ابوالکلام آزاد - بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-20

ابوالکلام آزاد - بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری

maulana-azad-sahi-bukhari
اردو کی پسماندہ صحافت میں الہلال نکال کر ابو الکلام نے ایک نئے شاندار اور یادگار دور کا آغاز کیا، الہلال کے ساتھ ابو الکلام کا طرز انشا بھی اتنا انوکھا اور نرالا تھا کہ جو سمجھ گیا اس نے بھی داد دی اور جو نہ سمجھ سکا داد دینے پر وہ بھی مجبور ہو گیا۔

1924ء میں کہ میں ندوہ کی ابتدائی جماعت کا ایک طالب علم تھا، علی برادران کے ساتھ ابو الکلام بھی لکھنو آئے۔ رات کو رفاہ عام کے ہال میں ایک عظیم الشان جلسہ مسلمانان لکھنو کا منعقد ہوا، ندوہ سے کئی طالب علم جلسہ کی شرکت کے لئے گئے میں بھی ساتھ ہولیا، بڑی دیر تک مولانا کی تقریر ہوتی رہی مگر میری سمجھ میں کچھ خاک نہ آیا، گھر میں بچپن سے ابو الکلام کا ذکر عقیدت و عظمت کے ساتھ سنتا چلا آ رہا تھا، میرے بڑے بھائی سید عقیل احمد صاحب جعفری تو ابو الکلام کے پرستاروں میں تھے، اسی "پروپیگنڈہ‘ ‘کا اثر تھا میں رفاہ عام کے جلسہ میں چلا گیا، لیکن جا کر پچھتایا کہ نہ معلوم یہ اتنے مشہور کیوں ہیں ؟
اگست 1928 میں کانگریس کی مشہور زمانہ نہرو رپورٹ قیصر باغ کی بارہ دری (لکھنو) میں پیش ہوئی، ندوہ کے طلبہ قومی معاملات میں عملی حصہ لینے کے خوگر تھے۔ اور مقامی قومی کارکن قومی تقریبات کے مواقع پر ان کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کے عادی تھے، اس آل پارٹیز کانفرنس کے سلسلہ میں بھی ندوہ سے رضاکروں کی طلبی ہوتی، ندوی رضا کاروں کے دستہ کا ایک فرد میں بھی تھا۔
میرے ذمہ ڈیوٹی یہ تھی، کہ چند رضاکاروں کے ساتھ چار باغ اسٹیشن پر موجود رہوں اور جو زعمائے قوم اور رہنمایان ملت تشریف لائیں انہیں منزل مقصود تک پہچانے کے انتظام میں اپنے سردار کا ہاتھ بٹاؤں۔
ہر ٹرین پر دس پانچ معمولی اور دو چار بڑے "لیڈر" تشریف لاتے رہتے تھے کوئی ٹیلر پیلس میں مہاراجہ صاحب محمود آباد کا ذاتی مہمان ہے، کوئی ٹھاکر نواب علی کے قصر فلک نما کو اپنا نشیمن بنائے ہوئے ہے، آخری ٹرین سے مولانا ابو الکلام آزاد تشریف لائے۔ آپ کی پیشوائی کے لیے ہم معمولی رضاکاروں کے علاوہ چند سربرآوردہ شخصیتیں بھی پلیٹ فارم پر ٹہل رہی تھیں، مہاراجہ محمود آباد کی طرف سے ان کے پرائیوٹ سکریٹری مسٹر سعید الرحمن قدوائی موجود تھے اور ندوہ کے ارباب انتظام کی طرف سے نواب علی حسن خاں ناظم ندوۃ العلماء نےا پنے بڑے صاحبزادے امیر حسن صاحب کو بھیجا تھا لیکن مولانا نے دونوں دعوتیں بڑی خندہ پیشانی اور وسعت قلب کے ساتھ مسترد کر دیں، انہوں نے فرمایا، میرے بھائی یہ سچ ہے آپ مجھےا پنے ہاں ٹھہرانا چاہتے ہیں لیکن مجھے آرام ہوٹل ہی میں ملے گا، قبل اس کے کہ سعید الرحمن صاحب یا امیر حسن صاحب مزید اصرار فرمائیں، مولانا ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر محمد جان کے ہوٹل کی طرف روانہ ہو چکے تھے، ان دونوں میزبانوں کی حالت اس وقت قابل دید تھی۔
خیال زلف دو تا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

میں نے سوچا یہ کیسا اکل کھرا لیڈر ہے جو مہاراجہ اور نواب جیسے جلیل القدر میزبانوں تک کی دعوت پوری استغنا کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہے۔۔ عجیب شخص ہے۔
پھر یہ دیکھا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے ایوان زرنگار میں دھواں دھار تقریریں ہورہی ہیں، کبھی بپن چندر گوپال گرج رہے ہیں، کبھی مسٹر اینے بسنٹ کی آواز کانوں کے پردے سے ٹکرارہی ہے، ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا لیڈر اپنی گرمئی گفتار کے کمالات دکھارہا ہے، لیکن ابو الکلام صاحب ابو السکوت بنے بیٹھے ہیں، پرائیوٹ مجلسوں میں بلبل ہزار داستان کی طرح چہکتے ہیں، لیکن جلسہ عام میں مہر بہ لب۔
بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست
بعض لوگوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اس اجتماع کو مجلس مشاعرہ اور نہرو رپورٹ کو اس کا مصرعہ طرح سمجھ کرمولانا سے بھی طبع آزمائی کی درخواست کی، لی کن مولانا نے انکار فرمادیا، میرے بھائی تقریریں کافی ہو چکیں کسی مزید تقریر کی کیا ضرورت ہے ؟ مہارا جہ محمود آباد پاس بیٹھے تھے، انہوں نے بھی بڑا اصرار کیا، اب مولانا نے زبان کے بجائے صرف گردن سے جواب دینا شروع کیا۔
یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں

میں رضا کار کی حیثیت سے ڈائس کے قریب کھڑایہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، حیرت اس پر تھی کہ یہ شخص مہاراجہ کے اصرار کو بھی خاطر میں نہیں لایا، جن کی شاعرانہ تعریف مسز سروجنی نائیڈو تک اپنی لچھے دار تقریر میں کر ڈالی۔
خوب ادائیں ہیں اس لیڈر کی بھی، زمانہ اور آگے نکل گیا۔
1932ء میں مولانا دہلی آئے، میں بھی اس زمانہ میں دہلی میں تھا اور جامعہ ملہ اسلامیہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، معلوم ہوا مولانا کچھ روز دہلی ہی میں بسر کریں گے، دریا گنج میں انہوں نے عرصہ سے ایک کوٹھی کرایہ پر لے رکھی تھی، اسی میں مقیم تھے، لق و دق کوٹھی خود بدولت اور دو ملازم یہ تھے اس وسیع مکان کے مکین۔
اپنے دوست عبدالسلام قدوائی کے ساتھ میں روانہ ہوا، ہم دونوں پہنچے ہی تھے کہ ڈاکٹر انصاری مرحوم مسز ارونا آصف علی کے ساتھ پہنچ گئے، ہمارے لئے حاجب و دربان کی پابندی تھی، اذن باریابی کی ضرورت تھی یہ دونوں ان رسمیات سے بالا تھے، ہم ملازم سے التجا کر رہے تھے کہ مولانا کو اطلاع کر دے وہ ابھی ہماری اس التجا پر اپنا فیصلہ نہ صادر کرپایا تھا کہ یہ دونوں لیڈر آئے اور دراتے ہوئے اندر چلے گئے اور اس طرح کہ نکلنے کا نام نہیں لیتے آخر ہم لوگ واپس آ گئے۔
از دریا رچہ گویم بہ چہ عنواں رفتم
ہمہ شوق آمدہ بودم ہمہ حرماں رفتم

یہ زمانہ تھا کہ میں مولانا کے افکار سیاسی سے سخت بیزار تھا، لیکن الہلال، البلاغ اور تذکرہ پڑھ چکا تھا، ان کی قابلیت ذہانت اور بڑائی کا سکہ اختلاف فکر و نظر کے باوجود دل پر بیٹھ چکا تھا۔
چند روز بعد ہم دونوں پھر پہنچے، آج زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا، ملازم بھی سمجھ گیا شاید کہ مستقل مزاج لوگ ہیں، درشن کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے، اس نے ہمیں لائبریری میں بٹھایا اور خود اندر اطلاع کرنے چلا گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد پردہ اٹھا اور مولانانمودار ہوئے، بڑی شفقت اور مرحمت کے ساتھ ہم نیاز مندوں کے ساتھ پیش آئے، تھوڑی دیر کے بعد میں نے پوچھا:
کیا وجہ ہے کہ موطا امام مالک "اصح الکتاب بعد کتاب اللہ" نہیں مانی جاتی اور بخاری مانی جاتی ہے۔ حالانکہ امام مالک زمانی اعتبار سے بھی امام بخاری کے مقابلے میں رسول اللہﷺ سے اقرب تھے ؟ اور بخاری کے رواۃ کا وہ درجہ اصحاب خبر کے نزدیک نہیں جو موطا کے رواۃ کا ہے، اس سلسلہ رواۃ کو تو "سلسلۃ الذہب" کہا جاتا ہے ؟
مولانا غور سے میری معروضات سنتے رہے، پھر فرمایا:
"آپ جو کچھ کہتے ہیں، صحیح ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ موطا درسی کتاب نہیں ہے، علاوہ ازیں اس میں زیادہ تر آثار ہیں نہ کہ اقوال و احکام اور بخاری زیادہ تر اقوال و احکام پر مشتمل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ صدیوں سے نصابِ درس میں داخل ہے۔ اس کی ایک ایک حدیث اور ایک ایک روایت ہزاروں لاکھوں بار جانچی اور پرکھی جا چکی ہے"
پھر ایک محویت کے ساتھ فرمایا "سچ کہا تھا ابن حجر نے، بخاری کا امت پر قرض ہے اور وہ قرض آج تک باقی ہے۔ "
یہ جملہ بار بار مولانا نے دہرایا "قرض" کے لفظ پر خاص زور دیتے تھے۔

میں نے دوسرا سوال کیا:
سارق کے قطع ید کی مصلحت کے بارے میں اس سوال کو بھی مولانا نے غور سے سنا، پھر فرمایا، اسلام بجائے خود ایک نظام ہے اور یہ نظام اپنے تمام جزئیات کے ساتھ ہی بروئے کار آ سکتا ہے، آج اگر زانی کو سنگسار کر دیا جائے، چور کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں تو یہ ظلم ہو گا، لیکن اگر اسلام کا نظام بر سر عمل ہو، ایسی سہولتیں مہیا کر دی جائیں کہ فطرت صحیح چوری یا زنا کی طرف مائل ہی نہ ہو سکے، اور پھر بھی کوئی شخص زنا کرے یا چوری کا مرتکب ہو، تو یقیناً وہ اس کامستحق ہے کہ اسے عبرت انگیز سزا دی جائے۔
اس جواب سے اندازہ ہوا کہ سیاسیات کے کانٹوں سے اپنا دامن الجھانے کے باوجود یہ شخص اپنے اصل موضوع، اسلامیات پر اتنی ہی گہری نظر رکھتا ہے جس کی توقع کی جا سکتی ہے۔
آخر میں ایک سوال اشتراکیت کی "حلت و حرمت" کے بارے میں قدوائی صاحب نے کیا، جواب ملا، ’ ’ یہ ایک تجربہ ہے اور یہ تحریک جب تک تجربہ کے دور سے نہ گزرے، اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ "
اب مغرب کا وقت ہو چکا تھا، ہم نے اجازت چاہی اور واپس چلے آئے۔

Some views of Maulana Azad. Article by: Raees Ahmed Jaffri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں