دلاور فگار کا تعارف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-18

دلاور فگار کا تعارف

دلاور فنگار نے 8 جولائی 1928ء کو بدایوں کے ایک "حمیدی صدیقی" خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دلاور حسین ہے۔ 1942ء میں وہ ہائی سکول کے امتحان کامیاب ہوئے۔ ان کے والد ماسٹر شاکر حسین صاحب مرحوم مقامی اسلامیہ سکول میں استاد تھے اور ان کے لئے اعلی تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت بدایوں میں صرف دسویں جماعت تک کی تعلیم ممکن تھی۔
میں درجہ چہارم میں ان کا ساتھی بنا تھا، ہم دونوں کا شمار جماعت کے چھوٹے بچوں میں تھا۔ لہذا اگلی صف میں بٹھائے گئے تھے۔ یہ قرب ایک دوسرے کو کچھ ایسا راس آیا کہ اسکول کی ساری زندگی ساتھ ساتھ بیٹھتے اٹھتے گزری۔ مگر ہائی اسکول کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد میں مزید تعلیم کے لیے وطن سے باہر چلا گیا اور وہ صغر سنی کے باوجود کسی طور ڈاک خانے کی عرضیاں بھگتانے پر لگا دیے گئے۔

بدایوں میں ہمیشہ ہی چھوٹے موٹے مشاعرے ہوا کرتے ہیں اور ہر انداز سے ہوا کرتے ہیں۔ کبھی ان کا انعقاد کسی تقریب کے طفیل میں ہوا کرتا ہے کبھی وہ خود ہی اپنی تقریب آپ ہوتے ہیں اور کبھی محض بہر تقریب ملاقات۔ مگر موسم گرما کی تعطیلات کے زمانے میں ان کے لیے عموماً تیز ہو جایا کرتی ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کی صورت میں شہر کا برآمد کیا ہوا مال اکثر و بیشتر لوٹ آتا ہے میں بھی ایک تعلیمی سال باہر گزار کر پہلی بار جب گھر لوٹا تو اسی زمانے میں اپنے دوست کو بااہتمام شاعرانہ ایک مشاعرے میں غزل پڑھتے ہوئے دیکھا۔ پتا چلا کہ گذشتہ چند ماہ سے وہ 'شباب بدایوں' کی حیثیت سے مقامی مشاعروں میں باضابطہ شرکت کر رہے ہیں۔ ان دنوں وہ لہک لہک کر اپنی غزل سنایا کرتے۔ ان کی آواز میں ایک دلآویز نقاہت ہوتی اور ایسا لگتا کہ اب سانس ٹوٹی۔
چار سال بعد وہ کسی طور انٹرمیجیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بریلی کالج جا سکے اور اس کے بعد وہیں سے معلمی کا ڈپلومہ بھی لے ڈالا۔ اس دوران میں وہ اپنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے اور 1950ء میں اپنے والد ہی کے نقش قدم پر اسی ادارے میں استاد بن گئے جہاں آج تک برابر کام کر رہے ہیں۔ ان کا تعلیمی مشغلہ ہنوز جاری ہے۔ 1953ء میں بی اے ہوئے اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے کر ڈالا۔ امسال (یعنی: 1966) انھوں نے اردو کے ایم اے میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی ہے۔

یہی زمانہ فگار کی شاعری کے فروغ کا ہے۔ اولاً کی غزلوں کا ایک مختصر مجموعہ "حادثے" 1954ء میں شائع ہوا غزل گوئی میں انھوں نے بدایوں کے صاحبان علم و فن مولانا جامی مرحوم، جناب جام نوائی، جناب آفتاب احمد جوہر اور جناب سبطین احمد سے فیض اٹھایا ہے۔ پھر وہ "شباب" سے "فگار" ہو گئے۔
مقامی طور پر ان کی ایک نظم "ابو قلموں کی ممبری" نے 1956ء میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ ان کی پہلی کامیاب طنزیہ نظم کہی جا سکتی ہے۔ ان کے مزاحیہ و طنزیہ قطعات اور نظموں کا پہلا مجموعہ "ستم ظریفیاں" 1963ء میں شائع ہوا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کی آواز قرب و جوار کے مشاعروں میں سنائی دینے لگی اور اخبارات و رسائل میں ان کا کلام شائع ہونے لگا۔ اسی زمانے میں ان کی نظم "شاعر اعظم" شائع ہوئی۔ یہ نظم ان کی شہرت کے پہلے سنگ میل کا رتبہ رکھتی ہے۔ اب ان کو ایک ابھرتا ہوا فنکار سمجھا جانے لگا۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلام "شامت اعمال" 1964ء میں شائع ہوا۔ اور ایک مقبول مزاح و طنز نگار شاعر کی حیثیت سے ان کا مقام مسلم ہو گیا۔ اترپردیش کی سرکار نے ان کے اس مجموعے کو سرکاری انعام کا مستحق بھی قرار دیا۔

فگار کا مزاج خوش دلی اور خوش مذاقی پر منبی ہوتا ہے اور ان کے طنز میں تہذیب نفس اور روشنی طبع کی نمود ملتی ہے۔ وہ تنگ نظر قطعی نہیں ہیں بلکہ ایسے احساسات و افکار کے اعتبار سے ترقی پسند ہی کہلائیں گے۔ وہ جھوٹی اقدار کی قلعی کھولتے ہیں اور کم نگاہی کے شاکی ہیں۔ انہوں نے تلخابۂ حیات کے گھونٹ پیے ہیں۔ اور اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے ان کی شاعری میں ان کی زندگی کا پرتو صاف جھلکتا ہے۔ ان کی طبیعت تصنع اور تکلفات سے دور بھاگتی ہے۔ وہ منکسر مزاج اور دوست نواز واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں اپنے ہم عصر شعراء کہتر و مہتر کی تخصیص کے بغیر جگہ بہ جگہ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ یوں بھی وہ مشاعروں میں سنے ہوئے اشعار خوب سنایا کرتے ہیں۔ ان کی سادگی اور دوست داری اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس وقت اتنے معروف و مقبول ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے ایک گمنام دوست سے اپنے بارے میں کچھ لکھنے کے لئے کہا ہے۔

فگار کا حافظہ بہت اچھا ہے انہیں عروض سے واقفیت ہے۔ زبان پر قدرت حاصل ہے اور فطرتآ شاعر ہیں۔ آج اردو نظم میں انگریزی الفاظ کے برجستہ استعمال، پیوندکاری اور تصرف میں ایک معیار رکھتے ہیں۔ ذرا سی بات میں ایک بات کہہ جاتے ہیں بلکہ بسا اوقات کئی باتیں۔ اب ان کے بعض الفاظ پر علامتی رنگ چڑھتا ہوا نظر آتا ہے ان میں سے ایک "خر" نامشخص بھی ہے۔
وہ زندگی کی مضحک پہلو کو اجاگر کیا کرتے ہیں لیکن نیک نیتی اور بالغ نظری کے ساتھ ان کے طنز میں تہ داری ملتی ہے جو پردہ بھی ہے اور پردہ در بھی۔

اب فگار اچھے خاصے چوڑے چکلے آدمی نظر آتے ہیں مگر اکڑفوں سے دور کچھ ڈھیلے ڈھالے، سڑک پر سرجھکائے دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے آپ میں مگن چلا کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران عموماً آنکھیں نیچی رہتی ہیں۔ نظمیں تحت اللفظ پڑھتے ہیں۔ کچھ ایسا لگتا ہے جیسے زور لگا کر آواز نکال رہے ہو۔ بزم بے تکلف میں اب بھی ترنم سے غزل سنا دیتے ہیں جس میں لڑکپن کے آہنگ کی جھنکار سنائی دے جاتی ہے۔ ان کے مزاج میں آتش گیر مادے کی کمی نہیں ہے وہ خوب جھلاتے ہیں۔ مگر فی نفسہ نرم دل اور مروت کے آدمی ہیں۔ یہ تو خدا جانے کہ شعر ان پر کب اور کیسے وارد ہوتا ہے لیکن وہ اپنا کلام بہت کچھ حافظے میں ہی جمع رکھتے ہیں۔ کچھ مختصر اشاروں میں لکھ کر ادھر ادھر ڈالتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ رسائل و اخبارات کے تراشوں کی صورت میں بھی ان کی کتابوں کے انبار میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔ ان کی نجی زندگی میں عورت کے تینوں روپ شامل ہیں۔ یعنی ماں بیوی اور بیٹی وہی ان کے گھر کی رونق ہیں۔

آج شہرت اور نام آوری نے ان کا پتہ پا لیا۔ ان کے کلام کو قبول عام کی سند مل رہی ہے مگر ان کا والہانہ انداز اور شان بے نیازی اپنی جگہ پر بدستور موجود ہے۔ ابھی تک وہ خود بین و خود آگاہ نہیں ہوئے ہیں ان کی زندگی سراسر معصومیت میں گزری ہے، خود انھوں نے اپنے بارے میں کیا خوب کہا ہے:
عمر اب تک تو صاف گزری ہے
قاعدے کے خلاف گزری ہے

فگار کا فن ترقی پذیر ہے اب وہ اس سطح پر پہنچ گئے ہیں جہاں طاقت پرواز خود پیدا ہوا کرتی ہے ان کی طنزیہ و مزاحیہ نظموں کا مجموعہ "آداب عرض" ان کے کلام کا ایک اچھا نمونہ کہلانے کا مستحق ہے۔ وہ اپنے اندر گلِ تر کی تازگی بھی رکھتا ہے۔

بشکریہ دیباچۂ کتاب: آداب عرض
از: عبداللہ ولی بخش قادری
ٹیچرس کالج، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
یکم جولائی 66ء

Introduction of Dilawar Figar. Article: Prof Wali Baksh Qadri

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں