ہاتھ ہمارے قلم ہوئے - راجندر سنگھ بیدی - افسانوں کا مجموعہ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-23

ہاتھ ہمارے قلم ہوئے - راجندر سنگھ بیدی - افسانوں کا مجموعہ - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

hath-hamare-qalam-huye-bedi
راجندر سنگھ بیدی (پ: یکم/ستمبر 1915 ، م: 11/نومبر 1984) اردو کے مصنف، ڈراما نویس اور فلمی ہدایت کار تھے۔ ان کے ناولٹ "ایک چادر میلی سی (اشاعت:1962)" کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کے افسانوں کے چھ مجموعے شائع ہوئے ہیں، جن میں سے ایک مشہور مجموعہ "ہاتھ ہمارے قلم ہوئے" (اشاعت: 1976) تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 10 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

پریم چند کے بعد اردو افسانے کی شناخت چار افسانہ نگاروں کے توسط سے معتبر سمجھی جاتی ہے جن میں کرشن چندر، منٹو، بیدی اور عصمت چغتائی شامل ہیں۔
بیدی نے اپنے افسانوں سے اردو افسانوی ادب کو صرف قابل قدر ہی نہیں بنایا، بلکہ اس صنف ادب کو اپنے فکر و فن سے اس قابل بھی بنایا کہ ہم مغرب کی ترقی یافتہ زبانوں کے افسانوں کی صف میں اردو افسانے کو رکھ سکیں۔
بیدی کا افسانوی سرمایہ تقریباً 70 افسانوں پر مشتمل ہے جو درج ذیل مجموعوں کے ذریعے منظر عام پر آ چکے ہیں:
  1. 'دانہ و دوام' (1936)
  2. 'گرہن' (1942)
  3. 'کوکھ جلی' (1949)
  4. 'اپنے دکھ مجھے دے دو' (1965)
  5. 'ہاتھ ہمارے قلم ہوئے' (1976)
  6. 'مکتی بودھ' (1982)
اس کے علاوہ ڈراموں کے دو مجموعے "بےجان چیزیں" (1943) اور "سات کھیل" (1974) اور ایک ناولٹ "ایک چادر میلی سی" 1962 میں شائع ہوا۔

بیدی اپنے افسانوں کے ایک مجموعہ "گرہن" کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
مجھے تخیلی فن میں یقین ہے۔ جب کوئی واقعہ مشاہدے میں آتا ہے تو میں اسے من و عن بیان کر دینے کی کوشش نہیں کرتا، بلکہ حقیقت اور تخیل کے امتزاج سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اسے احاطہ تحریر میں لانے کی سعی کرتا ہوں۔ میرے خیال میں اظہار حقیقت کے لیے ایک رومانی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے بلکہ مشاہدے کے بعد پیش کرنے کے انداز کے متعلق سوچنا بجائے خود کسی حد تک ایک رومانی طرز عمل ہے اور اس اعتبار سے مطلق حقیقت نگاری بحیثیت فن غیرموزوں ہے۔

بیدی کے افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اطہر پرویز لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
بیدی منٹو کی طرح کردار تخلیق نہیں کرتے۔ انہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بنے بنائے، ڈھلے ڈھلائے، دیکھے دکھائے کردار مل جاتے ہیں اور وہ ان کو لفظوں میں منتقل کر دیتے ہیں اور جو تبدیلی کرتے ہیں وہ فنکارانہ ہوتی ہے، جس میں ہم ان کی آرزومندی کی جھلک بھی دیکھ سکتے ہیں۔

بیدی کی افسانہ نگاری کے متعلق سید مشیر علی جعفری لکھتے ہیں ۔۔۔
بیدی کے افسانوں میں کردار نگاری اور انسانی نفسیات کی مرقع کشی کمال کے درجہ کی ہوتی تھی۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتیں بیدی کے افسانوں میں ایسے انداز میں نمودار ہوتی ہیں جن سے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور جن سے زندگی کی حقیقتیں تہ در تہ دریافت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
بیدی کی کہانیاں رومانی نہ ہو کر حقیقت پسندانہ ہوتی ہیں، وہ جذباتی نہ ہو کر سوچ و فکر سے لبریز ہوتی ہیں اور ان میں لفاظی نہ ہو کر الفاظ کا شعوری اور نپا تلا استعال ملتا ہے۔ ان کو کہانی کی تعمیر کا فن آتا ہے اور الفاظ کی کفایت شعاری کا فن بھی۔ وہ عام بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ بیدی کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ رنگ بھرتے ہیں اور ایک ایک لفظ کا موزوں استعمال کر کے کہانی کو لطیف اور طنز و مزاح سے بھر پور کر دیتے ہیں۔ بیدی کے افسانوں کا موضوع عام انسان کی زندگی سے وابستہ ہوتا ہے۔ مگر اس میں وہ لطافت ، انفرادیت و معنویت ہوتی ہے جس سے بیدی اپنی الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

تقسیم ہند کی خونیں داستان، حق گوئی اور صاف گوئی پیش کرنے والوں میں راجندر سنگھ بیدی کا نام سرفہرست ہے۔ ان کے افسانوں کا موضوع انسان کا بےچین باطن ہے، ان کو کردار نگاری اور انسان کے نفسیاتی نکات پیش کرنے کا طریقہ بخوبی معلوم تھا اس لئے ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری جلوہ نما ہے۔ ان کی کہانیوں میں زندگی کی رفتار، مختلف واقعات، تحریکات اور کرداروں کی روحانیت واضح طور پر جھلکتی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جذبات و احساسات کی نمائندہ تصاویر دکھانے کا ہنر بخوبی جانتے تھے۔
ان کے افسانوں میں پنجابیت کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ جس کی وجہ سے بعض افسانوں میں سختی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن افسانوی آرائش نے ان کو سختی کے احساس سے دور کر دیا ہے۔ ان کے افسانوں کا بنیادی وصف احتیاط ہے۔ جس سے ماحول کا پس منظر اور کرداروں کی اصل خصوصیات کافی حد تک برقرار رہتی ہیں۔ ان کے افسانوں میں ایک قسم کا توازن اور اعتدال ملتا ہے۔ انھوں نے زندگی کے واقعات میں انسان دوستی کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں جن میں دردمندی کا اظہار ہے۔ بیدی کے افسانوں کے خوشگوار انجام بھی قاری کو آنسو بہانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
بیدی از خود کردار تخلیق نہیں کرتے بلکہ وہ بنے بنائے کردار تلاش کر لیتے ہیں اور ان کو الفاظ کا جامہ پہنا کر زندہ جاوید بنا دیتے ہیں۔ بیدی عام زندگی کے سیدھے سادے لوگوں کو کردار بناتے ہیں۔ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں اسی کی تصویر کشی کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ حقیقت کی عکاسی کرنا بخوبی جانتے ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کا ناولٹ "ایک چادر میلی سی" دیہاتی زندگی کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ اس میں ایک غریب گھرانے کے حالات درد مندانہ احساس کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ بیدی کے اس ناولٹ میں پنجابی زبان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ زبان کا طرز دیہاتی ہونے کی وجہ سے اس میں تیکھا پن نمایاں ہے۔ انھوں نے انسانوں کی باطنی بے چینی کو کرداروں میں جلوہ گر کیا ہے۔ اس کہانی میں زندگی کی منہ بولتی تصویریں صاف دکھائی دیتی ہیں۔

***
نام کتاب: ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
مصنف: راجندر سنگھ بیدی
تعداد صفحات: 240
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 10 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Hath hamare qalam huye Bedi.pdf

Direct Download link:

ہاتھ ہمارے قلم ہوئے - از: راجندر سنگھ بیدی:: فہرست افسانے
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1ہاتھ ہمارے قلم ہوئے7
2صرف ایک سگریٹ36
3کلیانی75
4متھن91
5باری کا بخار110
6سونفیا141
7وہ بڈھا164
8جنازہ کہاں ہے188
9تعطل207
10آئینے کے سامنے227

Hath hamare qalam huye, a collection of Urdu short stories by Rajinder Singh Bedi, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں