زنانی شلوار - انشائیہ از ابراہیم جلیس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-15

زنانی شلوار - انشائیہ از ابراہیم جلیس

zanani-shalwar
دنیا میں بعض لوگ بڑے عجیب غریب ہوتے ہیں۔ ان کی عادات اور حرکات و سکنات عام انسانوں سے قطعی مختلف ہوتی ہیں۔ ان کی عادات اور حرکات و سکنات کو دیکھ کر ایک عام آدمی کا چونک پڑنا اور حیران ہونا لازمی بات ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا شمار بھی ایسے ہی عجیب و غریب انسانوں میں ہوتا ہے۔
آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ بلکہ اب تو ہمیں خود بھی یقین نہیں آتا کہ صرف ایک کوٹ ہینگر کے لئے ہم نے زندگی میں پہلی بار اپنے لئے ایک کوٹ سلوایا۔ اور پھر اس کوٹ کی خاطر ہمیں ایک پتلون سلوانی پڑی۔ کوٹ اور پتلون چونکہ بغیر نکٹائی کے پہننا خلاف فیشن ہے اس لئے ہم نے نکٹائی بھی خریدی۔
اس طرح زندگی میں پہلا سوٹ ہم نے اس لئے پہننا کہ ہمارے ایک دوست نے ہمیں ایک کوٹ ہینگر بطور تحفہ دیا تھا۔
صرف یہ ایک کوٹ ہینگر ہی نہیں بلکہ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں نے ہماری زندگی کے بڑے بڑے واقعات کو جنم دیا ہے۔ مثلاً
ہماری سگریٹ نوشی
ہماری شادی
اور ہماری کالم نویسی وغیرہ وغیرہ
اپنی عمر کے ابتدائی سال تک ہم نے کبھی سگریٹ نہیں پی۔ ان دنوں ہم علی گڑھ یونیورسٹی میں بی اے کے آخری سال میں پڑھتے تھے۔ اور ایک دن ہمارا ایک دوست ہم سے ہمارا ایک گرم کوٹ یعنی چسٹر عاریتاً ہم سے مانگ کر لے گیا۔ دوسرے دن وہ کوٹ واپس کر گیا تو اس کی ایک دیا سلائی کی ڈبیا کوٹ کی جیب میں رہ گئی۔
ہم نے سوچا کہ اس کی دیا سلائی کی ڈبیا اسے واپس کر دی جائے۔ لیکن پتہ چلا کہ وہ دوست یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے یہ سن کر ہم پریشان ہو گئے کہ اس دیا سلائی کی ڈبیا کا ہم کیا کریں۔ ہم نے اس ڈبیا کو اپنے دوست کی یادگار کے طور پر اٹھا کر میز پر رکھ دیا۔ لیکن دیاسلائی کی وہ ڈبیا اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ہماری نگاہوں میں کھٹکنے لگی۔ گویا وہ میز پر نہیں دھری تھی بلکہ ہمارے اعصاب پر رکھی ہوئی تھی۔
ہم اسے اٹھاکر باہر بھی نہیں پھینک سکتے تھے۔ کیونکہ ہمارے ہمارے اعصاب پر ناقابل برداشت ہو گئی تو ہم نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا کہ
ایک دیا سلائی کی ڈبیا کا بہترین مصرف کیا ہو سکتا ہے ؟
چولہا جلانے سے لے کر سگریٹ جلانے تک دوستوں نے دیا سلائی کی ڈبیا کے متعدد مصرف بتائے۔ لیکن ہمیں سگریٹ جلانے کا مصرف زیادہ معزز(ڈگنی فائڈ) نظر آیا اور ہم نے فوراً گولڈ فلیک کی ایک ڈبیا منگوائی۔ اور وہ دن اور آج کا دن
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ سگریٹ لگی ہوئی
ہماری کالم نویسی کا آغاز بھی ایسا ہی دلچسپ ہے، قیام پاکستان کے بعد جب ہم پریشان حال مہاجربن کر لاہور پہنچے اور روزنامہ "امروز" میں بحیثیت سب ایڈیٹر ملازم ہوئے تو ایک دن ہمارے مدیر اعلی اور فکاہی کالم نویسوں کے شہنشاہ مولانا چراغ حسن حسرت نے ہماری ایک تحریر سے خوش ہو کر اپنا وہ فاؤنٹن پن ہمیں انعام دیا جس سے وہ حرف و حکایت کا مشہور فکاہی کالم لکھا کرتے تھے۔
مولانا چراغ حسن حسرت کی موجودگی میں ہمارا فکاہی کالم لکھنا سوائے ادب کے مترادف تھا اس نے ہم نے ان کے اس تحفے کو مدتوں سچ مچ اپنے سینے سے لگائے رکھا۔ (یعنی کوٹ کے اندر کی جیب میں ہمیشہ دل کے پاس چھپائے رکھا۔ )
اور پھر جب فلک کج رفتار نے مولانا حسرت کا سایہ ہمارے سر سے چھین لیا اور جائے استاد خالی ہو گئی تو ہم بھی فکاہی کالم نویسی کے میدان میں کود پڑے۔
مولانا حسرت کے اٹھ جانے سے فکاہی کالم نویسی میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے ایک ہزار ابراہیم جلیس بھی پر نہیں کر سکتے۔ تاہم۔ ہم نے بھی مولانا حسرت کی کالم نویسی کے ماہتاب کے آگے اپ نی کالم نویسی کی ایک ننھی سی شمع روشن رکھی ہے۔
سب سے زیادہ اہم اور دلچسپ واقعہ تو ہماری شادی کا ہے۔ علی گڑھ کی نمائش کے ایک انعامی مقابلے میں ہم نے بھی ایک انعامی ٹکٹ خریدا تھا۔ اور اس انعامی ٹکٹ پر ہمیں ایک زنانی شلوار اور زنانی جمپر انعام ملا۔ ہم اس پر شرمندہ بھی ہوئے اورحیران بھی۔
اپنی آوارگی طبع کے باعث ہم شادی کر کے کسی خا تون کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم زندگی بھر جارج برنارڈ شاہ رہیں گے۔ لیکن یہ زنانی شلوار اور جمپر کا انعام ہمیں کیا ملا ہمارا شادی نہ کرنے کا اٹل فیصلہ متزلزل ہو گیا۔
اس زنانی شلوار اور جمپر کے لئے ہمیں ایک دوشیزہ درکار تھی۔ کئی لڑکیاں ہمیں پسند آئیں اور کئی لڑکیوں نے ہمیں بھی پسند کیا۔ لیکن وہ زنانی شلوار اور جمپر انہیں فٹ نہیں آئے۔
ہماری والدہ زنانی شلوار اور جمپر لئے سارے ہندوستان میں رشتہ داروں اور جان پہچان کے لوگوں کے گھروں میں جاتی رہیں۔ بالآخر ایک دن ریاست حیدرآباد دکن کے ایک شہر گلبرگہ شریف کے سوداگروں کی ایک لڑکی وہ شلوار قمیص فٹ آ گئی۔ ہماری والدہ نے ہم سے بہترا کہا کہ
پہلے لڑکی کوبھی تو دیکھ لو
لیکن ہم نے کہا کہ اسے شلوار قمیص فٹ آ گئی ہے تو پھر دیکھنے دکھانے کی کیا ضرورت ہے ؟ بس اب فٹا فٹ نکاح فٹ کر دو؟
چنانچہ وہی شلوار قمیص ہماری دلہن کا لباس عروسی بھی بنا اور اب ہماری ازدواجی زندگی میں اس شلوار قمیص کووہی اہمیت حاصل ہے جو میدان جنگ میں صلح کے سفید جھنڈے کو حاصل ہے۔ یعنی جب کبھی ہماری بیوی سے لڑائی ہو جاتی ہے تو وہ فوراً وہ شلوار قمیص پہن کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ اسے دیکھ کر ہم لڑائی بند کر دیتے ہیں اور فارسی شروع کرتے ہیں کہ
تو من شدی من تو شدی من تن شدی تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
اب ایسے ہی ایک واقعے نے ہمیں آج کل پریشان کر رکھا ہے ہمارے دوست عزیز اللہ جنگ نے شہر میں ایک ڈرائیوان مووی(DRIVE In Movie) یعنی موٹر میں بیٹھ کر فلم دیکھنے کا تماشہ شروع کیا ہے اور ہمارے ایک دوست نے اس ڈرائیور ان مووی‘ کا ایک ٹکٹ بطور تحفہ ہمیں بھیجا ہے۔
وہ ٹکٹ فی الحال ہمارے پاس اسلئے بیکار ہے کہ ہمارے پاس کار نہیں ہے۔
ہماری افتاد طبع کا تقاضہ تو اب بھی یہی ہے کہ ہم ڈرائیو ان مووی کے ٹکٹ کے لئے ایک موٹر کار بھی خرید لیں۔
لیکن دل سے مایوسی کی ایک ٹھنڈی آہ نکلتی ہے اور دوستوں سے بھی کوئی امید نہیں ہے کہ وہ
" کار، لائقہ سے ہمیں یاد فرمائیں۔ "
لیکن اگر کبھی ہم نے زندگی میں "کار" خریدی تو اس کا سبب صرف یہی "ڈرائیو ان مووی" کا ٹکٹ ہوگا۔

ماخوذ از کتاب:
اوپر شیروانی اندر پریشانی
مصنف : ابراہیم جلیس

Zanani Shalwar. Humorous Essay: Ibrahim Jalees

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں