جاوید اقبال اور عرش تیموری کے سفرناموں میں مزاح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-24

جاوید اقبال اور عرش تیموری کے سفرناموں میں مزاح

jawed-iqbal-arsh-taimoori travelogue

جاوید اقبال
جاوید اقبال زندگی کے حالات و مسائل کو ایک کارٹونسٹ کی نظر سے دیکھتے اور اس کی مضحک تصویر خطوں اور قوموں سے تیار کر دیتے ہیں۔ ان کا سفر نامہ یورپ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں مناظر و اشیا کے ابھرے ہوئے کنارے آنکھوں میں چبھن پیدا نہیں کرتے۔ ان کے سفر نامہ امریکہ اور کینیڈا میں اظہار کی سطح ہموار اور مشاہدے میں توازن و اعتدال ہے۔ ان سفر ناموں میں مزاح مقصود بالذات نہیں بنتا بلکہ زیر سطح رہتا ہے اور شگفتگی اور لطافت پیدا کرتا ہے، چند اقتباسات ملاحظہ کیجئے۔
"میزبان کے انتظار میں مَیں اور میری بیگم آنے جانے والے مسافروں کو گھور رہے تھے۔ بڑا مزا آ رہا تھا۔ میری بیگم نے فوراً میری بات مان لی کہ انگریز لڑکیاں بہت خوبصورت ہیں۔ جولائی میں یہاں بھی گرمی ہوتی ہے۔ اور اسی مناسبت سے لباس بھی مختصر اور آرام دہ ہوتا ہے۔ اکثر لڑکیاں چھوٹی چھوٹی نیکریں یا کاٹن کے پاجامے پہنے ادھر ادھر بیٹھی یا لیٹی رہتی ہیں۔ ان حالات میں یہاں پرمزید بیٹھنے سے اعصاب پر اثر پڑ سکتا تھا۔ اس لئے بار بار جگہ تبدیل کی، لیکن ائر پورٹ پر اتنی زیادہ رونق تھی کہ کوئی بھی کونہ ایسی حشر سامانی سے خالی نہیں تھا۔ اب تو میری بیگم کی آنکھیں بھی تھک چکی تھیں۔ اسے تو دو محاذوں پر دیکھنا پڑ رہا تھا۔ "

"شام کو باہر نکلنے کو دل نہیں کرتا تھا، پہلے پانچ دن دھوپ رہی اور بعد کے چھ دن بارش، لیکن لندن کی بارش اتنی مہمان نوازی ضرور کرتی ہے کہ وقفے وقفے میں منزل مقصود پرپہنچ جائیں۔ "

"جولائی اور اگست میں بازاروں کی رونق دوبالا کرنے کے لئے بڑی بڑی دکانوں پر رعایتی سیل لگادیتے ہیں۔ اسی وجہ سے سٹوروں میں بھی بڑا رش ہوتا ہے۔ اگر پاکستانی روپوں میں ضرب دینے کی عادت پیچھا نہ چھوڑے تو شاپنگ تو رہی ایک طرف آپ کھانے سے بھی گئے۔ دو تین آدمیوں کا ایک وقت کا کھانا نو دس پونڈ میں پڑتا ہے۔ "

جاوید اقبال کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے سفرنامے کو کہیں بھی کارٹون بننے کی اجازت نہیں دی۔

عرش تیموری
عرش تیموری کے مزاج کی کیفیت یہ ہے کہ وہ مناظر و اشیا کو نسبتاًٹیڑھے زاویے سے دیکھتے اور حقیقت کی مضحک صورت کو فوراً دریافت کر لیتے ہیں۔ انہوں نے ایشیا یورپ اور امریکہ کا سفر 1961ء میں اختیار کیا تھا۔ ان کا سفر نامہ "ایک سانولا گوروں کے دیس میں"، ایسے بے شمار واقعات کا عکاس ہے جس میں آئینے کی سطح غیر ہموار ہے۔ اور خدوخال بگڑ کرمسکراہٹ کو جنم دے ڈالتے ہیں۔ احسن فاروقی نے لکھا ہے کہ:
"ان کی نظر دنیا کی ہر چیز پر ایک خاص انداز میں پڑتی ہے اور اس سے مزاحیہ عناصر کو اپنی طبع کے مطابق اخذ کر لیتی ہے۔ "
تاہم میرا خیال ہے کہ عرش تیموری نے سفر کے تضادات سے طنز پیدا کیا ہے۔ اس واقعاتی سفرنامے کا اقتباس ملاحظہ کیجئے۔ جس میں درد مندی کا شدید عنصر موجود ہے۔

ایک انگریز خاتون اپنے بچوں کو حصار میں لئے کھڑی تھی اور مجھے لکھتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ جب میں نے اپنے نام کے ساتھ پاکستان لکھا تو وہ خاتون مسرت سے چلانے لگی:
"میرے بچو! دیکھو پاکستان کے لوگ بھی ہماری جیسی انگریزی لکھ سکتے ہیں۔ "
پھر اوپر دیکھا : " میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ "
میں نے کہا۔ " محترمہ پاکستان میں ایسے لوگ بہت ہیں جو انگریزوں کی طرح انگریزی لکھ سکتے ہیں۔ لیکن کیا آپ اپنے ہم وطنوں میں سے کسی ایک کا نام بتا سکتی ہیں جو اسی طرح اردو لکھنے پر قادر ہو۔ "

"ایک سو ایک غلامیوں کے بوجھ سے دبے ہوئے سیاح ان بچوں کی طرح جو مختصر میعاد دھوکوں سے بہل جاتے ہیں، خوش ہو ہو کر ہر زاویے سے مجسمے کی تصویریں اتار رہے تھے۔ یہ خوشی اس لئے نہیں تھی کہ وہ آزاد تھے بلکہ اس لئے کہ وہ مجسمۂ آزادی کے قدموں میں کھڑے تھے۔ "

عرش تیموری کا طنزومزاج آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہے اس لئے یہ دل پر ٹھیس بھی لگا دیتا ہے۔

مزاح نگاروں کے سفر نامے

***
ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
مصنف: ڈاکٹر انور سدید (اشاعت: اگست 1987)

Humorous travelogue of Jawed Iqbal & Arsh Taimoori.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں