کبیر - اردو کا ایک مکمل باغی شاعر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-21

کبیر - اردو کا ایک مکمل باغی شاعر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

kabir-urdu-rebel-poet

کبیر کا تعلق چونکہ سنت تحریک سے تھا لہذا ہندی والوں نے انہیں ہندی کا شاعر تسلیم کر کے ان کی زندگی اور شاعری پر سینکڑوں کتابیں تصنیف کر ڈالیں۔ جبکہ کبیر ہندی کے نہیں بلکہ اردو کے شاعر تھے اور ایسے شاعر کہ ان سے قبل یا ان کے بعد کسی دوسرے شاعر کو وہ مقبولیت حاصل نہ ہو سکی جو کبیر کو ان کی زندگی سے لے کر آج تک حاصل ہے۔ تحقیق کے مطابق کبیر جولائی 1470ء میں پیدا ہوئے اور جنوری/فروری 1588ء میں بعمر 118 سال، وفات پائے۔ کبیر کی شخصیت و فن پر یہ مختصر کتاب "کبیر - اردو کا ایک مکمل باغی شاعر" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً ایک سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 4 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس تحقیقی کتاب کے چند اہم اقتباسات ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔
کبیر صاحب کا شمار ہندوستان کے عظیم ترین سنتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کے حالات زندگی ابھی پوری طرح سامنے نہیں آ سکے تاہم یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ سکندر لودھی کے ہم عصر تھے۔
کبیر صاحب اور سکندر لودھی کے مابین ملاقات کا ذکر مورخ ڈاکٹر تاراچند نے بھی کیا ہے، لیکن وہ اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے کہ سلطان لودھی نے کبیر صاحب پر ظلم ڈھائے ہوں بلکہ ان کا خیال ہے کہ سلطان نے کبیر صاحب کو مشورہ دیا کہ چونکہ بنارس میں ان کی بےحد مخالفت ہو رہی ہے اور ان کی زندگی خطرے میں ہے لہذا وہ بنارس چھوڑ کر مگھر میں چلے جائیں۔ لہذا سلطان کے مشورے پر کبیر بنارس چھوڑ کر چلے گئے۔
عورت کے متعلق کبیر صاحب کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔ وہ اسے گمراہ کرنے والی یا تباہ کرنے والی اور مرد کو اعلیٰ مقام سے گرا دینے والی تصور کرتے تھے۔ اپنے کئی دوہوں میں انہوں نے عورت کا ذکر حقارت آمیز صفات سے کیا ہے۔ وہ عورت کو مرد کی عقل اور جسم کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ ظاہر ہے جس آدمی کی عورت کے متعلق ایسی سخت رائے ہو وہ ازدواجی پھندے میں پھنسنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ لہذا یہ بات درست نہیں کہی جا سکتی کہ کبیر صاحب نے شادی کی تھی اور ان کی بیوی کا نام "لوئی" تھا۔
۔۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ کبیر صاحب نے اپنی زندگی میں کسی آدمی کو اپنا اتا پتا نہیں بتایا تھا اور یہ ہندوستانی سادھو سماج کی روایات کے عین مطابق ہے۔ لیکن جب کبیر صاحب کی وفات ہو گئی تو ان کے مریدوں نے قدیم قصے کہانیوں کی مدد سے کئی تخیلی کہانیاں گھڑ لیں تاکہ وہ اپنے پیر مرشد کو برہما یا خدا کا درجہ دے سکیں۔ یاد رہے کہ برہما اور خدا دونوں ہم معنی الفاظ ہیں یعنی خود بخود پیدا ہونے والا۔ اول الذکر سنسکرت اور ثانی الذکر فارسی لفظ ہے۔ اپنے آپ پیدا ہونا یعنی بغیر نطفہ کی پیدائش کی روایات دنیا بھر کے دیوی دیوتاؤں کا خصوصی وصف سمجھا جاتا تھا، جس کا واحد مقصد یہ ہوتا تھا کہ دیوی دیوتاؤں کو عام انسان سے ارفع ثابت کیا جا سکے۔ کبیر صاحب کی پیدائش کے متعلق کہانیاں گھڑنے کا بھی یہی مقصد تھا۔

کبیر صاحب کا یقین تھا کہ رام یا خدا ایک ہی ہو سکتا ہے لہذا انہوں نے مورتیوں کی پوجا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "اگر خدا پتھر ہے تو میں بہاڑ کی عبادت کروں گا"۔ کبیر صاحب نے رام کی توصیف میں نغمہ سرائی پر زور دیا اور صحیح راستہ کی نشاندہی کے لیے گرو کا ہونا ضروری بتایا۔ انہوں نے قیامت کے بعد نئی زندگی کے مقابلے میں تناسخ کو ترجیح دی لیکن اس کے ساتھ انہوں نے ہندوؤں کی ذات پات کی زبردست مذمت کی۔

کبیر صاحب بنیادی طور پر کوئی مفکر نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی گزارنے اور اپنے مریدوں کو تعلیم دینے کے لیے مختلف مکاتیب فکر کے بعض پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد اس طرح گڈمڈ کر لیا کہ ان کی زندگی ہی میں نہ صرف یہ کہ 'کبیر پنتھ' کی مستحکم بنیاد پڑ گئی بلکہ دوسرے نظریات کے حامل فرقوں اور افراد کو بھی انہوں نے بےحد متاثر کیا۔ ان کی تعلیمات کا حلقہ اس قدر وسیع اور قابل قبول تھا کہ ان کے بعد شمال مشرقی ہندوستان کا شاید ہی کوئی قابل ذکر شاعر، سنت ، صوفی، مذہبی فرقہ یا خطہ ایسا ہوگا جس نے ان کی تعلیمات کو کلی یا جزوی طور پر نہ اپنا لیا ہو۔
اگر ہم سکھ مت کی تعلیمات کا کبیر صاحب کی تعلیمات سے موازنہ کریں تو ان دونوں میں حیران کن مماثلت نظر آئے گی۔ گرونانک، گروانگ دیو، گرو امرداس، یاری صاحب، دھرنا داس اور کبیر صاحب کی بانیوں کی آتما قریب قریب ایک ہی ہے۔ سیاسی مصلحت کے پیش نظر اکبراعظم نے جس دین الہٰی کو رائج کرنے کی ناکام سعی کی تھی اس کی بنیادیات اور کبیر کے پیغامِ زندگی میں مو برابر فرق بھی نہیں ہے۔ اسی طرح اردو کا ہر بڑا شاعر کبیر صاحب سے متاثر نظر آتا ہے۔

کبیر صاحب کے بیشتر نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ وہ قطعاً ان پڑھ تھے اور اس کے ثبوت میں وہ کبیر صاحب ہی کے دوہے پیش کرتے ہیں۔
لیکن گنگا شرن داس اس نظریہ سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ سنت روایت کے مطابق کبیر صاحب نے بھی انکسار سے کام لیا ہے۔ ہم گنگا شرن داس صاحب کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ نہ صرف سنت اور صوفیا کرام ہی اپنے آپ کو لاعلم کہا کرتے تھے بلکہ قدیم زمانہ میں بڑے بڑے فلاسفر، ڈرامہ نگار اور شاعر بھی اپنے آپ کو ان پڑھ یا لاعلم کہا کرتے تھے۔ عظیم سنسکرت شاعر کالیداس بھی اپنے آپ کو لاعلم کہا کرتے تھے اور نہایت عجز و انکسار سے مندرجہ شلوک پڑھا کرتے تھے:
کہاں سورج ونش کی عظمت اور کہاں میری حقیر عقل۔ سورج ونش کا بیان کرنے کی میری خواہش بحر بیکراں کو کاغذ کی ناؤ سے پار کرانے کے برابر ہے۔

اگرچہ کبیر صاحب کا سارا کلام تحسین و ستائش کا مستحق ہے لیکن جس کلام نے ان کو اپنے عہد کے مقبول ترین شاعر کا درجہ عطا کیا اور آسمان عظمت پر جلوہ افروز کیا وہ یقیناً ان کے "دوہے" تھے۔ ان کی زبان باقی اصناف کے مقابلے میں بہت ہی آسان سادہ اور سلیس ہے تاکہ سننے والا بلا کسی دقت کے سمجھ سکے اور اس کو فوراً ازبر ہو جائے اور بقول شاعر:
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
والی کیفیت پیدا ہو جائے۔ ان دوہوں کا موضوعاتی اعتبار سے کینوس بہت ہی وسیع ہے۔ شاید ہی انسان کی روزمرہ کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو بچا ہو جو ان دوہون میں بیان نہ کیا گیا ہوگا اور وہ بھی اس انداز سے کہ سننے والے کے سامنے ایک ان مٹ منظر پیدا ہو جائے کہ جسے وہ چاہنے پر بھی فراموش نہ کر سکے۔
یہ دوہے اگرچہ پند و نصیحت ، اخلاقیات و تشریحات سے عبارت ہیں جن کے ذریعے عوام کے لیے "کرو" اور "نہ کرو" کی واضح نشاندہی پیش کی گئی ہے لیکن کہنے کا جو ڈھنگ اپنایا گیا ہے وہ بےمثل ہے۔ قارئین یا سامعین کسی بھی وقت یہ محسوس نہیں کرتے کہ انہیں نصیحت کی وادی یا پند کے صحرا میں سے گزارا جا رہا ہے۔ ان دوہوں میں شاید ہی کوئی مقام ایسا آتا ہو جہاں کبیر صاحب نے یہ کرو یا نہ کرو کہا ہو۔ انتہائی پیچیدہ بات کو سیدھے سادے الفاظ میں عام انسانی زندگی میں پیش آنے والے مشاہدات کے ذریعے بیان کر دیا ہے۔

***
نام کتاب: کبیر - اردو کا ایک مکمل باغی شاعر
مصنف: بلجیت سنگھ مطیر
تعداد صفحات: 104
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Kabir, a rebel saint urdu poet.pdf

Direct Download link:

کبیر - اردو کا ایک مکمل باغی شاعر :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1کبیر صاحب کے حالات زندگی9
2کبیر صاحب کی وراثت - مذہبی تناظر میں24
3کبیر صاحب کی شاعری کا تفکیری پہلو32
4کبیر صاحب کا اسلوب46
5کبیربانی کا لسانیاتی تجزیہ56
6دوسرے شعرا پر کبیر صاحب کے اثرات68
7مکمل باغی شاعر74
8انتخاب کلامِ کبیر84

Kabir, a rebel saint urdu poet. By: Baljit Singh Mateer, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں