مزاح نگاروں کے سفر نامے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-17

مزاح نگاروں کے سفر نامے

Travelogue of humorous urdu writers

سفری مشاہدے میں وہ زاویہ نظر بہت اہمیت رکھتا ہے جس سے سیاح یا مسافر کائنات اور مظاہر حیات کو دیکھتا ہے۔ یہی زاویہ نظر جب سفر نامے میں منتقل ہوتا ہے تو سفر نامہ نگار کے شعور اور رویے اور اس کی شخصیت کا عکاس بن جاتا ہے۔ سنجیدگی کو کائنات کے ہر عمل میں فوقیت حاصل ہے۔ لیکن یہی سنجیدگی جب ضرورت سے بڑھ جائے تو یہ مشینہ قسم کی فضا کو فروغ دیتی اور زندگی کو بے رنگ کر دیتی ہے۔ وزیر آغا نے لکھا ہے کہ:
" قدرت نے انسان کو ایک ایسی نعمت بھی بخشی ہے جس سے کام لے کر وہ خوفناک سنجیدگی اور زندگی کی صبر آزما کشمکش پر ہنس سکتا ہے اور یوں مسکرا کر بلکہ قہقہ لگا کر اپنی اس دیوانہ وار پیش قدمی میں دھیما پن پیدا کر سکتا ہے جو زندگی کے تیز بہاؤ سے ہم آہنگ ہے۔ "
ڈاکٹر وحید قریشی کے خیال میں:
"ہنسنا انسانی فطرت کا خاصا ہے۔۔ یہ ایک ذہنی رویہ ہے جس میں لذت، سرخوشی، مسرت اور انبساط پایا جاتا ہے۔۔ ہنس مکھ ایسے آدمی کو کہتے ہیں جس کا چہرہ شگفتہ اور مسکرات ہوا نظر آئے۔ بہجت کی نفسی کیفیت کو جب خارجی شکل و صورت ملتی ہے تو اسے ہنسی مسکراہٹ، خذہ زیر لب۔۔ کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔

سفر نامہ بھی بظاہر ایک سنجیدہ تخلیقی عمل ہے لیکن اس میں ہر سفر نامہ نگار ذہنی رویے کے اعتبار سے دوسرے سفرنامہ نگاروں سے مختلف نظر آتا ہے۔ چنانچہ سفرنامہ نگار اگر زندگی کو ہموار، معتدل اور متوازن نظر سے دیکھے تو ایک سنجیدہ سفر نامہ تخلیق ہوتا ہے لیکن اگر وہ زندگی کی ناہمواریوں کا احاطہ کرتا اور انہیں معکوسی نظر سے دیکھتا اور زندگی کی حماقتوں اور بوالعجبیوں میں خود بھی شریک ہو جاتا ہے تو سفر نامہ مزاحیہ صورت اختیار کرجاتا ہے۔ دوسری طرف اگر سفر نامہ نگار حقیقت و مظاہر کو بلند سطح اور استہزائیہ نظر سے غیر ہمدردانہ انداز میں دیکھتا ہے تو سفر نامے میں طنز اور زہرناکی پیدا ہو جاتی ہے۔
اردو ادب میں بیشتر سفرنامے سیاح یا مسافر کی سنجیدہ فکری ہی کے عکاس ہیں۔ اور یہ زندگی کو ہمدردانہ شعور سے پیش کرتے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ سفر کے دوران پیدا ہونیو الی حیرت، نئی سر زمینوں سے ملاقات اور ان سے وجود میں آنے والی مسرت نادیدہ کو دیکھ لینے کی بہجت جب شگفتہ صورت اختیار کر لیتی ہے تو اکثر اوقات لطیف و شائستہ مزاح کو بھی جنم دے ڈالتی ہے، دوسری طرف جب قدیم جدید یا مغرب اور مشرق کی اقدار کے موازنے سے تحقیر یا افتخار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو سفر نامے میں بے ساختہ طنز بھی شامل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بعض سفر نامہ نگاروں نے اس عمل سے زہر خند اور احساس ملال کی صورت پیدا کی ہے۔ بعض نے ذہنی تفریح کے لئے طائف کا سہارا لیا اور بعض نے مزاح کی فطری تخلیق سے سنجیدہ فضا میں ستاروں جیسی ٹمٹماہٹ پیدا کر دی ہے۔ اس قسم کے عمل نے سفر نامے کی خوفناک سنجیدگی کو بے رنگ اور پیوست سے بچایا اور معنویت کو پھول کی طرح تر و تازہ کرنے میں مدد دی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ اس قسم کے سفر ناموں میں بنیادی مقصد حوادث و حالات سفر اور کوائف و تاثرات سفر پیش کرنا ہی تھا، مزاح یا طنز کی شمولیت محض اتفاقی اوربے ساختہ تھی اور یہ مقصود بالذات نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی مقدار کھانے میں نمک کی مقدار سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ چند مثالیں حسب ذیل ہیں:

"اجنبی اپنے دیس میں۔ "شوکت علی شاہ
"صبح سوکر اٹھا تو طبیعت ہشاش بشاش تھی۔ فقیر محمد چائے بناکر لایا جب میں نے پہلا گھونٹ حلق سے اتارا تو ذائقہ مختلف پایا۔ میں نے پیالی رکھ دی۔ فقیر محمد میری پریشانی کو بھانپتے ہوئے بولا۔ "صاحب ! بے تکلف چائے پیجئے، خالص بکری کا دودھ ہے۔ "

"لاہور سے لندن تک۔ " ڈاکٹر محمد باقر
"مسٹر بے تاب کی ایک آنکھ کی بصارت میں کچھ نقص تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے لڑکی کا ہاتھ تھاما اور اسے گھسیٹتے ہوئے دروازے کی مخالف سمت میں دوڑے اور جہاں آئینے میں دروازے کا عکس پڑ رہا تھا۔ وہاں دیوار سے ٹکرا گئے، اس پر لڑکیاں اور ہم کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ دوسرے لوگوں نے اسے بتایا کہ کمرے میں دروازہ صرف ایک ہی ہے۔ "

"چین کی حقیقتیں اور افسانے۔ "ڈاکٹر وحید قریشی۔
"عام چینی ہر وقت جنرل ماؤ کی تحریروں کا کوئی نہ کوئی چھوٹا مجموعہ اپنی جیب میں رکھتا ہے۔ اگر خاطر غزنوی کی با توں پر اعتبار کیا جائے تو یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ اپنے قائد سے ان کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی ڈرائیور کی گاڑی رک جائے تو وہ اتر کر سب سے پہلے جنرل ماؤ کے کتابچے سے فال نکالتا ہے۔ "

"ایک طویل ملاقات"وزیر آغا۔
"ہم دفتر پہنچ کر انتظار گاہ میں جا بیٹھے۔ وہاں رینو کے والد مکرجی پہلے ہی سے بیٹھے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی، مکرجی بڑے ہنس مکھ انسان ہیں۔ انہوں نے اس روز گاندھی کیپ پہن رکھی تھی۔ راجہ مہدی علی خان نے اپنا منہ میرے کان کے قریب لے جا کر بتایا کہ مکرجی نے تازہ تازہ استرا سر پر پھرایا ہے ( جو غالباً ہندو مذہب میں کسی قریبی عزیز کی موت پر ایک رسم کی حیثیت رکھتا ہے۔ ) اور اسے چھپانے کے لئے کانگریس پرستی کے عمل میں مبتلا ہیں۔ "

"دیکھ لیا ایران۔ " افضل حسین علوی
" کھانے اور کلاس کے بعد آقائے اعجاز کی صرف ایک ہی منزل ہوتی اور وہ اس کا بستر ہوتا۔ ہر دو کاموں سے فارغ ہونے کے بعد وہ صرف اتنا عرصہ ہی بستر سے جدا رہتا جتنا عرصہ اسے پتلون اور قمیض اتار کر تہمد باندھنے میں لگتا۔ اور پھر وہ ہوتا اور اس کا بستر۔ چت لیٹ کر زانو کھڑے رکھنا اس کا پسندیدہ پوز تھا، میں ہنستے ہوئے کہتا "ارے تو تو یوں لیٹا رہتا ہے جیسے کوئی زچہ ہو۔ " مگر وہ اس پر بھی زچ نہ ہوتا۔ "

واقعات کی اس قسم کی صورت مزاح سے زیادہ شگفتگی کی افزائش کرتی ہے اردو ادب میں ایسے سفر ناموں کی یقیناً کمی ہے جن حقیقت کومزاح کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرنے کی شعوری کاوش کی گئی ہو، اور سفر کے مشاہدات تخلیقی مزاح کا وسیلہ ہوں اس ضمن میں شفیق الرحمن، ابن انشا اور کرنل محمد خان کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ وہ زندگی کے بے حد خوش فکر ناظر ہیں اور وہ حقیقت کی پرت الٹنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔ وہ کائنات پر اس طرح نظر دوڑاتے ہیں کہ مظاہر کائنات گد گدی کیفیت محسوس کرنے لگتے ہیں اور مسکراہٹیں ایک خود کار فوارے کی طرح ان کے باطن سے ابل پڑتی ہیں۔ یہ ادبا بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں اور خندہ آور کیفیات کو ادبی شان سے پیش کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ سفر کا بیان ان کی تخلیقی ضرورت بھی قرار دیاجا سکتا ہے، لیکن انہوں نے اس ضرورت کے علی الرغم بنیادی اہمیت مزاح کی تخلیق کو دی ہے چنانچہ ان ادبا کے فن میں مزاح کی تخلیق مقصود بالذات بھی نظر آتی ہے اور سفر نگاری بھی مزاح ابھارنے کا ہی وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سفر نامہ نگاروں کی صف میں تو اجنبی نظر آتے ہیں اور مزاح نگاروں کی رومیں وہی میر مجلس معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے سفر نامے نہ صرف مزاح کا عمدہ نمونہ پیش کرتے ہیں بلکہ ان سے ہی مزاحیہ سفر ناموں کا معیار فن متعین ہوتا ہے۔ ان ادبا کی سفر نامہ نگاری کا ذکر گزشتہ اوراق میں ہو چکا ہے لیکن اس باب میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ سفر نامے میں انہوں نے مزاح کے جو منفرد حربے استعمال کئے ہیں ان کا بالخصوص ذکر کیا جائے۔

***
ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
مصنف: ڈاکٹر انور سدید (اشاعت: اگست 1987)

Travelogue of humorous urdu writers.

1 تبصرہ:

  1. جزاک اللہ و خیراً، آپ کے اس مضمون سے ذہنی رہنمائی ہوئی۔

    جواب دیںحذف کریں