مرحوم اردو نیوز جدہ - کمبخت نامراد لڑکپن کا یار تھا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-13

مرحوم اردو نیوز جدہ - کمبخت نامراد لڑکپن کا یار تھا

urdunews-jeddah
وہ میرے شعور کا لڑکپن ہی تھا جب اردو نیوز شروع ہوا۔ اردو نیوز اور اردو میگزین نے میری سوچ اور تخلیق کاری کو جو اعتماد بخشا وہ بھلا میں کیسے فراموش کرسکتا ہوں۔ ہمارے اپنے شہر کے نامور اخبارات نے کبھی ہمیں گھاس نہیں ڈالی، ویسے بھی ان کے مالکان ساری گھاس خود ہی چر جانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ مفت میں لکھنے والوں نے ان اخبارات کی عادتیں اور نخرے اتنے بگاڑ دیئے ہیں کہ کسی نئے مصنف کا وہاں گُھسنا ویسا ہی مشکل ہے جیسےایک روپیہ میں دو کلو چاول کی راشن شاپ میں گُھسنا۔ اور جس قسم کے مضامین ہمارے شہر کے اخبارات میں شائع ہوتے ہیں ان سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ ان مضامین سے فائدہ کس کو پہنچتا ہے۔ لیکن بے چارے لکھنے والوں کو نام شائع ہونے کی تسلّی بلکہ خوشی ہوجاتی ہے، اخبار کے صفحات بھرجاتے ہیں اور بس۔
خیر، وہ دور کبھی بھلایا نہ جاسکے گا جب اردو نیوز کا انتظار رہتا تھا۔ اور کوئی مضمون بھیجنے کے بعد تو یہ انتظار اتنا شدید رہتا تھا کہ ہم فجر کے بعدبےچینی سے دروازے کے باہر دو تین بار چیک کرلیتے تھے اور اخبار ڈالنے پر غصّہ آنے لگتا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اطہر ہاشمی اس کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ حقیقت تو یہ ہیکہ ہمارے لئے اردو نیوز اسی وقت ختم ہوچکا تھا جب اطہرہاشمی کو ہمارے چند سلفی بھائیوں کی مہربانی سے اردو نیوز چھوڑنا پڑا۔ پرنس نائف جواُس وقت سلفیوں کے مائی باپ ہواکرتے تھے اُن کا سہارا لے کر اطہر ہاشمی کے ساتھ تین چار اور حضرات جنہوں نے مل کر اردو نیوز کو اردو کا ایک شاہکار اخبار بنادیا تھا ان کو اخبار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اگرچہ کہ شہزاد اعظم اور نعیم بازیدپوری وغیرہ نے بھرپور کوشش کی لیکن پھربھی وہ بات پیدا نہ ہوسکی جو اطہرہاشمی کے دور میں تھی۔ اطہرہاشمی ایک انتہائی ذہین اور مشّاق ایڈیٹر تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ مضمون میں ایک کاما یا فل اسٹاپ بھی تبدیل نہیں کرتے، صرف سرخی ایسی لگاتے تھے کہ لوگ پڑھنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ لیڈی ڈیانا ، کلیم عاجز، احمد فراز وغیرہ پر میرے مضامین پر اُس دور میں بہت ہنگامے ہوئے لیکن اطہر ہاشمی کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے تنقیدوں کے سامنے مجھے احساسِ کمتری کا شکار ہونے نہیں دیا بلکہ اور حوصلہ دیا جس سے میری خوداعتمادی میں بہت اضافہ ہوا۔ وہ جانتے تھے کہ میرے خلاف لکھنے والے حضرات میرے ہی ہم پیالہ اور ہم نِوالہ دوست تھے جو فرضی ناموں سے خط یا ایم میل بھیجا کرتے تھے۔ سیاسی تبصرےبالخصوص عرب حکّام پر تنقیدی جائزے لکھنے کیلئے انہوں نے ہی ہمت افزائی کی جس کی وجہ سے آج بھی یہ مشق جاری ہے۔مختصر یہ کہ اردو نیوز کم از کم میری ذات کیلئے ایک ابتدائی تربیت گاہ تھا۔ پہلے پہلے اردو نیوز میرے لئے ایک شوق تھا بعد میں ایک ضرورت بلکہ مجبوری بنتا چلاگیا۔ اگر ایک آدھ مہینہ کچھ نہ لکھوں تو زندگی میں ایک خلا سی محسوس ہونے لگتی تھی۔
جہاں اردو نیوز کیلئے اطہرہاشمی ایک روح کی حیثیت رکھتے تھے وہیں رؤف طاہر صاحب اردو میگزین کیلئے قلب کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ نواز شریف کی بھینٹ چڑھ گئے ورنہ اگر وہ ہوتے تو میری طرح کے پتہ نہیں اور کتنے ادیب پیدا ہوتے۔ ’’میاں بیوی کے اختلافات اور ان کے اسلامی نفسیات کی روشنی میں حل ‘‘ سے متعلق جب میں نے انہیں دو تین مضامین دکھائے تو بے انتہا خوش ہوئے، زبردست ہمت افزائی کی اور جاری رکھنے کی تلقین کی ۔ انہی کی وجہ سے ’’ایک کوشش اور‘‘ کے نام سے میری کتاب وجود میں آئی جو بنیادی طور پر اردو میگزین میں شائع ہونے والی پچپن قسطوں کا مجموعہ ہے۔ اور انہی مضامین کو پڑھ کر کئی لوگ اردو نیوز کے توسط سے مجھ سے کونسلنگ کیلئے رجوع ہونے لگے۔
نعیم بازید پوری کا اگر زکر نہ ہو تو خود اردو نیوز کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہوگی۔ ایک ایسا قلندر درویش صفت شاعر، ادیبوں کو ہجّے سکھانےوالا ادیب، جس نے مضامین تو بہت کم لکھے لیکن ہزاروں مضامین کی ایسی ایڈیٹنگ کی کہ وہ ایک حوالہ بن گئے، جب شاعری پر اترآتے تو لگتا تھا وہ شعر لکھ نہیں رہے ہیں بلکہ شعر ان پر نازل ہورہے ہیں۔ شہرت اور صدارتوں سے بے نیاز ایک ایسا شاعر جو احساس و آگہی کی نبصوں پر بڑی چابکدستی سے ہاتھ رکھتا تھا کبھی اپنا کلام شائع کروانے بھی راضی نہ ہوا اگرچہ ہم نے کئی بار کوشش کی۔جس مشاعرے میں چلاجائے وہ مشاعرہ یادگار بن جائے۔ ان کی کئی مشہور غزلیں تو وہ ہیں جو انہوں نے آفس سے نکل کر مشاعرہ گاہ جاتے ہوئے راستے میں ٹیکسی میں بیٹھ کر لکھیں۔ ان کی کئی غزلیں جو وہ خود لکھ کر بھول گئے لوگوں نے اپنے نام سے پڑھ ڈالیں اور اپنے دیوان میں شائع بھی کروالیئے۔
امین انصاری جو اردو اکیڈیمی تلنگانہ کے صدر رحیم الدین انصاری صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں، روزِ اول سے اردو نیوز سے جڑے رہے اور ہندوستانیوں اور بالخصوص حیدرآبادیوں اور اردو نیوز کے درمیان ایک پُل کا کام کرتے رہے۔ اگر انہیں اردو نیوز میں حیدرآباد کے سفیر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ہر ادبی اور دینی محفل میں وہ موجود رہ کر اردو نیوز کی نمائندگی کرتے رہے۔
اردو نیوز کا بند ہوجانا ایک سانحہ ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے ہزاروں ’’فرزندانِ اردو‘‘ سعودی عرب میں موجود ہیں لیکن وہ اپنی زبان کا ایک اخبار نہیں بچاسکے جب کہ صرف ایک ریاست کیرالا کے باشندے جنہیں اردو والوں نے ہمیشہ تحقیر اور تضحیک سے نوازا، انہوں نے اپنا ملیالم ڈیلی نہ صرف قائم رکھا بلکہ اس میں چار چاند لگادیئے۔ پچاس ریال مہینہ کوئی ایسا بڑا خرچ بھی نہیں تھا جو اردو کی محبت میں نہیں کیاجاسکتا تھا لیکن شائد عصبیتیں آڑی آگئیں۔ ہندوستانی جیب سے کچھ خرچ کئے بغیر، کوئی اشتہار دیئے بغیر مفت ہاتھ آئے تو پڑھنے کے قائل تھے ، اور پھر مطالبہ یہ کرتے تھے کہ اس میں پاکستانی خبروںکی کثرت کیوں ہے جب کہ اردو نیوز کی جو بھی خریداری تھی وہ پاکستانیوں ہی کی وجہ سےتھی۔ دوسری طرف پاکستانی قارئین اردو نیوز کو ہندوستانی خبروں سے پاک دیکھنا چاہتے تھے۔ ہندوستانی سفارت کاروں نے انتظامیہ سے کہہ کر ہندوستانی خبروں کی اشاعت میں اضافہ تو کروالیا لیکن کبھی اردو نیوز کی خریداری بڑھانے میں مدد نہیں کی۔ دوسری طرف خود انتظامیہ اور حکومت بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ اشتہارات کی قیمت جو انگریزی اخبار میں اشتہار کے برابر تھی اردو والوں کیلئے بہت زیادہ تھی۔ انتظامیہ کو جاننا چاہئے تھا کہ اردو والے کیا استطاعت رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سعودائزیشن کے بوجھ نے بھی اردو نیوز کو مارڈالا۔ سعودی شہری جو خود عربی یا انگلش اخبارات کیلئے ایک بوجھ ہیں ان کا بوجھ ایک اردو اخبار کیلئے اٹھانا ممکن نہیں تھا۔
ہندوستانی قلم کار جنہوں نے اردو نیوز اور اردو میگزین کی زینت بڑھانے میں تعاون کیا ان میں مرحوم شریف اسلم، عارف مسعود صدیقی، مکرم نیاز، مہتاب قدر، نادر خان سرگروہ ، کے این واصف ، مجاہد سید، نادر اسلوبی، سعید حسین اور عارف قریشی وغیرہ شامل تھے۔


***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 09642571721
ڈاکٹر علیم خان فلکی

Some memoirs of Jeddah's UrduNews, by: Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں