اوپر شیروانی اندر پریشانی - ابراہیم جلیس کے طنزیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-23

اوپر شیروانی اندر پریشانی - ابراہیم جلیس کے طنزیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

Upar_Sherwani_Ander_Pareshani-Ibrahim-Jalees
مقبول ادیب، صحافی و طنز نگار ابراہیم جلیس کے منتخب طنزیہ مضامین کی کتاب "اوپر شیروانی اندر پریشانی" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 8 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

ابراہیم جلیس
پیدائش 22/ستمبر 1923 گلبرگہ (سابق ریاست حیدرآباد دکن)
وفات 26/اکتوبر 1977 کراچی (پاکستان)
اردو کے نامور ادیب، صحافی اور طنز نگار ، جو ممتاز طنز و مزاح نگار مجتبیٰ حسین اور حیدرآباد کے مشہور صحافی مرحوم محبوب حسین جگر کے حقیقی بھائی تھے، تقسیم ہند کے بعد حیدرآباد (دکن) چھوڑ کر کراچی میں جا بسے تھے۔
حیدرآباد میں میٹرک کے بعد علیگڑھ یونیورسٹی سے انہوں نے 1942 میں گریجویشن کیا تھا۔ انہیں بچپن سے ادب سے لگاؤ تھا چنانچہ اس زمانے میں حیدرآباد دکن سے نکلنے والے بچوں کے رسالے "سب رس" میں ابراہیم خان کے نام سے کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ ان کا پہلا افسانہ "زرد چہرے" تھا جو نیاز فتحپوری کے مشہور رسالے "نگار" کے 1943 کے ایک شمارے میں شائع ہوا تھا۔ ان کے افسانوں کے پہلے مجموعہ کا عنوان بھی "زرد چہرے" تھا جو 1944 میں لاہور سے شائع ہوا جس سے انہیں شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔
1943 میں انہوں نے نشرگاہ حیدرآباد (ریڈیو حیدرآباد دکن) کے لیے اسکرپٹ لکھنا شروع کیا اور حیدرآباد دکن کے اس تجارتی ادارے سے بحیثیت افسر اطلاعات وابستہ رہے۔
1948 میں سقوط حیدرآباد کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور لاہور سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور 1952 میں روزنامہ "امروز" کے سب ایڈیٹر منتخب ہو کر مستقلاً کراچی میں قیام پذیر ہو گئے۔ 1956 سے مشہور پاکستانی اردو روزنامہ "جنگ" میں اپنا مزاحیہ کالم "وغیرہ وغیرہ" لکھنا شروع کیا۔ پھر اپریل 1965 میں روزنامہ "انجام" کے مدیر بنے۔ روزنامہ "حریت" میں بھی کچھ عرصے کالم نگاری کی۔ 1974 میں اپنا ذاتی ہفت روزہ "عوامی عدالت" نکلا اور نومبر 1976 سے روزنامہ "مساوات" کی ادارت سنبھالی اور آخری سانس تک اسی سے وابستہ رہے حتیٰ کہ اسی اخبار کی خاطر اپنی جان بھی دے دی۔
انہوں نے فلموں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں جن میں سے ایک فلم "انچل" کی کہانی پر انہیں "نگار ایوارڈ" سے نوازا گیا۔
1950 میں پاکستانی سیفٹی ایکٹ کے تحت وہ پانچ ماہ جیل میں مقید رہے۔
1956 میں چین کا دورہ کرنے والے صحافیوں کے وفد میں وہ بھی شامل تھے۔ 1962 میں امریکی صدر جان ایف۔ کینیڈی کی دعوت پر امریکہ کا سرکاری دورہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ صحافتی دوروں پر روس، مشرقی یورپ اور کئی مغربی ممالک کے سرکاری وفود میں وہ شامل رہے۔

ابراہیم جلیس کی درج ذیل کتابیں شائع ہو چکی ہیں:
  • تکونا دیس
  • کچھ غمِ جاناں کچھ غمِ دوراں
  • چور بازار
  • میں مر نہیں سکتا
  • ترنگے کی چھاؤں میں
  • اجالے سے پہلے (ڈرامہ)
  • دو ملک ایک کہانی (رپورتاژ)
  • نئی دیوارِ چین (سفرنامہ)
  • پبلک سیفٹی ریزر
  • پاکستان کب بنے گا
  • آسمان کے باشندے
  • ہنسے تو پھنسے
  • اوپر شیروانی اندر پریشانی (کالموں کا مجموعہ)
  • جیل کے دن جیل کی راتیں
  • شگفتہ شگفتہ
  • نیکی کر تھانے جا
  • بھوکا ہے بنگال (قحط بنگال پر ہندوستانی ادیبوں کی منتخب نگارشات)

طنز و مزاح کے مشہور و مقبول ماہنامہ "شگوفہ" نے ان کی وفات پر مئی 1978 میں شگوفہ (جلد:11 ، شمارہ:5) کا "ابراہیم جلیس نمبر" شائع کیا تھا۔ جس میں مجتبیٰ حسین کا لکھا گیا خاکہ "ابراہیم جلیس کی یاد میں" بھی شامل تھا۔ جسے روزنامہ سیاست کی ویب سائٹ پر یہاں پڑھا جا سکتا ہے۔
ابراہیم جلیس کی جو آخری تحریر "مساوات (کراچی)" کے آخری شمارہ میں "نیا مرض" کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
نیا مرض
ہمارے جاننے والوں میں ایک شخص پہلی بار ملک سے باہر گیا بھی تو 'رہوڈیشیا' گیا۔ واپس پاکستان آیا تو رہوڈیشیا جیسے اس کا تکیہ کلام بن گیا۔
اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے چلتے پھرتے کھاتے پیتے بس رہوڈیشیا ہی رہوڈیشیا کا وظیفہ۔ بس میں جگہ نہ ملی تو پھٹ سے بولے:
"کمال ہے رہوڈیشیا میں تو بس میں فوراً جگہ مل جاتی ہے"۔
کھانا ہضم نہ ہو کھٹی ڈکاریں آ رہی ہوں تو حیرت کا اظہار کرے:
"رہوڈیشیا میں تو کسی کو کھٹی ڈکاریں نہیں آتیں۔"
بےچارے کی اَن پڑھ سادہ لوح ماں اسے ایک بار عالم بےہوشی میں ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئی اور بولی:
"ڈاکٹر صاحب! ذرا میرے بیٹے کو تو دیکھیے ۔۔۔ جانے اسے کیا مرض ہو گیا ہے؟!"
ڈاکٹر نے کیس ہسٹری سننے کے بعد آہِ سرد بھر کر کہا:
"اماں ۔۔۔ آپ کے بیٹے کو ایک نیا سیاسی مرض ہو گیا ہے ۔۔ رہوڈیشیا!"
پھر اس نے بوڑھی عورت سے کہا:
"یہ مرض 'رہوڈیشیا' ایسا خطرناک مرض ہے جیسا کہ دوسرا مرض 'اسرائیل'۔ ہرچند کہ یہ دونوں نام مسلمانوں کے جانی دشمن سامراج کے دو پٹھو ملکوں کے بھی ہیں مگر یہ مرض ہمارے پاکستان کے بھی عوام دشمن باشندوں میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے"۔
بوڑھی عورت نے دعائیہ لہجے میں کہا:
"اللہ معاف کرے"
عین اسی وقت اس کے بیٹے کو ہوش آ گیا گیا۔ اس نے ماں کو ڈانٹا:
"کم از کم رہوڈیشیا میں کوئی ماں ایسی دعائیں نہیں مانگ سکتی۔"
ماں کو بڑا غصہ آیا۔ وہ چیخ کر بولی:
"ابے چپ رہ۔ رہوڈیشیا کے بچے!!"

***
نام کتاب: اوپر شیروانی اندر پریشانی
مصنف: ابراہیم جلیس
تعداد صفحات: 144
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 8 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Upar Sherwani Ander Pareshani-Ibrahim Jalees.pdf

Direct Download link:

اوپر شیروانی اندر پریشانی - از: ابراہیم جلیس :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
حصۂ اول (لباس کے بارے میں مضامین)
1دوپٹہ - ایک پٹہ7
2ٹاپ لیس بکنی13
3کھال میں رہو بیگم19
4سُوت اور سَوت24
5آدمی ہو کہ چمن28
6ننگِ انسانیت ننگے33
7پاجامہ ادھیڑ کر سیا کر38
8بادشاہ ننگا ہے45
9فیٹی ما50
10نکٹائی56
11بیک ٹائی60
12بیگم عین غین66
13نائیلون کا جلاپا72
14سفید پوشی77
15یہ چوٹی کس لیے پیچھے پڑی84
16وزیر کی تہمد92
17زنانی شلوار97
18سبز پری اور کھڈی کا کپڑا103
19اوپر شیروانی اندر پریشانی108
حصۂ دوم (خوراک کے بارے میں مضامین)
20گھی والیاں113
21حاتم طائی جیل میں ہوتے120
22پالک اور لے پالک126
23بریانی کی پریشانی132
24پیٹ اور پلیٹ136
25چنگا خان اور منگا خان142

یہ بھی پڑھیے:
ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری اور زرد چہرے - منظور وقار
رپورتاژ "دو ملک ایک کہانی" (ابراہیم جلیس) : ایک جائزہ - نور بانو
ابراہیم جلیس…ایک جائزہ - رفیع الزمان زبیری

Upar Sherwani Ander Pareshani, a collection of Urdu Satiric Essays by Ibrahim Jalees, pdf download.

1 تبصرہ: