وودھ بھارتی - تاریخ کے کچھ اوراق - رفعت سروش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-03

وودھ بھارتی - تاریخ کے کچھ اوراق - رفعت سروش

vividh-bharati
براڈ کاسٹنگ ہاؤس دہلی کی مشہور اور خوبصورت عمارتوں میں سے ایک تھی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران پارلیمنٹ اسٹریٹ کی اس سرخ عمارت کی شان ہی اور تھی۔ میں محکمہ جنگ کے ایک دفتر میں کام کرتا تھا اور صبح و شام سکریٹریٹ آتے جاتے اس عمارت کے پاس سے گزرتا تھا، اور اس کی گھڑی سے وقت کی رفتار پوچھتا تھا۔ مجھے یہ عمارت سانس لیتی ہوئی شخصیت محسوس ہوتی تھی۔ میرا ایک ساتھی کلرک ہری کشن ماریا ان دنوں ریڈیو سے گایا کرتا تھا۔ ماریا نے کئی بار کہا کہ میرے ساتھ ریڈیو اسٹیشن چل۔ مگر میں نہیں گیا، بعد میں ماریا روشن لال میوزک ڈائرکٹر کے ساتھ دہلی سے بمبئی چلا گیا تھا۔ اس کا اسسٹنٹ رہا، اور کئی سال ہوئے بمبئی ہی میں اس کا انتقال ہو گیا۔ میں اس زمانے میں صرف ایک بار ریڈیو اسٹیشن گیا تھا راز مراد آبادی کے ساتھ، راز پروگرام اسسٹنٹ تھے۔ رات کو مولانا سمیع اللہ کی دکان پر بیٹھے بیٹھے اچانک انہیں یاد آیا کہ کل صبح کے کیوشیٹ میں کچھ گڑ بڑ ہے۔ اسی وقت دفتر بھاگے۔
کبھی جس عمارت کو میں صبح و شام حسرت سے دیکھتا تھا اب میرا آب و دانہ اس سے منسوب تھا ہر چند کہ ۱۹۴۵ء کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس اور ۱۹۵۸ء کے براڈ کاسٹنگ ہاؤس کی شان و شوکت میں کافی فرق آ گیا تھا، آس پاس اونچی اونچی بلڈنگیں کھڑی ہو گئی تھیں۔ سڑکوں اور سبزہ زاروں پر آزادی کے بعد کی بے مہار معاشرت کے بد زیب نقش و نگار نظر آنے لگے تھے۔ مگر براڈ کاسٹنگ ہاؤس پھر براڈ کاسٹنگ ہاؤس ہے۔ پوری قوم کا نفس ناطقہ، یہاں سے پھیلی ہوئی ایک ایک آواز کی لہروں پر قوموں کے فیصلے ہوتے ہیں، ایک ایک موج صدا پیام زندگی بن کر گونجتی ہے، ایک ایک شعلہ نو انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ یکم ستمبر ۱۹۵۸ء کو اس براڈ کاسٹنگ ہاؤس میں میں نے وودھ بھارتی کے اسسٹنٹ پروڈیوسر کی حیثیت سے قدم رکھا۔ بمبئی سے دلی کوتبادلے کا پروانہ میری جیب میں تھا۔ معلوم ہوا دفتر میں بلڈنگ میں نہیں، بلکہ پچھلے حصہ کی بارکوں میں ہے۔ ایسی بارکوں میں جن کی دیواریں اور چھٹیں اپنی شکستہ حالی کا مرثیہ سنارہی ہیں۔ مگر اسٹوڈیو دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ جو کام ہم ایک سال تک ایک ہی ڈبنگ روم میں کرتے رہے تھے ( جس کا ذکر میری کتاب بمبئی کی بزم آرائیاں ‘‘ کے صفحات میں ہے ) اب اس کام کے لئے نہایت عمدہ اسٹوڈیو تیار کئے گئے ہیں۔ اور لطف یہ کہ ہمارے اسٹوڈیو بلاک میں دہلی کے کسی اور یونٹ یا سیکشن کا دخل نہ ہو گا۔ یہ اسٹوڈیو وودھ بھارتی اور صرف وودھ بھارتی کے لیے ہیں۔ جدید سازوسامان سے آراستہ اور باقاعدہ ڈبنگ روم۔ جن میں اناؤنسر یوتھ الگ ہے۔ پروگرام کی دو کاپیاں ایک ساتھ تیار کرنے کا اہتمام اور اس امر کے لئے پروڈیوسر کے ساتھ ایک انجینئر، باقاعدہ ڈیوٹی پر۔۔ ۔ ایک ڈرامہ اسٹوڈیو اور دو تین اسٹوڈیو صرف ٹیپ پروگرام سننے کے لئے۔ ہم لوگوں کو امید بھی نہ تھی کہ دہلی میں پہنچ کر اچانک اس قدر آسانیاں مل جائیں گی اورنہایت سکون سے کام کرنے کاموقع میسر آئے گا۔ بمبئی سے ہم ۳۰؍ستمبر تک کے پروگرام بناکر چلے تھے اس لئے یہاں کام شروع کرنے کی جلدی نہ تھی مگر ایسا بھی نہ تھا کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں یا ادھر اُدھر گپ لگاتے پھریں۔ ہمارا اصل سرمایہ تھا بمبئی سے لائی ہوئی گولڈ کاپیاں یعنی وہ ٹیپ جن پر منتخب گانے، نظمیں، تقریریں اور چھوٹے بڑے ڈرامے اس مقصد سے ریکارڈ کیے گئے تھے کہ ان سے نشر کیے جانے والے پروگرام اناؤنسمنٹ وغیرہ کے ساتھ تیار کیے جا سکیں لیکن بمبئی سے ان گولڈ کاپیوں کا لدان ایسے ہوا تھا جیسے ریل کے ڈبے میں کوئلہ ڈھویا جاتا ہے اور اب یہ گولڈ کاپیاں کوڑے کرکٹ کے انبار کی طرح ہماری ٹیپ لائبریری میں پڑی تھیں اگرچہ نیر ورکر سسٹم کے مطابق ترتیب دی جانے والی اس لائبریری کی شان واقعی نرالی اور قابل تعریف تھی مگر وہ کل کی بات تھی آج تو یہ ٹیپوں کا ڈھیر تھا اور ہم تھے۔
( آل انڈیا ریڈیو کے انجینئر نیر ورکر صاحب نے بمبی یونیورسٹی کے لائبریرین کے تعاون سے ٹیب لائبریری کو سائنٹیفک طریقے سے ترتیب دینے کا لائحہ عمل تیار کیا تھا اور آج وودھ بھارتی لائبریری اسی جدید سسٹم کے مطابق چلتی ہے جو نہایت عمدہ ہے ہم جن کی ذمہ داری تھی پروگرام تیار کرنا چاہے ٹیپ کہیں سے لائیں۔ لاچاری میں اندھا دھند اسی انبار میں سے اپنے کام کی چیز نکالتے تھے اور اپنا کام چلانے کا منصوبہ بناتے تھے نہ کوئی رجسٹر تھا نہ کوئی کیٹلاک۔ مگر ہمارے لیے یہ صورت حال کوئی مرحلہ نہ تھا کیونکہ ہم وودھ بھارتی پروگرام شروع کرتے وقت اس سے بھی زیادہ سخت مراحل سے گزر چکے تھے۔ ( تفصیلی ذکر بمبئی کی بزم آرائیاں میں ) ایک دشواری یہ ضرورت تھی کہ ہم لوگوں کا شیرازہ منتشر ہو گیا تھا۔ ہمارے سب اناؤنسر سوائے کردار شرما کے بمبئی ہی رہے گئے تھے ایک سال تک ان پر جو محنت کی وہ سب بے کار۔۔ ۔۔ اور یہاں کچھ پرانے اناؤنسر دہلی الہ آباد اور جے پور سے بلائے گئے تھے مگر یہ عظیم اناؤنسر تیس مار خان تھے یعنی ڈائریکٹر وودھ بھارتی کے منہ چڑھے اور اتنے خودسر کے ہم پروڈیوسروں کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہ تھے وہ اس احساس کے شکار تھے کہ ہم لوگوں کو پروڈیوسر کیوں بنایا گیا ان کو کیوں نہیں حالانکہ ہم پروڈیوسروں کا جرم یہ تھا کہ ہم لوگ مصنف واقع ہوئے ہیں۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہمیں یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ہم اسسٹنٹ پروڈیوسر صرف تین تھے سٹینڈرڈ شرت، بی ایس بھٹناگر اور میں اور جغادری اناؤنسر تھے بی این متل گوپال کول کوشلیا ماتھر، کیشو پانڈے اور کرشن ککریجا اوپر والے ان اناؤنسروں کو پروڈیوسر تو نہ بنا سکے مگر عملی طور پر انہیں ہم لوگوں کا حریف بنا دیا اور ان لوگوں کو بھی آزادانہ طور پر پروگرام پروڈیوز کرنے کے لئے دے دیے گئے نتیجہ یہ ہوا کہ جس مقصد سے ان خوش آوازوں کو وودھ بھارتی میں لایا گیا تھا وہ مقصد تو فوت ہو گیا۔ یعنی وہ پروگرام اناؤنس کریں جیسا کہ اپنے اپنے اسٹیشن پر کرتے تھے۔ اب اناونسمنٹ کرنے کے لئے نہیں آوازوں کی کھوج شروع ہوئی درخواستیں طلب کی گئی انٹرویو ہوئے اور بیس پچیس آوازوں میں سے 4.5 کی پینل بنی سلیم احمد ممتاز مرزا ارما باوا، کچھ دن بعد اس فہرست میں پشپا بوٹا، اور لگتا دیوی بھی شامل ہو گئی ہیں ممتاز مرزا تو ملازم نہ ہو سکی مگر باقی آوازوں کو پہلے عارضی طور پر اور پھر مستقل ملازم رکھ لیا گیا اور یہ فہرست بڑھتی ہی گئی لیکن میرے نزدیک یہ اصراف بیجا تھا کہ اتنے سارے سینئر اناؤنسروں کی موجودگی میں مزید آوازوں کی ضرورت نہ تھی یا تھی تو ایک دو کی اور عارضی طور پر۔ اناؤنسر و کو بنیادی طور پر اناؤنسمینٹ کی ہی ڈیوٹی دینی چاہیے تھی۔
بہرحال اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وودھ بھارتی کہ پروڈیوسروں کی اہمیت گھٹتی چلی گئی اور ہم لوگ راہ فرار ڈھونڈنے لگے اور موقع پا کر اس یونٹ سے نکل بھاگے۔ کیوں کے کچھ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لئے والا معاملہ تھا میں اردو مجلس میں آ گیا اور شرت دہلی اسٹیشن کے ڈرامہ سیکشن میں۔ بھٹناگر ریٹائر ہو گئے مگر یہ سب کچھ ایک دو سال میں نہیں ہو گیا۔ اس تبدیلی کو چھ سال لگے۔ اور اس عرصہ کی وودھ بھارتی کی داستان کچھ کم دلچسپ نہیں۔
وودھ بھارتی کا اصل دفتر تو بارکوں میں تھا یعنی سب پروڈیوسر اناؤنسر پروگرام ایگزیکیٹیو اسسٹنٹ ڈائریکٹر وغیرہ وغیرہ بارکوں میں بیٹھتے تھے مگر ڈائریکٹر اور چیز پروڈیوسر چیز آکاش وانی بھون میں تشریف رکھتے تھے اور صرف لنچ کے بعد پروگرام میٹنگ کے لئے بالائی منزل سے اتر کر آتے تھے۔ چیف پروڈیوسر تھے نریندر شارما اور پہلے ڈائریکٹر تھے گوپال داس جو احمد شاہ پطرس بخاری دور کے آدمی تھے نہایت شریف النفس اور بہت اچھے منتظم۔ اور مشکل وقت میں اپنے اسٹاف کے لئے ڈھال بن جانے والے، ان کی شرافت اور جرات کے ایک دو واقعات ذہن میں کلبلا رہے ہیں مگر ذرا وودھ بھارتی کے بارے میں کچھ ضروری باتیں پہلے بیان کر دوں۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ افسران بالا زدا سٹاف بھرتی کر لیتے ہیں اور پھر زبردستی ان لوگوں کی ٹھونس ٹھانس کی جاتی ہے۔ اس دھاندلی کی ایک مثال۔۔ ۔۔ ابھی وودھ بھارتی کو دہلی میں آئے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ایک ساتھ چار ٹرانسمیشن اسسٹنٹوں کا تقرر وودھ بھارتی میں کر دیا گیا۔ اس وقت تک یہاں سے کوئی ٹرانسمیشن نہیں ہوتا تھا ہوا یہ ہو گا کہ ٹرانسمیشن اسسٹنٹ تھوک میں بھرتی کیے گئے اور کوئی جگہ نہ پا کر انہیں وودہ بھارتی میں ٹھونس دیا گیا اب ان کے لیے وہ کام کہاں سے لایا جائے جو ان کی اصل ڈیوٹی ہے۔ ابھی وہ شاخ پھوٹی ہی تھی جس پر آشیانہ بننا تھا اسسٹنٹ ڈائریکٹر اقبال ملک کو بڑی دور کی سوجھی۔ لائبریری میں جو ٹیپوں کے انبار پڑے تھے ان میں کیوشیٹ بھی تھے یعنی ایک ایک ایسا کاغذ جس پر لکھا تھا کہ اس ٹیپ میں کیا کیا ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ملک صاحب نے سب ٹرانسمیشن اسسٹنٹوں کو اس ڈیوٹی پر لگا دیا کہ کیوشیٹ کی مدد سے گولڈ کا پیوں کے رجسٹر تیار کرو چلئے نو آموزوں کو کام بھی مل گیا جن کو یہ خبر ہی نہ تھی کہ ان کو کیا کرنا چاہیے اور کیا کر رہے ہیں۔
نام ٹرانسمیشن اسسٹنٹ اور کام ایک درجہ دوم کلرک کا۔ اور اس طرح ہم پروگرام بنانے والوں کی مشکل آسان ہونی شروع ہوئی کیوں کے رجسٹر بن جانے کی وجہ سے گانوں کے انتخاب میں آسانی ہو گی۔۔ یہ نو گرفتار ٹرانسمیشن اسسٹنٹ تھے شیوشنکر شرما جو ترقی کرتے کرتے آخر ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر جنرل بنے اور جوشی اگروال اور راج منی رائے یہ تینوں بھی اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ ہی گئے ہیں۔ سرکاری نوکری میں ایک یہی تو فائدہ ہے کہ ایک بار لائن میں لگ جائے نمبر آہی جائے گا۔
ہمارے ساتھ ایک پروگرام اسسٹنٹ تھے منظور الامین۔ جن کا ذکر بمبئی کی بزم آرائیاں میں تفصیل سے ہے بمبئی سے ہیں وودھ بھارتی کے یونٹ کے ساتھ آئے تھے اب انھیں پروگراموں سے نہیں انتظامی امور سے واسطہ تھا جہاں دیدہ آدمی ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ کب کیا کرنا چاہیے اس سوج بوجھ نے انھیں ترقی کے اعلیٰ مدارج تک پہنچایا۔ ٹیلی ویژن کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئے پھر ماس کمیونیکیشن سینٹر جامعہ سے متعلق رہنے کے بعد کشمیر یونیورسٹی سری نگر پہنچے اور اب حیدرآباد میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔
منظور صاحب صرف پروگرام اسسٹنٹ تھے آل انڈیا ریڈیو کے ملازمین کی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب آیا کہ پروگرام کا عہدہ منسوخ کر دیا گیا اور سب پروگرام اسسٹنٹ پروگرام ایگزیکیٹیو بنا دیے گئے یعنی گزیٹیڈ آفیسر اس ریلے میں منظور الامین صاحب بھی پروگرام ایگزیکیٹیو بن گئے۔ پھر ایک دو جگہیں اسسٹنٹ اسٹیشن ڈائریکٹر کی نکلیں۔ منظور الامین صاحب نے اس کے لیے درخواست دے دی اور خدا کا کرنا کیا ہوا کہ منتخب بھی کر لیے گئے۔ اس طرز کی ملازمت میں اے ایس ڈی بننے کے بعد آدمی سر پٹ دوڑتا ہے اور پھر منظورالامین تو جہاندیدہ انسان ہیں۔ بہت سرعت سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ منظور صاحب نے ریڈیو کے لئے ڈرامے بھی لکھے ہیں اور خاموش انداز سے شاعری بھی کی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ آج بھی یہ کافر ان کے منہ لگی ہوئی ہے۔۔ مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ انہوں نے ہم سرپھروں کی طرح اس کافرہ کو اتنا قابل اعتناء نہیں سمجھا کے ذریعہ عزت تصور کرنے لگیں۔ ادب کی دنیا میں ان سے زیادہ ان کی آرٹسٹ میں بیگم رفیعہ منظور الامین بحیثیت افسانہ نویس اور ناول نگار زیادہ معروف ہیں۔۔ بہرحال منظور الامین صاحب میرے ذاتی دوست کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔ اتفاق سے میں اور وہ سرکاری ملازمت سے ایک ہی دن ریٹائر ہوئے تھے۔ وودھ بھارتی کا تنظیمی ڈھانچہ مضبوط کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہے۔
یہ الفاظ لکھتے لکھتے گوپال داس صاحب بار بار آنکھوں کے سامنے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گوپال داس سحاب میں سید سجاد ظہیر(بنے بھائی) کی کچھ کچھ شباہت ہے مگر ایک نمایاں فرق کے ساتھ بننے بھائی کی مسکراہٹ سراسر معصوم مسکراہٹ تھی مگر گوپال داس صاحب کے لبوں پر یہ مسکراہٹ چالاکی اور افسانہ خوش مزاجی کا انداز بھی لیے ہوئے تھی۔ لہجہ وہی دھیمہ دھیمہ آواز وہی رس بھری۔ مگر ان کا مزاج تھا کہ کم الفاظ میں دو ٹوک فیصلہ۔ اور ایسے عالم میں ان کے لہجے میں تحکم زیادہ اور مروت برائے نام ہوتی تھی۔ جو بخاری انتظامیہ کی خصوصیت تھی۔
گوپال داس صاحب ادب شناس اور سخن فہم تھے اور ہیں اگرچہ ہندی میں لکھتے پڑھتے ہیں مگر بامحاورہ اور سلیس اردو زبان کو ریڈیو کے لئے بہت مفید سمجھتے تھے۔ اس لئے ان کے ساتھ کام کرنے کا خاص لطف تھا ان کے کہنے پر ہی میں نے منظوم گیتوں بھری کہانیاں لکھیں۔ جو ان دنوں بہت مقبول ہوئیں۔ ان میں سے کئی کہانیاں منظوم ڈراموں کی صورت میں میری کتابوں میں شامل ہیں۔ روشنی کا سفر، عہد وفا، شاعر، گھر کی جنت نہیں پرواز وغیرہ ان ہی دنوں کی یادگار ہیں۔ گوپال دا صاحب کی شعر پسندی کا یہ عالم تھا کہ ہفتے میں ایک دن خطوط کے جواب یعنی پتراولی پروگرام مجھ سے منظوم لکھواتے تھے اور کبھی کبھی گجرا پروگرام کی کمپیرنگ بھی منظوم لکھتا تھا یہ ان کی محبت تھی کہ آل انڈیا ریڈیو سے ریٹائر ہونے کے بعد جب وہ کچھ عرصے کے لیے کتھک کیندر کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے تو انہوں نے مجھ سے حبہ خاتون بیلے لکھوایا۔ اس بیلے کے لیے رقص و موسیقی مشہور کتھک رقاص جو برجو مہاراج نے ترتیب دی تھی۔ یہ بیلے ایک ملکہ شعر و سخن کے نام سے میری کتاب تاریخ کے آنچل میں شامل ہے کسی مکتبہ جامعہ نے ۱۹۸۳ء میں چھاپا ہے۔
جن اسٹیشن ڈائریکٹر کے ساتھ آل انڈیا ریڈیو میں کام کرنے میں لطف آیا ان میں سے گوپال داس صاحب ایک تھے۔ دفتروں میں ہزاروں چھوٹی بڑی باتیں ہو تی رہتی ہیں مگر گوپال داس صاحب کی جرات اور حق گوئی کا ایک واقعہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ۱۹۶۰ء کا واقعہ ہے گرمی کا موسم تھا سنیچر کا دن۔۔ دفتر میں آدھے دن کی چھٹی تھی مگر مجھے کسی ریکارڈنگ کے سلسلے میں اسٹوڈیو جانا تھا میں ری گل بس اسٹاپ سے ایک بس میں سوار ہوا بس میں بہت بھیڑ نہیں تھی دو تین سیٹوں پر ایک ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ خالی تھی میں ایک سیٹ پر بیٹھنے لگا تو ایک صاحب نے بڑی تمکنت سے کہا کہ ادھر بیٹھ جائیے۔ میں نے کہنے والے پر نظر ڈالی سفید کھدر کے لباس میں ملبوس ایک صاحب پوری سیٹ پر پسرے ہوئے اس طرح بیٹھے تھے جیسے یہ ان کا راج سنگھاسن ہو مجھے ان کا تحمکانہ انداز پسند نہ آیا اور میں ان سے یہ کہتا ہوا کہ ذرا سمٹ کر بیٹھیے ان کے پاس بیٹھ گیا اور وہ منہ بسورنے لگے اتنے میں کنڈکٹر آیا۔ اس نے پہلے ان سے ٹکٹ کے پیسے مانگے انہوں نے پیسے دے کر کہا" پارلیمنٹ ہاؤس" پھر میں نے اپنی دے کر کہا ریڈیو اسٹیشن۔ میرے منہ سے ریڈیو اسٹیشن لفظ سن کر انہوں نے تیور بدلے اور کنڈکٹر سے بجائے پارلیمنٹ ہاؤس کے ریڈیو اسٹیشن تک کاہی ٹکٹ لیا مجھ سے بولے۔
آپ ریڈیو اسٹیشن جا رہی ہیں "
’’جی ہاں ‘‘
کس یونٹ میں کام کرتے ہو"
آپ کو اس سے کیا واسطہ"
کون انچارج ہے آپ کا"
ضروری نہیں کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں "
ذرا دیر میں ریڈیو اسٹیشن آ گیا میں بس سے اترا۔ وہ صاحب بھی اترے میں آگے آگے وہ پیچھے پیچھے۔ میں نے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ کوئی فتنہ پرور آدمی ہے اس لئے میں کوئی کمزوری نہیں دکھانا چاہتا تھا اور یوں بھی میں خواہ مخواہ مرنجاں مرنج بن جانے کا قائل نہیں۔ میں سیدھا ریڈیو اسٹیشن کے کینٹین میں گیا وہ کاؤنٹر پر کر اسلام الدین سے میرے بارے میں پوچھنے لگا" یہ کون ہے " اسلام الدین ڈرامہ سیکشن میں استعفیٰ آرٹسٹ تھے ( ایک عرصہ ہوا پاکستان چلے گئے تھے اب معلوم نہیں بقید حیات ہیں یا۔۔ ۔۔ ) اسلام الدین نے مجھے پکارا مگر میں دانستہ کاؤنٹر پر نہیں گیا اور وہ صاحب کچھ ضروری معلومات حاصل کر کے الٹے پاؤں لوٹ گئے۔ بعد میں مجھے اسلام الدین نے بتایا۔ یہ صاحب طارق تھے۔ پہلے آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ تھے۔ اب ایم پی ہیں۔۔ ۔ اور اب میری سمجھ میں آ گیا کہ اس اکڑ فوں کی کیا وجہ ہے۔۔ ۔۔ خیر۔۔ ۔ ہوں گے۔۔ میں چائے پی کر اپنے اسٹوڈیو میں چلا گیا۔ مگر آدھا گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ ڈیوٹی آفیسرمس ارن دتی نے مجھے بلا کر ایک کاغذدکھایا۔ ڈائریکٹر جنرل جے۔ سی ماتھر(آئی سی ایس) کے ہاتھ کا لکھا ہوا۔ ڈائرکٹر وودھ بھارتی شری گوپال داس کے نام تحریر تھا کہ آپ کے یونٹ کے ایک اسسٹنٹ پروڈیوسر رفعت سروش نے ایک ممبر پارلیمنٹ کی نہ صرف توہین کی بلکہ چلتی بس میں انہیں مکوں سے مارا۔ رفعت سروش سے فوراً باز پرس کی جائے اور میرے پاس ان کا تحریری ایکسن پلینیشن جلد از جلد بھیجا جائے۔۔ میں وہ کاغذ دیکھ کر معاملہ کی نزاکت کو سمجھ گیا اور بظاہر بے پروائی کا اظہار کرتا ہوا پھر اسٹوڈیو میں چلا گیا، چند منٹ بعد گوپال داس صاحب کا فون آیا۔ وہ اپنے گھر سے بول رہے تھے مجھ سے پوچھا کہ طارق کے ساتھ تمہارا کیا جھگڑا ہوا۔ مجھے سچ سچ بتا دو۔ میں نے پوری تفصیل بتادی اور کہا کہ مکا بازی تو دور کی بات ہے، اونچی آواز میں بات بھی نہیں ہوئی۔۔ ۔ میری پوری بات سننے کے بعد گوپال داس جی نے اپ نے روایتی پرسکون لہجے مین کہا کہ ’’ڈی۔ جی کا فون آیا تھامیرے پاس۔ اور میں نے بغیر تم سے کچھ معلوم کئے ہوئے ان سے کہہ دیا ہے کہ رفعت سروش وودھ بھارتی کے چندمہذب لوگوں میں سے ایک ہے اور مجھے یقین نہیں آتا کہ اس نے بسمیں کسی سے گالی گلوچ یا ہا تھا پائی کی ہو گی۔ اور میں طارق کو بھی ذاتی طور پر انتا ہوں۔ اس ممبر پارلیمنٹ سے میرا اسسٹنٹ پروڈیوسر زیادہ با اخلاق ہے۔
میں نے گوپال داس جی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ماتھر صاحب کا ایک نوٹ ڈیوٹی آفیسرکے پاس اس مضمون کا آیا ہے۔ وہ دھیرے سے بولے۔ ٹھیک ہے، کل چھٹی ہے، پرسوں دیکھیں گے۔
گوپال داس جی سے بات کر کے میرا دل شیر ہو گیا، مگر ڈائرکٹر جنرل نے تحریری جواب مانگا تھا، اس لئے مجھے فکر تو بہر حال دامن گیر ہوئی۔ اب مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ طارق صاحب کشمیر کے ایم پی ہیں اور بہت بارسوخ آدمی ہیں۔ میں اس سلسلے میں حافظ علی بہادر خاں کے پاس پہنچا جو ان دنوں کشمیر گورنمنٹ کی اعانت سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالتے تھے اور میرے ان سے دیرینہ مراسم تھے۔ وہ بھی سن کر بہت فکر مند ہوئے اور کہنے لگے کہ رفعت صاحب غلط آدمی سے بھڑ گئے۔۔ ۔۔ ۔ خیر۔۔ ۔ اتوارگزری۔ پیر کے دن گیارہ بجے میں گوپال داس جی سے ملا۔ کہنے لگے کہ میں نے ڈی۔ جی سے کہہ دیا ہے کہ آپ یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دیجئے۔ اور ڈائرکٹر جنرل کے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ انہوں نے پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور مجھ سے کہا کہ تم چاہو تو ایک بار طارق سے مل لو۔۔ میں نے کہا، میرے جانے سے تو وہ صاحب اور اکڑیں گے۔ میرے انکار پروہ مسکرائے اور بولے۔۔ ۔ اچھامت جاؤ۔ اور بے فکری سے کام کرو۔
میرے دل پر گوپال داس جی کے کردار کی عظمت نقش ہو گئی۔ اتنا بارسوخ ایم۔ پی کہ جس کے ایک ٹیلی فون پر جے، سی ماتھر جیسے دبنگ ڈی۔ جی نے گھٹنے ٹیک دئیے اور اس کی خوشنودی کی خاطر اپنے اسٹاف کے ایک پروڈیوسر کو چیونٹی کی طرح مسل دینا چاہا اور ایسا نڈر اور حق پسنداسٹیشن ڈائرکٹر جس نے اپنے اسٹاف آرٹسٹ کی عزت کو اپنے محکمہ کی عزت تصور کیا اور اس کے تحفظ کے لئے اپنی پوری قوت کے ساتھ سینہ سپرہو گیا۔
اس واقعہ کی اگلی کڑی یہ ہے کہ ۱۹۶۱ء میں جب انڈو پاک کا نفرنس و گیان بھون میں منعقد ہوئی تو اسمیں شرکت کرنے کے لئے دونوں ملکوں کے ادیب، شاعر اور دانشور یکجا تھے، چائے کا وقفہ ہوا۔ میں ساحر لدھیانوی اور ایک دو دوستوں کے ساتھ کھڑا باتیں کر رہا تھا کہ ادھر وہی ممبر آف پارلیمنٹ طارق بڑھے۔ میں طارق کو ادھر آتا دیکھ کر دوسری طرف کھسک گیا۔ اور سلام مچھلی شہری سے باتیں کرنے لگا۔۔ طارق نے میرے بارے میں ساحر سے پوچھا۔۔ ۔ اور پھر طارق صاحب میرے پاس خود آئے اور ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ بڑھایا۔ میں نے بھی ہاتھ بڑھایا اور بغیر ایک لفظ کہے گلے شکوے دور ہو گئے۔۔ ۔۔ ۔ اور کئی سال بعد جب کشمیر کے ایک مشاعرہ میں جانا ہوا توطارق صاحب سے خوشگوار ملاقاتیں ہوئیں، وہ اس وقت ریاست میں سیروسیاحت کے وزیر تھے۔ اور ہم لوگ انہیں کی دعوت پر پہلگام مشاعرہ پڑھنے گئے۔۔ ۔ اب تو وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ خدا غریق رحمت کرے۔
تو ذکر تھا گوپال داس جی کی عظمت کا۔ وودھ بھارتی کو ان کے حسن انتظام نے مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا۔ مگر آل انڈیا ریڈیو کے اسٹیشن ڈائرکٹر اٹھاؤ چولھے کی طرح ہیں۔ آج یہاں توکل وہاں۔ افسوس یہ ہے کہ ان کے ساتھ دو تین سال ہی کام کرنے کا موقع مل سکا۔ وودھ بھارتی سے ان کے تبادلے کے بعد دل بجھ سا گیا تھا۔ کام تو کیا، مگر کوئی قدرداں نہ تھا۔ گوپال داس جی کو آل انڈیا ریڈیو سے ریٹائر ہوئے ایک مدت ہو گئی لیکن اس اہم محکمے سے ان کی وابستگی کسی نہ کسی صورت باقی ہے۔ چند سال پہلے انہیں اعزازی طور پر پروڈیوسر ایمریٹس بنا دیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے اب بھی ہوں۔ وہ براڈ کاسٹنگ کی اس عظیم نسل کے آخری چراغوں میں سے ہیں جس نے اپنا دل جلا کر اسے زندگی عطا کی ہے۔
وودھ بھارتی کے ننھے سے پودے کو ہم لوگوں نے جس جانفشانی سے بڑا کیا اس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں ہے۔ لیکن جب یہ تجرباتی پودا جڑ پکڑ گیا تو ہم اسسٹنٹ پروڈیوسروں کو امید ہوئی کہ اس کے پھولنے پھلنے کے ساتھ ہم لوگوں کی خدمات کا بھی اعتراف کیا جائے گا۔ سرکاری مشینری حرکتمیں آئی مگر بجائے اس کے کہ ہم تین چار اسسٹنٹ پروڈیوسروں میں سے کوئی ایک پروڈیوسر بنایا جاتا، ایک صاحبہ جو گجراتی خبریں پڑھا کرتی تھیں، اور جنہوں نے کبھی وودھ بھارتی کا روپ رنگ نہ دیکھا تھا اوپر والوں کی مہربانی سے ہم لوگوں پر پروڈیوسر بن کر نازل ہو گئیں۔۔ ۔ مس اروند ادوے۔ ان کے کارہائے نمایاں ہم لوگوں کی نظروں سے تو مخفی ہی رہے۔
قدر گو ہر شہ بہ داند یا بہ داند جوہری
کچھ عرصہ کے بعد ایک اور ریٹائرڈ پروگرام ایکزیکٹیو شری بابو راؤ پال وال پروڈیوسر بناکر نازل کر دئے گئے۔۔ یک نہ شد دو شد، ہم لوگ جہاں تھے وہیں رہے اور ہمارے معزز چیف پروڈیوسر شری نریندر شرما بھی کھلی آنکھوں سے اس نزول آسمانی کے منظر کو دیکھتے رہے۔ وہ بھی اسٹاف آرٹسٹ تھے اور اس نظام میں اسٹاف آرٹسٹ کا دائرہ اختیارہی کیا۔
غرض کچھ دن تک تو یہ امنگ رہی کہ کچھ نہ کچھ نیا اور انوکھا کام کیا جائے۔ کیا بھی اور داد بھی پائی۔ مگر وودھ بھارتی میں ایک رنگی اتنی ہے کہ گھڑی کی سوئیوں کی طرح پروگرام مقرر ہے۔ بہ بقول نریندر شرما ہم لوگ پروڈیوسرنہیں ری پرویڈیوسر REPRODUCERہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس بات کی اہمیت نہیں رہی کہ پروگرام کیسا ہے۔ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ تاریخ نشر سے کم سے کم اکیس دن پہلے پروگرام برائے نشر ریکارڈ کر دیا جائے۔ اور اگر کسی پروڈیوسر کو دس دن، پندرہ دن یا ایک مہینہ رخصت پر جانا ہے تو اکیس دن جمع چھٹی کے دنوں کے پروگرام بھی ریکارڈ کر کے جائے۔ اب اس ٹھیکداری میں کام پورا کرنے کا مطلب ہے، چاہے مال اونا پونا ہی لگے۔
تو یہ روش بن گئی وودھ بھارتی کی۔ اور ہم لوگ کو لہو کے بیل کی طرح اپنے اپنے کام میں آنکھ بند کئے جٹے رہے۔ آنکھیں کھولنے سے بیلوں کے بدکنے کا اندیشہ جو ہوتا ہے۔

ماخوذ از کتاب: اور بستی نہیں یہ دلی ہے( خود نوشت)
مصنف: رفعت سروش (سن اشاعت:1992)

The history of Air Vividh Bharati Radio.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں