طنز و مزاح کا مشہور، مقبول اور قدیم ترین ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد دکن) کا ایک خصوصی نمبر ابراہیم جلیس کے فن و شخصیت پر مئی-1978 میں شائع کیا گیا تھا۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
106 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 20 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس خصوصی شمارے کے اولین مضمون "ابراہیم جلیس" کے تحت علی سردار جعفری لکھتے ہیں:ابراہیم جلیس
ایک دلنواز اور بےتاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔ وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کا اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔
اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلدباز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بےباک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چکے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔
ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم ، اس کی وراثت ہے۔
کوئی نہ کوئی بےباک صحافی اس کو اٹھالے گا۔۔۔
اور ۔۔۔
ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔
ابراہیم جلیس کے چھوٹے بھائی اور نامور طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین اپنے مضمون "ابراہیم جلیس کی یاد میں" میں لکھتے ہیں:ابراہیم جلیس افسانہ نگار تھے مگر میرے لیے صرف افسانہ تھے حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ وہ پڑوسی ملک کے شہر کراچی میں رہتے تھے مگر لگتا تھا کہ وہ لاکھوں کروڑوں میل دور ہیں حالانکہ یہ فاصلہ چند سو میل سے زیادہ کا نہیں تھا۔ وہ مجھ سے بارہ تیرہ برس بڑے تھے لیکن لگتا تھا وہ کافی عمر رسیدہ ہو گئے ہیں حالانکہ ان کی عمر 54 برس سے زیادہ نہیں تھی۔ حقیقت جب افسانہ بن جاتی ہے، فاصلے جب پھیل جاتے ہیں، عمریں جب دھوکہ دینے لگتی ہیں تو دو بھائیوں کے رشتے کتنے بےبس، مجبور اور بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
بھائی ہونے کے ناتے آج جب میں انہیں یاد کرتا ہوں تو پتا چلتا ہے بچپن کی کچھ دھندلی دھندلی سی یادوں، 1960 میں ایک مہینہ کا ساتھ، سال میں ایک یا دو بار آنے والے ان کے خط اور ان کے بارے میں ان کے دوستوں سے سنی ہوئی باتوں کے سوائے میرے دامن میں کچھ بھی نہیں ہے۔ دو ملکوں میں بسے ہوئے بھائیوں کی کل کائنات یہی ہے۔ سرحد صرف دو ملکوں کے درمیان سے نہیں گزرتی بلکہ رگوں میں دوڑنے والے ایک ہی خون کو بھی کاٹ دیتی ہے۔
۔۔۔ ان کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ ہر کام میں جلدبازی دکھاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کی رگوں میں خون نہیں پارہ دوڑ رہا ہے۔ جذباتی انسانوں کا خون اکثر یوں ہی پارے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ زندگی کے ہر کام میں انہوں نے عجلت کی۔ ابھی علی گڈھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہی تھے کہ وہ افسانہ نگار کی حیثیت سے سارے ہندوستان میں مشہور ہو چکے تھے۔ میرے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگر نے ابھی گریجویشن بھی نہیں کیا تھا کہ یہ علی گڈھ سے گریجویٹ ہو کر گلبرگہ واپس آئے۔ حالانکہ بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا تھا۔ بیس سال کی عمر میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "زرد چہرے" شائع ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ افسانوں کے اپنے پہلے مجموعہ کی کچھ کاپیاں لے کر گلبرگہ آئے تھے۔ جب انہوں نے اس کتاب کا ایک نسخہ والد صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو جلیس صاحب کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ جیسے انہیں سول سروس کا امتحان نہ دینے کا دکھ ہو۔
جلیس صاحب باغی اور سرکش ادیب تھے۔ لیکن جب وہ والد صاحب اور میرے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگر صاحب کے روبرو ہوتے تو ان کی ساری بغاوت، ساری سرکشی اور ساری شگفتہ مزاجی کافور ہو جاتی تھی۔ ان دونوں شخصیتوں کے سامنے ان کی آنکھیں ہمیشہ جھکی ہوئی ہوتی تھیں۔ بات بھی دو چار جملوں سے زیادہ نہیں کرتے تھے اور الٹے پاؤں واپس آ کر پھر بغاوت اور سرکشی سے ہمکنار ہو جاتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے کردار کی تربیت انہی دو شخصیتوں کی مرہون منت تھی۔
***
نام رسالہ: شگوفہ - مئی 1978
مدیر: ڈاکٹر مصطفیٰ کمال
تعداد صفحات: 106
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 20 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Shugoofa_May-1978.pdf
ماہنامہ 'شگوفہ' - مئی 1978 :: فہرست | |||
---|---|---|---|
نمبر شمار | تخلیق | تخلیق کار | صفحہ نمبر |
سب اچھا کہیں جسے (شخصیت) | |||
1 | ابراہیم جلیس | علی سردار جعفری | 10 |
2 | ابراہیم جلیس | ابن انشا | 11 |
3 | جب کی بات | یوسف ناظم | 14 |
4 | ابراہیم جلیس کی یاد میں | مجتبیٰ حسین | 17 |
5 | ہم خاک نشینوں کی | عاتق شاہ | 22 |
6 | دو ملک ایک جذبہ | آمنہ ابوالحسن | 25 |
7 | کیوڑے کا پھول مرجھا گیا | ضیا الحسن موسوی | 28 |
8 | ہائے جلیس | نصر اللہ خان | 32 |
9 | بت شکن جلیس | سلطانہ مہر | 34 |
ہم تو عاشق ہیں تمہارے کام کے (تنقید) | |||
10 | ابراہیم جلیس - کچھ یادیں کچھ تنقیدیں | ڈاکٹر وحید اختر | 37 |
11 | ابراہیم جلیس کے دو رپورتاژ | شمیم احمد | 43 |
12 | ابراہیم جلیس کی دوربین نگاہی | مناظر عاشق ہرگانوی | 50 |
13 | منفرد ادیب اور دوست | منظر امکانی | 55 |
مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا (انتخاب) | |||
14 | جلیس کی کہانی | ابراہیم جلیس | 59 |
15 | نیا مرض | ابراہیم جلیس | 61 |
16 | فلمی زندگی | ابراہیم جلیس | 63 |
17 | فیٹی ما | ابراہیم جلیس | 68 |
18 | کچھ پیدل چلنے کے بارے میں | ابراہیم جلیس | 71 |
19 | میاں شوہر بیوی شوفر | ابراہیم جلیس | 77 |
20 | زنانی شلوار | ابراہیم جلیس | 80 |
21 | جوں کا توں | ابراہیم جلیس | 83 |
22 | پتے کی بات | ابراہیم جلیس | 86 |
23 | واہ واہ کیا میاں کیا بیوی | ابراہیم جلیس | 89 |
24 | سیاسی بچہ بچی | ابراہیم جلیس | 92 |
متفرقات | |||
25 | یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا (تعزیت نامے) | قلمکار و قارئین | 95 |
26 | چہ خوب (قسطوار ناول) | پرویز یداللہ مہدی | 101 |
27 | پھر ملیں گے اگر خدا لایا (اداریہ) | ادارہ | 104 |
Shugoofa magazine Hyderabad, issue: May 1978, pdf download.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں