غیر امریکی - افسانہ از دیوندر اسر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-04-10

غیر امریکی - افسانہ از دیوندر اسر

ghair-americi-story-by-devendar-issar
اردو دنیا کے معروف، مقبول اور قدیم ترین ادبی رسالہ "ادبِ لطیف" کی جلد:29 کا اولین شمارہ بحیثیت 'افسانہ نمبر' شائع ہوا تھا۔ سن 1949 کا یہ یادگار افسانہ نمبر پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔ اسی افسانہ نمبر سے
دیوندر اسر (پ: 14/اگست 1928 - م: 6/نومبر 2012) غیر معمولی شخصیت کے حامل ادیب، نقاد اور دانشور تھے۔ مختلف علوم و فنون اور سیاسی و سماجی مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ فلسفیانہ ذہنیت اور مزاج میں ترقی پسندی شامل تھی۔ ادبِ لطیف کے اسی افسانہ نمبر سے اخذ شدہ ان کا افسانہ "غیر امریکی" ملاحظہ فرمائیں۔

چوپاٹی کی نم آلود ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر ننگے پاؤں ٹہلتے ٹہلتے پاؤں میں ایک عجیب کیف آگیں ٹھنڈک سی محسوس ہونے لگی۔ دن بھر پیدل گھومتے رہنے کے باعث گھٹنوں میں جو تھکن پیدا ہوگئی تھی اب آہستہ آہستہ دور ہورہی تھی ۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتانتھو چاٹ والے کی دکان کی طرف بڑھا۔ اس کی دکان کے سامنے تختے کے نیچے میں نے اپنے فلیکس کے پرانے جوتے چھپا رکھے تھے ۔ میں چاہتا تھا کہ جلدی جلدی جوتے پہن لوں تاکہ یہ راحت رساں ٹھنڈک بمبئی کی تپتی ہوئی سڑکوں پر دوبارہ گھومنے سے بھاگ نہ جائے۔ چاٹ والے نے مجھے اپنی طرف یوں تیزی سے بڑھتے دیکھ کر ایک دم میرے ہاتھ میں دو نہ نما پتہ تھمادیا۔ اس کے بعد زبان کے چٹخارے کے لئے میں نے دہی بڑے بھی کھا ئے، دو پیسے کا پانی پی کر اور آٹھ آنے کی چپت کھاکر میں جوتے پہن کر آگے بڑھ گیا۔ راستے میں ایک غبارے والے سے پتہ چلا کہ آج رات کو بمبئی کے میئر انگلستان اور امریکہ کا دورہ کرکے واپس آنے والے ہیں۔ چھوٹے بڑے مقامی لیڈر ان کا استقبال کرنے کے لئے سانتا کروز کے ہوائی اڈے پر گئے ہیں، جبھی چوپاٹی کچھ ویران ویران سی دکھائی دیتی تھی ۔ اور سمندر کی لہروں کا شور کچھ زیادہ سنائی دیتا تھا میں بھی لوکل ٹرین پر بیٹھ کر سانتا کروز پہنچ گیا ۔ تاکہ اس امریکی آلے کو دیکھ سکوں، جس سے بمبئی کو غلاظت ، گندگی اور تعفن سے پاک کیاجائے گا۔ بمبئی کے میئر کی روانگی کے دوسرے دن ہی بمبئی کے مہتروں نے ہڑتال کررکھی تھی اور سارا شہر گندگی کے اونچے اونچے ڈھیروں سے بھر گیا تھا
سانتا کروز کے ہوائی اڈے پر چمکدار کاروں ،بے ڈول جیپوں اور لاریوں کا ہجوم تھا، انگریزی اور دیسی لباس ایک دوسرے میں خلط ملط ہوکر ادھر ادھر حرکت کررہے تھے ۔ بادل گرج رہے تھے اور ہر لمحہ گہرے اور کالے ہوتے جارہے تھے ۔ بارش کے آثار نظر آرہے تھے چند پادری زیر لب جہاز کی سلامتی کے ل ئے ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگ رہے تھے ۔ ایک کھدر پوش اپنی مونچھوں کو اوپر نیچے دائیں بائیں شمال جنوب، مشرق مغرب غرضیکہ ہر ممکن طریقے سے گھمارہے تھے ۔ اور اس طرح اپنی بے تابی کا اظہار کررہے تھے ۔ کیونکہ ہوائی جہاز کے آنے میں میں ابھی کچھ دیر تھی ۔ کھڑے کھڑے میرے گھٹنوں میں پھر تھکاوٹ ہونے لگی اور پاؤں پھر اسی طرح جل نے لگے ۔ دماغ بھی پریشان ہورہا تھا کیونکہ یہاں سمندر کا نظارہ بھی نہ تھا۔ چند مضحکہ خیز شکلیں آگے پیچھے دوڑ رہی تھیں، رات کے ڈیڑھ بجے ، ٹی ڈبلیو ، اے کا طیارہ زمین پر اترا اور سب کے چہروں پر خوشی اور شکر کے جذبات نمایاں ہونے لگے۔ کاروں اور جیپوں والوں کا سیلاب امڈ کر آگے بڑھ گیا۔ تاکہ امریکی سوغات کو سب سے پہلے وصول کرسکیں۔ میئر صاحب کا گلا پھولوں اور موتیوں کے ہاروں سے بھر گیا۔ پادریوں نے یسوع مسیح کا ہزار ہزار شکریہ ادا کیا۔ مگر میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا اور تماشا دیکھتا رہا ۔ پریس رپورٹروں کے قلم اور کیمرے چل رہے تھے ۔ اور امریکہ کی تعریف میں قصیدے لکھے جارہے تھے ۔ لیکن میں دور ہی کھڑا رہا۔ اور آخر اس بے کار کی ہماہمی سے اکتا کر واپس چلا آیا۔ کیونکہ وہ امریکہ سے کوئی آلہ نہیں لائے تھے بلکہ زبان کا جادو اور مسحور کن الفاظ کے تانے بانے کا فن سیکھ کر آئے تھے ۔ امریکی طرز زندگی ان کے چہرے پر اپنا پورا جلال دکھارہی تھی۔گھر پہنچ کر محسوس ہوا کہ تھکان صرف گھٹنوں تک ہی محدود نہ تھی، بلکہ جسم کے عضو عضو میں سرایت کرچکی تھی اور میں بستر پر دراز ہوتے ہی سو گیا۔ اور خواب میں ہالی ووڈ کی رنگین رومان پرور دنیا اور کیلے فورنیا کی سونے کی کانوں میں گھومتا رہا۔ صبح دس بجے کے قریب آنکھ کھلی ، آنکھ کھلتے ہی شانتا نے ایک چھوٹا سا کاغذ کا پرزہ ہاتھ میں دے دیا جلدی جلدی اسے کھولا۔ یہ پرزہ میرے امریکی دوست فلپ نے بھیجا تھا، چند الفاظ بڑی جلدی گھسیٹے ہوئے تھے۔۔۔"میں آج شام کو امریکہ واپس جارہا ہوں ، میر اوطن مجھے پکار رہا ہے ۔"نیچے فلپ کے جانے پہچانے دستخط تھے۔ نیند سے آنکھ کیا ک ھلی یہ چند بے ہنگم سے الفاظ پڑھ کر کھلی کی کھلی رہ گئی ۔ فلپ اتنا عجلت پسند انسان نہیں ہے ۔ وہ بڑے تحمل اور غوروفکر کے بعد قدم اٹھاتا ہے ۔ کل دن کو وہ مجھے فیمس سائن لیباریٹری کے سامنے ملا تھا ۔ وہ بالکل ہشاش بشاش تھا۔ اس نے مجھے کہا۔ اب وہ کوشش کررہا ہے کہ چند سوویٹ فلموں کی ڈسٹری بیوشن کا کام شروع کردے ۔ اور پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ لیکن تمہاری آزاد حکومت انہیں چلنے بھی دیگی؟ شرارت آمیز مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی ۔ وہ مجھے فیمس بلڈنگ کے ریستوران میں لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے کام پر چلا گیا اور میں چوپاٹی کی طرف پیدل چل پڑا ۔ فلپ کا یکایک یہ فیصلہ کرلینا تعجب خیز امر تھا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ بمبئی کے میئر نے اسے امریکہ کے بارے میں کوئی خفیہ معلومات بہم پہنچائی ہو ۔ جن کی بنا پر وہ ہندوستان چھوڑ کر واپس وطن جارہا ہے ۔ شاید تیسری جنگ چھڑ گئی ہو ۔ اور وہ پھر فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہو ۔ لیکن یہ بھی ممکن نہ تھا ۔ کیونکہ وہ جنگ کا نام سنتے ہی ناک سکیڑ لیتا تھا ۔ جیسے کوئی زہر سانس کے ساتھ جسم میں داخل ہورہا ہو۔ وہ اکثر میرے کٹے ہوئے بازو کو پیار سے سہلاتے ہوئے کہا کرتا ہے"ڈیر چوکس رہنا۔۔ تمہارے بچے کی ایسی حالت نہ ہونے پائے۔"مگر پھر بھی وہ امریکی ہے، وطن کا پیار کسے نہیں ہونا چاہئے اس کا وطن جنگ کی طرف ہی کیوں نہ بڑھ رہا ہو ، ان امریکیوں کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ان کے ضمیر کی ڈوری تو ڈالر سے بندھی ہوئی ہے ۔ بڑھ بڑھ کر امن اور جمہوریت کی ڈینگیں ماریں گے اور جب ڈالر ذرا خطرے میں نظر آئے گا تو بندوق اٹھائے امن اور جمہوریت کو اپنے آہنی پاؤں تلے روندتے چلے جائیں گے ۔
میں نے شانتا سے پوچھا کہ فلپ نے اور کچھ نہیں بتایا۔ اس نے جواب دیا کہ وہ بہت جلدی میں تھا، یہ رقعہ بھی ڈرائیور لے کر آیا تھا ۔
"کیا تم نے کل ریڈیو سنا تھا کوئی ایسی خبر تو نہ تھی۔ جس سے یہ شبہ ہو کہ جنگ جلد ہونے والی ہے۔" میں نے اپنے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔"جنگ۔۔۔ جنگ۔۔۔" اس نے جھنجھلاکر کہا" جب فوجی امداد کے معاہدے کرو گے اور اپنے قرضے کو بچانے کے لئے اسلحہ اور گولہ بارود بیچو گے تو جنگ نہیں تو کیا امن ہوگا۔" شانتا پہلے ہی سے جلی بھنی بیٹھی تھی۔۔ ایسی خبریں تو دن میں بیسیوں بار سننے میں آتی ہے ، کہ اب جنگ ہوگئی کہ ہوئی، اس نے میرے کٹے ہوئے بازو کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے تھے میں نے بازو کو چادر سے ڈھانک لیامعلوم نہیں۔۔۔ ان سیاستدانوں کی کھوپڑی کو کیا ہوگیا ہ۔ وہ ننھے کو گود میں اٹھائے ہوئے اور جنگ جنگ چلانے والوں کومرہٹی میں گالیاں دیتی ہوئی بالکونی میں جا کھڑی ہوئی، وہ ننھے کو سڑکوں پر دوڑتی ہوئی ٹراموں، لیمپوں اور کاروں کا تماشہ دکھانے لگی۔ ننھا اس کی گود میں کلکاریاں کرتا ہوا ہمک ہمک کر ہوا میں پرواز کرنے کی بے سود کوشش کررہا تھا ۔ میں ننھے کو خوشی سے اچھلتا دیکھ کر اپنے کٹے ہوئے بازو پر آستین چڑھاتے ہوئے باتھ میں چلا گیا۔
شانتا کے جواب سے نا امید ہوگیا تھا ۔ اس لئے جلد جلد منہ ہاتھ دھوکر کپڑے پہن کر نیچے اتر آیا۔ زیادہ دیر تک بس یا ٹرام کا انتظار نہ کرسکا۔اور ٹیکسی پر سوار ہوکر فلپ سے ملنے روانہ ہوگیا۔
فلپ کے روانہ ہونے میں چند گھنٹے ابھی باقی تھے ۔ پھر وہ امریکہ چلا جائے گا، میرے دماغ میں عجیب کھلبلی سی مچ گئی تھی ۔ لیکن مجھے بلانے کی یہ چال ہی نہ ہو۔۔ شاید اس کے لڑکے کو قید کی سزا ہوگئی ہوگی کیونکہUN.AMERICAN COMMITTEEکی جانب سے اس پر غیر امریکی ہونے کا مقدمہ چلایاجارہا تھا۔ فلپ کا لڑکا ہالی ووڈ کا مشہور فنکار ہے۔ اس نے کئی فلموں میں ہیرو کا پارٹ ادا کیا ہے ۔ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے۔ دان بڑا خوبرو اور بانکا جوان ہے۔ اس کے چہرے سے ذہانت ٹپکتی ہے۔ فلموں میں جب اس کا کلوزاپ آتا ہے تو تماشبین ایک لمحہ کے لئے سانس روک لیتے ہیں۔ جذبات کی عکاسی میں تو اسے خاص مہارت حاصل ہے ۔ معلوم نہیں اس کے چہرے میں کیا جاذبیت اور دلکشی تھی کہ اس کی فلمیں بہت جلد مقبول ہوگئی تھیں۔ فلپ نے مجھے دان کی ایک تصویر دکھائی تھی، جس میں وہ ہالی ووڈ کے دوسرے اداکاروں کے ساتھ جہاز سے اتر رہا تھا۔ اور عدالت میں جارہا تھا ۔ جہا ں ان سب پر غیر امریکی ہونے کا مقدمہ چلایاجانے والا تھا۔ سب مسکرارہے تھے جیسے آزادی اور جمہوریت کا منہ چڑارہے ہوں۔ دان اپنے دونوں بازو اپنے دوستوں کے کندھے پر پھیلائے قہقہہ لگا رہا تھا ۔ اس وقت وہ کتنا حسین اور باوقار معلوم ہوتا تھا۔ فلپ نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ میں پچھلی جنگ میں اپنے ملک کی طرف سے بغیر کسی مقصد کے لیے لڑا تھا۔ لیکن دان میرا لڑکا آج ایک عظیم مقصد کے لئے دنیا کے تمام امن پسندوں کی طرف سے لڑ رہا ہے ۔ وہ بہت ہونہار ہے ، دان بڑا پیارا ہے ، جب فلپ کو اپ نے لڑکے کے قول و فعل پر اتنا گہرا اعتماد اور فخر ہے تو یقینا اس کی قید پر اسے رنج نہیں ہوگا ۔ پھر معلوم نہیں وہ امریکہ کیوں جارہا ہے ۔ شاید پدارنہ شفقت بیدار ہوکر اسے اصولوں پر غالب آگئی ہو۔ ان امریکیوں کا کچھ پتہ نہیں۔ موقع آنے پر سب اصول اور آدرش ان کے لاشعور میں جا گھستے ہیں۔ آخر فلپ کو بھی دان کا باپ ہونے کی حیثیت سے امریکی حکومت سے خطرہ ہے ۔ ممکن ہے وہ اپنے بیٹے کی طرف سے معافی نامہ داخل کرانا چاہتا ہے یا اس سے اپنا قانونی قطع تعلق کرکے اپنے آپ کو حکومت کے عتاب سے بچانا چاہتا ہو۔میرا ذہن پھر الجھ ہوگیا۔
میں فلپ کو اس لئے نہیں جانتا کہ ہم ہندوستانی احسا س کمتری کے باعث سفید قوم کے فرو سے دوستی رکھنا فخرمحسوس کرتے ہیں اور نہ ہی اس لئے کہ وہ ڈالرکے دیش کا باشندہہے اور میں بھی بعض سیاسی مدبرین کی مانند اس سے ڈالر کی مدد چاہتا تھا، فلپ سے میری دوستی اس لئے بھی نہیں تھی کہ وہ مجھے اپنے ساتھ مفت فلمیں دکھایاکرتا تھا یا کسی بال رو م میں ساتھ لے جاتا تھا ، بلکہ اس لئے کہ پچھلی جنگ میں وہ میری جان بچانے کا باعث بنا تھا۔ ہماری ملاقات عجیب ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی ۔ اٹلی میں اہم امریکی سپاہیوں کے دوش بدوش ایک ہی مورچے پر لڑ رہے تھے ۔ ایک جگہ خندق پار کرتے ہوئے میرے بازو میں گولی لگ گئی تھی۔ میں چکرا کر زمین پر گر پڑا تھا۔ میں تھوڑی دیر تک کراہتا رہا۔ پیاس کی شدت سے حلق خشک ہورہا تھا ، لیکن ار د گرد اتحادیوں کا کوئی سپاہی نہ تھا۔ جو مدد کو پہنچ سکتا ۔ میں نے زمین کریدنی شروع کردی، تاکہ پانی مل سکے ۔ مگر تھوڑی دیر ہی میں تھک ہار کر اوندھے منہ لیٹ گیا۔ حلق میں سوئیاں چبھ رہی تھیں ، اور بازو میں درد ہورہا تھا ۔ اتنے میں فلپ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر بھٹکتا ہوا وہاں پہنچ گیا۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا ، اس کے بال بری طرح الجھے ہوئے تھے ۔ اور پاؤں میں لغزش تھی۔ غالباً وہ بہت دیر سے اسی طرح بھٹک رہا تھا۔ مجھے کراہتا ہوا دیکھ کر وہ میرے نزدیک آگیا۔ اس نے اپنی پانی کی بچی ہوئی بوتل میرے منہ میں انڈیل دی اور اپنے فوری امداد کے سامان سے میرے بازو پر پٹی باندھ دی ۔ لیکن درد کی شدت کم نہ ہوئی۔ خون بہنا بند ہوگیا تھا، گولی بازو میں دھنس گئی تھی۔ اور وہ فلپ سے نہ نکل سکی ۔ تھوڑی دور ہی ایک مکان سے کسی بچے کے چلانے کی آواز آنے لگی۔ فلپ مجھے چھوڑ کر اس مکان میں گھس گیا، مکان سے شعلے بلند ہورہے تھے ، لیکن وہ چھپ پر چلا گیا، اور بچے کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر میرے نزدیک لے آیا، بچہ آگ میں بری طرح جھلس گیا تھا ۔ اس کی شکل تک بھی نہ پہچانی جاتی تھی۔ شاید وہ کافی حسین ہوگا۔ ہر بچہ خوبصورت ہوتا ہے ۔ بچے کا چہرہ اب انتہائی ڈراؤنا ہوگیا تھا۔ وہ درد کی شدت سے بلبلا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔
اس کے سارے جسم پر پھپھولے ابھر آئے تھے ۔ میں جنگ میں دشمن کے روبر و گولی چلا سکتا تھا۔ لیکن یہ جھلسا ہوا بچہ نہ دیکھ سکتا تھا، میں نے آہ بھرتے ہوئے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ یک لخت میرے کانوں میں ایک زور کی چیخ سنائی دی۔ میں نے مڑ کر دیکھا، فلپ کی سنگین بچے کی چھاتی میں گڑی ہوئی تھی۔ وحشی درندہ، معصوم بے گناہ بچوں تک کو بھی قتل کرنے سے نہ چوکا ۔ میرے دل میں نفرت کا دریا امڈ آیا۔ اسکا دیا ہوا پانی زہر بن کر میری رگوں میں دوڑنے لگا ۔ جی میں آئی کہ پاس پڑا ہوا پتھر اس کے منہ پر دے ماروں ۔ لیکن میں بے بس تھا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد فلپ نے اپنی سنگین اس کی چھاتی سے نکال کر اور اسی سے زمین کھودنے لگا ۔ رذیل اب اسے دفن کرنا چاہتا تھا۔ بچہ دم توڑ چکا تھا ۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔۔۔ تم جمہوریت کے پاسبان ہو۔ کمینے۔۔۔۔ وہ کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس نے بچے کو آہستہ سے اٹھایا اور اس کی جھلسی ہوئی پیشانی کو چوم لیا بچے کی لاش کو قبر میں نہایت نرمی سے رکھ کر قبر کو ریت سے ڈھانپ دیا اور چند قدموں پر پڑے ہوئے روندے ہوئے جنگلی پھول اس کی قبر پر رکھ دئیے ۔ جب وہ بچے کو ہمیشہ کے لئے قبر میں سلارہا تھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر بچے کے جلے ہوئے چہرے پر گر رہے تھے ۔ شاید اسے اپنابچہ یاد آگیا تھا۔ یااس بچے کی موت میں وہ اپنے بچے کی موت دیکھ رہا تھا۔ آخر وہ بھی انسان تھا، وہ میرے قریب آکر بیٹھ گیا۔ اور اپنا سر دونوں بازوؤں پر رکھ کر کسی گہری سوچ میں کھو گیا۔
"تم دشمن کے جلتے ہوئے بچے کو بھی زندہ نہیں دیکھ سکے۔ میں نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا، میں بھول گیا تھا کہ ابھی ابھی اس نے میرے بازو پر بڑی محبت سے پٹی باندھی تھی۔ اس کے باوجود کہ میں ایک ایشیائی تھا۔
"ہاں۔ میں اسے زندہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ قدرے توقف کے بعد بولا۔۔۔ وہ بچ نہیں سکتا تھا۔۔۔ میں اسے درد سے بلبلاتا ہوا اور تڑپ کر مرتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔ وحشی بچوں پر بھی ہاتھ اٹھانے سے باز نہ رہ سکے ۔" فلپ نے جذباتی لہجے میں اپنے امریکی سپاہیوں کو درندے کا خطاب دیتے ہوئے کہا۔
"تم اپنے ساتھیوں کو بدنام کررہے ہو۔ یہ فوجی جرم ہے ۔" مجھے بڑا تعجب ہوا، اسی وقت وہ مجھے کچھ غیرا مریکی سا دکھائی دینے لگا تھا ۔ "آخر فاششتوں اور ہم میں کیا فرق ہے ۔ اس نے زبان سے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔ غالباً اس طرح سے اسے فاشستوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنا مقصود تھا ۔ گولیاں تڑ اتڑچل رہی تھیں۔بم کے دھماکوں سے زمین آسمان گونج رہے تھے۔ فضا میں زخمیوں کی آہ و فغاں دور دور تک سنائی دے رہی تھی۔ زمین خون سے سرخ ہورہی تھی۔ بمبار طیاروں کی گرج سے کان بہرے ہورہے تھے ۔ چاروں طرف دھواں اور آگ پھیل رہی تھی ۔ ہوا میں عجیب سڑاند سی گھل گئی تھی ۔ اس شور سے گھبرا کرزخموں سے نڈھال فلپ بے ہوش ہوگیا۔ وہ بہت تھکا ہوا اور زخمی تھا۔ میں بھی کسی نہ کسی طرح اسپتال پہنچ گیا تھا۔ اس کے بعد مجھے فلپ کی کوئی خبر نہ ملی ۔ جب میں ہسپتال سے رخصت ہوا تو میرا ایک بازو نہیں تھا، جنگ کے ختم ہونے کے بعد میں واپس اپنے وطن آگیا۔ اور بے کاری کے دن گزارنے لگا۔ تھوڑی سی سرکاری پنشن کا ہی آسرا رہ گیا تھا ۔ فلپ مر گیا یا وطن چلا گیا مجھے کچھ پتہ نہ مل سکا۔
ایک روز"موسیو ورود" دیکھ رہا تھا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر کوئی شخص بار بار بے تحاشا تالیاں پیٹ رہا تھا۔ انڈوں میں جب ہال کی بتیاں روشن ہوئی تو دیکھا وہ کوئی لمبا تڑنگا مگر معمر سا امریکی تھا۔ اور گرد اوربھی بہت سے امریکی سپاہی اور امریکی فرموں کے ایجنٹ فلم دیکھ رہے تھے۔ ان میں بہت سے سر ندامت سے جھکے ہوئے تھے ، شاید وہ اپنے ناکردہ گناہوں پرپشیمان تھے ۔ لیکن جن میں ان کا حصہ ضرور تھا۔ کیونکہ وہ اپنے آپ کو خاموش تماشائی سمجھتے ہیں ہمارے پیچھے والی قطار میں ایک امریکی جوڑا بیٹھا ہوا تھا آپس میں سر گوشیاں کررہا تھا۔ اس میں تو اکسائنٹ منٹ بالکل نہیں ۔۔۔"نوجوان امریکی عورت نے منہ بناتے ہوئے کہا۔"آدھی فلم گزر گئی اور ایک بوسہ تک بھی نہیں۔۔۔" عورت نے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی درست کرتے ہوئے کہا۔ امریکی جوڑا اس فلم سے بہت دل برداشتہ نظر آتا تھا۔
ایسی فلموں کو توفوراً بین(Ban) کردینا چاہئے ۔ "عورت نے دستی آئینے میں اپنے چہرے کا بغور معائنہ کرتے ہوئے کہا۔ شاید وہ اپنے دل میں کسی ایکٹریس سے بیوٹی پریڈ میں مقابلہ کررہی تھی۔
"امریکہ میں تو ہوگئی ہے ۔"مرد نے عورت کی خفگی دور کرتے ہوئے کہا۔ لیکن ہندوستان میں۔۔۔میں کل ہی امریکی سفارت خانے کو خط لکھونگا ڈارلنگ۔۔۔آہ ایک پیک وہسکی پی لیں شاید کچھ۔۔۔‘ اور وہ دونوں ہال سے باہر نکل گئے ۔ میں چاہتا ہوں کہ انہیں یہ خوشخبری سنادوں کی چارلی چپلن پر غیر امریکی ہونے کا مقدمہ چلایاجارہا ہے ۔ شاید ان کے لئے کچھ اکسائنٹ منٹ پیداہوجائے ۔ اور وہ انٹرول کے بعد ایک کے بجائے تین چاربوسے لے سکیں ، لیکن وہ باہر جاچکے تھے ۔
میرے ساتھ والا امریکی ان کی گفتگو پر مسکرا رہا تھا ۔ اس مسکراہٹ میں قدرے حقارت اور طنز کا امتزاج تھا، شاید وہ کہہ رہا تھا ، تم ابھی نوجوان ہو ۔ تمہارا کوئی بچہ نہیں ہے ۔۔ اور تم نے جنگ دیکھی بھی کہاں ہے ۔" اس کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا ، وہ کوئی غیر امریکی سا معلوم ہوتا تھا ، شاید امریکہ میں دو امریکہ ہوتے ہوں۔ ورنہ ایک ہی ملک کے وہ باشندے ایک ہی فلم پر رنج، راحت کے متضاد جذبات کا اظہار کیسے کرسکتے ہیں۔ ویسے ہر ملک میں دو ملک ہوتے ہیں۔ میں اس گومگو کی حالت میں تھا کہ اس نے وہسکی کا گلاس مجھے پیش کیا۔ میں بھونچکا رہ گیا۔ کیا اسے مجھ سے نفرت کرتے نہیں۔ ممکن ہے وہ امریکی نہ ہو۔ ورنہ یہ کیسے مجھے وہسکی پیش کرسکتا ہے ۔ امریکہ میں تو حبشیوں کو سفید بستیوں میں داخل تک ہونے نہیں دیاجاتا ۔ میں حیرت اور استعجاب سے اسکے چہرے کی طرف دیکھنے لگا ۔ اس نے میری ذہنی الجھن کا اندازہ لگالیا تھا۔ مجھے پال رابس کے نغمے بہت پسند ہیں۔" اس نے اپنی بھوری بھوری مونچھوں میں مسکراتے ہوئے کہا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے آپ کو جم کر دکا دشمن ہی نہیں، بلکہ غیر امریکی بھی ثابت کردیااور پھر شبہ دور ہوگیا۔
"یہ حادثہ کیسے پیش آیا۔" اس نے میرے کٹے ہوئے بازو کو دیکھ کر پوچھا۔"پچھلی جنگمیں اٹلی کے محاذ پر گولی لگ گئی تھی۔اور ایک امریکی سپاہی فلپ۔۔۔۔"
میں فقرہ بھی پورا کرنے نہ پایا تھا کہ یک لخت وہ سیٹ سے اچھل پڑا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ وہ فلپ ہی تھا۔ فلپ سے مل کر مجھے بے انتہا خووشی ہوئی اور وہ تمام مناظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گئے جنہوں نے مجھے اور فلپ کو ایک مشترکہ انسانی رشتے میں منسلک کردیا تھا۔ فلپ سے ملاقاتوں کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ امریکہ میں امریکیوں سے زیادہ غیر امریکی بستے ہیں ۔ اور یہ جو ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں امریکی نظر آتے ہیں، دراصل ہاتھ میں ڈالر کی تھیلی لئے ہوئے، منہ میں مارچل امداد کے تقدس کا ورد کرتے ہوئے اور بغل میں ایٹم بم دبائے ہوئے ہیں۔ میں اور فلپ اس رواز رات کے تیسرے پہر تک بمبئی کی سڑکوں پر ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھومتے رہے ۔ اور مذاق کرتے رہے ۔ ہم نے ایک ہوٹل میں اکٹھے کھاناکھایا۔ اس نے ہوٹل کا بل ادا کرنا چاہا میں نے کہا۔ "مارشل امداد دے رہا ہے۔" اور وہ جھنپ گیا ۔ میں نے پیسے دئیے اور ہم باہر نکل آئے۔ ہوٹل کا امریکی آرکسٹرا بدستور فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرتا ہوا پراسرار روشنی کے ساتھ چھن چھن کر سڑکوں پر پھیل رہا تھا ۔ ہم اس وقت ننگی ننگی ٹانگوں کے تھرکنے اور جواں جسموں کے بل کھانے اور شراب کی بو میں لپٹے ہوئے طویل بوسوں کی لذت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے باتیں کرنا چاہتے تھے ۔ جو مدتوں سے ہمارے دلوں میں دبی دبی چنگاریوں کی مانند روشن تھیں۔ لیکن کسی غمگسار کے نہ ملنے کے باعث ان پر راکھ کی تہیں جم رہی تھیں۔ ہم نے ہر موضوع پر بات چیت کی ۔ امریکہ، روس، چین، ہندوستان، جنوب مشرقی ایشیا، کمیونزم، فاشزم، بے کاری ہالی ووڈ کی فلمیں۔ امن کانگریس اور تیسری جنگ معلوم نہیں کن کن موضوعات پر ہم نے تبادلہ خیال کیا ، لیکن ہر بات جنگ اور امن پر آکر رک جاتی تھی۔
اس واقعے کے بعد میری اور فلپ کی شامیں اکثر اکٹھی گزرا کرتی تھیں۔ اور میں اسی روز چوپاٹی کی سیر کرنے جاتا تھا۔ جب فلپ کسی ضروری کام کی وجہ سے میرے ساتھ شام نہ گزار سکتا تھا۔
ٹیکسی وائی۔ ایم۔ سی ۔اے بلڈنگ کے سامنے آکر رک گئی ۔ میں لپک کر دوسری منزل میں چلا گیا۔ فلپ انڈرویر پہنے سامان وغیرہ باندھنے میں مشغول تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے عجیب شکل بنائی۔ جیسے کہہ رہا ہو ۔"دوست ہم تو نو دو گیارہ ہوئے۔ اب تم جانو اور تمہارا ملک۔۔۔"میں نے پہنچتے ہی مذاق کیا۔"ارے یار تم جارہے ہو، جب کہ ہمارے مدبرین تو تمہیں اپنے ملک میں بلانے کے لئے سو سو جتن کررہے ہیں۔"اس نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔"لیکن ابامریکن آئیں گے ، میں تو غیر امریکی ہوں۔" اس پر اس نے زور کا قہقہہ لگایا اور مجھے ساتھ گھسیٹ کر سامان بندھوانے لگا۔
"تم سب کام کررہے ہو۔ دوستوں کو خبر کردی ہوتی۔" میں نے اس کی عجلت پر شکایت کرتے ہوئے کہا۔
"تو پھر میں امریکہ کی بجائے تمہاری حکومت کا مہمانہ وجانا اور پھر امریکہ جاکر۔۔۔۔ وہ مجھ سے کچھ چھپانا چاہتا تھا۔ وہ جب بھی باتیں کرتا تھا تو بڑا محتاط رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ اشاروں میں باتیں کرنے کا عادی تھا۔"آخر تم اتنی جلدی کیوں کررہے ہو؟۔۔۔ کیا سیٹ بک ہوگئی ہے ۔‘میں نے اپنی حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
اس نے میز کی طرف اشارہ کیا، میز پر اس کا ٹکٹ پڑا ہوا تھا اور اس کے نیچے ایک سادہ لفافے میں فلپ کے کسی عزیز کا خط تھا اس نے لکھا تھا کہ تمہاری بیوی کا دماغ چل گیا ہے، وہ رات کو سوتے سوتے چلا اٹھتی ہے ۔ فلپ فلپ۔ ڈارلنگ، جنگ پر نہ جاؤ۔ ایٹم بم ایٹم بم۔ میری لوریٹا کوبچالو۔ سب ڈالر لے لو۔ مگر لوریٹا کو بچالو۔ بعد از تحریر کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ آج دان کے مقدمہ کا فیصلہ ہوگیا ہے ، اور اسے ایک سال کی سزا ہوگئی ہے ۔ اس کے دوسرے چار ساتھیوں کو کمپنیوں سے نکال دیا گیا ہے ۔ میری جس نے تمہارے لڑکے کے ساتھ ہیروئن کا پارٹ بھی ادا کیا ہے ۔ اس بنا پرمجرم قرار دے دی گئی ہے کہ اس نے چرچل کی امریکہ میں اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے جنگ بھڑکانے کی کوششوں سے تنگ آکر چر چل واپس جاؤ۔" اور ہم امن چاہتے ہیں ، کے نعرے لگائے تھے ، ہاں اس نے نیویارک امن کانفرنس کے ٹکٹ بھی بیچے تھے ۔ ظاہر ہے اس خط میں بہت سے فقروں پر سیاہی پھری ہوئی تھی۔ لیکن فلپ کی مدد سے میں پورا خط پڑھنے میں کامیاب ہوگیا ۔ میری سمجھ پھر بھی کچھ نہ آیا کہ فلپ امریکہ کیوں واپس جارہا ہے ۔ خاندان کی محبت اسے واپس بلارہی ہے یا۔۔۔]‘
"’لیکن میں محاذ پر ضرور جاؤں گا۔۔۔ فلپ کی روانگی کا مسئلہ پھر الجھ گیا۔
"مگر تم تو جنگ سے نفرت کرتے ہو۔" فلپ کی فلسفیانہ سنجیدگی کو نہ سمجھتے ہوئے میں نے کہا۔
"ہاں۔۔ لیکن اس جنگ سے نہیں جو میں اب لڑوں گا۔‘ ‘ یہ کہتے ہوئے وہ لمبا تڑنگا امریکی نظر آرہا تھا۔
"کیا تم تاج محل ، ایلورا اور اجٹنا کے غاروں کو دیکھنے کی حسرت لئے ہی امریکہ چلے جاؤ گے ۔ شاید تم اس جنگ میں زندہ نہ۔۔۔۔"
میں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ میرا خیال تھا کہ جب وہ تیسری جنگ لڑنے جارہا ہے تو شاید واپس نہ آسکے گا ۔ اس کی روانگی کا راز ابھی سربستہ تھا۔
"میں پھر آؤں گا۔۔۔ آزاد طور پر اس رشتے میں منسلک ہوکر جو ہم دونوں کے درمیان ہے ۔۔۔ اگر میں اب نہ گیا تو تاج ، ایلورا اور اجٹنا کے حسین نقش و نگار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے ۔۔اور امریکہ کا مجسمہ آزادی۔۔۔" اس نے اپنے ماتھے سے پسینے کی بوندیں پونچھتے ہوئے کہا۔
"بڑی عجیب بات ہے کہ تمہاری بیوی جنگی ہسٹریا کا شکار ہوگئی ۔ "میں نے تمہاری پرخاص طور پر زور دیا۔
لیکن وہ پروفیسر کی بیٹی بھی ہے ۔ اس کا باپ اس تھیوری پر ریسرچ کررہا ہے کہ انسانی بقا کے لئے جنگ لازمی ہے ۔
جب اس نے اس تھیوری کو ثابت کردیا اور اخباروں میں اس کی تعریف میں اوراقی نوٹ لکھے گئے تو اس روزا س کا لڑکا ایٹم بم،ایٹم بم چلاتا ہوا ساتویں منزل سے کود کر خود کشی کرگیا تھا، میں نے فلپ کی زبان کے طنز کو محسوس کیا۔ جو تمام مارشل کلچر پر ایک عظیم طنز تھا وہ سب سامان پیک کرچکا تھا اور اب تو لیے سے ہاتھ وغیرہ صاف کررہا تھا۔
دوست تم اپنی کوئی نشانی تو دیتے جاؤ شاید تم پہلے امریکی۔۔۔"
امریکہ کی توہین نہ کرو ڈیئر، وہاں ٹرومین اور مارشل کی نسل ہی نہیں بستی۔ فلپ دوامریکیوں کی تھیوری کا پوری طرح قائل تھا اس کے بعد ہم نے چائے پی اور نیچے اترنے لگے ۔ سیڑھیوں پر ایک مسلا ہوا پھول پڑا تھا۔ فلپ نے پھول کو اٹھایا اور اسے اپنی انگلیوں سے جھاڑ کر اپ نے بٹن پھول میں ٹانک لیا۔
شاید یہ کھلی ہوا میں پھر کھل جائے۔ فلپ نے پھول کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ٹیکسی پر سوار ہوکر صبح سانتا کروز کی طرف چلے۔
آج کل بیکاری کے دنوں میں تم لوگوں کو خود کشی کرنے میں بڑی دقت ہوگی۔فلپ نے بمبئی کی بلند و بالا عمارتوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ امریکہ میں ہماری عمارتیں اس سے کئی کئی گنا زیادہ بلند ہیں۔
بمبئی کے نزدیک سمندر بھی ہے ۔میں نے بمبئی کی برتری ثابت کرتے ہوئے کہا۔ تمہیں ہندوستانیوں سے نفرت کیوں ہے؟ میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
مجھے تم سے پیار ہے۔ ڈیر کیونکہ تم غیر ہندوستان۔۔۔۔
"خاموشی۔" میں نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ کوئی سن لے گا تو تحفظ امن عامہ میں دھرلیاجائے گا۔ اور ہم دونوں نے ایک بلند قہقہہ لگایا اور کار کی رفتار کردی۔
سانتا کروز کے ہوائی اڈے پر آج زیادہ چہل پہل نہ تھی۔ نہ کوئی سیاح آنے والا تھا، اور نہ کوئی وفد جانے والا تھا۔ ہم بڑی دیر تک ادھر ادھر ٹہلتے رہے اور خوش گپیاں کررہے تھے ، لیکن میرا دل اداس تھا۔ میرا من کہہ رہا تھا کہ فلپ جلد ہی غیر امریکی قرار دے دیاجائے گا اور وہ ہزاروں غیر امریکیوں کے ساتھ کسی قید خانے میں بند کردیاجائے گا۔
جب وہ جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا تو مجھ سے بغلگیر ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں پارے کی حرکت اور چمک تھی۔ اس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں۔ لیکن اس کے ہونٹ نوخیز کلی کی مانند مسکرارہے تھے ۔اس کے دل کا کنول کھل رہا تھا ، اس نے مجھے ایک نیلے رنگ کا خوبصورت لفافہ دیتے ہوئے کہا۔
"دوست میں تمہیں یہی تحفہ دے سکتا ہوں۔ جو ہیروں اور جواہرات میں نہیں مل سکتا۔ بلکہ انسان کے جذبات اس کی پرکھ کرسکتے ہیں۔" اس نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔ وہ جہاز پر سوار ہوگیا۔ وسل ہوئی اور جہاز آہستہ آہستہ زمین سے اٹھنے لگا ۔ تھوڑی دور جاکر وہ بلند یوں میں پرواز کرنے لگا ۔ ایک لحظہ کے لئے میں جہاز کو دیکھتا رہا ۔ پھر میں نے لفافہ کھولا ، شاید اس میں اس کے جانے کا کوئی راز درج ہو جو وہ مجھ سے پہلے نہ بتانا چاہتا ہو ۔ لفافے میں ایک چمکدار کاغذ میں تین تصویریں تھیں۔ اوپر والی تصویرمیں تین بچے کھڑے تھے۔ معصوم، بھولے بھالے مسکراتے ہوئے چہرے، نیلی نیلی شفاف متجسس انکھوں والے ۔ ایک دم جی چاہا کہ ان کی پیشانیوں کو چوم لوں اور اپنی روح کو پاکیزگی معصومیت اور حسن سے بھرلوں، ان بچوں میں ایک دس سالہ لڑکی بھی تھی۔ تصویر کے نیچے فلپ کے ہاتھ سے لکھا ہوا تھا۔
"مستقبل کے ستارے۔۔۔"
تصویر کی دوسری طرف اس تصویر کے بارے میں یہ الفاظ رقم تھے۔
"ارسطو اور افلاطون کی سر زمین کے وہ تین بچے جن کے والدین کو یونانی فاشستوں نے پھانسی پر چڑھادیا اور یہ تین بچے۔۔انسانیت کے تین پھول۔۔آج ہم سے امن اور جمہوریت کے تحفظ کا عہد لی نے آئے ہیں۔"
دوسری تصویر فلپ کی ننھی بچی لوریٹا کی تھی، اس کے کٹے ہوئے بال اس کی پیشانی پر پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹ بند تھے ، لیکن کوئی تیکھا سوال پوچھ رہے تھے ۔ اس کی آنکھیں بھی بند تھیں۔ شاید وہ بچپن کے سہانے اور دلکش خواب دیکھ رہی تھی ۔ ایسی خاموش اور پرسکون چہرہ میں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ لورٹیا کسی نئی ریاضت میں مگن تھی۔ تصویر کے الٹی طرف تحریر تھا۔
"لوریٹا نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ کیا میں اٹلی کے اس جھلسے ہوئے بچے کی مانند اس کی خوشیوں بھری چھاتی میں سنگین گھونپوں گا ، اور اس کی بربھی اپنی ہی سنگین سے اپنے ہاتھوں کھودوں گا ۔ کیا امن اور خوشی پیار اور محبت کے لمحے پھر سے نایاب ہوجائیں گے ۔"
اور تیسری تصویر چین کے ایک چودہ برس کے لڑکے کی تھی۔ وہ چین کی آزاد عوامی فوج کے سپاہیوں کی وردی میں ملبوس تھا۔ چیانگ نے اسے جنگی مجرم قرار دے کر قید کرلیا تھا۔ لیکن اس کا چہرہ ہوا میں رقص کرتے ہوئے گلاب کے پھول کی مانند خوشی سے سرشار تھا۔ تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا۔
"امن اور جمہوریت کا ننھا پاسبان"

ماخوذ از رسالہ: ادبِ لطیف۔ افسانہ نمبر 1949

Ghair Americi (A Non American). Short story by: Devendar Issar.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں