش سیاسی قائدین سے جو طلبہ کی قوت اور جوش و جذبہ کا استحصال کرکے اپنے مقاصد کے لئے انہیں استعمال کرتے ہیں بچنے اور ان کا شکار نہ ہونے کا مشورہ دیا۔

اس کے بعد اورنگ آباد، ناندیڑ، پربھنی، ورنگل اور کھمم کے نمائندوں نے اپنی اپنی شاخوں کی سالانہ رپورٹیں پڑھیں۔ ان رپورٹوں کی پیش کشی کے بعد راج بہادر گوڑ، صدر کا مریڈ اسوسی ایشن اور آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین کے سرکردہ کارکن نے مرکزی یونین کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔ راج بہادر گوڑ نے اپنے خطبہ کی ابتداء میں ان حالات کا تفصیل سے جائزہ بیان کیا جن کی وجہ سے یونین کی تشکیل عمل میں آئی تھی، اس کے بعد انہوں نے یونین کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اسٹوڈنٹس یونین کے اتحاد اور عمل کا پیام دیتے ہوئے طلبہ برادری کے جمود کو توڑا اور طلبہ کو ان کے اہم حقوق اور فرائض کا احساس دلایا اس کے علاوہ یونین نے طلبہ کو اپنے مسائل سے خود نمٹنے اور مشکلات میں ٹھوس بنیادوں پر متحد اور منظم ہونے پر زور دیا۔ مختصر یہ کہ آزادی، امن اور ترقی کے پرچم تلے یونین نے حیدرآباد کی طلبہ برادری کو ایک مرکز پر مجتمع کرنے کی ذمہ داری نبھائی۔
اس کے بعد راج بہادر گوڑ نے اضلاع میں قائم کی گئی شاخوں کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔ مرکزی یونین کی جانب سے طلبہ کی شکایات دور کرنے کے لئے جو اقدامات کئے گئے تھے اس پر بھی انہوں نے روشنی ڈالی۔ بعد ازاں انہوں نے یونین کی دیگر سرگرمیوں جیسے کتب خانوں، مطالعہ گھروں اور فرسٹ ایڈ جماعتوں کے انعقاد کی تفصیلات بھی پیش کیں۔ راج بہادر گوڑ نے بتایا کہ یونین کی سرگرمیوں میں سب سے اہم سرگرمی دیواری اخبار کا اجرا ہے۔ اس اخبار کے اجرا کا مقصد یونین کی سرگرمیوں کی تفصیلات شائع کرنے کے علاوہ موجودہ سیاسی معاشی، سائنسی ،اور سماجی مسائل کو مختصر اور سریع الفہم انداز میں طلبہ کی معلومات کے لئے پیش کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یونین کے اراکین کو چاہئے کہ وہ یونین کی سرگرمیوں کے تعلق سے جو بھی رائے دینا چاہتے ہوں یا تنقید کرنا چاہتے ہوں دیواری اخبار پر تحریر کر دیں۔

اس کے بعد صبح کی نششت اختتام کو پہنچی، سہ پہر کی نشست میں حسب ذیل چار قرار دادیں متفقہ طور پر منظور کی گئیں:
1۔ پہلی قرارداد میں طلبہ سے آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس یونین میں شامل ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا گیا کہ یہ ایک غیر سیاسی اور ایک غیر طبقاتی جماعت ہے اور جو طلبہ کے حقوق کے لئے جدو جہد کر رہی ہے۔
2۔ دوسری قرار داد میں طلبہ سے اپنے اپنے مدرسوں میں یونین تشکیل دینے کی اپیل کی گئی اور ارباب ذمہ دار سے درخواست کی گئی کہ وہ یونین تشکیل دینے کے طلبہ کے حق کو تسلیم کریں۔
3۔ تیسری قرار داد میں جامعہ عثمانیہ کے ناقص نتائج پر احتجاج کرتے ہوئے جامعہ کے تمام امتحانات کو سال میں دو مرتبہ منعقد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
4۔ چوتھی قرار داد میں جامعہ عثمانیہ کے طلبہ کے بارے میں ضابطہ اخلاق کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

13/نومبر کو ریڈی ہاسٹل میں مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا جس کی صدارت اکبر وفاقانی نے کی اس مشاعرہ میں مخدو م محی الدین ، علی اختر، کامریڈ سلیمان (سلیمان اریب) ،صاحبزادہ محمد علی خان میکش اور دوسرے شعراء نے کلام سنایا۔

تیسری اور آخری نشست 14 نومبر کو ریڈی ہاسٹل میں منعقد ہوئی جس کی صدارت ڈاکٹر سید عبداللطیف نے کی۔ حاضرین کی تعداد تقریباً پانچ سو تھی۔ ڈاکٹر ایشور ناتھ ٹوپا، لیکچرر عثمانیہ یونیورسٹی نے ہندوستانی تہذیب کے عنوان پر تقریر کی۔ اس نشست میں یہی ایک تقریر ہوئی۔ مقرر نے ہندو مسلم اتحاد کے موضوع پر تفصیل سے اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندو مسلم مسئلہ موجودہ دور کے خود غرض قائدین کے دماغ کی اختراع ہے۔ اگر یہ کوئی بنیادی سوال ہوتا تو اس وقت ہی اٹھتا جب کہ ہندوستان پر مسلمان حکمران تھے اوران کی رعایا میں ہندو اکثریت میں تھے۔ مقرر نے پاکستان کے مطالبہ کا بھی حوالہ دیا۔ انہوں نے اس مطالب کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہنوستان کے تمام مسلمان اور ہندو تہذیبی اکائیاں نہیں ہیں کہ ان کے لئے علیحدہ ہندوستان اور پاکستان بنایا جائے۔
ڈاکٹر سید عبداللطیف نے اپنے صدارتی کلمات میں پاکستان کے تعلق سے ڈاکٹر ٹوپا کے دلائل کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر لطیف کی پاکستان سکیم کا مقصد ہندوستان کے حصے بخرے کرنا نہیں ہے اس طرح ڈاکٹر ٹوپا کے اعتراضات بے بنیاد ہیں۔ رپورٹ کے آخر میں کوتوال بلدہ حیدرآباد نے لکھا کہ یہ بات تعجب خیز تھی کہ سامعین کی اکثریت نے پاکستان کے تعلق سے ڈاکٹر ٹوپا کے نقطہ نظر کی تائید کی حالانکہ سامعین میں بیشتر کمیونسٹ تھے اور کمیونسٹوں نے مختلف دیگر موقعوں پر مطالبہ پاکستان کی تائید کا موقف اختیار کیا تھا۔
کوتوال بلدہ حیدرآباد کی مذکورہ بالا راز کی رپورٹ وصول ہونے پر حکومت کی جانب سے جو کارروائی کی گئی تھی اس کا خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔

علی یاور جنگ معتمد تعلیمات نے ایک راز کا مراسلہ مورخہ 30/ڈسمبر 1943ء سید محمد اعظم ناظم تعلیمات کو روانہ کیا جس میں انہوں نے آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس کنونشن نام کی تنظیم کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی خواہش کی اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دریافت کیا کہ آیا اس تنظیم کو مسلمہ حیثیت حاصل ہے اور کیا محکمہ تعلیمات کے اسٹاف کو اس تنظیم کی سرگرمیوں میں شرکت اور جلسوں کو مخاطب کرنے کی اجازت حاصل ہے۔
سید محمد اعظم ناظم تعلیمات نے اپنے مراسلہ مورخہ 3/ جنوری 1944ء میں جواباً تحریر کیا کہ ان کے ہاں آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس کنونشن کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہیں لیکن آل حیدرآباداسٹوڈنٹس یونین ہی ہے تو اس کی ناپسندیدہ سرگرمیوں کے بارے میں کافی معلومات دستیاب ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے ایک سابقہ مراسلہ کا حوالہ دیا اور طلبہ کو سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کے لئے جو سرکیولر نظامت تعلیمات کی جانب سے جاری کیا گیا تھا اس کی ایک نقل اپنے مراسلہ کے ساتھ منسلک کی اور یہ لکھا کہ محکمہ تعلیمات کے اساتذہ اور عہدیدار اس تنظیم کی سرگرمیوں میں نہ تو حصہ لے سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے جلسوں سے خطاب کر سکتے ہیں۔

علی یاور جنگ معتمد تعلیمات نے ایک اور راز کا مراسلہ مورخہ 23/مارچ 1944ء قاضی محمد حسین پرو وائس چانسلر جامعہ عثمانیہ کو لکھا جس میں انہوں نے تحریر کیا کہ حیدرآباد میں طلبہ کی چند غیر مسلمہ اور قابل اعتراض تنظیمیں موجود ہیں جیسے آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس کنونشن۔ اس محکمہ کو مصدقہ حلقوں سے ملنے والی رپورٹوں سے اس بات کا علم ہوا ہے کہ آپ کے ایک اسٹاف ممبر ڈاکٹر ٹوپا نے حال ہی میں آل حیدرآباد اسٹوڈنٹس کنونشن کے ایک جلسہ میں شرکت کی تھی چونکہ یہ بات مناسب نہیں ہے اس لئے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں آپ سے اس بات کی درخواست کروں کہ آپ ڈاکٹر ٹوپا سے ذاتی طور پر یہ بات کہیں اور کسی میٹنگ میں دیگر اسٹاف ممبران سے بھی کہہ دیں۔ اس بارے میں سر کیولر جاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

قاضی محمدحسین پرووائس چانسلر نے اپنے جوابی مراسلہ مورخہ 29/ مارچ 1944ء میں یہ اطلاع دی کہ اس بارے میں وہ ڈاکٹر ٹوپا سے گفتگو کر چکے ہیں اور اس گفتگو کے دوران انہیں ڈاکٹر ٹوپا نے بتایا کہ تقریباً دو ماہ قبل چند طلبہ تین بار ان کے پاس یہ درخواست لے کر آئے تھے کہ وہ کسی بھی موضوع پر سالانہ میٹنگ میں تقریر کریں۔ انہوں نے طلبہ سے یہ دریافت نہیں کیا تھا کہ ان کی اسوسی ایشن کون سی ہے اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔ وہ آئندہ احتیاط برتیں گے۔ پرووائس چانسلر نے یہ بھی لکھا کہ چونکہ اس وقت جامعہ میں امتحانات ہو رہے ہیں اس لئے اسٹاف ممبران کی میٹنگ طلب کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ بعد میں جب موقع ملے گا تو اسٹاف کو اس بارے میں مطلع کر دیا جائے گا۔

***
ماخوذ از کتاب: نقوش تاباں (عہدِ آصف سابع)
مصنف: ڈاکٹر سید داؤد اشرف (اشاعت: دسمبر 1994)

First students convention in the Era of Hyderabad State.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں