اقبال اور گوئٹے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-05-18

اقبال اور گوئٹے

Iqbal and Goethe
گوئٹے کا زمانہ اٹھارہویں صدی کا زمانہ تھا اور یہ وہ دور تھا جب سارے یورپ میں عقلیت اور استدلال کے ہاتھوں مذہب کی دھجیاں اڑائی جا رہی تھیں۔ عقلیت پسندی کا یہ طوفان در اصل ایک منفی نوعیت کا طوفان تھا۔ اور یہ کلیسائی تعصب کے رد عمل کے طور پر ظہور پذیر ہوا تھا۔
عقلیت پسندی کے اس طوفان کے مقابلے میں دو فلسفی کانٹ( 1804 - 1724ء) اور روسیو (1778 - 1712ء) کہسار بن کر ابھرے۔ کانٹ کے بارے میں تو اقبال کا یہ فقرہ کہ اس کی کتاب نے استدلالیوں کے سارے کام کو ملیامیٹ کر دیا۔ پہلے ہی نقل کیاج اچکا ہے۔ روسیو کا کارنامہ بھی کچھ کم وقیع نہیں۔ اس نے بھی استدلال کے مقابلے میں وجدانی یقین کی برتری کا احساس دلایا۔ اور یہ نقطہ نگاہ پیش کیا کہ یورپ کا جدید تمدن ہی جسے سائنسی ترقی پر بڑا ناز ہے یورپ کے تمام دکھوں اور مسائل کی جڑ ہے۔ اس لئے بچاؤ کا واحد راستہ یہی ہے کہ انسان فطرت کو واپس لوٹے۔ انسان فطرتاً آزاد اور امن پسند واقع ہوا ہے۔ لیکن اس نے شہری تہذیب کی زنجیروں میں اپنے آپ کو جکڑ کر اپنی زندگی کو وبال بنا لیا ہے۔
گوئٹے روسیو کے اس نظریے سے بہت متاثر ہوا اور اس نظریے کے ساتھ ہی ساتھ جرمنی میں جو رومانی تحریک چلی تھی۔ گوئٹے اس میں شامل ہو گیا۔ رومانی تحریک نے وجدانی یقین، جذبے اور احساس کی شدت پر زور دیا۔ اس تحریک کا مقصد در اصل جذبے اور شدت احساس کے ذریعے سے انسان کے لئے تہذیبی اور سماجی بندھنوں سے آزادی حاصل کرنا تھا لیکن سماجی بندھنوں سے آزادی انسان کے لئے خطرناک بھی تو ثابت ہو سکتی ہے۔
دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی ہے
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں
گوئٹے پر یہ نکتہ فاش ہوا تو اس نے رومانی تحریک سے علیحدگی اختیار کر لی اور آزادی فطرت کے عوض قوانین فطرت کی جانب راغب ہوا اور اسے اس پابندی ہی میں انسانی سر بلندی نظر آئی۔ اس سلسلے میں وہ یونانیوں کے فن سنگ تراشی سے بہت متاثر ہوا جس میں فطرت کے ازلی ضابطے کی ایک طرح سے پابندی موجود تھی۔ اس کے خیال میں عیسائیت کی اخلاقی تہذیب اور قدیم جمالیاتی تہذیب کے امتزاج کی بدولت محدود قومیت سے بلند تر عالمگیر انسانیت کا جو احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں کو اپنی منزل مقصود بنانا چاہئے۔
گوئٹے کی یہ ذہنی کشمکش اس کے ڈرامے "فاؤسٹ" میں موجود ہے۔ ڈرامے کے شروع میں فاؤسٹ ایک عظیم عالم کی حیثیت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ فاؤسٹ اپنی ساری توجہ علم کی تحصیل میں صرف کرتا ہے لیکن اس کا دل نامطمئن رہتا ہے۔ وہ عشق اور فطرت کے حسن سے بے خبر ہے۔ تمام عمر وہ علم ہی کے ذریعے سے فطرت کے راز جاننے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے لیکن اس کی یہ کوشش رائگاں جاتی ہے۔ آخر کار فاؤسٹ پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ محض علم اور عقل کی بدلوت انسان حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ یہ اصل میں عقلیت پسندی کے خلاف گوئٹے کے اپنے دور کی بغاوت ہے جو اس نے فاؤسٹ کی شخصیت میں پیش کی ہے۔
فاؤسٹ کو ایک ایسی زندگی کی تلاش تھی جو محض خیالی تصورات کا مرقع نہ ہو اور جس میں وہ فقط سوچتا ہی نہ رہے بلکہ احساس مروت حاصل کرے اور ذہنی طور پر اطمینان سے رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ اول اول جادو کا سہارا لیتا ہے۔ اور اسمیں کسی حد تک اپنے لئے تسکین کا سامان پاتا ہے لیکن یہ تسکین عارضی ثابت ہوتی ہے۔ پھر وہ روح ارضی کو بلاتا ہے۔ لیکن اس کی نا پختگی کے باعث روح ارضی اس سے کنارہ کرجاتی ہے۔ چنانچہ وہ نا امید ہو کر مرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ وہ محض ایک کیڑے کی زندگی بسر کرنا نہیں چاہتا اور کہتا ہے کہ ایک حقیر زندگی بسر کرنے سے تو مرجانا بہتر ہے لیکن ایسٹر کی ایک صبح اس کے دل میں محبت اور گداز کے خوابیدہ سوتوں کو بیدار کر دیتی ہے اور وہ اس حقیقت کو پالینے کے لئے جو ساری دنیا پرحکمران ہے بے تاب ہو جاتا ہے اور اس خیال سے کہ وہ اس حقیقت کو نہیں پا سکتا۔ وہ ایک بار پھر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسی عالم میں وہ بائیبل کا سہارا لیتا ہے اور اس میں پڑھتا ہے۔۔ ابتدا میں کلام تھا، کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام ہی خدا تھا۔۔ ۔ یہ پڑھتے ہی وہ اس فکر میں غرق ہو جاتا ہے کہ کیا لفظ "کلام" صحیح طور پر "کلام الٰہی" کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ چنانچہ لفظ کلام کو موزوں نہ پا کر وہ اس کی جگہ "خیال" یا "قوت" کا لفظ رکھنا چاہتا ہے اور انجام کار اس کی جگہ "عمل" کا لفظ رکھ دیتا ہے۔ اور یوں پڑھتا ہے۔ "ابتدا میں عمل تھا، عمل خدا کے ساتھ تھا اور عمل ہی خدا تھا۔ "
اقبال کے نزدیک فاؤسٹ کا یہ انداز فکر در اصل قدیم ہندو حکما کے نظریہ عمل ہی کا پرتو ہے۔ اپنےا س خیال کی وضاحت کرتے ہوئے اقبال لکھتے ہیں:
"ہندو قوم کے دل و دماغ میں عملیات اور نظریات کی ایک عجیب طریق سے آمیزش ہوئی ہے۔ اس قومکے موشگاف حکماء نے قوت عمل کی حقیقت پر دقیق بحث کی ہے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انا کی حیات کا یہ مشہور تسلسل جو تمام آلام و مصائب کی جڑ ہے، عمل سے متعین ہوتا ہے یا یوں کہئے کہ انسانی انا کی موجودہ کیفیات اور لوازمات اس کے گزشتہ طریق عمل کا لازمی نتیجہ ہے اور جب تک یہ قانون عمل کرتا رہے گا وہی نتائج پیدا ہوتے رہیں گے۔ انیسویں صدی کے مشہور جرمن شاعر کا ہیرو فاؤسٹ جب انجیل یوحنا کی پہلی آیت میں لفظ کلام کی جگہ لفظ عمل پڑھتا ہے۔۔ ۔ (ابتداء میں کلام تھا، کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام ہی خدا تھا۔۔ ۔ ") تو حقیقت میں اس کی دقیقہ رس نگاہ اسی نکتہ کو دیکھتی ہے جس کو ہندو حکماء نے تقدیر کی مطلق العنانی اور انسانی حریت اور بالفاظدیگر جبرواختیار کی گتھی کو سلجھایا اور اس میں کچھ شک نہیں کہ فلسفیانہ لحاظ سے ان کی جدت طرازی داد و تحسین کی مستحق ہے اور بالخصوص اس وجہ سے کہ وہ ایک بہت بڑی اخلاقی جرات کے ساتھ ان تمام فلسفیانہ نتائج کو بھی قبول کرتے ہیں جو اس قضیے سے پیدا ہوتے ہیں یعنی یہ کہ جب انا کا تعین عمل سے ہے تو انا کے پھندے سے نکلنے کا ایک ہی طریق ہے اور وہ ترک عمل ہے۔ یہ نتیجہ انفرادی اور ملی ہلو سے نہایت خطرناک تھا اور اس بات کا مقتضیٰ تھا کہ کوئی مجدد پیدا ہو جو ترک عمل کے اصل مفہوم کو واضح کرے۔ نبی نوع انسان کی تاریخ میں سری کرشن کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیا جائے گا۔ اس عظیم الشان انسان نے ایک نہایت دلفریب پیرائے میں اپنے ملک اور قوم کی فلسفیانہ روایات کی تنقید کی اور اس حقیقت کو آشکار کیا کہ ترک عمل سے مراد ترک کلی نہیں ہے کیونکہ عمل اقتضائے فطرت ہے اور اسی سے زندگی کا استحکام ہے بلکہ ترک عمل سے مراد یہ ہے کہ عمل اور اس کے نتائج سے متعلق دل بستگی نہ ہو۔ شری کرشن کے بعد شری رام فوج بھی اسی رستے پر چلے مگر افسوس ہے کہ جس عروس معنی کو شری کرشن اور شری رام فوج بھی بے نقاب کرنا چاہتے تھے شری شنکر کے منطقی طلسم نے اسے پھر محجوب کر دیا اور شری کرشن کی قوم ان کی تجدید کے ثمر سے محروم رہ گئی۔ "

فاؤسٹ در اصل عمل ہی کو حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بناتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ گوئٹے کے نزدیک کائنات میں ایک ابدی حسن کار فرما ہے جو انسان کو مادی زندگی کی پستیوں سے روحانی زندگی کی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے۔ ان روحانی بلندیوں کی جھلک سچے عاشق کو اپنی محبوبہ میں نظر آتی ہے۔ فاؤسٹ کے کردار کے ذریعے سے گوئٹے نے یہ بات اپنے قاری کے ذہن نشین کرانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اگرابلیس کے زیر اثر پست نفسیاتی خواہشات میں الجھ کر نہ رہ جائے تو وہ اس مجازی عشق کے ذریعے سے عشق حقیقی تک پہنچ سکتا ہے۔ اقبال کے یہاں بھی ابلیس کا تصور گوئٹے کے تصور ابلیس سے مختلف نہیں۔ آدم کی پیدائش کو گوئٹے کا میفسٹو اوراقبال کا ابلیس دونوں ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میفسٹو فاؤسٹ کو اپنے دام فریب میں الجھاکر اسے جادو کی شراب پلاتا ہے جس کے اثر سے فاؤسٹ جوان ہو جاتا ہے اور جادوگروں کے معمل میں ایک حسین و جمیل دوشیزہ پر عاشق ہو جاتا ہے اور اس کے بعد فاؤسٹ گرجا گھر سے واپس آتی ہوئی لڑکی گریٹسن کو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔ گریٹسن اس پر دل و جان سے فدا ہو جاتی ہے۔ فاؤسٹ گریٹسن کی ماں کو اپنے رستے سے ہٹانے کے لئے اسے گریٹسن ہی کے ہاتھ سے زہر کھلوادیتا ہے اور مفیسٹو کے ساتھ مل کر اس کے بھائی کو قتل کر دیتا ہے۔ گریٹسن اپنے نوزائیدہ بچے کو تالاب میں غرق کر دیتی ہے اور اسے اس جرم میں قید کر دیا جاتا ہے۔ جیل خانے میں وہ اپنی موت کا انتظار کرتی ہے۔ گوئٹے نے اس ساری تفصیل میں میفسٹو کا کردار اور آدم کے ساتھ اس کا تعلق انتہائی فن کارانہ طریقے سے بیان کیا ہے۔ انسان کی تخلیق گوئٹے کے میفسٹوا اوراقبال کے ابلیس دونوں کو ناگوار ہے۔ نظم تسخیر فطرت کا حصہ بعنوان "انکار ابلیس" اقبال کے نظریہ ابلیس کے اسی پہلو کا اجاگر کرتا ہے۔
گوئٹے کے مذکورہ ڈرامہ فاؤسٹ کا اقبال کی نظر میں کیا مقام ہے۔ یہ پیام مشرق کی نظم جلال وگوئٹے سے ظاہر ہے۔ اس میں گوئٹے کے کمال فن کا اعتراف رومی کرتے ہیں۔ کسی فن کار کے اعترافِ فن کا یہ انداز اعتراف کرنے والے کی اپنی عظمت کی دلیل ہے اور یہ انداز ہمیں اقبال کے یہاں اکثر نظر آتا ہے۔ اس مختصر سی نظم کا انتخاب شاید اس کے تاثر کو کم کر دے۔ اس لئے یہ مکمل صورت میں یہاں پیش کی جا رہی ہے۔
نکتہ دان المتی را در ارم
صحبتے افتاد با پیر عجم
شاعر کو ہم چوں آن عالی جناب
نیست پیغمبر ولے دارد کتاب
خواند بروانائے اسرار قدیم
قصہ پیمانِ ابلیس وحکیم
گفت رومی اے سخن را جاں نگار
تو ملک صید استی ریزداں شکار
فکر تو در کنج دل خلوت گزید
ایں جہانِ کہنہ را باز آفرید
سوزوساز جاں بہ پیکر دیدہ
در صدف تعمیر گوھر دیدۂ
ہر کسے از رمز عشق آگاہ نیست
ہر کسے شایان ایں درگاہ نیست
داند آن کو نیک بخت و محرم است
زیر کیز ابلیس و عشق از آدم است
اس نظم کے ساتھ ہی گوئٹے کے ڈرامے "فاؤسٹ" کا نثر میں ذکر کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں:
"اس ڈرامے میں شاعر نے حکیم فاؤسٹ اور شیطان کے عہد و پیمان کی قدیم روایت کے پیرائے میں انسان کے امکانی نشو و نما کے تمام مدارج اس خوبی سے بتائے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کمال فن تصور میں نہیں آ سکتا۔
یہ اقبال کی طرف سے گوئٹے کے اعتراف فن کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے گوئٹے کے دیوان کے جواب میں پیام مشرق لکھی اور اس میں نظم و نثر دونوں میں گوئٹے کی شاعری کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس خراج تحسین میں انہوں نے گوئٹے کے ساتھ اپنی فکری مماثلت کا ذکر بڑے والہانہ انداز سے کیا ہے اور اس فرق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جو انہیں اپنے اور گوئٹے کے ماحول میں نظر آیا:
پیر مغرب شاعر المانوی
آں قتیل شیوہ ہائے پہلوی
بست نقش شاہدان شوخ و شنگ
داد مشرق را سلامے از فرنگ
در جوابش گفتہ ام پیغام مشرق
ماہ تا بے ریختم بر شام شرق
تاشنا سائے خودم خود بیں نیم
با تو گویم او کہ بودومن کیم
اوزافرنگی جواناں مثل برق
شعلہ من از دم پیران شرق
او چمن زادے، چمن پروردۂ
من دمیدم از میں مردٔ
ہر دو دانائے ضمیر کائنات
ہر دو پیغام حیات اندر ممات
ہر دو خنجر صبح خند آئینہ فام
او برہنہ من ہنوز اندر نیام
ہر دو گوہر ارجمند و تاب دار
زادہ دریائے ناپیدا کنار
اوزشوخی در تہہ قلزم تپید
تا گریباں صدف را بردرید
من بآگوش صدف تا بم ہنوز
در ضمیر بحر نایابم ہنوز
پیام مشرق کے دیباچے میں اقبال گوئٹے کے سوانح نگار بیل سوشکی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"بلبل شیراز کی نغمہ پردازیوں میں گوئٹے کو اپنی ہی تصویر نظر آتی تھی۔ اس کو کبھی کبھی یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ شاید میری روح ہی حافظہ کے پیکر میں رہ کر مشرق کی سر زمین میں زندگی بسر کر چکی ہے۔ وہی زمینی مسرت، وہی آسمانی محبت، وہی سادگی، وہی عمق، وہی جوش و حرارت، وہی وسعت مشرب، وہی کشادہ دلی، اور وہی قیود و رسوم سے آزادی، غرض ہر بات میں ہم اسے حافظ کا مثیل پاتے ہیں۔ جس طرح حافظ لسان الغیب اور ترجمان اسرار ہے اسی طرح گوئٹے بھی ہے اور جس طرح حافظہ کے بظاہر سادہ الفاظ میں ایک جہان معنی آباد ہے۔ اسی طرح گوئٹے کے بے ساختہ پن میں حقائق و اسرار جلوہ افروز ہیں۔ دونوں نے امیر و غریب سے خراج تحسین وصول کیا۔ دونوں نے اپنے اپنے وقت کے عظیم فاتحوں کو اپنی شخصیت سے متاثر کیا(یعنی حافظ نے تیمور کو اور گوئٹے نے نپولین کو) اور دونوں عام تباہی اور بربادی کے زمانے میں طبیعت کے اندرونی اطمینان و سکون کو محفوظ رکھ کر اپنی قدیم ترنم ریزی جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔ "
بانگ درا، میں آپ گوئٹے کو غالب کا ہم نواقرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں ترا ہم نواخوابیدہ ہے
ویمر میں گوئٹے کے علاوہ ہر ڈر، شیلر اور ویلنیڈ بھی رہتے تھے لیکن اقبال ویمر کا ذکر گوئٹے ہی کے تعلق سے کرتے ہیں۔ اور پیام مشرق میں اپنے اس شعر
صبا بگلشن ویمر پیام ما برساں
کہ چشم نکتہ دراں خاک آن دیار افروخت
کے حاشیے پر ویمر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جرمنی میں ایک شہر ہے جہاں گوئٹے نے اپنی زندگی کا بہت سا حصہ بسر کیا اور بعد انتقال وہیں دفن ہوا۔ "
گویا گلشن ویمر کے ساتھ اقبال کا تعلق خاطر محض گوئٹے کی وجہ سے ہے، ہر ڈر، شیلر اور ویلنیڈ کی وجہ سے نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:
اقبال اورگوئٹے، تضادات اور مماثلتیں - عمران ناصر


Iqbal and Goethe. Article: Jagan nath Azad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں