ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد - ابراہیم جلیس نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-19

ماہنامہ شگوفہ حیدرآباد - ابراہیم جلیس نمبر - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

shugoofa-ibrahim-jalees-number
مقبول ادیب، صحافی و طنز نگار ابراہیم جلیس گلبرگہ کے متوطن تھے اور سقوط حیدرآباد کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے۔ ان کی ایک کتاب "اوپر شیروانی اندر پریشانی" تعمیرنیوز پر پیش کی جا چکی ہے۔
طنز و مزاح کا مشہور، مقبول اور قدیم ترین ماہنامہ "شگوفہ" (حیدرآباد دکن) کا ایک خصوصی نمبر ابراہیم جلیس کے فن و شخصیت پر مئی-1978 میں شائع کیا گیا تھا۔ تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
106 صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم تقریباً 20 میگابائٹس ہے۔
رسالہ کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

اس خصوصی شمارے کے اولین مضمون "ابراہیم جلیس" کے تحت علی سردار جعفری لکھتے ہیں:
ابراہیم جلیس
ایک دلنواز اور بےتاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔ وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کا اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔

اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلدباز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بےباک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چکے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔
ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم ، اس کی وراثت ہے۔
کوئی نہ کوئی بےباک صحافی اس کو اٹھالے گا۔۔۔
اور ۔۔۔
ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔

ابراہیم جلیس کے چھوٹے بھائی اور نامور طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین اپنے مضمون "ابراہیم جلیس کی یاد میں" میں لکھتے ہیں:
ابراہیم جلیس افسانہ نگار تھے مگر میرے لیے صرف افسانہ تھے حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے۔ وہ پڑوسی ملک کے شہر کراچی میں رہتے تھے مگر لگتا تھا کہ وہ لاکھوں کروڑوں میل دور ہیں حالانکہ یہ فاصلہ چند سو میل سے زیادہ کا نہیں تھا۔ وہ مجھ سے بارہ تیرہ برس بڑے تھے لیکن لگتا تھا وہ کافی عمر رسیدہ ہو گئے ہیں حالانکہ ان کی عمر 54 برس سے زیادہ نہیں تھی۔ حقیقت جب افسانہ بن جاتی ہے، فاصلے جب پھیل جاتے ہیں، عمریں جب دھوکہ دینے لگتی ہیں تو دو بھائیوں کے رشتے کتنے بےبس، مجبور اور بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
بھائی ہونے کے ناتے آج جب میں انہیں یاد کرتا ہوں تو پتا چلتا ہے بچپن کی کچھ دھندلی دھندلی سی یادوں، 1960 میں ایک مہینہ کا ساتھ، سال میں ایک یا دو بار آنے والے ان کے خط اور ان کے بارے میں ان کے دوستوں سے سنی ہوئی باتوں کے سوائے میرے دامن میں کچھ بھی نہیں ہے۔ دو ملکوں میں بسے ہوئے بھائیوں کی کل کائنات یہی ہے۔ سرحد صرف دو ملکوں کے درمیان سے نہیں گزرتی بلکہ رگوں میں دوڑنے والے ایک ہی خون کو بھی کاٹ دیتی ہے۔

۔۔۔ ان کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ ہر کام میں جلدبازی دکھاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کی رگوں میں خون نہیں پارہ دوڑ رہا ہے۔ جذباتی انسانوں کا خون اکثر یوں ہی پارے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ زندگی کے ہر کام میں انہوں نے عجلت کی۔ ابھی علی گڈھ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہی تھے کہ وہ افسانہ نگار کی حیثیت سے سارے ہندوستان میں مشہور ہو چکے تھے۔ میرے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگر نے ابھی گریجویشن بھی نہیں کیا تھا کہ یہ علی گڈھ سے گریجویٹ ہو کر گلبرگہ واپس آئے۔ حالانکہ بھائیوں میں ان کا نمبر تیسرا تھا۔ بیس سال کی عمر میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "زرد چہرے" شائع ہوا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ افسانوں کے اپنے پہلے مجموعہ کی کچھ کاپیاں لے کر گلبرگہ آئے تھے۔ جب انہوں نے اس کتاب کا ایک نسخہ والد صاحب کی خدمت میں پیش کیا تو جلیس صاحب کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ جیسے انہیں سول سروس کا امتحان نہ دینے کا دکھ ہو۔
جلیس صاحب باغی اور سرکش ادیب تھے۔ لیکن جب وہ والد صاحب اور میرے سب سے بڑے بھائی محبوب حسین جگر صاحب کے روبرو ہوتے تو ان کی ساری بغاوت، ساری سرکشی اور ساری شگفتہ مزاجی کافور ہو جاتی تھی۔ ان دونوں شخصیتوں کے سامنے ان کی آنکھیں ہمیشہ جھکی ہوئی ہوتی تھیں۔ بات بھی دو چار جملوں سے زیادہ نہیں کرتے تھے اور الٹے پاؤں واپس آ کر پھر بغاوت اور سرکشی سے ہمکنار ہو جاتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے کردار کی تربیت انہی دو شخصیتوں کی مرہون منت تھی۔

***
نام رسالہ: شگوفہ - مئی 1978
مدیر: ڈاکٹر مصطفیٰ کمال
تعداد صفحات: 106
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 20 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Shugoofa_May-1978.pdf

Direct Download link:

ماہنامہ 'شگوفہ' - مئی 1978 :: فہرست
نمبر شمارتخلیقتخلیق کارصفحہ نمبر
سب اچھا کہیں جسے (شخصیت)
1ابراہیم جلیسعلی سردار جعفری10
2ابراہیم جلیسابن انشا11
3جب کی باتیوسف ناظم14
4ابراہیم جلیس کی یاد میںمجتبیٰ حسین17
5ہم خاک نشینوں کیعاتق شاہ22
6دو ملک ایک جذبہآمنہ ابوالحسن25
7کیوڑے کا پھول مرجھا گیاضیا الحسن موسوی28
8ہائے جلیسنصر اللہ خان32
9بت شکن جلیسسلطانہ مہر34
ہم تو عاشق ہیں تمہارے کام کے (تنقید)
10ابراہیم جلیس - کچھ یادیں کچھ تنقیدیںڈاکٹر وحید اختر37
11ابراہیم جلیس کے دو رپورتاژشمیم احمد43
12ابراہیم جلیس کی دوربین نگاہیمناظر عاشق ہرگانوی50
13منفرد ادیب اور دوستمنظر امکانی55
مر گئے پر دیکھیے دکھلائیں کیا (انتخاب)
14جلیس کی کہانیابراہیم جلیس59
15نیا مرضابراہیم جلیس61
16فلمی زندگیابراہیم جلیس63
17فیٹی ماابراہیم جلیس68
18کچھ پیدل چلنے کے بارے میںابراہیم جلیس71
19میاں شوہر بیوی شوفرابراہیم جلیس77
20زنانی شلوارابراہیم جلیس80
21جوں کا توںابراہیم جلیس83
22پتے کی باتابراہیم جلیس86
23واہ واہ کیا میاں کیا بیویابراہیم جلیس89
24سیاسی بچہ بچیابراہیم جلیس92
متفرقات
25یارب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا (تعزیت نامے)قلمکار و قارئین95
26چہ خوب (قسطوار ناول)پرویز یداللہ مہدی101
27پھر ملیں گے اگر خدا لایا (اداریہ)ادارہ104

Shugoofa magazine Hyderabad, issue: May 1978, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں