اردو کے ممتاز ادبی جریدہ "ادب لطیف" (لاہور) نے 1963 میں، اپنی اشاعت کے 25 برس مکمل کرنے کی خوشی میں، انتظار حسین کی ادارت میں 'جوبلی نمبر' شائع کیا تھا۔ یہ ادبِ لطیف کی جلد:63 کا شمارہ نمبر 2-3 تھا۔ تقریباً 330 صفحات پر مشتمل اس خصوصی نمبر میں کچھ غزلوں اور نظموں کے علاوہ ایک ڈراما، ایک سفرنامہ، ایک طویل مختصر افسانہ، 14 مختصر افسانے، تین مذاکرے اور چند اہم تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل تھے۔ اسی نمبر میں شامل قاہرہ کا سفرنامہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔ہمارا جہاز نہر سویز میں آہستہ آہستہ ایک عجب بے اعتنائی کے ساتھ داخل ہوا۔ ہم سب باہر ڈیک پر نکل آئے، اور مختلف خیالات میں ڈوب گئے۔ سب چپ چپ تھے اور اپنی اپنی یادوں سے ہم کلام، فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔ کوئی سویز کی تاریخ میں گم تھا، کوئی قاہرہ کی شبانہ رنگینیوں کے پروگرام میں۔ کوئی خریدوفروخت کے خیال میں کھویا ہوا تو کوئی ابھرتے ہوئے چاند کے رومان میں۔ میں اکیلی کھڑی موجوں کی تنظیم کو دیکھ رہی تھی۔ کس ضبط کس فراخدلی سے یہ موجیں ہماری "اطالوی حویلی" کو راستہ دیتی جا رہی تھیں۔ سویز کسی بھی سیاسی طاقت یا گروہ کے قبضے میں ہو اقوام متحدہ کی اسمبلی میں اس پر کتنے ہی طویل مباحثے ہوں، دنیا کا امن چاہے اسی کی وجہ سے خطرے میں پڑ جائے۔ لیکن اس کے پانی غیر جانبدار ہیں۔ ہر مہمان کا خیر مقدم کرتے ہیں، ہر ایک سے یکساں سلوک روا رکھتے ہیں۔ کتنی للچائی نظریں اس پر ڈالیں، کیسی کیسی ناگہانی آفتیں اس پر آئیں۔ لیکن یہ نیلگوں شاہراہ، یہ مغرب و مشرق کی معاشی شاہ رگ اپنی فطری معصومیت میں رواں دواں ہے۔ تاریخی جرائم سے بے خبر،م وجودہ دھمکیوں سے نابلد، اس امن و سکون سے بہتی جا رہی ہے۔
شام ایک ریشم زبان سیاستداں کی طرح آہستہ آہستہ روشنی کی جڑیں کاٹتی ہوئی آرام سے کائنات پر غالب آ گئی۔ شفق کے کچے رنگ پانی میں گھل کر پھیل گئے۔ لہروں کی پھواریں۔ آبی فاختاؤں کے غوطے ! ہر طرف سفید سفید جھاگ! معلوم ہوتا تھا، زیر آب ہزاروں گوالنیں دودھ بلو بلو کر اچھال رہی ہیں۔ پورٹ سعید قریب تر ہونے لگی۔ ننھی ننھی روشنیوں کی قطاریں دور ساحل پر ! جیسے جل پریوں کی سرحد آب پر درخشاں حباب آویزاں ہوں۔
جہاز نے لنگر ڈال دئیے۔ رات بے تابی سے کٹی۔ کل صبح قاہرہ کی سیر! جہاز والوں نے بارہ گھنٹے کا پورا پورا استعمال بتا کر ۷۵ روپے وصول کر لئے تھے۔ صبح کاذب سے اٹھ کر تیار ہوئے، میلی میلی کشتیوں میں بیٹھ کر گدلے گدلے پانی پر گزرتے ہوئے مصری سر زمین پر قدم رکھا۔ جہاز کی بند فضا سے نکل کر زمین کی فراخی بہت بھائی۔ کسٹم افسر نے پاسپورٹ دیکھا پھر مجھے دیکھا "لندن جا رہی ہیں ؟" "جی"کیا کریں گی، یہیں رہ جائیے۔ " میں نے پہلی دفعہ غور سے کسٹم افسر کی شکل دیکھی۔ مصری گول چکنی موچھلی شکل۔ تو یہ ہیں مصر کے "شیر دل جوان" ! میں نے دل میں سوچا اور ہنسی۔ پھر ذرا سی ڈری۔ اگر سرکاری شروعات یہ ہیں تو آگے شہر میں کیا حشر ہو گا۔ دوڈچ عمر رسیدہ میموں نے مجھے اپنے ساتھ شامل کرنے کے لئے بہت پیار سے دیکھا۔ ایک کا خاوند اور اکلوتا بچہ اس کی نظروں کے سامنے جرمنوں نے گولی سے مار دیا تھا۔ وہ جب سے دنیا کی سیروں میں سرگرداں تھی یہ بوڑھیاں خاصی دلچسپ تھیں لیکن اسی کے پارج اچکی تھیں۔ ایک تو میرے ساتھ قدم ملا کر چل نہیں سکتی تھی اور میں قدم چھوٹے کر نہیں سکتی۔ اگر کوئی مجھے آہستہ چلنے کو کہے تو میرا دم گھٹنوں میں آ جاتا ہے۔ دوسرے وہ بزرگیں اس حلیے میں پہنچ چکی تھیں کہ ان کو دیکھ کر قاہرہ کے آثار قدیمہ کو دیکھنے کا شوق ذرا دھیما پڑ ج اتا تھا۔ اور شکستہ دنداں اہرام مصرے سامنے تو شاید زیاہد بے آہنگ نہ لگیں۔ لیکن صبح ناشتہ پر تازہ گلابی مکھن اور کرارے ٹوسٹ کے سامنے بھوک پر ذرا سی اوس ڈال دیتے تھے۔ میں نے اپنے پر ہزار لعنت بھیجی۔ لاکھ غیرت دلائی آخر ہم پر بھی یہ وت آئے گا۔ اگر خدا نہ کرے اتنا جی گئے۔
لاطینی امریکی، میئر یوسف بے کارواں ہو کر پھر رہے تھے۔ اور کئی دفعہ گفتگو کے لئے بہانے ڈھونڈ کر آ چکے تھے۔ ہم نے دن بھر کے لئے ان کو اپنا محافظ بنا لیا۔ اگر مجھے ذرا بھی کھٹکا ہوتا کہ ان کی محافظت، بین الاقوامی خصومت وصعوبت بن کر میرا ذہنی امن پراگندہ کر دے گی۔ تو میں ان کو بھی پرے پرے رکھتی۔ موسپورالواویز تھے تو بہت شریف اور نیک نیت لیکن میرے لئے ہر ایک سے بلا وجہ لڑنے اور مرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔ دو جگہ ان کو عربوں کی ضربوں سے بچایا۔ دو تین بار خود اپنے جہازی ہمراہیوں سے بھڑ گئے۔
پورٹ سعید سے قاہرہ کافی دور ہے۔ ہماری بس اڑھائی گھنٹے میں قاہرہ پہنچی۔ قاہرہ کے بازاروں میں سے گزرتے ہوئے ہماری ٹورسٹ بس نے ہمیں ایک بڑے ہوٹل میں اتار دیا۔ ہاتھ منہ دھوکر ہم اپنے مقر رہ تاریخی مقامات دیکھنے روانہ ہوئے، قاہرہ قدیم و جدید تہذیب کی ایک کھچڑی ہے۔ اس کی عمر چار ہزار سال قبل از مسیح بتائی جاتی ہے۔ اور بعض مقام پر معلوم وہتا ہے کہ ابھی ابھی۱۹۶۰ء میں دائی کے ہاتھوں میں گرم گرم نرم نرم وارد ہوا ہے۔ جدید ترین ہوٹل، عیش کدے، تھیٹر، ناچ گھر، اسے مشرق وسطیٰ کا موڈرن پیری بھی کہتے ہیں۔ اور قدامت کا گہوارہ بھی۔ وہ نقشہ جو عموماً اسلامی ممالک میں ہے۔ یہاں پر بھی ہے، ایک طرف بدواور اونٹ، دوسری طرف کیڈلک اور ببوک۔ ادھر پھٹے حال ننگے پیر بچے، ادھر موٹی چکنی امیر عورتیں پنیل ابرو۔ پنسل ہیلون کے ساتھ اپنی شاپنگ میں مصروف لیکن اب ایک عرصے سے یہ تفرقہ مٹتا جا رہا ہے۔ خدا ناصر کی عمر میں برکت دے۔
ہماری بس دریائے نیل پر جا کر رکی۔ دریائے نیل تاریخ کی سیر گاہ۔ مصر کی رگ زراعت۔ اس نے سیزر کی آبدار فوجیں، تلو پطرہ کے جشن محبت دیکھے ہیں۔ اس نے تن تخانوں کے ظلم و ستم۔ اور بنی اسرائیل کے غم و الم، یوسف کا حسن، زلیخا کے ناز دیکھے ہیں۔ یہ نپولین کی اماجگاہ مشرق اور مارک انتھونی کی کربلا۔ یہ مورخوں کا تخیل اور شاعروں کا خواب۔ کیا یہ دریائے نیل ہے ؟ ایک چھوٹی چھوٹی سی گدلی نہر جس کے ایک طرف مخملیں محفلیں اور نقرئی قہقہے۔ دوسری طرف سنسان غربت، یہ حقیر نالہ تاریخی نیل کا مضحکہ لگ رہا تھا۔ اس کے سارے ڈرامہ پر ایک تمثیلچہ، شاید کتابوں میں چیزیں بڑی اور شاندار معلوم ہوتی ہیں۔ مورخ کا زور قلم ان کا رقبہ دوگنا کر دیتا ہے۔ لیکن ہم نے تو سنا تھا کہ دور سے چیز چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ یہاں قریب آ کر اور چھوٹی معلوم ہوئی۔ یہ دریا جس کے ایک کنارے پر مغربی موسیقی کے لئے اٹھ رہے تھے۔ اور مغربی لباس، مغربی آداب، میں نے آنکھیں دوبارہ ملیں۔ کیا یہی دریائے نیل ہے۔ کہیں صدیوں کا مغالطہ تو نہیں ہو گیا۔
ہمSPHINXکے قریب گئے، سر عورت کا، چہرہ مرد کا۔ جسم شیر کا۔ یہ رازون کا صیغہ! ایک شاہی معمہ! ایک انگریزی استعارہ! خیال تھا کہ میں اس کے آگے بونا معلوم ہوں گی۔ لیکن میں نے اس کے سامنے گردن تان کے تصویر کھنچوائی۔ نہ میں اتنی چھوٹی تھی اور نہ وہ اتنی بڑی۔ ایک وقت میں ہم دونوں کیمرے کے لینز میں سما گئے۔
آگے چلے تو اہرام مصر۔ باہر سے اینٹوں کے سنگیں تکون۔ اندر سے مہیب فرعونی مقبرے۔ ہولناک حیرت انگیز۔ تین ہزار سال قبل از مسیح۔ کن شاہی معماروں نے تراشے ہوں گے۔ کتنے سالوں میں کتنے مزدوروں کی قربانی سے تیار ہوئے ! ان کی نئی انسیان کے خون سے گندھی۔ ان کی اینٹوں میں انسان کی ہڈیاں پیسیں ! لاکھوں غلاموں کے آنسو اور آہ و بکا سے فرعونیت نے ارض ابدیت خریدی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ انسان کی نخوت کہاں جا کر رکے گی ! اہرام مصر اندر سے زیادہ وسیع اور بارعب معلوم ہوتے ہیں۔ ہم نے چالیس منٹ میں چار ہزار صدیاں طے کر لیں۔ جادو تھا۔ کہ طلسم ہو شربا کے افسانے۔ چھُو منتر اور اونٹ گاڑیوں سے کود کر جدید کاروں میں بیٹھ گئے۔ صحراؤں کی ازلی خاموشی اور بیسویں صدی کے ہارن موٹر۔ مختلف زمان و مکان کا تصادم۔
موٹر کچھ سیل چلی تو ایک اشارہ ہوا کہ روکو۔ ایک میم کے گردے کمزور تھے۔ اتر کر غسلخانہ جانا چاہتی تھی۔ اس کے شوہر نے مضحکہ آمیز لہجہ میں اس سے کہا " تم ان کے مقدس مکے کو پلید مت کرو۔ " مصری ڈائیور پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ گیا۔ "نہ میں مصر کی تحقیر سنوں گا، نہ ناصر کی نہ اسلام کی۔ " انگریز کومعافی مانگنی پڑی۔ مجھے انگریز کی ذہنیت ذرہ غصہ نہ آیا۔ البتہ افسوس ہوا کہ یہ لوگ اتنی تعلیم کے باوجود فراخد ل نہ ہو سکے۔ اسلام کا نام آتے ہی ان کا ذہنی افق سکڑ جاتا ہے۔ اور پرانے تعصبات عود کر آتے ہیں۔ وقت کی بات ہے، عمر کے ساتھ پختگی آتی ہے۔ شاید چند سال پہلے اس قسم کے فقرے پر مجھے طیش آتا۔ لیکن اب مجھے یوں محسوس ہوا وہ میرے مذہب کی بے عزتی نہیں کر رہا، خود انی تہذیب اور ایمان کی تحقیر کر رہا ہے۔ مجھے کچھ احساس برتری ہوچلا کہ شاید میرا خدا، اور میرا مذہب، زیادہ فراخ حوصلہ ہیں۔ میرے خدا کی رواداری کے کیا کہنے، جس نے خود فرعون کی رسی دراز کی کہ وہ خدا بن کے اپنی پرستش کروائے۔ میرے مولا نے مصری دیوتاؤں کو چونے اور مٹی میں لافانی ہونے کی اجازت دے دی۔ روم کے دیوتا سنگ مرمر میں، ہندی، دیوتا پیتل سونے میں آج بھی کھڑے ہیں۔ آج بھی انسان انسان کو پوج رہا ہے۔ جب یہ سب میرے رب کو روا ہے تو ہم کون برا ماننے والے !
میرے نگہبان دوست موسیورالوار نیز سائے کی طرح میرے ساتھ ساتھ بازاروں میں میرے لئے راستہ بناتے ہوئے عربوں کے لبادوں اور بسکیون سے بچاتے ہوئے مجھے ایک تھنوں کی دکان پر لے گئے۔ میں مختلف کونوں کو ٹٹولتی دو چیزیں اٹھا لائی۔ مکہ نفریٹیٹی اور حشیش کا حقہ اور دونوں میز پر دھر دئیے، یہ حشیش پائپ کتن کا ہے ؟"میں نے پوچھا۔ عربی جوان دوسری طرف سے بولا ہر دفعہ جب آپ حشیش کہتی ہیں۔ میرا دل دہلا دیتی ہیں۔ میں نے سر ہلا دیا اور موسپورالوار پر لپک کر میری مدد کو پہنچ گئے۔ میں تو کھسک گئی وہ دام چکاتے رہے اور آدھی قیمت پر ملکہ نفرٹیٹی اور حقہ حشیش میرے تھیلے میں ڈال دئیے۔
ہم نے ہوٹل میں آن کر کھانا کھایا، پھر اپنی پرانی بس میں بیٹھ کر واپسی کا رخ کیا۔ ایک امریکی معہ بیوی اور سات بچوں کے سارا دن کی خریدوفروخت سے لدا پھندا آن کر بیٹھ گیا۔ ہر بچے کے سر پر فاروقی ٹوپی تھی۔ اس نے شاید مصری تاریخ تو کتابوں میں پڑھی ہو گی اور نہ بھی پڑھی تو پھر کبھی پڑھ لے گا۔ لیکن مصری بازاروں کے سستے سودے کہاں ملتے، دوسرا جوان جرمن جوڑا آتے ہی سیٹ پر نڈھال ہو کر ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر سو گیا۔ دونوں طالب علم تھے۔ اوردن بھر قاہرہ کی اینٹ اینٹ کا مطالعہ کرتے کرتے خود گارا بن گئے تھے۔ تاریخ دماغ میں بھنبھنارہی تھی۔ نیند جلد چھا گئی۔
خشکی شدید ہوتی جا رہی تھی۔ بس ابھی گرم ہی ہوئی تھی کہ کوئی بیس میل پر روک دی گئی۔ فوجی قافلوں نے ڈرائیور کو حکم دیا کہ واپس قاہرہ جاؤ۔ اسرائیل نے کئی جگہ چھاپے مارے ہیں۔ اور پورٹ سعید کے راستے بند کر دئے گئے ہیں۔ بس میں ایک کھلبلی مچ گئی۔ ہمارا جہاز لنگر ڈالے کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ دو بجے رات کو اسے لنگر اٹھانا تھا۔ ہمارے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے۔ کہ رات قاہرہ گزار کر ہوائی جہاز سے دوسرے دن جنیوا چلے جائیں۔ ایک شور، ایک خلفشار !آخر قاہرہ واپس آئے۔ انگریزی سفیر نے مرکزی وزارت خارجہ سے اجازت دلوائی۔ بس روانہ ہوئی، پچاس میل بعد پھر مصری فوجوں نے روک دیا۔ واپس جاؤ۔ ہم کوئی پرمٹ وغیرہ نہیں مانتے۔ ہمارے ساتھیوں کا اعصابی ڈھیر ہو گیا۔ گالیوں پر اتر آئے۔ وہ انگریزی میں گالیاں دے رہے تھے۔ اور فوجی دستے عربی زبان میں ہم کو بے نقط سنارہے تھے۔ ان کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ کچھ مصری سپاہیوں نے تالیاں بجا بجا کر انگوٹھے دکھانے شروع کئے۔ وقت کم تھا۔ اور ہمارا جہاز انتظار کر رہا تھا۔ کہاں ہے تمہارا کپتان بلاؤ اسے۔ " میں اس ساری کیفیت کے مزے لے رہی تھی۔ صدیوں سے سفید چمڑی عربی اعصاب کے ساتھ کھیلتی رہی ہے۔ اور آج بھی کھیل رہی ہے۔ دو منٹ کے لئے ان یورپینیوں کے تنے ہوئے اعصاب اور بگڑے ہوئے مزاج دیکھ کر مجھے لطف آیا۔ موسیورالوار نے حیران ہو کر مجھے دیکھا۔ "آپ مسکرارہی ہیں ؟ کیا مشرقی عورت کا خمیر اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے ؟"خالص ستانے کی نیت سے میں خاموش مسکراتی رہی۔ نوسیور رچ آ کر اوروں سے ہم کلام ہو گئے۔
بہت سی کج بحثی کے بعد آخر کار بس روانہ ہوئی۔ رات کے خنک، میں چاند اکیلا تن تنہا لٹک رہا تھا۔ گویا ساری مخلوقات کیگ ناہ کی پاداش میں صلیب پر چڑھا دیا گیا ہو۔ صرف دو تارے اس وقت اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ باقی سب روپوش ہو چکے تھے۔ کچھ دمدار گھبراہٹ میں اپنی دمیں پیچھے چھوڑتے گئے، جوں جوں بس میل طے کرتی مسافروں کے رکے ہوئے سانس رواں ہوئے، امید بندھی کہ آخر ہم وقت پر پہنچ ہی جائیں گے۔ ایک دو گنگنانے لگے۔ ایک نے ہلکی ہلکی سیٹی میں اپنا دبایا ہوا احساس خوف ظاہر کیا۔ حسن پرستی نہ قحط سالی میں ہوتی ہے اور نہ خوف کی حالت میں۔ ذرا اطمینان ہوتے ہی موسیوارالوار یز کو بھی چاند یاد آیا۔ اس کی طرف اس فخر سے نظر ڈالی۔ گویا چاند ان کی اپنی تازہ تازہ دریافت ہے۔ "دیکھئے ذرا دیکھئے، کتنا حسین جوان ہے چاند!" میں نے گردن موڑے بغیر کہا۔ " یہ تو بالکل فاقہ مست لنگ ملنگ سادھو لگ رہا ہے۔ جو چالیس چلے کاٹ کر اپنے حجرے سے باہر نکلا ہو۔ اس کا تو آدھا انجر پنجر رہ گیا۔ پسلیاں گن سکتے ہیں۔ "لاطینی امریکی خون غرایا۔ آپ نے بھی نرالا مذاق پایا ہے۔ آپ کو چاند میں رومان محسوس نہیں ہوتا۔ میں بولی چاند کا رومان تو روس نے پنکچر کر دیا۔ جب سے ان کا لال جھنڈا وہاں لہرایا ہے۔ عاشقوں نے اور سیارے تلاش کرنے شروع کر دئے۔ شاعروں نے استعارے بدل دئیے۔ زبان نے ودسرے محاورے گھڑ لئے۔ اب چاند تو روس کی سولہویں ری پبلک ہے۔ اور ایک سرد اور سنسان سائبریا۔ "
یوسیور بولے "خدا بچائے مجھے مشرق سے اور اس کی عورت سے، نہ کبھی اسے سمجھا اور نہ اسے سمجھ سکوں گا۔ "
"زندگی سمجھنے کا وقت کہاں دیتی ہے۔ وہ دیکھو منزل کے آخری پاؤں !"
ہمارا جہاز ساحل سے دور سرمئی دھند میں کھڑا صور اسرافیل پھونک رہا تھا۔
ماخوذ از رسالہ: ادب لطیف ، لاہور (جوبلی نمبر)
شمارہ: 2-3 ، جلد نمبر: 63
شمارہ: 2-3 ، جلد نمبر: 63
Cairo, a travelogue. Article: Akhtar Riyazuddin Ahmad
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں