پروفیسر احتشام حسین - ایک استاد نقاد اور انسان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-06-26

پروفیسر احتشام حسین - ایک استاد نقاد اور انسان

Prof-Syed-Ehtesham-Hussain-Rizvi

احتشام صاحب نے ایک استاد، ایک نقاد اور انسان کی حیثیت سے کم سے کم دو نسلوں کی ذہنی تربیت کی ہے۔ اگر استاد اور شاگردی کے رشتے کے لئے کلاس روم کا ہونا ضروری ہے تو میں ان کا شاگرد نہیں ہوں لیکن اگر اس رشتے سے مراد زندگی میں رہنمائی اور ذہنی تربیت ہے تو وہ میرے مشفق استاد تھے۔ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے اور جو کچھ برا بھلا لکھا ہے اس میں بالواسطہ طور پر احتشام صاحب کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کو بھی خاصا دخل ہے۔

میں طالب علمی ہی کے زمانے سے احتشام صاحب کو پڑھ رہا تھا۔ نقاد کی حیثیت سے جن لوگوں نے مجھے غیر معمولی طور سے متاثر کیا ان میں احتشام صاحب کا نام سر فہرست ہے۔ میں لیکچرر ہو چکا تھا اور میری دو کتابیں شائع ہو چکی تھیں۔ جب پہلی بار دہلی میں ان سے میری ملاقات ہوئی یہ 1959ء کے اواخر کی بات ہے۔ احتشام صاحب دلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تشریف لائے۔ وہاں شعبہ کے تمام اساتذہ اور طلبا موجود تھے۔ پرووفیسر خواجہ احمد فاروقی نے احتشام صاحب سے میرا تعارف کرایا۔ اس محفل میں غالباً میں اکیلا ہی تھا جسے احتشام صاحب کے نیاز حاصل کرنے کا موقع پہلی بار ملا تھا۔ اس لئے دوسروں کے مقابلے میں انہوں نے نہ صرف مجھے کچھ زیادہ ہی اہمیت دی بلکہ دوسرے دن ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ مجھے اور کیا چاہئے تھا۔ وہ میرے گھر سے بہت قریب اپنے بھائی خورشید صاحب کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں وقت مقررہ پر پہنچ گیا مرحوم میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ میرے ساتھ اسلم پرویز بھی تھے۔ تقریباً تین گھنٹے ہم لوگ ان کی خدمت میں حاضر رہے۔
گفتگو کی ابتدا میری کتابوں سے ہوئی۔ انہوں نے غیر معمولی الفاظ میں میری ہمت افزائی کی اور کتابوں کی خوبیوں اور خرابیوں پر خاصی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ حوصلہ افزائی کے خیال سے جب مرحوم خوبیاں بیان کرتے تو بعض اوقات ان کے لب و لہجے میں ہلکا سا مبالغہ بھی شامل ہو جاتا (معمولی معمولی کتابوں پر پیش لفظ لکھنے کی بھی یہی وجہ ہے ) پیش لفظ پر ایک واقعہ یاد آ گیا۔
ایک دفعہ انہوں نے کسی بالکل نئے نوجوان کے مجموعۂ کلام پر پیش لفظ لکھا۔ ایک تو کلام تیسرے چوتھے درجے کا اور پھر کتاب ایسی چھپی جیسے انیسویں صدی کی ابتدا میں چھپی ہو۔ ایسی واہیات کتاب پر احتشام صاحب کا نام بہت ناگوار گزرا۔ ملاقات ہوئی تو میں نے دبے لفظوں میں عرض کیا کہ ایسی کتابوں پر پیش لفظ آپ کے شایان شان نہیں۔ فرمانے لگے کہ ہر ادیب اور شاعر کو ابتدا میں تنقید کی نہیں حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور حوصلہ افزائی کا یہ فریضہ بھی نقاد ہی کا کام ہے۔
بہرحال میں اپنی ملاقات کا ذکر کر رہا تھا۔ میں اس زمانے میں پی۔ ایچ ڈی کے لئے مرزا مظہر جان جاناں پر کام کر رہا تھا۔ مرحوم نے اس موضوع کے تنقیدی پہلوؤں پر اس تفصیل سے گفتگو کرنی شروع کی کہ میں نے ان کی میز پر سے کاغذ اٹھا کر نوٹس لی نے شروع کر دیے۔ جو مقالہ لکھتے ہوئے میرے کام آئے۔

علم و ادب احتشام صاحب کی زندگی تھی۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ دو چار ادیب مل کر بیٹھے اور دوسروں کی غیبت شروع ہوئی۔ میں نے احتشام صاحب کو کبھی کسی کو بھلا برا کہتے نہیں دیکھا۔ جب کبھی زبانی یا تحریری طور پر وہ کسی سے اختلاف کرتے تو ہمیشہ اس رکھ رکھاؤ اور اس انداز کے ساتھ کہ کسی کو ناگوار نہ گزرتا۔ وہ کبھی معمولی سے معمولی ادیب یا نقاد کے بارے میں بھی سخت الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔

احتشام صاحب دہلی صرف ایک دو دن کے لئے آتے تھے۔ اور یہاں ان کی غیر معمولی مصروفیات ہوتی تھیں۔ اس کے باوجود جب کوئی ادیب انہیں چائے پر مدعو کرتا تو وہ ضرور تشریف لے جاتے۔ اکثر ادیب انہیں دریا گنج کے امیر ریستوران میں بلاتے۔ چائے تو ایک بہانہ ہوتی اصل مقصد تو ادبی موضوعات پر گفتگو کرنا ہوتا۔ ریسٹوران میں کچھ ہی دیر میں ماحول کلاس روم کا بن جاتا۔ احتشام صاحب کسی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں اور ہم سب ہمہ تن گوش ہیں۔ اگر کسی کتاب کا ذکر آ جاتا تو مرحوم اس کی پوری تفصیل ضرور بیان کرتے۔ مصنف کا نام، کتاب کہاں سے چھپی ہے، کہاں سے مل سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے وہ اصل موضوع سے ہٹ کر اس کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں اس طرح محو گفتگو ہو جاتے کہ اصل موضوع غائب ہو جاتا۔ وہ خود کبھی نہ کہتے تھے کہ یہ کتاب پڑھو۔ لیکن اپنی گفتگو سے ہمیں اتنا شائق بنا دیتے کہ ہم میں سے کوئی شخص وہ کتاب ضرور لاتا۔ باری باری سب پڑھتے اور پھر آپس میں بحث ومباحثے ہوتے۔

میں جس زمانے میں "مرزا محمد رفیع سودا" لکھ رہا تھا تو مرحوم نے شروع سے آخر تک میری مدد کی بلکہ موضوع کا انتخاب بھی تقریباً انہیں کا تھا۔ میرے ذہن میں دو تین موضوعات تھے۔ احتشام صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کا ذکر کیا۔ انہوں نے "مرزا سودا" پسند فرمایا۔ مواد اکٹھا کرنے میں انہوں نے میری کافی مدد کی۔ لکھنو میں تذکرہ "خوش معرکہ" کا قلمی نسخہ تھا۔ اس وقت تک یہ شائع نہیں ہوا تھا۔ اس کے متعلقہ اقتباسات اپنے شاگردوں سے نقل کرا کے انہوں نے ہی بھیجے تھے۔ اس دوران میں جب وہ دہلی آتے تو اس موضوع پر ضرور گفتگو کرتے۔ جب کتاب چھپ کر آئی اور میں نے ان کی خدمت میں پیش کی تو جس خوشی اور مسرت کے آثار ان کے چہرے پر تھے وہ اس سے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
مرحوم مجھ سے غیر معمولی محبت کرتے تھے۔ اور ہمیشہ میری غیر معمولی ہمت افزائی بھی کرتے تھے۔ لکھنو میں کمیٹی برائے فروغ اردو، کی میٹنگ ہو رہی تھی۔ جس میں شرکت کے لئے میں بھی گیا ہوا تھا۔ پروفیسر مجیب بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ میٹنگ کے دوران جب چائے کا وقفہ ہوا تو سب لوگ باہر لاؤنج میں چائے پینے آ گئے۔ مجیب صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور بغیر تمہید کے بولے :
"میں چاہتا ہوں کہ 'ترقی اردو بورڈ' کی طرف سے تاریخ ادب اردو کا پروجیکٹ تم لے لو۔ اس تاریخ کا خاکہ بنالو اور ان لوگوں کی فہرست مرتب کر لو جنہیں تم اپنے ساتھ لگانا چاہتے ہو۔ پھر مجھ سے دہلی میں ملو"۔
اس کے بعد مجیب صاحب کافی دیر تک میری دو کتابوں، مرزا محمد رفیع سودا، اور تنقید، کے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ ان کی با توں سے لگ رہا تھا کہ انہوں نے یہ دونوں کتابیں شروع سے آخر تک پڑھی ہیں۔ مجھے علم تھا کہ میری یہ دونوں کتابیں مجیب صاحب کی دلچسپی کی نہیں ہیں پھر انہوں نے کیوں پڑھیں۔ ظاہر ہے کہ اس کام کے لئے کسی نے میرا نام تجویز کیا تھا۔ میرا ذہن اس میں الجھ گیا کہ میرا نام کس نے تجویز کیا؟ مجیب صاحب سے میرے تعلقات محض رسمی تھے۔ انہیں بذات خود یہ خیال آ نہیں سکتا۔ بہرحال کئی دن تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ دہلی پہنچ کر میں نے تاریخ کا خاکہ بنایا اور مجیب صاحب کی خدمت میں ان کے گھر حاضر ہوا۔ ان کی میز پر میری دونوں کتابیں رکھی تھیں۔ میں نے جب ورق الٹ کر دیکھا تو دونوں کتابیں وہ تھیں جو میں نے احتشام صاحب مرحوم کو پیش کی تھیں۔ اب یہ راز کھلا کہ میرے کرم فرما احتشام صاحب تھے۔ لطف یہ ہے کہ مرحوم نے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا کہ میرا نام انہوں نے تجویز کیا تھا۔ اگر میں مجیب صاحب کی میز پر وہ کتابیں نہ دیکھتا تو شاید زندگی بھر مجھے اس حقیقت کا علم نہ ہوتا۔

احتشام صاحب کے متعلق دو تین واقعات ایسے ہیں جن کا میں پہلے بھی ایک مقالے میں ذکر کر چکا ہوں، مگر یہاں بھی ان کا اعادہ ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ ان سے مرحوم کی شخصیت کے بعض پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ احتشام صاحب کو زندگی میں جو کچھ ملا اپنے علم اور صلاحیتوں کی بنا پر۔ کم سے کم میرے علم میں نہیں کہ کسی کمیٹی کا ممبر بننے کے لیے یا کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنے کے لئے انہوں نے جوڑ توڑ سے کام لیا ہو۔ ان کے ایک صاحب زادے جعفر عباس نے دلی یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔ اے کیا ان کی نہ صرف فرسٹ ڈویژن تھی بلکہ فرسٹ پوزیشن بھی تھی، چونکہ وہ طالب علم تھے اس لئے ان کی ملازمت کے سلسلے میں مجھے خاصی پریشانی تھی۔ علی گڑھ میں "ترقی اردو بورڈ" کی لسانی کمیٹی کا سیمنار ہو رہا تھا۔ احتشام صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ ایک دن میں نے احتشام صاحب سے کہا کہ "ترقی اردو بورڈ" میں کچھ جگہیں نکلی ہیں۔ آپ فلاں صاحب سے کہہ دیں تو جعفر کا تقرر ہو جائے گا۔ مسکرانے لگے۔ میں پھر بات دہرائی۔ کہنے لگے بھئی وہ میرا بچہ ہے مگر کسی سے کیسے کہہ سکتا ہے۔ یہ تو غلط بات ہے۔ اپنی اہلیت اور قابلیت کے اعتبار سے اسے خود ہو جانا چاہئے۔
ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ "ترقی اردو بورڈ" کے ڈائرکٹر شہباز حسین صاحب تشریف لے آئے، میں نے شہباز صاحب سے کہا کہ حضرت آپ کے ہوتے ہوئے جعفر بے روزگار پھرے۔ میری یہ بات احتشام صاحب کو پسند نہیں آئی۔ حسب عادت فوراً موضوع بدل دیا۔ بظاہر یہ بہت معمولی بات ہے لیکن ایسی معمولی با توں کے لئے انسان کو فرشتہ بننا پڑتا ہے۔
اسی سمینار کا ایک واقعہ اور سن لیجئے۔
میں نے مکتبہ جامعہ کے معیاری ادب کے سلسلے میں ڈپٹی نذیر احمد کی "ابن الوقت" مرتب کی تھی۔ میں نے اس کے مقدمے میں کچھ نئی باتیں کہنے کی کوشش کی تھی۔ میں اس سیمنار میں وہ مقدمہ بھی ساتھ لایا تھا تاکہ احتشام صاحب کو دکھا لوں۔ پہلی ملاقات ہی میں میں نے یہ مقدمہ ان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ انہوں نے کچھ کہے بغیر اپنے کاغذوں میں رکھ لیا۔ سمینار ختم ہونے کے بعد جب ہم لوگ باہر نکلے تو میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا :
"آپ سے کچھ بات کرنی ہے" اور ایک طرف لے گئے، جب ہم سب لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تو انہوں نے وہ پیش لفظ واپس کرتے ہوئے کہا:
"اس کے بارے میں جو میرے خیالات تھے وہ آخری صفحہ پر لکھ دئیے ہیں۔ "
وہ نہیں چاہتے تھے کہ دوسروں کو معلوم ہو کہ میں ان سے استفادہ کرتا ہوں۔ میں ان کے اس انداز پر ہنس پڑا۔ میں نے کہا کہ قبلہ میری اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو گی کہ لوگ مجھے آپ کا شاگرد سمجھیں۔ اس واقعہ سے میرے دل میں ان کتنی عزت بڑھی ہے وہ شاید بیان نہ کر سکوں۔

ان کی عظمت کا ایک ثبوت یہ بھی تھا کہ وہ کبھی کسی کو محض اس لئے چھوٹا نہیں سمجھتے تھے کہ وہ عمر میں چھوٹا ہے یا اس کی سماجی حیثیت کچھ کم ہے۔ ایک دفعہ اردو کے ایک مقتدر ادیب باہر سے تشریف لائے ہوئے تھے میرے ساتھ ان کا قیام تھا۔ دہلی کے ایک ایسے صاحب نے جو ادبی اعتبار سے تو مجھ جیسے حقیر کے مقابلے میں بھی حقیر تر ہیں لیکن جن کی سماجی حیثیت مجھ سے کہیں زیادہ تھی میرے برگزیدہ مہمان سے یہ کہہ دیا کہ آپ خلیق کے ہاں کیسے ٹھہرے۔ یہ آپ کے شایان شان نہیں، اتفاق سے انہیں دنوں احتشام صاحب دہلی تشریف لائے ہوئے تھے، میں اسلم پرویز اور وہ صاحب احتشام صاحب سے ملنے گئے۔ ان صاحب نے یہ قصہ احتشام صاحب کو بھی سنایا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش رہے۔۔ چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ احتشام صاحب کو یہ بات ناگوار گزری ہے۔ پہلے تو کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ لیکن جب اور کچھ دیر تک یہ موضوع چلتا رہا تو ان سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ وہ صاحب گدھے ہیں، کچھ اور بات کیجئے۔

میں نے پچھلے بارہ تیرہ برسوں میں انہیں صرف دو بار غصہ میں دیکھا تھا۔ ایک تو اس وقت جس کا ذکر میں ابھی کر چکا ہوں۔ اور دوسرے جب دو تین سال پہلے ایک خاتون کا پروفیسر کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ خاتون پروفیسر تو کجا، لیکچرر ہونے کے قابل بھی نہیں تھیں۔ ستم یہ ہوا کہ ان کے مقابلے میں ایک مشہور ترقی پسند نقاد کو رد کر دیا گیا تھا۔ احتشام صاحب سے جب اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو میرے اور ڈاکٹر اسلم پرویز کے علاوہ اور بھی چند حضرات موجود تھے۔ خاموش بیٹھے سب لوگوں کی گفتگو سنتے رہے۔ بہت دیر بعد بہت غصے اور دکھ کے ساتھ بولے :
"اگر یہی روش رہی تو تمام یونیورسٹیاں جاہلوں سے بھر جائیں گی۔ " اور پھر موضوع بدل دیا۔

مجھے یہ فخر ہے کہ مرحوم نے اپنی زندگی کا آخری مقالہ میری فرمائش پر لکھا تھا۔ ہوا یہ کہ ایک شام وہ اچانک "سیکولر ڈیمو کریسی" کے دفتر میں تشریف لے آئے۔ ہمارا "قومی شاعری نمبر" تیاری کی آخری منزلوں میں تھا۔ میں نے فرمائش کی کہ قومی شاعری پر ایک مقالہ تحریر فرمادیجئے۔ فرمانے لگے :
"میں کل الہ آباد جا رہا ہوں وہاں سے لکھ کر بھیج دوں گا۔ " میں نے عرض کیا کہ پرچہ پریس جا رہا ہے۔ بہت دیر ہو جائے گی۔ اگر آپ آج رات لکھ دیں تو عنایت ہوگی۔ میرے اصرار سے وہ مجبور ہو گئے۔ ہنس کر فرمانے لگے کہ آپ ضد کرتے ہیں تو میں رات کو لکھ دوں گا۔ دوسرے دن ایک صاحب تین صفحے کا نامکمل مضمون دے گئے۔ ایک چھوٹا سا خط منسلک تھا جس میں احتشام صاحب نے لکھا تھا:
" رات میں میری طبیعت خراب ہو گئی تھی الہ آباد جاتے ہی باقی مضمون بھی بھیج دوں گا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس رات ان کی طبیعت غیر معمولی طور پر خراب ہو گئی تھی چونکہ وعدہ کیا تھا جب تک جسم نے ساتھ دیا لکھتے رہے۔

موت نے اردو کے ایک نقاد اور عالم ہی کو نہیں چھینا بلکہ قدم قدم پر حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرنے والے ایک کرم فرما اور مشفق بزرگ کو بھی مجھ سے جدا کر دیا ہے۔

***
ماخوذ از رسالہ:
نیا دور (احتشام حسین نمبر)، لکھنؤ۔
مئی/جون/1973۔ جلد:29 ، شمارہ:2-3

Prof Syed Ehtesham Hussain Rizvi, an educator & a notable critic.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں