ابن صفی - خطوط کے آئینہ میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-16

ابن صفی - خطوط کے آئینہ میں

Ibn-e-Safi in view of readers letters
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا

واقعی ابن صفی ایک ایسی سحر تھے جس نے شب کی تاریکی کا سینہ چیر کر اپنا چراغ روشن کیا، ہر سو پھیلی "ادبی برائیوں" کی تاریکی کو اپنے نوک قلم کی روشنی سے چاک کر دیا، وہ ایک ایسے مصنف تھے جس نے ایک نصب العین کے تحت لکھنا شروع کیا اور اپنے کاز کو نقطہ عروج تک پہونچا کر دم لیا، یہی وجہ تھی کہ ان کا لکھا ہوا معیاری اور مقصدیت کا حامل ہوتا تھا۔

ابن صفی کیا تھے؟ ہماری آپ کی طرح گوشت پوست کے ایک انسان لیکن ان کے حصہ جسم میں جو چیز تھی وہ تھا ان کا دماغ، وہ ہم سے زیادہ کہیں دور کی سوچ رکھتے تھے، ان کا ذہن تخیلات کا ایک بحر بے کراں تھا، جس میں نت نئے آئیڈیاز اور پلاٹ جنم لیتے تھے، ان کی مثال اس کہکشاں کی سی تھی جس میں لاکھوں کروڑوں ستارے جنم لیتے ہیں اور اپنی چمک سے آنکھوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں۔ پھر اس کہکشاں میں جو حیثئیت سورج کی ہوتی ہے وہ ستاروں پر اغلب ہوتی ہے اس چمکتے دمکتے سورج کے سامنے دوسرے ستاروں کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔

ابن صفی کی مثال بھی اس سورج جیسی ہے، جس کی خیرہ کن روشنی نے کتنے ہی دلوں کو اخلاقیات کی راہ سجھائی، قانون کا بھولا درس یاد دلایا، اپنے ارد گرد پھیلے مجرموں اور غیر ملکی جاسوسوں سے آگاہی دی، مجرم ذہنوں کی درجہ بندی کی اور ہمیں بتایا کہ مجرم نفسیاتی اور اخلاقی طور پر کتنے کمزور اور مایوسیوں سے گھرے ہوتے ہیں، ان پر کس طرح سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

جہاں ان کے مثبت کرداروں نے زندگی گزارنے کے سنہرے اصول و ضوابط پیش کیے وہیں مجرمانہ اذہان کے لوگوں کی شکستہ حالت اور غیر اخلاقی فعل سے جنم لینے والی برائیوں نے ہمیں برائی سے نفرت کرنا سکھایا، ان کی دور اندیشی اور بصیرت بینی ہم سے کہیں زیادہ مقوی اور سیل رواں کی مانند تھی، وہ ایک 'اسکول آف تھاٹ' تھے جس نے بہتوں کو نئی راہ دکھائی۔

وہ اپنے ہم عصروں میں اس لیے بھی ممتاز نظر آتے ہیں کیونکہ انھوں نے ابتداء ہی ایک مشن کے تحت کی تھی، اور یہ مشن تھا اردو کا فروغ اور فحش کہانیوں کا سدِباب! ان کا یہ مشن ابتدا سے ہی ایمانداری، خلوص اور محنت کا متقاضی تھا، سرسری انداز میں اس پر توجہ دی جاتی تو یہ کبھی کامیاب نہ ہوتا اور آج اس کاز کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ اس مشن کو محنت اور ایمانداری سے چلائے جانے کی دلیل ہے۔

اسرار احمد ابن صفی کو اردو داں طبقہ کا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہو جو نہ جانتا ہو، بنیادی طور پر ابن صفی ایک بلند پایہ شاعر اور طنز و مزاح نگار تھے، البتہ جو مقام ان کو اردو سری ادب تخلیق کرنے پر ملا اس کا کوئی ثانی نہیں، ایک زمانہ ان کی تحریروں کا گرویدہ نظر آتا ہے، اس میں عوام و خواص کی کوئی درجہ بندی نہیں، انھوں نے ایسا ادب لکھا جس نے سبھی کو اپنی طرف متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا۔

1947 سے لے کر 1980 تک ان جیسا معیاری لکھنے والا نظر نہیں آتا، ان کے افکار وخیالات ان کی شاعری سے لے کر نثر تک نظر آتے ہیں، طنز و مزاح میں بہت سے لوگوں نے بیشک بہت اچھا لکھا، لیکن جوسلاست روی، بانکپن، چاشنی، ظرافت، منظر نگاری، کردار نگاری، لہجہ و انداز ابن صفی کا تھا وہ کہیں اور نہیں مل سکا، وہ اپنے انداز میں یکتا و منفرد مصنف تھے، ان جیسا نہ کوئی ہے اور نہ شاید آئندہ ہوگا۔

ابن صفی ایک عہد ایک رجحان میں اپنی خود نوشت کو بہت زیادہ سراہا جاتا ہے بہ نسبت دیگر تحقیقی و تاثراتی مضامین کے، اس لیے کوشش ہے کہ اپنی ان چند یادوں کو شئیر کروں جو ابن صفی صاحب کے حوالے سے میری سنہری یادیں ہیں۔

اردو سری ادب میں جاسوسی دنیا اور اس کا مرکزی کردار انسپکٹر فریدی و سرجنٹ حمید بعد ازاں کرنل فریدی و کیپٹن حمید ایسے لازوال کردار تھے جو لوگوں کے ذہن پر نقش ہوکر رہ گئے، خصوصاً ہندوستان میں یہ کردار آج بھی پوجے جانے کی حد تک پسند کیے جاتے ہیں، میرا رابطہ ابن صفی کا ہندی ایڈیشن پڑھنے والے کچھ غیر مسلم قارئین سے ہے اس لیے میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ابن صفی کی جو قدر و قیمت ہمارے دلوں میں ہے اس سے کہیں زیادہ ان ہندی پڑھنے والے قارئین کے دلوں میں ہے، ان سے گفتگو کے دوران ان کی محبت و عقیدت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ان کا بس چلتا تو وہ ابن صفی اور ان کے کرداروں کی پرستش شروع کردیتے۔

کچھ لوگوں کے لیے یہ بات شاید ناقابل قبول ہو لیکن بعید از حقیقت نہیں ہے، ایسے مداح اور قارئین بھلا کس کے ہوتے ہیں؟ اگر کوئی مجھ سے سوال کرے تو میرا یقینی جواب ہوگا ایسے قارئین ابن صفی کے ہیں جو ان کو اس حد تک پسند کرتے ہیں، جو مقام بر صغیر ہند و پاک میں ابن صفی کو حاصل ہے وہ کسی اور کے حصہ میں نہیں آسکا۔

جس وقت جاسوسی دنیا کا 'نکہت پبلیکیشنز' سے اجراء ہوا مسلم و غیر مسلم پڑھنے والوں نے ان کرداروں کو ہاتھوں ہاتھ لے کر دل میں بسا لیا، میں ایسے بہتیرے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے سامنے اگر ابن صفی کے کرداروں پر گفتگو چھیڑ دی جائے تو گھنٹوں ایک ایک کردار پر باتیں ہوتی رہتی ہیں، مختلف موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں، طرح طرح کے امکانات کا جائزہ لیا جاتا ہے، آراء پیش کی جاتی ہیں کہ اگر ایسا ہوتا وہ سین بہت زبردست ہو جاتا، یا ابن صفی اس کردار میں یہ خوبی ڈال دیتے تو بس مزہ آ جاتا۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ پر لیکن مجھے کہنے دیجئے ابن صفی کا کوئی بھی کردار ایسا نہیں جس کی کردار نگاری میں کوئی کمی رہ گئی ہو، یا پڑھتے ہوئے کسی قسم کی تشنگی کا احساس ہوا ہو، سبھی کردار ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، خواہ وہ کوئی مثبت کردار ہو یا منفی، لوگ انھیں آج بھی یاد کرتے ہیں، ان پر مباحثے ہوتے ہیں، بھلا ایسے کردار کس نے تخلیق کیے ہوں گے جو اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی لوگوں کے دل و دماغ میں آج بھی روز اول کی طرح زندہ جاوید ہیں۔

ابن صفی کے کچھ پڑھنے والے آج اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ گزار چکے ہیں، مزے کی بات یہ کہ ان لوگوں نے ابن صفی کو اس وقت سے پڑھنا شروع کیا تھا جب ادارہ نکہت سے جاسوسی دنیا نئی نئی شائع ہونا شروع ہوئی تھی، ایسے پڑھنے والوں کی دیوانگی کا یہ عالم ہے کہ صرف ابن صفی کی محبت کی خاطر ان کا پرانا سے پرانا شمارہ بھی گراں سے گراں قیمت پر خرید لیتے ہیں، بغیر اردو و ہندی کی تخصیص کیے، ایسی عزت اور بے لوث محبت کسی دوسرے مصنف کو شاید ہی ملی ہو۔

میں اپنی بات کروں تو میرے پاس نکہت پبلیکیشنز سے نکلنے والے اردو ایڈیشن کے بھلے ہی چند شمارے ہوں لیکن ہندی ایڈیشن کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، اس کے علاوہ جہاں بھی مجھے کوئی پرانا شمارہ نظر آتا ہے تو اس بات کی فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ اسے کیسے حاصل کیا جائے، اس فکر سے اس وقت تک چھٹکارا نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ کتاب کو اپنی دسترس میں نہیں دیکھ لیتا۔

ابھی چند روز قبل کی بات ہے، ایک صاحب نے ان-باکس میں رابطہ فرمایا، وہ ہندی پڑھنے والوں میں سے ہیں اور ابن صفی سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں کہ ان کے پرانے شمارے کسی بھی قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہیں، میرے پاس ہندی ایڈیشن کے کم و بیش 120 ناول موجود ہیں، انھوں نے مجھے پیش کش کی کہ اگر میں اپنا ہندی ایڈیشن فروخت کرنا چاہوں تو وہ فی ناول 5 سے 6 ہزار روپئے دے سکتے ہیں، ان کا خلوص دیکھتے ہوئے میں نے ان کو چند ناول تحفتاً دینے کا ارادہ کر لیا ہے۔

کیا کسی اور مصنف کے ناول اردو یا ہندی میں اس قدر گراں قیمت پر کوئی خریدنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے؟ میں نے اس بارے میں سننا تو دور سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب ابن صفی کے پرانے شمارے اس قدر اہمیت اختیار کر جائیں گے کہ ایک ایک دو دو روپئے قیمت والے ناول 5 سے 6 ہزار میں خریدے اور بیچے جائیں گے، ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں ان پرانے شماروں کی قیمت 10 ہزار سے بھی تجاوز کر جائے۔

یہ ان ناولوں کا جنون ہی تو ہے جو کسی پل چین نہیں لینے دیتا، ان کا قاری جلد از جلد سارے ناول اپنی دسترس میں دیکھنا چاہتا ہے، ابن صفی کے ناول نکہت پبلیکیشنز کے علاوہ 1980 کے بعد دیگر ماہناموں اور رسالوں نے شائع کیے اور آج بھی کر رہے ہیں، میں ایسے رسالوں سے ابن صفی کے ناول الگ کر لیا کرتا تھا اور ان کو مجلد کرکے اپنی لائبریری کی زینت بناتا تھا، آج بھی ایسے ناولوں کی ایک بڑی تعداد مجلد صورت میں میری لائبریری میں محفوظ ہے۔

1980 کے بعد کا عرصہ ایسا ہے جس میں نکہت پبلیکیشنز سے ابن صفی کے ناول شائع ہونا بند ہو گئے تھے، ایسے میں ابن صفی کو پڑھنے والوں کے لیے یہی ڈائجسٹ اور ماہنامے امید کی کرن تھے جو ہر ماہ فریدی و عمران کا ناول شائع کرتے تھے، ایسے ماہناموں اور ڈائجسٹوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی، ان میں سے کچھ مشہور رسالے ہی ابن صفی کے ناول شائع کرتے تھے، خصوصا اردو ڈائجسٹ ھما، تلاش جدید، نیا عالمی ڈائجسٹ، چہار رنگ، صدہا رنگ، ہزار رنگ، اظہار اثر ڈائجسٹ اور نکہت گُل وغیرہ۔

ابن صفی کے قارئین کی بے تابی اور جنون کا اندازہ ان خطوط سے لگایا جا سکتا ہے جو ان ماہناموں، رسالوں اور ڈائجسٹوں میں شائع ہوتے تھے، ایک بار تو میں نے بھی ایک خط لکھا تھا جس میں اپنی ایک معصومانہ خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ابن صفی صاحب کے دو ناول "آپریشن ڈبل کراس" اور "سایوں کا ٹکراؤ" شائع کر کے شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں، بچپنا بہت ہی معصوم ہوتا ہے، انسان ایسی ایسی خواہش کرتا ہے جن کا پورا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

ابن صفی کے ناولوں کے لیے قارئین کی بے چینی و بیقراری ہم بچوں میں ہی نہیں بلکہ اسی اسی سالہ بزرگ حضرات میں بھی دیکھی گئی ہے، میں ایسے خطوط کے چند نمونے یہاں پیش کرتا ہوں، امید ہے اس سے آپ کو ابن صفی کے عقیدت مندوں اور پرستاروں کے دلی جذبات سمجھنے میں آسانی ہوگی اور میرا آج کا موضوع بھی یہی خطوط ہیں۔

سب سے پہلے اپنے خط کا تذکرہ کرتا ہوں جو کہ ھما اردو ڈائجسٹ مئی 2001 کے "آپ کے خطوط" کالم کے تحت صفحہ اول پر شائع ہوا، یہ صفحہ اول کا سب سے پہلا خط تھا اور میرا کسی بھی رسالے کو بھیجا گیا پہلا خط بھی جو بعمر 12 سال بھیجا گیا تھا، میں نے ھما اردو ڈائجسٹ کا یہ شمارہ بہت سنبھال کر رکھا ہوا ہے، اس شمارے میں تین خطوط اور بھی ہیں جو ابن صفی سے متعلق ہیں۔ میرا خط ملاحظہ فرمائیں۔
محترم ایڈیٹر صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم
ھما اردو ڈائجسٹ کا تازہ شمارہ نظر نواز ہوا، سبھی کہانیاں بہت اچھی لگیں، ھما میرا پسندیدہ ماہنامہ ہے، اس لیے اس کو بلا ناغہ پڑھتا ہوں، محترم ابن صفی کی کہانی 'درندوں کی بستی' کا پہلا حصہ پڑھا۔۔۔۔ واقعی بہت خوب ہے، ھما ہی کی طرح میں محترم ابن صفی صاحب کا بھی بہت بڑا فین ہوں، اگر آپ سے ہوسکے تو ان کے ناول 'آپریشن ڈبل کراس' اور 'سایوں کا ٹکراؤ' شائع کریں اور انکل اس چھوٹے سے خط کو ضائع نہ کریں، میری خدا سے یہی دعا ہے کہ ھما دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے۔"
ناچیز۔۔۔۔ (عبدالسلام) سید اسد عادل۔۔۔۔ منجھاون، کانپور، اتر پردیش۔

بارہ سال کا بچہ ابن صفی کے ناولوں کا اس قدر دیوانہ تھا کہ ابن صفی کے ناول پڑھنے کے شوق میں ایک بڑے ادارے کو خط لکھتا ہے، ساتھ ہی اسے یہ ڈر بھی دامن گیر ہے کہ اتنا بڑا ماہنامہ اس کے خط کو ضائع نہ کر دے، اسی ڈر کا اظہار خط کی آخری سطور میں بھی کیا گیا ہے۔

بہرحال جب یہ خط ھما میں شائع ہوا تو خوشی کی انتہا نہ رہی، سب کو دکھایا، فخر سے سینہ چوڑا ہوگیا، ہمارے یہاں ہرقسم کے ناول اور کتابیں پڑھنے کی مکمل آزادی تھی، اس لیے یہ بھی ڈر نہیں تھا کہ ڈانٹ ڈپٹ کی جائے گی، ھما نے جس شمارے میں یہ خط شائع کیا اس میں ابن صفی کا ناول 'اشاروں کے شکار' بھی شامل تھا، اب یہ تو یاد نہیں کہ میری گذارشات پر ادارہ ھما نے غور کرکے مطلوبہ ناول شائع کیے یا نہیں، البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ خط لکھنے کے فوراً بعد ناول 'آپریشن ڈبل کراس' مجھے ماہنامہ نئے افق کے ایک شمارے میں پڑھنے کو مل گیا۔

نئے افق پاکستانی رسالہ ہے جو اکثر ہمارے یہاں آیا کرتا تھا، چونکہ پڑھنے پڑھانے کا شوق وراثت میں ملا ہے اس لیے گھر میں کتابوں کے انبار تھے، اردو، عربی، ہندی، فارسی و انگریزی کی بے شمار ادبی و غیر ادبی کتابیں و رسالے موجود تھے جن کو پڑھنے پر کبھی پابندی عائد نہیں کی گئی، حتیٰ کہ بورڈز ایگزام سے لے کر یونیوسٹی کورسز اور کمپٹیشن کلاسز کی پڑھائی تک یہ ساری غیر نصابی کتابیں ہمارے نصاب میں شامل رہیں اور الحمد لللہ ان کے عمیق مطالعہ نے بہت کچھ سکھایا اور ہر ہر موڑ پر آسانیاں پیدا کیں۔

اب آتے ہیں ایک اور صاحب کے خط کی طرف جو ھما ڈائجسٹ کے اسی شمارہ میں شائع ہوا جس میں میرا خط شامل تھا، ترتیب کے لحاظ سے یہ تیسرا خط تھا، لکھنے والے صاحب کا نام اور پتہ تھا :
جے۔ ایم۔ نصیر۔۔۔۔ مالیر کوٹلہ، پنجاب۔
اپنے طویل خط میں نصیر صاحب ھما ڈائجسٹ اور اس میں شائع ہونے والی دیگر کہانیوں کی تعریف کرتے ہوئے ابن صفی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"۔۔۔۔۔محترم ابن صفی کا ناول 'درندوں کی بستی' کافی اچھا رہا، ابن صفی نمبر نکالیں، ابن صفی کے بغیر ھما اردو ڈائجسٹ ادھورا رہے گا۔"

اگر میں یہ کہوں کہ ھما جیسے ڈائجسٹوں کی مقبولیت، کامیابی و کامرانی کا انحصار ابن صفی کے ناول شائع کرنے میں مضمر تھا تو قطعاً غلط نہ ہوگا کیونکہ اس وقت تک ابن صفی کے ناول ادارہ نکہت سے شائع ہونا بند ہوچکے تھے اور ان کی حصولیابی کی خاطر بہت سے قارئین ان ڈائجسٹوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے جو ہر ماہ ابن صفی کا ایک ناول شائع کرکے ابن صفی کے قارئین کے ذوق کی تسکین کا سامان مہیا کرتے تھے۔

ھما اگست 2002 میں شائع ہونے والا ایک اور خط ملاحظہ فرمائیں:
محترم خالد بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلام مسنون،
رب العزت آپ کو سلامت رکھے، ھما کا تازہ شمارہ دستیاب ہوا، پڑھ کر دل میں عجیب مسرت ہوئی، دل یہ کہنے پر مجبور ہوگیا کہ واقعی ھما عظیم الشان ڈائجسٹ ہے، خاص کر سراغ، ساحرہ اور لاوا پڑھ کر انتہائی خوشی ہوئی، محترم خالد صاحب آپ عمران کے جاسوسی ناول برابر شائع کریں عین نوازش ہوگی، خدا تعالیٰ ھما کو مزید از مزید ترقی دے، آمین۔"
مخلص۔۔۔۔ بدیع الزماں محمد اسلم، علی گڑھوا، سدھارتھ نگر، اتر پردیش۔

اسی ضمن میں ایک خط اور ملاحظہ فرمائیں:
مکرمی جناب خالد مصطفیٰ صاحب۔۔۔۔۔۔ سلام و رحمت،
مزاج مبارک! ھما کا نیا شمارہ میرے سامنے ہے، واقعی یہ ایک ایسا ڈائجسٹ ہے جسے یکتائے روزگار کہنا بجا ہوگا، خالد بھائی آپ کی کاوشیں یقیناً رنگ لا رہی ہیں، حقیقت کہا جائے تو ھما کے مضامین اپنے جلو میں گوناگوں خوبیاں رکھتے ہیں، صندل کی آگ پڑھنے سے اگر دنیا کے مظلوم پر آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے تو شہنشاہ اور تخلیقات ابن صفی و انسپکٹر نواز خان ایک مجرم صفت آدمی کو جرم سے باز رکھنے کے لیے بہترین نسخہ ہیں، آپ سے گذارش ہے کہ ابن صفی اور نواز خان کو ھما میں ضرور جگہ دیتے رہیں۔
العارض۔۔۔۔ محمد اقبال احمد، مدھوبنی، چمپارن، بہار۔

میں نے اوپر ذکر کیا کہ ابن صفی کو ہر عمر کے لوگ پڑھتے ہیں بچے بوڑھے مرد و خواتین سب ہی ان کی تحریروں کے دیوانے ہیں، ابن صفی کسی ایک مخصوص طبقہ کے لیے نہیں لکھتے تھے، ان کی کاوشات بقول خرم علی شفیق صاحب 'جمہوری ادب' کہلاتی ہیں، جن کو ہر عمر و طبقے میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہے، ذیل میں ایک ایسے بزرگ صاحب کا خط نقل کیا جارہا ہے جو اپنے ضعف بصر کے باوجود کہانیاں پڑھنے کے شوق میں مطالعہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

بخدمت جناب خالد صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم،
میں ھما کا برسوں سے قاری ہوں، ہر ماہ بغیر ھما کا مطالعہ کیے چین نہیں ملتا حالانکہ اب بینائی بھی کمزور ہورہی ہے، بہو بیٹے منع بھی کرتے ہیں لیکن کیا کروں ھما کا ایسا نشہ ہے کہ جب تک ہر ماہ پڑھ نہ لوں خود کو ادھورا ادھورا محسوس کرتا ہوں، ادھر کچھ دنوں سے ھما میں واقعی چار چاند لگ گئے ہیں، زبردست انتخاب کرتے ہیں آپ کہانیوں کا، اس بار ابن صفی کی کہانی 'لاش گاتی رہی' اور جنگ عظیم پر مبنی کہانی آپریشن رومل بہت شاہکار رہیں۔
دعاگو۔۔۔۔ رئیس احمد، حیدرآباد، دکن۔

یہ ان چند خطوط کے نمونے ہیں جو ابن صفی نمبر اور ان کے ناولوں کی فرمائش کے سلسلہ میں شائع ہوتے رہتے ہیں، ھما کا شاید ہی کوئی ایسا شمارہ میری نظروں سے گزرا ہو جس میں کم از کم ایک خط ابن صفی کی تعریف اور ان کے ناولوں کی فرمائش کے ضمن میں نہ ہو، چھوٹے سے لے کر بڑا تک ابن صفی کے ناولوں کا دیوانہ نظر آتا ہے، خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی اس قسم کی فرمائشات کرتی رہتی ہے۔

اگر میں اپنی بات کروں تو میں ھما و دیگر رسالےصرف ابن صفی کے ناولوں کی وجہ سے پڑھتا تھا، جس دن سے میرا ابن صفی کے ناولوں کا کلیکشن مکمل ہوا اسی دن سے میں نے ھما پڑھنا ترک کردیا، ایک "ھما" ہی پر موقوف نہیں، وہ سارے رسائل پڑھنا چھوڑ دیے جن کو ابن صفی کے ناول حاصل کرنے کی نیت سے خریدا کرتا تھا، ظاہر ہوا کہ میں نے ابن صفی کو پڑھنے کے شوق میں دوسروں کو بھی پڑھا، اولین پسند ابن صفی کے ناول ہی رہے اور آج بھی ہیں، اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ابن صفی کے بعد مجھے اور کوئی اس حد تک متاثر نہیں کرسکا کہ میں اس کا مداح ہو جاتا۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ابن صفی کا جو سب سے پہلا ناول پڑھا وہ فریدی اور عمران کا مشترکہ کارنامہ "زمین کے بادل" تھا، شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے ان دونوں کرداروں سے یکساں الفت و محبت ہے، حالانکہ میں نے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے جو ان دونوں کرداروں میں سے صرف کسی ایک سے ہی زیادہ متاثر ہوتے ہیں، دونوں کرداروں سے یکساں طور پر محبت کرنے والے کم ہی ملیں گے، کسی کا پلڑا فریدی کی طرف زیادہ جھکا ہوا ملے گا تو کسی کا عمران کی طرف۔

ابن صفی نے فریدی و عمران سیریز پر 245 ناول لکھے، شکرال و کراغال جیسی فرضی دنیا پر لکھے گئے ناول اس کے علاوہ ہیں، مختصر کہانیاں اور مضامین کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے، ان کی تحریریں اتنی جاذب نظر اور پرکشش ہوتی تھیں کہ پڑھنے والا اس میں کھوکر رہ جاتا تھا، یہ ناول اور کہانیاں محض تفریح طبع کے خاطر نہیں لکھی گئیں، ان تحریروں سے انسان کی اخلاقی تربیت اور قانون کے احترام کا پہلو نمایاں طور پر سامنے آتا ہے، ابن صفی کے بنیادی مقاصد میں جہاں فحاشی کے خلاف اپنے قلم کی طاقت سے جنگ کرنا تھا وہیں نسل انسانی کو ایسی راہ دکھانا بھی تھا جس پر چل کر وہ گناہوں سے بچا رہ سکتا۔

اس بات سے قطع نظر کہ ابن صفی صاحب شاعر تھے یا ناول نگار اور ان کا ادبی مقام کیا ہے ان کی تحریروں میں حیات و کائنات کے جملہ متنوع موضوعات کو چھیڑا گیا ہے، صرف چھیڑا ہی نہیں گیا بلکہ ان کا مکمل احاطہ کرتے ہوئے درست راستے کا انتخاب کرنے کی راہ کا تعین بھی کیا گیا ہے۔
"میں نے لکھنا کیسے شروع کیا؟" نامی مضمون میں انھوں نے خود اس بات کی صراحت کی ہے کہ:
"حیات و کائنات کا کون سا ایسا مسئلہ ہے جسے میں نے اپنی کسی نہ کسی کتاب میں نہ چھیڑا ہو، لیکن میرا طریق کار ہمیشہ عام روش سے الگ تھلگ رہا ہے۔"

یہی وہ انفرادیت اور تنوع تھا جسے پڑھ کر لوگ ان کے گرویدہ ہوگئے، بچے، بوڑھے اور جوان کوئی بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، وہ آج بھی اپنی تحریروں میں اپنے کرداروں کے روپ میں زندہ ہیں اور ہمارے دلوں پر ان کا راج ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ابن صفی کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔

غم جدائی کا ہمیں جینے نہ دے گا اے عزیز
بے قراری ہم نے پائی ہے وہ جنت پاگئے

بشکریہ فیس بک گروپ: دی گریٹ ابن صفی فینز کلب
"دی گریٹ ابن صفی فینز کلب" فیس بک گروپ پر ابن صفی کو خراج عقیدت پیش کرنے لیے چلایا جانے والا سلسلہ "ابن صفی ایک عہد ایک رجحان" 2017 کا ایک کامیاب ترین ایونٹ تھا، اس گریٹ ایونٹ میں تقریباً پچاس شرکاء نے حصہ لے کر اس بزم کو رونق بخشی تھی۔
ایک عام سے ایونٹ کو جو خصوصی مقبولیت حاصل ہوئی اس کا اندازہ گروپ ایڈمنز کے سان و گمان میں بھی نہ تھا، اس سلسلہ کی تحریریں مختلف فیس بک و واٹس ایپ گروپ پر شئیر کی گئیں، اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس سلسلہ کی تمام تحریریں محترم مشتاق احمد قریشی صاحب نے ماہنامہ نئے افق میں خصوصی شمارے کے تحت شائع کیں۔

ابن صفی جیسے عظیم مصنف کو ان کی شایان شان خراج تحسین پیش کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، قلیل وقت میں ایسی کوئی تحریر نہیں لکھی جا سکتی تھی جو کسی حد تک معیاری ہوتی، میں بھی انھیں لوگوں میں سے ہوں جو سوچتے ہیں کہ کہیں قلم کی کوتاہی اور ہماری کوتاہ بینی سے ابن صفی کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو جائے، ابن صفی کا جو مقام ادبی دنیا میں ہے اس کا احاطہ کرنے کی سکت اپنے اندر نہیں پاتا۔ پھر بھی کچھ دوستوں کے بار بار اصرار کرنے پر یہ شکستہ تحریر حاضر ہے، امید ہے پسندیدگی کے معیار پر پوری اترے گی۔
عادل اسد سید (کانپور، اترپردیش، انڈیا)۔

Ibn-e-Safi, in view of readers letters. Article: Adil Asad Syed

1 تبصرہ:

  1. بہت خوب ۔۔۔یہ گروپ ابن صفی صاحب کے چاہنے والوں کا ہے۔۔

    جواب دیںحذف کریں