ابن انشا کے سفرناموں میں مزاح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-07-04

ابن انشا کے سفرناموں میں مزاح

ibne-insha-humorous-travelogue

"چلتے ہو تو چین چلئے "
"دنیا گول ہے"
"ابن بطوطہ کے تعاقب میں "
اور
"آوارہ گرد کی ڈائری"
میں ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بیگانہ روی سے نظر ڈالتا ہے لیکن در حقیقت اس کی آنکھ اشیا کے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔ ابن انشا کی شخصیت میں سر شار کے سیلانی اور میر امن کے درویش دونوں کی خصوصیات جمع ہو گئی تھیں۔ چنانچہ ان کے شوق کی کمی بھی نہیں تھی، اوروحشت کا توڑا بھی نہیں تھا۔ فقط سبب کی حاجت ہوتی تھی۔ اور یہ سبب کتابی دنیا کی کوئی غیر ملکی کانفرنس مدت مدید کا وقفہ ڈالے بغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ابن انشا کے بیشتر اسفار سرکاری نوعیت کی کانفرنسوں کی بدولت ہی ظہور میں آئے اور سفروں کا حال اخباری ضرورتوں کے لیے لکھا گیا۔ چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ ابن انشا کے سفر نامے در حقیقت اخباری کالم ہیں جنے لئے مواد تجربات سفر سے حاصل کیا گیا ہے تو یہ درست ہو گا۔ صحافتی ضرورت نے بلا شبہ تاثر کو فوری طور پر ضبط تحریر میں لانے کی سبیل پیدا کی ہے لیکن فتح محمد ملک کایہ خیال درست ہے کہ:
"ابن انشا کے ہاں صحافتی انداز نظر کی بجاء فکری، تازگی اور ادبی رکھ رکھاؤ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ابن انشا کا گہرے میٹھے طرز کا حامل شگفتہ و شاداب اندازبیان اور انسان دوستی کا رچا ہوا شعور اس پر مستزاد ہے۔ "
ابن انشا کی منفرد خوبی ملکی اور غیر ملکی عادات کے درمیان موازانہ، رواں تبصرہ اور قول محال کی بوالعجبی ہے۔ ان کے اسی انداز نے سفر نامے کو پامال روایت سے الگ کر کے شگفتگی کی ڈگر پر ڈال دیا ہے۔ مثال کے طور پر چلتے ہو تو چین کو چلئے، سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے جو سبک طنز میں لپٹا ہوا ہے۔

"پانی ابال کر پیتے ہیں، موبل ائل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی یابناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیر معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔ وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔۔ ۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔ ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکاندار بھاؤ تاؤ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔ "

ابن انشا نے اپنے سفر ناموں میں عام قاری کی دلچسپی کے لئے معلوماتی مواد فراہم کرنے تاریخی واقعات بیان کرنے اور شخصیات کی سوانح نگاری کا فریضہ ادا کرنے کی کاوش بھی کی ہے۔ انہوں نے سفر نامے کو بیانیہ اسلوب میں بھی پیش کیا ہے کہیں قاری کو خطاب کرنے کی سعی بھی کی ہے اور کہیں درویش کا روپ دھار کر داستانی اسلوب اختیار کر لیا ہے یہ سب حربے در حقیقت تحیر ابھارنے اور قاری کی انگلی تھامے رکھنے کے حربے ہیں۔
دوسری طرف ابن انشا نے سفر نامے میں طنز لطیف اس طرح شامل کیا ہے کہ بات میں عمق اور اثر آفرینی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور ہدف طنز چونکہ ان کا اپنا معاشرہ ہے اس لئے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دل میں ایک سوئی بھی چبھ سی جاتی ہے۔ ابن انشا دوسرے ممالک کے معاشروں میں خیر اور نیکی کی قدروں کی جستجو زیادہ کرتے ہیں۔ اور فراز تہذیب کا موازنہ جب ابتذلی تمدن سے کرتے ہیں تو اس تضاد سے ایک بیساختہ مسکراہٹ کو جنم دے ڈالتے ہیں۔ ان کے ہاں لفظوں، محاوروں اور ضرب الامثال کی ہیئت تبدیل کرنے اور مزاجی کیفیت پیدا کرنے کا رجحان بھی نمایاں ہے اور اپنی اس صلاحیت سے انہوں نے سفر ناموں میں جابہ جافائدہ اٹھایا ہے۔ سفر نامے میں ابن انشا نے طنزومزاح کے جو حربے کامیابی سے استعمال کئے ہیں ان کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:

"ریل میں ہر نشست کے ساتھ چائے کے گلاس رکھنے کی جگہ ہے کام کرتے جائیے اور ایک ایک گھونٹ چسکتے رہئے۔ تھوڑی دیر میں کوئی آئے گا اور اس میں مزید گرم پانی ڈال جائے گا۔ معلوم ہوا کہ اس سے معدے کا نظام درست دیتا ہے۔ جراثیم کا دفعیہ ہو جاتا ہے۔ کم خرچ بلکہ بے خرچ بال نشین۔ ہم نے بھبی کچھ دن پانی پیا پھر چھوڑ دیا۔ کس برتے پرتتا پانی۔ "

"میزبانوں نے اپنا تعارف کرایا۔ یہ رسمی کار روائی تھی۔ سنتے گئے اور ہوں ہاں کرتے گئے۔ اگلی صبح تک سب ایک دوسرے کے نام بھول چکے تھے۔ مہمانوں کا تعارف کرانا ہمارے ذمہ رہا۔ کیونکہ وفد کے لیڈر اراکین کے ناموں اور کاموں سے ابھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ایک آدھ جگہ البتہ شمع ان کے سامنے پہنچی تو انہوں نے ہمیں پاکستان کا ممتاز اور مشہور ناول نویس قرار دیا اور چونکہ تردید کرنا خلاف ادب تھا۔ لہٰذا ایک مہمان کے اشتیاق آمیز استفسار کے جواب میں ہمیں اپنے ناولوں آگ کا دریا، خدا کی بستی، آنگن وغیرہ کی تعداد بتانی پڑی۔ وہ ان تصانیف کے نام بھی نوٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے از راہ انکسار کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔ "

"ہم جو چین گئے تو سب سے پہلے یہی مسئلہ پیدا ہوا۔ چین میں اخبار ہوتے ہیں لیکن چینی زبان میں اور وہ بھی شام کو نکلتے ہیں۔ صبح نکلتے تو کم از کم ان کی تصویریں دیکھنے کے لئے باتھ روم جایاجا سکتا تھا۔ نتیجہ اخبار نہ دیکھنے کا یہ ہوا کہ ہمارے ادیبوں کے وفد کے اکثر رکن قبض کا شکار ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے بہت دوائیں کیں لیکن بے فائدہ۔ آخر ہم نے کہا۔ ان کے لئے اخبار منگوانا شروع کیجئے۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے۔۔ چینی نیوز ایجنسی کا بلٹن انہوں نے بھیجنا شروع کر دیا۔ اس صورت حال کی پوری طرح اصلاح تو نہ ہوئی لیکن بعضوں کا ہاضمہ پہلے سے بہترہو گیا۔ "
ابن انشا کے طنز میں فطری نفاست ہے اور اس کا مزاج غیر جذباتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جملوں کے بین السطور معانی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس بالواسطہ انداز نے ان کے سفر ناموں کو تابانی اور مسکراہٹ عطا کی ہے اور انہوں نے معاشرتی ناہمواریوں کو طشت از بام کرنے کے لے سفر نامے سے قابل قدر کام لیا ہے۔ ان کے عملی مزاح کی صورت یہ ہے کہ انہوں نے سفر نامے کو کالم میں شامل کر کے صحافت کی ضرورت بنا دیا۔ ان اوصاف کی بنا پر ابن انشا کو پڑھنے والوں کا وسیع حلقہ نصیب ہو اور یہ ان کی وفات کے بعد مزید بڑھتا چلاجا رہا ہے۔

مزاح نگاروں کے سفر نامے

***
ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
مصنف: ڈاکٹر انور سدید (اشاعت: اگست 1987)

Humorous travelogue of Ibne-Insha.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں