راجہ مہدی علی خاں (پ: 23/ستمبر 1915 ، م: 27/جولائی 1966) کو اپنے عہد کے معاشرے اور عوامی جذبات کی ترجمانی کے باعث بیسویں صدی کے مزاح نگاروں میں نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے۔ 1968 میں جاری ہونے والے ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد) نے اردو کے اس مقبول ترین ادیب کی یاد میں اپنا خصوصی شمارہ (جولائی 2007) شائع کیا تھا۔ ماہنامہ شگوفہ کا یہ خصوصی شمارہ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
شگوفہ کے اس خصوصی شمارے کے اداریے میں ڈاکٹر مصطفی کمال لکھتے ہیں۔۔۔راجہ مہدی علی خاں کو شوخی ، شرارت، فطری پن، بے ساختگی کے انداز اور اپنے عہد کے معاشرے اور عوامی جذبات کی ترجمانی کے باعث بیسویں صدی کے مزاح نگاروں میں نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے۔ شگوفہ نومبر 1968 میں جاری ہوا تو طنز و مزاح کے راجا ، راجہ مہدی علی خاں حیات نہیں تھے ، لیکن ان کی حیات بخش تحریریں طنزیہ و مزاحیہ ادب کے سرمائے کا ناقابل فراموش حصہ بن چکی تھیں۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب تھے۔ بیشتر ہم عصر ادیبوں اور شاعروں سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ اس دور کے رسائل و جرائد اور خاص طور سے ماہنامہ "بیسویں صدی" میں ان کی تحریریں بالالتزام شائع ہوتی تھیں۔ اردو اخباروں اور جرائد کی دنیا میں ان کی دھوم تھی۔ ان کے پرکشش رشحات قلم نے اردو والوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ نثر و نظم دونوں میدانوں میں اس عجوبۂ روزگار تخلیق کار نے شہرت حاصل کی۔ قاری ان کی تحریروں کے منتظر رہتے تھے۔ مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ نہ صرف ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کی محفلوں میں ان کا ذکر رہتا تھا بلکہ اردو کے عام قاری بھی، جن کی پیدائش کا سلسلہ اب بڑی حد تک مفقود ہو چکا ہے، اپنی ملاقاتوں میں ان تحریروں کے حوالے سے گفتگو کیا کرتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔
کئی بار خیال ہوا کہ اس مقبول و متاز مزاح نگار کے لیے شگوفہ کا ایک شمارہ وقف ہونا چاہئے۔ اس ضمن میں راجہ مہدی علی خاں کے عاشق اور ان کے قریبی ساتھی ممتاز ادیب جناب کیول دھیر سے کوئی دو سال قبل خط و کتابت رہی۔ اردو نواز کیول دھیر نے فوری کچھ مواد بھی فراہم کر دیا تھا۔ لیکن بوجوہ اس تجویز پر عمل نہ ہو سکا۔ گزشتہ مہینے راجہ مہدی علی خان پر عزیزی عبدالقدیر مقدر کا پی ایچ ڈی کا مقالہ شائع ہوا تو خفتہ خواہش جاگ اٹھی اور جولائی کا شمارہ راجہ مہدی علی خاں کی نذر کر دیا گیا کہ جولائی اس منفرد مزاح نگار کی وفات کا مہینہ ہے۔
لیکن یہ احساس غالب ہے کہ جسیم شخصیت اور ضخیم تخلیقات کے حامل راجہ مہدی علی خاں کے لیے ایک جامع نمبر شائع ہونا چاہیے تھا۔ اس شمارے کے لیے عزیزی ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر نے راجہ مہدی علی خان کا مطبوع و غیر مطبوعہ کلام اور بعض مضامین فراہم کیے جس کے لیے ادارہ ان کا ممنون ہے۔
راجہ مہدی علی خاں کا ایک خاکہ ۔۔۔ مشہور اہل قلم خواتین کے محبوب مشغلے (عصمت چغتائی ، ممبئی)سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے لے کر اپنے شوہر شاہد لطیف سے لڑنا۔ انہیں ضدی کہنا۔ سیدھے منہ بات نہ کرنا۔ روٹھ کر بستر پر ٹیڑھی لکیر بن جاتا۔ لحاف میں منہ چھا لینا۔ آنکھوں میں مرچیں ڈال کر شاہد بھائی کو مرعوب کرنے کے لئے رونا۔ اپنے اوپر جھوٹی غشی طاری کر لینا۔ بالکل صنف نازک بن جانا۔ کبھی کبھی بے ہوشی میں لحاف منہ پر سے سرکا دینا تاکہ شاہد بھائی انہیں بے ہوش سمجھ کر منا لیں یا گھبرا کر رونے لگیں۔ اپنی اس جنگ کو کوروؤں اور پانڈوؤں کی جنگ سمجھ کر مجھ سے کہنا کہ تم کرشن بن کر میرا ساتھ دو۔ میرا نظریں بچا کر بھاگ جانا۔ منٹو بھائی کو یاد کرنا۔ منٹو کی یاد میں "کالی شلواریں" سلوا کر محلے کی بیواؤں میں مفت تقسیم کرنا۔
ادیبوں اور شاعروں کو ڈانٹنا۔ لڑتے ہوئے ادیبوں اور شاعروں میں عارضی صلحیں کرانا۔ جن ادیوں اور شاعروں کے تعلقات اچھے ہیں، انھیں آپس میں لڑوا دینا۔
اچھے بھلے لوگوں کو یقین دلانا کہ وہ سخت بیمار ہیں۔ انھیں زبردستی دھکے دے دے کر ہسپتال پہنچانا با ایمبولنس کار میں سوار کرا کے خود ہسپتال پہنچا آنا۔ بعد میں ان کے مرنے کی دعا کرنا۔ مرنے کی خبر سن کر کہتا "ہائے نگوڑا مر گیا"۔
حکومت کی طرف سے اپنے اوپر فحاشی کے مقدے چلوا کر تماشہ دیکھنا۔ عوام کی طرف سے اپنے اوپر ہتک عزت کے مقدمے دائر کرا کے عدالت کے فیصلے کا بڑی بےپرواہی سے انتظار کرنا۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
نیکیوں کے بے شمار کام چھپ کر کرنا اور ان کا چرچا نہ کرنا۔ ٹوسٹ پر مکھن یا جام کی بجائے لپ اسٹک لگا کر کھانا۔ لپ اسٹک اور شکر کے قوام میں ٹوسٹ ڈائی کرا کے انہیں فرنچ ٹوسٹ کہہ کہہ کر کھانا۔
عورتوں کو مرد غنڈوں کے برابر یا ان سے زیادہ سوشل بننے یا انہیں سوشل حقوق حاصل کرنے کی تلقین کرنا۔ ان کا بیڑا غرق کرنا۔ راجہ مہدی علی خان کو نثر لکھنے سے ہاتھ جوڑ جوڑ کر باز رکھنا۔ مضامین پڑھے بغیر ان کے متعلق مار ڈھاڑ قسم کی بحثیں کرنا۔ ہر وقت یہ شعر ورد زبان رکھنا:
اے ماؤں، بہنو، بیٹیو
مردوں کی عزت تم سے ہے
دنیا یہ جنت تم سے ہے
اے ماؤ بہنو بیٹیو
***
نام رسالہ: شگوفہ - جولائی 2007
مدیر: ڈاکٹر مصطفیٰ کمال
تعداد صفحات: 60
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Shugoofa_July-2007.pdf
ماہنامہ 'شگوفہ' - جولائی 2007 :: فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | تخلیق کار | صفحہ نمبر |
سب اچھا کہیں جسے (شخصیت) | |||
1 | اردو ادب کا فٹادو | ڈاکٹر وزیر آغاز | 5 |
2 | راجہ مہدی علی خاں، ایک ناظر حیات | پروفیسر سیدہ جعفر | 8 |
3 | راجہ مہدی علی خاں کا انداز بیان | احمد جمال پاشا | 10 |
4 | راجہ مہدی علی خاں | ڈاکٹر شفیقہ فرحت | 12 |
5 | راجہ مہدی علی خاں، ایک جائزہ | ڈاکٹر عبدالقدیر مقدر | 16 |
انتخاب نثر راجہ مہدی علی خان | |||
6 | میرا پیارا دوست منٹو | راجہ مہدی علی خاں | 24 |
7 | میں عصمت چغتائی اور کریلے | راجہ مہدی علی خاں | 27 |
8 | مشہور اہل قلم کے محبوب مشغلے | راجہ مہدی علی خاں | 31 |
9 | مشہور اہل قلم خواتین کے محبوب مشغلے | راجہ مہدی علی خاں | 34 |
انتخاب کلام راجہ مہدی علی خان | |||
10 | مہرباں ہو کے بلا لو | راجہ مہدی علی خاں | 15 |
11 | غالب نامہ (پیروڈیاں) | راجہ مہدی علی خاں | 39-48 |
12 | ضرورت ہے ایک نوکر کی | راجہ مہدی علی خاں | 48 |
13 | ایک خاتون کے پرائیویٹ خطوط | راجہ مہدی علی خاں | 49 |
14 | لوٹتی ہوئی بارات | راجہ مہدی علی خاں | 51 |
15 | مکالمہ 558207 | راجہ مہدی علی خاں | 51 |
16 | عشق کے لیے روانگی | راجہ مہدی علی خاں | 52 |
17 | تیرے کوچے میں | راجہ مہدی علی خاں | 53 |
بال کی کھال (تبصرے) | |||
18 | کالم برداشتہ ایک مطالعہ | ڈاکٹر نسیم الدین فریس | 54 |
19 | راجہ مہدی علی خاں کی ادبی خدمات | یوسف ناظم | 57 |
متفرقات | |||
20 | دے کے خط (مراسلے) | قارئین | 59 |
21 | پھر ملیں گے (اداریہ) | مدیر | 60 |
Shugoofa magazine Hyderabad, Raja Mehdi Ali Khan special issue: July 2007, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں