شفیق الرحمن کے سفر ناموں میں مزاح، صورت واقعہ سے بھی پیدا ہوا ہے اور اس کی تخلیق میں ان کردارں نے بھی گراں قدر حصہ لیا ہے جو سفر ناموں میں زندگی کا تناظر پیش کرتے چلتے پھرتے، سانس لیتے اور گفتگوئیں کرتے نظر آتے ہیں۔ شفیق الرحمن کی مجلس آرائی ان کے سفرناموں کا ایک اہم عنصر ہے۔ ان کی پر لطف اور پر مزاح گفتگوئیں بھی اسی مجلسی زندگی ہی کا حصہ ہیں۔ چنانچہ وہ بات سے بات پیدا کرتے اور ایک مخصوص نقطے کو ذرا سا موڑ دے کر اس سے آتش بازی کے انار کی طرح مسکراہٹیں برآمد کر لیتے ہیں۔ اور اکثر اوقات تو ایک دھلا دھلایا لطیفہ سفر نامے کی ساری فضا کو زعفران زار بنا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر "ڈینیوب" سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے:
" دلبر نے اپنے منگیتر کی طرفداری کرتے ہوئے دی آنا کے اس ڈاکٹر کا قصہ سنایا جس نے مے خانے کے مالک کو شراب کا پیپا ٹھونکتے دیکھ کر وجہ پوچھی۔ اس نے سمجھایا کہ اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ پیپے میں شراب کتنی ہے اور کس حالت میں ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر نے اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانی سینے کو انگلیوں سے تھونکنے بجانے کا طریقہ رائج کیا جو آج بھی طبی معائنے اور تشخیص کا ایک اہم حصہ ہے۔ "
"لیک وی آنا کے ڈاکٹر کو خیال آیا تو کہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ شراب خانے میں ؟"
"یہ پوچھتی ہے کہ ابھی تم نے کیا کہا ہے ؟"۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ "کہہ دو آئین سٹائن کا ذکر کیا ہے جو ڈینیوب کے کنارے پیدا ہوا تھا۔ "
"پوچھتی ہے تمہیں آئین سٹائن کی تھیوری آتی ہے ؟" کہہ دو کہ تھیوری بہت آسان ہے۔ شدید جاڑے میں سڑک پر آدھ گھنٹے تک محبوب کا انتظار کیا جائے، پھر وہی آدھ گھنٹہ محبوب کی رفاقت میں گزارا جائے پہلے تیس منٹ بے حد طویل معلوم ہوں گے۔ بعد میں وہی تیس منٹ چند منٹوں میں گزر جائیں گے۔ وہ مسکرانے لگی۔۔ ۔ "آج یہ کئی مہینوں کے بعد مسکرائی ہے۔ پوچھتی ہے تمہارے ہاں محبوب کتنا انتظار کراتے ہیں ؟"
"کہہ دو کہ انتظار ختم ہونے میں نہیں آتا۔ آئین سٹان کی تھیوری وہاں بالکل بے کار ہے۔ "
شفیق الرحمن کے سفر ناموں میں سبک اور لطیف طنز سے بھی کام لیا گیا ہے۔ ایک مثال حسب ذیل ہے جس میں ہمارے دور کے تعمیراتی کاموں کو نشانہ طنز بنایا گیا ہے۔
"مضبوط اور بڑھیا کو الٹی کے اہرام وہی ہیں جو پہلے بادشاہوں نے ذاتی نگرانی میں بنوائے تھے۔ بعد میں جیسا کہ دستور ہے معیار گرتا گیا۔ یہاں تک کہ بعد کے اہرام میں کئی ایسے ہیں جن میں باہر ذرا سا پتھر لگایا گیا ہے ورنہ اندر ریت اور مٹی ہے۔ یہ اہرام ضرور ٹھیکداروں سے بنوائے گئے ہوں گے۔ "
شفیق الرحمن نے مشاہدے کو مزاحی زاوے سے ایک جملے میں سمیٹنے کی بھی عمدہ کاوش کی ہے۔ چند جملے ملاحظہ کیجئے۔
"منگنی میں یہی خرابی ہے کہ اس طرح فریقین کو سوچنے کا موقع مل جاتا ہے۔ "عورتیں جب غمگین ہوتی ہیں تو خوب مٹھائیاں اور کیک کھاتی ہیں۔ "
"شادی میں سب سے بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ آئے دن ایسے مرد ملتے ہیں جو اپنے خاوند سے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ "
"سگریٹ نوشی کے نقصانات پر رسالوں کتابوں میں اتنا کچھ پڑھا ہے کہ تنگ آ کر پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ "
سفر نے شفیق الرحمن کو دنیا کی کشادگی مشاہدہ کرنے کا موقعہ فراہم کیا ہے اور ان کے مزاحی رویے جب صورت واقعہ کو منقلب کیا تو بے ساختہ مسرت اور بے پایاں طمانیت سفر نامے میں بکھرتی چلی گئی اور ان کا سفر نامہ ایک ایسی بیاض شب بن گیا جس پر ان گنت ستارے مسکرارہے ہیں۔ ان زاویوں سے مطالعہ کیجئے تو صاف نظر آتا ہے کہ "دجلہ" کے سفر ناموں "نیل"، ڈینیوب" اور دجلہ" میں زندگی اور مناظر کو لطیف کی مسکراہٹ اور مثبت رویے سے دیکھا گیا ہے اور ان کے ہاں زندگی کادامن خوش طبعی سے پکڑنے کا انداز نمایاں ہے۔ وہ سفر کے دوران واقعات تلاش کرتے اور واقعات کو افسانہ بنانے کی شعوری کاوش کرتے ہیں۔ چنانچہ ان کی واقعہ نگاری میں افسانوی چاشنی بھی موجود ہے۔ لیکن وہ سفر نامے کے رومانی ہیرو کی طرح شہد کی مکھی بننے اور مٹھاس کشید کرنے کی کاوش نہیں کرتے۔ وہ تو مناظر پر سے ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح گزارتے ہیں اور پھر کیف و انبساط کا دروازہ اپنے قاری کی طرف کھول دیتے ہیں۔ اور خوبی یہ کہ اس عمل میں وہ اپنے ذاتی رد عمل پر پردہ نہیں ڈالتے بلکہ ایک انشائیہ نگار کی طرح انکشاف ذات بھی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے سفر نامے کا ایک اقتباس:
"اہرام کی عظمت کا صحیح اندازہ زمین سے نہیں لگایاجا سکتا۔ خوفو کے ہرم کی چوٹی سے میں نے نیچے دیکھا تو یوں لگا جیسے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہوں، نوک دار چوٹی بالکل سپاٹ ہے۔ اوپر اچھا خاصا میدان بنا ہوا ہے۔ نیل کو دیکھا، ریت کے سمندر میں اس افق سے اس افق تک ایک سبز لکیر کھینچی ہوئی ہے۔ ایک طرف مفس اور سقرہ کے اہرام ہیں۔ پھر فسطاط نظر آتا ہے ہاں فاتح مصر عمرو بن العاص کی مسجد اور مزار ہے۔۔ ۔۔ دن میں شہر اور دریا دونوں مٹیالے نظر آتے ہیں۔ جیسے گرد سے اٹے ہوں۔ یہ اندھیرا ہے اور بجلی کے قمقمے جو رات کے وقت قاہرہ اور نیل کو اس قدر حسین بنا دیتے ہیں۔ "
شفیق الرحمن نے اردو سفر نامے کو حقیقت سے تخیل کی طرف تیزی سے پیش قدمی کرنے میں مدد دی ہے لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انہوں نے فطرت کو ایک دیرینہ دوست کی طرح دیکھا اور فطرت نے اپنا تمام اسرار شفیق الرحمن پر کھ ول دیا۔ "دجلہ" کا ایک اقتباس اسی قسم کے انکشاف حقیقت و فطرت کا مظہر ہے۔
" صحرا کے باشندوں کو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ تب معلوم ہوا کہ جسے میں اجارہ ویرانہ سمجھتا رہا تھا وہاں روئیدگی اور زندگی کی کمی نہیں تھی جہاں ریت تھی وہاں چند فٹ نیچے اچھی بھلی زمین تھی۔ کہیں سرخ چٹانیں تھیں تو کہیں بھوری اور سیاح کہیں لادے کے تودے تھے تو کہیں سوکھے ہوئے نالوں کی گزرگاہ۔ سراب دیکھ دیکھ کر ہر نظارے سے اعتقاد اٹھ جاتے، کبھی بہتے ہوئے دریا سامنے آ جاتے ہیں کبھی جھیلوں کی سطح پر درختوں کا عکس نظر آتا۔ لیک یہ سب دور دور رہتے۔ قریب جاؤ تو آگے چلے جاتے، میلوں تک یہ دوڑ جاری رہتی۔۔ گرمیوں میں جب صحرا تپتا ہے تو بدو کو اتنی پروا نہیں ہوتی لیکن سردیوں میں جب منجمد کر دینے والی ہوا چلتی ہے تو وہ بہت گھبراتا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس گرم کپڑے نہیں ہوتے۔ بدو تفریحاً خانہ بدوشی پر تلے رہتے ہیں۔ حالانکہ گرمیوں میں نخلستانوں کے گرد ضرورتاً جمع ہونا پڑتا ہے اور سردیوں میں اونٹوں کی خاطر چراگاہوں کا طواف کرنا پڑتا ہے۔ "
مزاح نگاروں کے سفر نامے
***
ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
مصنف: ڈاکٹر انور سدید (اشاعت: اگست 1987)
ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
مصنف: ڈاکٹر انور سدید (اشاعت: اگست 1987)
Humorous travelogue of Shafeeq-ur-Rahman.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں