سارے جہاں کا درد - دلیپ سنگھ کے مزاحیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-19

سارے جہاں کا درد - دلیپ سنگھ کے مزاحیہ مضامین - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

sare-jahan-ka-dard-dileep-singh
مقبول طنز و مزاح نگار دلیپ سنگھ کے منتخب طنزیہ و مزاحیہ مضامین کی کتاب "سارے جہاں کا درد" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 6 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

معروف و مقبول ہندوستانی مزاح نگاروں کی فہرست میں دلیپ سنگھ [Dileep Singh] کا نام بھی شمار ہوتا ہے۔
دلیپ سنگھ کی پیدائش 1932ء میں بمقام ضلع گوجرانوالہ پاکستان میں ہوئی۔ لیکن آباء و اجداد نے ہندوستان ہی میں سکونت اختیار کرنا پسند کیا۔ دلیپ سنگھ وزارت خارجہ حکومت ہند میں اپنی خدمات انجام دیتے تھے۔ ساتھ ہی ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی اپنی ادبی خدمات انجام دیتے تھے۔
دلیپ سنگھ کا انتقال 8/ اگست 1994 کو نئی دہلی میں ہوا۔
یہ بھی پڑھیے:
سارے جہاں کا درد اور ہمارا جگر - دلیپ سنگھ
معذرت نامہ - انشائیہ از دلیپ سنگھ

دلیپ سنگھ کی شائع شدہ تصانیف :
  • سارے جہاں کا درد (مضامین کا مجموعہ - 1990)
  • گوشے میں قفس کے (مضامین کا مجموعہ - 1992)
  • آوارگی کا آشنا (سفر نامہ - 1994)
  • موم کی گڑیا (ڈرامہ)
  • دل دریا (ناول)
  • جنم دن کی تلاش (مزاحیہ مضامین ہندی میں)

صاحبِ کتاب دلیپ سنگھ اپنی اس کتاب "سارے جہاں کا درد" کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
1954 میں جب میرا پہلا طنزیہ مضمون اردو کے ایک موقر رسالہ میں شائع ہوا تو میں دس دن کے بعد معاوضہ لینے کے لیے رسالہ کے دفتر میں پہنچ گیا۔ دفتر میں اس وقت چھ سات آدمی موجود تھے۔ جوں ہی میں نے معاوضہ کا ذکر کیا، دفتر میں موجود لوگوں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا، اتنا زوردار کہ مجھے احساس ہوا کہ قہقہہ چھ سات آدمیوں کا نہیں، ساٹھ ستر آدمیوں کا ہے۔ ان لوگوں کی ہنسی رکی تو مدیر محترم نے مجھے بتایا کہ اردو ادب میں معاوضہ کا رواج نہیں ہے۔ مجھے یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ رواجوں کے اس دیس میں یہ رواج رائج ہونے سے کیسے رہ گیا؟ وضاحت کرتے ہوئے مدیر صاحب نے فرمایا کہ جب مدیر ہی کو تنخواہ نہیں ملتی تو مضمون نگاروں کو معاوضہ کس بات کا؟ جب میں نے نہایت سادگی سے پوچھا کہ لوگ پھر لکھتے کیوں ہیں؟
تو کہنے لگے کہ "شہرت کی خاطر"۔
یوں تو مجھے شہرت حاصل کرنے سے کوئی عذر نہیں تھا لیکن اس سے زیادہ مجھے ان دنوں پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کی ضرورت تھی۔ پھر بھی سوچا کہ چلو شہرت تو حاصل کرو، ہو سکتا ہے جب بہت مشہور ہو جاؤں تو لوگ روٹی بھی کھلانے لگیں۔
میں یہ سوچ کر اس رسالہ کے دفتر سے نیچے اترا کہ شاید مجھے دیکھتے ہی قارئین اکرام آنکھوں پر بٹھا لیں گے۔ رسالہ جس میں میرا مضمون چھپا تھا، میری بغل میں تھا۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا تو آنکھوں پر بٹھانا تو درکنار مجھے کوئی اپنی رکشا میں مفت بٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا بھی کہ میں ادیب ہوں۔ لیکن انہوں نے جواب دیا کہ سینکڑوں ادیب اس بازار میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ میں جوتیاں چٹخاتا گھر کی طرف چل دیا۔
بعد میں ، میں نے غور و خوض کی تو پتا چلا کہ اردو کے رسائل کے پڑھے جانے کا عالم یہ ہے کہ اکثر انہیں وہی حضرات پڑھتے ہیں جو ان میں لکھتے ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھی اپنا مضمون پڑھنے کے بعد رسالہ سنبھال کر رکھ لیتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ ورق گردانی کرنے سے رسالے کے خراب ہو جانے کا اندیشہ ہے اور ایسی حالت میں یہ بوقتِ ضرورت کام نہیں آ سکے گا اور سند نہیں بن سکے گا۔

میرے عزیز دوست مزاح نگار مجتبی حسین نے شائد لوگوں کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مزاح کو لوگوں تک لے جانے کا ایک اور طریقہ نکالا ہے۔ ان کی کوششوں سے باقاعده ایسی تقریبیں منعقد ہونے لگی ہیں جہاں مزاح و طنز نگار اپنے مضامین حاضرین کو سناتے ہیں اور براہ راست داد وصول کرتے ہیں۔ مجھے حیرانی ہے کہ ہمارے شعرائے کرام نے مزاح نگاروں کو اپنے ریزروڈ میدان میں داخل ہو نے کیسے دیا؟ لیکن یہ مسئلہ میرا نہیں۔ مجھے تو صرف یہ کہنا ہے کہ مجتبی حسین صاحب کی طرف سے تھوڑی سی کوشش ہوئی اور میں ان کی ٹولی کا مستقل ممبر بن گیا۔ وہ مجھے حیدرآباد، فریدآباد، میرٹھ، لکھنؤ ، دلی اور نہ جانے کہاں کہاں لے گئے جہاں میں نے حاضرین سے جھولیاں بھر بھر کر داد وصول کی۔ اور اس طرح مجھے مکرر احساس ہوا کہ پبلک کو میرے مضامین کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس قسم کی داد بلکہ فریاد سن کر تو لوگ الیکشن میں کھڑے ہو جاتے ہیں کہ پیک کو ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میں تو صرف مضمون نگاری کر رہا ہوں۔
ایسے جلسوں میں اکثر لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ کا مجموعہ کب شائع ہوگا۔۔۔؟ یہی سوال جب حسامی بک ڈپو کے مالک نصیر احمد صاحب نے حیدرآباد میں مجھ سے کہا تو میں نے جواب دیا ک مضامین کا مجموعہ میں تیار کر دیتا ہوں شائع آپ کر لیجئے۔
چنانچہ ہم دونوں اپنا اپنا فرض پورا کر رہے ہیں جناب نصیر احمد صاحب کا خیال ہے کہ اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔۔۔ قارئین کرام سے میری درخواست ہے کہ جناب نصیر احمد صاحب کے بھرم کو بنائے رکھیں جو ان کا فرض ہے، ورنہ ان کا اعتبار میری قابلیت سے اور قارئین کی مجھے سمجھ بوجھ سے اٹھ جائے گا۔

دلیپ سنگھ
یکم/جنوری 1990
نئی دہلی

***
نام کتاب: سارے جہاں کا درد
مصنف: دلیپ سنگھ
تعداد صفحات: 125
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 6 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Sare jahan ka dard Dileep Singh.pdf

Direct Download link:

سارے جہاں کا درد - از: دلیپ سنگھ :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1گذارش احوال واقعی7
2معذرت نامہ12
3ہم جو اپنی شرافت میں مارے گئے18
4ہدایت نامہ مصنفین24
5جن کی واپسی33
6سارے جہاں کا درد اور ہمارا جگر39
7ضرورت ہے ۔۔۔46
8ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں51
9دل ہی تو ہے60
10جشنِ جدائی66
11مرنا تری گلی میں70
12ناگمشدہ کی تلاش77
13دلہن کی مانگ82
14ایمان کی یہ ہے87
15پاتا ہوں داد93
16زندہ باد - مردہ باد99
17نارمل آدمی105
خاکے
19طنز و مزاح کا اکبر بادشاہ112
20ایک خاکہ نگار کا خاکہ118

Sare jahan ka dard, a collection of Urdu humorous Essays by Dileep Singh, pdf download.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں