کرنل محمد خان کے سفرناموں میں مزاح - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-27

کرنل محمد خان کے سفرناموں میں مزاح

col-mohd-khan-humour

کرنل محمد خان نے اپنے سفر ناموں میں زندگی کو اپنے ساتھ اس طرح چمٹایا ہوا ہے۔ کہ حقیقت خود بخود مسکرانے لگتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے رعایت لفظی سے بھی استفادہ کیا ہے۔ اور صورت واقعہ کو بھی مسکراہٹ کی افزائش کا وسیلہ بنایا۔ لیکن بنیادی اہمیت کی بات یہ ہے کہ ان کے سفر ناموں میں زندگی کی طرف خوش رغبتی سے پیش قدمی کرنے کا رجحان نمایاں ہے اور وہ معاشرتی حقیقت کی صورت بگاڑے بغیر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حقیقت ماحول کی موجودیت میں مسکرانے لگتی ہے کرنل محمد خان کے مزاج میں جو بذلہ سنجی ہے اس نے بھی کردار اور ماحول دونوں کو ان کے مجلسی مزاح میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے اور یوں ہمارا سماجی شعور ایک مسکراتے ہوئے تناظر میں بہجت آفرین کیفیت سے مغلوب ہو جاتا ہے۔ ان کے سفر ناموں سے اس قبیل کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں:

پنڈی کی حدود سے نکلے تو ڈرائیور سیدھا راول ڈیم کے رستے آگے جانے کے بجائے شاہراہ اسلام آباد کی طرف مڑنے لگا۔ اس طرح مری کا سفر شاید چند کلو میٹر لمبا ہو جاتا لیکن سڑک نہایت صاف ملتی۔ مجھے یہ رستہ نہایت موافق تھا۔ لیکن مرزا نے چلتی گاڑی سے ڈرائیور کو ایک طرف ٹھہرنے کا حکم دیا۔ بولے:
"دیکھو میاں ڈرائیور۔ آگے جانے سے پہلے تمہاری پالیسی کی وضاحت ہو جائے تو اچھا ہے۔ یہ بتاؤ کہ تم منزل مقصود پر قریب ترین رستے سے لے جانے کے عادی ہو یا گراں ترین رستے سے ؟"
"ڈرائیور میاں۔ اولمپک کھیلوں میں تیز رفتاری کے مقابلے ہوتے ہیں لیکن تم نے اپنے میٹر کو ان مقابلوں میں شریک کرنے کے بارے میں سوچا ہے ؟
۔۔ ۔ یہ ڈرائیور کی پشت پر آخری تنکا تھا۔ تنگ آ کر(مگر بظاہر مسکرا کر) بولا۔ "جناب میرے میٹر کے بجائے اگر آپ اپنی زبان کو مقابلے میں بھیج دیں تو یقیناً گولڈ میڈل لے کر لوٹے گی۔ "

چلتی کشتی میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نرالی دنیا میں نکلے آئے ہوں۔۔ ناگہاں ایک انسانی آواز آئی۔۔ ۔ یہ آواز کشتی بان کی تھی جو بے چارہ اس عجائب کدے کو ہر روز دیکھ دیکھ کر تحیر کی دولت سے محروم ہو چکا تھا۔ مشین کی طرح کہنے لگا: "خواتین و حضرات! اب ہم نپولین کارنر سے گزر رہے ہیں۔ " لاریب نہر کے موڑ پر لمبا کوٹ اور لمبوترا ٹوپ پہنے نپولین بونا پارٹ کھڑا تھا۔۔ چند قدم آگیے گئے تو کشتی بان حسب معمول چلایا یہ چرچل سکوئر ہے۔ " غور سے دیکھا تو سامنے ایک ٹیلے پر جو برف دپنبہ کی رولی پوری نظر آتی تھی در اصل مسٹر چرچل کا چیروبی چہرہ تھا۔۔ کوئی بیس گز آگے بڑھے ہوں گے کہ دائیں جانب ایک دبلا پتلا بلند و بالا مجسمہ نظر آیا جس کا ایک بازو فضا میں بلند تھا۔۔ ۔ پیشتر اس کے کہ کشتی بان کچھ کہتا ہم نے بآواز بلند کہا:
"خواتین و حضرات! یہ قائد اعظم منزل ہے۔ اب آپ پاکستانی علاقے سے گزر رہے ہیں۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ "

"ادھر سے رنگا رنگ گاؤنوں میں ملبوس چار پانچ نوجوان طالبات کی ایک ٹولی ہماری طرف بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ اس ٹولی پر ہماری نگہہ پڑی تو ایک سرخ پوش ساحرہ پراٹک گئی کیونکہ وہی اس سنسنی خبر کی شہ سرخی تھی اور دور ہی سے مطالعہ پر مجبور کر رہی تھی۔ ظالم کے سینے پر گاؤن کا یہ عالم تھا کہ جیسے دو چوبا شامیانہ تنا ہو۔ قریب آ کر رکی اور گفتگو کا آخری حصہ سننے کے بعد ہم سے مخاطب ہوئی۔ "مجھے معلوم ہے۔ تم کیا ہو؟۔۔ ۔ تم پامسٹ ہو۔ "

کرنل محمد خان نے اردو سفرنامے میں اشیا اور مظاہر کو شوخ و شنگ نظر سے دیکھنے اور اسے انشائی لطافت سے پیش کرنے کا رجحان پیدا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں ایک نشاط انگیز سفر نامہ نگار تسلیم کرنےک بجائے ایک ایسا مزاح نگار شمار کیا گیا جس کے لئے سفر تخلیق بہجت کا وسیلہ تھا، خود انہوں نے لکھا ہے کہ:
"میں نے اپنے سفر کی ہلکی پھلکی روداد دوستوں کی مجلس میں بیان کی ہے اور یہ حلقہ یاراں میں ایک یار کی داستان طرازی ہے۔ "

کرنل محمدخان کے مزاح اور سفر نامہ نگاری کے سب زاویے اسی بیان سے پھوٹتے ہیں۔ ان کے ہاں منظر خوش جمال کو تار نگہہ میں باندھنے اور اس کے دلفریب روپ کو اپنے داخل میں محفوظ کر لینے کا رجحان نمایاں ہے۔ ان کا سفر نامہ مناظر پر محبت کی نظر ڈالتا ہے اور شخصیات بالخصوص صنف لطیف کی شخصیات کو خوش فکری سے پیش کرتا ہے۔ "بجنگ آمد" اور "بسلامت روی" ان کی آراستگی تصور کے مظہر ہیں۔ "بجنگ آمد" پر تو ایک حلاوت آمیز رپورتاژ کا گمان بھی ہوتا ہے۔ لیکن بسلامت روی جس میں سوئٹزرلینڈ، انگلستان، فرانس، جرمنی اور ترکی کے حاصل سفر کو سمیٹا گیا ہے، حسن ازل کو گرد سفر سے تلاش کرنے کی کاوش ہے۔ اس سفر نامے میں مناظر کو بانداز مگر نکھارا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال حسب ذیل اقتباس ہے:
شام ہوئی تو جان ہمیں اپنے گاؤں کے پب میں لے گئے جو باہر سے حجرہ شاہ مقیم معلوم ہوتی تھی۔ ہم نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید کہیں جٹی صاحباں بھی بہر عرض کھڑی ہو۔ لیکن نظر نہ آئی۔ مگر اندر جھانکا تو چوپال دکھائی دی جو مقامی جاٹوں سے بھری پڑی تھی۔ وہی دھواں، وہی دھکے وہی قصے اور وہی قہقہے۔ اس انگریزی چوپال کے لوازمات بے شک کسی قدر مختلف تھے۔ لیکن حالات میں کوئی فرق نہ تھا۔ مثلاًحقہ نہ تھا لیکن حقے کے برادران خورد سگریٹ اور سگار سینکڑوں کی تعداد میں پھونکے جا رہے تھے۔ لسی نہ تھی لیکن لسی کی ولایتی بہن بیئر پیپوں کے حساب سے پی جا رہی تھی اور حقے اور لسی کو چھوڑ کر وہی چوپال کا سماں تھا۔ شہہ زوروں کی لن ترانیاں، نوطربازوں کی ریشتہ دوانیاں مئے نوشوں کی شرطیں۔ مسخروں کی شرارتیں۔ مٹیاروں کی باتیں، اور عشاق کی گھاتیں۔ یوں لگا جیسے میلہ چراغاں کے ایک گوشے میں آنکلے ہوں۔

کرنل محمد خاں کی خوبی یہ ہے کہ وہ محض سفر نامہ ہی نہیں لکھتے بلکہ سفر پر رواں تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ اس قسم کے تبصروں میں وہ مشرقی غربت کے ساتھ مشرق کی غیوری کا اظہار بھی اس خوبصورتی سے کر دیتے ہیں کہ اپنا وطن خطہ فردوس بریں نظر آنے لگتا ہے اور سامنے کا منظر باعث عبرت بن جاتا ہے۔ کرنل محمد خان کے سفر نامے کی نمایاں ترین خوبی ان کی چشم تماشا کابدلا ہوا زاویہ اور مشاہدے کو خوش طبعی سے پیش کرنے کا انداز ہے۔ ان کی نکتہ آرائی اور خیال آفرینی نے سفر نامے کو لذیذ اور کیف آور بنا دیا ہے۔ بطور مزاح نگار کرنل محمد خان نے طنز سے ناہمواریوں کو نشانہ بنایا ہے تاہم وہ زندگی کو بالعموم خندہ پیشانی سے دیکھتے اور ناہمواریوں کو خوش مزاجی سے قبول کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے سفر ناموں میں ایک سدا بہار مسکراہٹ بکھرتی چلی گئی ہے اور قاری قدم بہ قدم ان کے ساتھ سبکبار ہوتا چلا جاتا ہے۔

مزاح نگاروں کے سفر نامے

***
ماخوذ از کتاب:
اردو ادب میں سفرنامہ
مصنف: ڈاکٹر انور سدید (اشاعت: اگست 1987)

Humorous travelogue of Col. Mohammad Khan.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں