ایک عام ہندوستانی کی ذہنیت اور سیرت - کنہیا لال کپور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-02

ایک عام ہندوستانی کی ذہنیت اور سیرت - کنہیا لال کپور

an-indian
معروف و مقبول مزاح نگار کنہیا لال کپور کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی کتاب "شیشہ و تیشہ" ، پہلی بار 1944 میں شائع ہوئی تھی۔
اسی کتاب میں شامل ایک یادگار طنزیہ و مزاحیہ مضمون "ایک عام ہندوستانی کی ذہنیت اور سیرت" ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ واضح رہے کہ یہ مضمون اس وقت کا تحریر کردہ ہے جبکہ ہند و پاک کی تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی۔

طہران سے ایک دوست نے پوچھ بھیجا ہے کہ میں اسے ایک عام ہندوستانی کی ذہنیت اور سیرت کے متعلق کچھ لکھوں۔ سوچتا ہوں کیا لکھوں۔ایک عام ہندوستانی ۔۔۔
ایک ترک کی نظر میں "شریف ترین غلام"
ایک جرمن کے نزدیک "ذلیل ترین اپاہج"
اور امریکن کی نظر میں "پراسرار، شعبدہ باز" ہے۔
دقیانوس اور ضعیف الاعتقاد۔ انگریز اسے جاہل اور نیم وحشی سمجھتے ہیں۔ اور ان رحم دل چینی خواتین کی دانست میں جنہیں ہندوستان سے ہمدردی ہے، وہ روحانیت پرست اور سادہ لوح ہے۔
یہ تو ہوئی بیگانوں کی رائے۔ رہے یگانے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر شاعر مشرق کے خیال میں وہ "گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے" تو شاعر انقلاب کی نگاہ میں "بزدل اور مخنث" ہے۔
میری دانست میں کم و بیش یہ تمام تعریفیں مبالغہ آمیز ہیں۔ اور بعض تو سر بسر غلط۔ مثلاً یہ کہنا کہ عام ہندوستانی بزدل ہے۔ حقیقت کو جھٹلانا ہے۔ ہم ایک عام ہندوستانی پر سنگین سے سنگین الزام لگاسکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسے میانہ روی سے چڑ ہے۔ اس میں صبر اور ضبط کا فقدان ہے۔ اسے مسکراہٹ سے زیادہ قہقہہ پسند ہے۔ وہ مانگے کے لباس مانگے کی زبان، اور مانگے کے فیشن پر جان چھڑکتا ہے۔ مگر یقیناً اسے بزدل نہیں کہہ سکتے۔ پچھلے دنوں ہندو مسلم فسادات میں جس بہادری کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے سر پھوڑے تھے وہ اس امر پر دال ہے۔ کہ ہندوستانی شجاعت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اب رہا ان کے مخنث ہونے کا معاملہ تو جس ملک کے باشندے دس سل کے قلیل عرصہ میں اپنی آبادی میں پانچ کروڑ افراد کا اضافہ کر سکتے ہیں، انہیں کوئی صحیح العقل مخنث کہنے کا حق نہیں رکھتا۔
میرا تو خیال ہے کہ ذوق کے پیر مغاں کی طرح ہر ہندوستانی کے پاس وہ جادو ہے جس سے نامرد، مرد اور مرد جوانمرد بن جاتا ہے۔ امریکنوں کا یہ کہنا کہ ہندوستانی شعبدہباز ہے، اس حد تک درست ہے کہ ان کی واقفیت کا منبع اینگلو انڈین مصنفین کی وہ کتابیں ہیں، جن کے مطالعہ سے انسان یہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ہندوستان میں جادوگربستے ہیں۔ یا مہاراجے، اور رجعت پسند انگریز کا یہ نظریہ کہ عام ہندوستانی نیم وحشی ہے۔ اس لئے غلط ہے کہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں خواندہ اشخاص کی تعداد گیارہ فیصدی تک پہنچ گئی ہے۔ انگریز ہندوستانیوں کو سمجھنے میں اس لئے غلطی کرتا ہے کہ ان کے خیال میں اس کا بیرا(Bearar) ہندوستان کا بہترین نمائندہ ہے۔ اور امریکن اس لئے کہ وہ ان ہندستانی یو گیوں اور فقیروں کو ہندوستان کا مظہر سمجھ لیتا ہے جو وقتاً فوقتاً اپنے شعبدوں سے نیو یارک اور شکاگو میں سنسنی پھیلاتے ہیں۔
تو پھر عام ہندوستانی کی ذہنیت کیا ہے۔ میری رائے میں عام ہندوستانی کی سیرت کو سمجھنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ عام ہندوستانی چاہے وہ دیہاتی ہے یا شہری۔ ہر حال میں خوش ہے۔ اگر اسے سوراج مل جائے جب بھی خوش اور اگر نہ ملے جب بھی خوش۔ بلکہ اگرنہ ملے تو زیادہ خوش ! اگر اسے نانِ جویں ملتی ہے جب بھی شاکر۔ من و سلویٰ ملے تب بھی قانع۔ دنیا اس کی عزت کرتی ہے۔ تو شکر گزار اور اگر لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ممنون۔ اسے نہ کرم کی خواہش ہے، نہ ستم کا شکوہ۔ ایک عام ہندوستانی اپنے تمام آلام و مصائب کا ذمہ دار دو اور صرف دو چیزوں کو ٹھہراتا ہے۔ یعنی انگریز اور قسمت۔ دو چیزیں اس کے اعصاب پر ہر وقت سوار رہتی ہیں۔ مذہب اور عورت۔ دو چیزوں سے اسے سخت نفرت ہے صفائی اور پابندی وقت سے دو چیزیں اسے از بس پسند ہیں۔ دخل در معقولات اور شور۔
سب سے پہلی بات جو عام ہندوستانی کے متعلق کہی جا سکتی ہے۔ یہ ہے کہ وہ خدا اور روح کی ہستی کا قائل اور جراثیم کی ہستی کا منکر ہے۔ طبعاً وہ غلاظت پسند ہے۔ اسے گندگی سے بہت کم گھن آتی ہے۔ اس کے خیال میں بیماری یا وبا قہر آسمانی بن کر نازل ہوتی ہے۔ مکھیوں، مچھرں، ہیضہ اورت دق کے جراثیم کو سائنس دانوں نے مفت میں بدنام کر رکھا ہے۔ چنانچہ جہاں مکھی اور مچھرکو دیکھ کر ایک یورپین کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ وہاں ایک عام ہندوستانی نہایت اطمینان کے ساتھ دہ کھانے پھل، اور مٹھائیاں کھاسکتا ہے جن پر سارا دن مکھیاں بھنبھناتی رہتی ہیں۔
ایک عام ہندوستانی فطرتاً اور اصولاً آرام طلب اور سست الوجود واقع ہوا ہے وہ جو شعر میر نے اپنے متعلق محبت کے بارے میں کہا ہے۔ تھوڑی سی ترمیم کے بعد ہر ہندوستانی کے نظریہ حیات پر صادق آتا ہے۔
ہو گا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا کام مشقت سے اس آرام طلب کو

تضیع اوقات ہر ہندوستانی کا پسندیدہ شغل ہے۔ اکثر حالتوں میں پسندیدہ پیشہ بھی۔ اور جب وہ وقت ضائع کرنے پر آتا ہے تو بخل سے کام نہیں لیتا۔ گپیں ہانکنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ چینی بھی اس کے آگے پانی بھرتا ہے۔ میرے خیال میں ہندوستان میں جتنے گپ باز پائے جاتے ہیں، شاید ہی دنیا کے کسی اور حصے میں ملیں اور کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ ہندوستانی سوراج بھی اسی لئے نہیں لینا چاہتا کہ وہ ہوم رول کو محض درد سر سمجھتا ہے۔ اور وہ حاکم بننے سے اس لئے کتراتا ہے کہ اسے گپیں ہانکنے کے شغل سے محروم ہونا پڑے گا۔ فی الواقعہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہمیشہ کسی دوسری قوم کے ماتحت رہے۔ ایسی قوم جو اس کی طرح سست الوجود نہ ہو۔ اور جو اس کے ملک کا انتظام کر سکے۔
ایک عام ہندوستانی کا عورت کے متعلق جو نظریہ ہے وہ بھی اس کی ذہنیت پر کافی روشنی ڈالتا ہے۔ اگر ذرا دریدہ دہنی سے کام لی ا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ حسن پرستی ہر ہندوستانی کے خمیر میں ہے۔ اس کے خیال میں عورت پیدا ہی اس لئے کی گئی ہے کہ مرد کے جذبہ شہوت کی تسکین کرے۔ نیز مرد اس لئے پیدا ہوا ہے کہ زیادہ سے زیادہ عورتوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنائے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب کسی ہندوستانی کے پاس ضرورت سے زیادہ روپیہ ہو جاتا ہے تو اسے یہ فکر دامنگیر ہوتی ہے کہ کہیں سے خوبصورت عورتیں حاصل کرنے کا انتظام کرے۔ ایک عام ہندوستانی جب جنت کا تصور کرتا ہے تو سب سے پہلے اس کے ذہن میں حرم کا تصور آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر جنت سے حوریں نکال دی جائیں تو کوئی ہندوستانی جنت میں جانے کے لئے تیار نہ ہو گا۔ بر عکس اس کے اگر تمام حوروں کو دوزخ میں منتقل کر دیا جائے تو ہر ہندوستانی دوزخ میں داخل ہونے کے لئے بیتاب نظر آئے گا، بچپن اور اوائل عمر میں ایک عام ہندوستانی کو عورت کے قرب سے اس بیدردی کے ساتھ محروم کیا جاتا ہے کہ جنسی طور پر وہ ساری عمر تشنہ کام رہتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ سڑک پر چلتے وقت عورتوں کو گھور گھور کر دیکھتا ہے۔ اکیلی عورت کو جاتے دیکھ کر مچل جاتا ہے۔ اور راہ چلتے اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی خوبصورت عورت کے ساتھ اس کا شانہ چھوجائے۔ ہندوستان میں تقریباً پچاس فیصدی بلکہ پچہتر فیصدی لوگ جنسی تشنگی کا شکار ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ تشنگی ہندوستانیوں کے حق میں رحمت ثابت ہوئی ہے کیونکہ ہندوستان ہی ایسا ملک ہے جہاں تقریباً ہر شادی کامیاب شادی کہی جا سکتی ہے۔ یہ جنسی تشنگی کی ہی برکت ہے کہ ہندوستانی خاوند پھوہڑ سے پھوہڑ اور بد صورت سے بدصورت کے ساتھ مطمئن ہے۔ جہاں امریکہ اور انگلینڈ میں خاونداس لئے بیوی کو طلاق دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے کہ وہ سوتے وقت زور سے خراٹے لیتی ہے۔ وہاں ہندوستانی خاوند بیوی کے بڑے سے بڑے نقص کو اس لئے نظر انداز کر دیتا ہے کہ اسے بیوی بڑی مشکلوں کے بعد ملی ہے۔
تقریباً ہر ہندوستانی مذہب کے نام پر بے وقوف بنایاجا سکتا ہے، مذہب پر تو وہ بکا ہوا ہے۔ وہ اپنے مذہب سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ یہ اسے خدا کے قریب لاتا ہے بلکہ اس لئے کہ یہ اسے اپنے ہم وطنوں سے دور لے جاتا ہے۔ ہر ہندوستانی کو ایک خدا چاہئے۔ پرستش کے لئے نہیں بلکہ اپنے ہمسائے سے لڑنے کے لیے۔ ہندوستان مذاہب کا گھر نہیں بلکہ کارخانہ ہے۔ یہاں گلی گلی اور کوچہ کوچہ میں پیغمبر اور اوتار پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں ہر ایک آدمی متقی اور خدا پرست ہے۔ جسے خدا سے محبت اور خدا کے بندوں سے نفرت ہے۔ یہ ان مذاہب کا ہی احسان ہے کہ مختلف اقوام کے درمیان ناقابل عبور خلیجیں بن گئی ہیں۔ چنانچہ جب تک یہ خلیجیں موجود ہیں۔ کسی انگریز کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔
ایک عام ہندوستانی نجات یا مکتی کا اس قدر دلدادہ ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی زحمت برداشت کر سکتا ہے۔ وہ اولیائے کرام کے مزاروں پر جا کر گڑ گڑا تا ہے۔ تیرتھ یاترا اور حج کر کے پھولے نہیں سماتا۔ مگر باوجود ان با توں کے وہ یقیناً روحانیت پرست نہیں۔ وہ چاندی کے ٹکڑوں کے لئے آپس میں لڑتا ہے اور روپے کی خاطراپنی روح کو بیچنے کے لئے آمادہ ہے۔
ایک عام ہندوستانی کے لئے سب سے کڑی سزا غریب الوطنی۔ سب سے بڑی مصیبت ناکتخدا رہنا۔ سب سے بڑی کوشی لڑکے کی پیدائش، سب سے بڑی عیاشی چھپ کر شراب پینا۔ سب سے بڑی سعادت حاکم وقت کی خوشامد۔ اور سب سے بڑا گناہ حب الوطنی ہے۔ ایک عام ہندوستانی کو مستقبل سے زیادہ ماضی سے محبت ہے۔ سیاست سے زیادہ مذہب عزیز ہے۔
۔۔ ۔۔ خط طویل ہوتا جا رہا ہے۔ اور ابھی میں نے کچھ بھی تونہیں لکھا۔ یعنی جو کچھ لکھا ہے ڈر ڈر کر لکھا ہے۔ تو کیا جو کچھ مجھے ایک عام ہندوستانی کی ذہنیت کے متعلق معلوم ہے۔ صاف صاف لکھ دوں۔۔ بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے سے فائدہ؟ اور پھر لوگ کیا کہیں گے۔ لوگ کیا کہیں گے ! آہ۔ ہر ہندوستانی کا ابدی ہوا لوگ کیا کہیں گے۔
اور پھر اگر شامت اعمال سے یہ خط برٹش پارلیمنٹ کے ہتھے چڑھ جائے تو کیا وہ اس تحریر کی بنا پر اصلاحات کی تازہ قسط نہ روک لے گی۔ نہیں نہیں میں یہ خط کبھی مکمل نہیں کروں گا۔۔ ۔ کولر یج کے شاہکار، قیلا خاں کی طرح یہ خط ہمیشہ نامکمل رہے گا۔

ماخوذ از کتاب: شیشہ و تیشہ۔ مصنف: کنہیا لال کپور

Mentality & Character of an Indian. Humrous Essay by: Kanhaiya Lal Kapoor.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں