مجھے ریٹائرمنٹ کے بعد پیسہ کمانے کے لئے کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آج کل سرکار نے پینشن خاصی معقول کردی ہے اور دوسری یہ کہ آدمی ریٹائرمنٹ تک پہنچتے پہنچتے اتنی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے کہ اسے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ دانت ہی نہیں ہوں گے تو چبائے گا کیا؟ اور معدہ ہی کام نہیں کرے گا تو کھائے گا کیا؟اس کے علاوہ میرے دونوں لڑکے برسرِ روزگار تھے، میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجھے امید ہے کہ وہ میرے بڑھاپے کا سہارا بنیں گے ، بلکہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب انہیں میرے سہارے کی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے ذاتی اور اچھے خاصے مکان ہوتے ہوئے بھی وہ میرے چھوٹے سے مکان کی طرف اس طرح دیکھا کرتے تھے جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے ہوں کہ اے بکرے کی ماں تو کب تک خیر منائے گی۔
اقتصادی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے کام کی ضرورت نہیں تھی لیکن وقت گزارنے کے لئے تو کوئی مصروفیت چاہئے تھی ۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ سوشل سروس کرو ۔ وقت بھی گزر جائے گا اور سوسائٹی کا بھلابھی ہوگا ۔ لیکن جب اس میدان کی طرف غور سے دیکھا تو احساس ہوا کہ سوشل سروس اتنا کار آمد شغل بن گیا ہے کہ سوشل ورکر بننے کے لئے کسی بڑے آدمی کی سفارش چاہئے آج کل سوشل سروس، لوگ کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ جب وہ ایک مندر بنانے کے لئے چندہ اکٹھا کرتے ہیں تو ان کے ذاتی مکان کی دوسری منزل مندر سے کئی مہینے پہلے اپنے آپ تیار ہوجاتی ہے۔ شاید سوشل سروس کرنے والوں کو بھگوان اس لئے پہلے نواز دیتا ہے کہ آخر وہ بیچارے کم از کم گھر سے تو اس ارادے سے ہی نکلے تھے کہبھگوان ان کے لئے گھر تعمیر کریں گے ۔
بہت سوچ وچار کے بعدمیں نے فیصلہ کیا کہ لوگوں کے دکھ میں شامل ہونے سے بہتر کوئی کام نہیں ہے کیونکہ دکھ بانٹنے سے کم ہوتا ہے ، کہنے والے تو کہتے ہیں کہ خوشی بھی بانٹنے سے دوبالا ہوجاتی ہے ۔ لیکن جوانی، میں نے یہ کام کرنے کی کوشش کی تھی اورنتیجہ اس کامیرے حق میں کچھ اچھا نہیںنکلاتھا ۔ جوانی میں میں اور میرے چند عزیز دوستوں نے فیصلہ کیا تھا ، کیوں نہ ہم لوگ بنی نوع انسان کی خوشی میں شامل ہوکر ان کی خوشی کو دوبالا کریں ۔چنانچہ کوئی بارات جارہی ہو تو ہم اس میں شامل ہوجایا کرتے تھے ، ان کے ساتھ کندھے سے کندھاملاکر چلتے تھے، انکے بینڈ کی دھن پربھنگڑا کرتے تھے اور ان کے ساتھ لنچ کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔ لیکن لوگ شاید آج کل خوشی بانٹنا پسند نہیں کرتے ، اس لئے ایک شادی میں باقاعدہ ہم سے پوچھا گیا کہ ہم کس طرف سے ہیں۔ لڑکی کی طرف سے یا لڑکے کی طرف سے۔ ہمیں یہ سوال بڑا بے معنی سا لگا ، یہ کوئی لڑائی کامیدان تو تھا نہیں کہ کوئی ہم سے سوال کرے کہ ہم کس طرف ہیں؟ سکندر کی طرف یا پورس کی طرف؟ہم تو دونوں طرف کے لوگوں کی خوشی بانٹ رہے تھے ۔(فلاسفی سے قطع نظر ہم اس وقت بریانی کی طرف تھے) لیکن شادی والے گھروں کو ہمارا خوشی بانٹنا پسند نہ آیا۔ اور انہوں نے ہمیں دھکے مار کر پنڈال سے باہر کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ہم وہاں صرف مفت کی روٹیاں توڑنے آئے تھے ، شاید یہ صحیح تھا لیکن یہ بھی صحیح تھا کہ کسی اور نے بھی وہاں روٹیاں توڑنے کے پیسے نہیں دے رکھے تھے، سوائے لڑکی کے باپ کے،
اس واقع کو ذہن میں رکھ کرہی میںنے فیصلہ کیاتھاکہ لوگوں کے دکھ میں شامل ہونا چاہئے ۔ وہاں تو کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ ہم وہاںمفت کی روٹیاں توڑنے آئے ہیں۔
دلی جیسے شہر میں یہ معلوم کرنا کہ کون دکھی ہے اور کون نہیں ، ذراسامشکل کام ہے ۔ کیونکہ جس چہرے کوبھی دیکھئے اس پر جلی حروف میں دکھ لکھا ہوا نظر آتا ہے بڑے شہروں میں دکھ بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ کوئی اس لئے دکھی ہے کہ اس کے پاس فون نہیں ہے اور کوئی اس لئے دکھی ہے کہ اس کے پاس فون تو ہے پر اس پر کوئی نمبر نہیں ملتا ۔ لیکن میں اس طرح کے معمولی دکھوں میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔ میراارادہوہ ان دکھوںمیں شامل ہونے کاتھا جنہیں واقعی دکھ کہاجاتا ہے ۔ جیسے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ، جیسے کسی کے یتیم ہوجانے کا دکھ ۔۔ فون نہ ملنے کا دکھ میں کیسے بانٹ سکتا تھا ۔ جب کہ خود مجھے ہی کئی سالوں کی کوشش کے باوجود فون نہیں مل سکا تھا۔
دکھی لوگوں کی تلاش میں مَیں نے اتوار کے اخبار میں موت کا ایک اشتہار دیکھا جو قریب آدھ صفحے پرپھیلا ہوا تھا ۔ اشتہارسے پتہ چلتا تھا کہ مرنے والے نے اپنی زندگی میں بہت محنت کی تھی۔ نتیجے کے طور پر وہ تین فیکٹریوں اور دس ٹیلیفونوں کامالک بننے کے علاوہ چھ بچوں کاباپ بنا۔ بچوں کے علاوہ پوتے پوتیوں کی تعداد بھی اچھی خاصی تھی ۔ اشتہار سے عیاں تھا کہ اس کے وارثین بے حددکھی تھے کہ وہ ایک رہنما سے محروم ہوگئے ۔ ان کے دکھ کا سب سے بڑا ثبوت یہ اشتہار تھا کیونکہ اس کی چھپائی پر کم از کم پانچ ہزار روپے ضرور خرچ ہوئے ہوں گے ۔
میں نے سوچا ان لوگوں کا دکھ بانٹنے ضرور جانا چاہئے ، چنانچہ کریا کی تاریخ پر ان کے گھر پہنچ گیا ۔ لیکن دیکھ کر حیران ہوا کہ پورے گھر میں غم کا نام و نشان نہیں تھا۔مختلف لوگوں سے بات چیت کرنے سے پتہ چلاکہ بزرگور نے دولت توبہت پیدا کی لیکن اس دولت پرسانپ بنکربیٹھا رہا ۔ بچوںکواول تو عیاشی کے لیے کچھ دیتا نہیں تھااور جب دیتا تھاتو بعدمیں اس کا حساب مانگتا تھا۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجئے عیاشی کا کوئی حساب دے سکتا ہے بھلا؟ مزید چھان بین کرنے پر پتہ چلا کہ اخبارمیں چھپا ہوا اشتہار رونے رلانے کا نہیں تھا بلکہ شکرانے کا تھا ۔ وارثین اشتہار کے ذریعہ اس دکھ کا اظہار نہیں کررہے تھے کہ تین کمپنیاں اور دس ٹیلیفونوں کا مالک چلا گیا بلکہ اس بات کے لئے شکر گزار تھے کہ مرنے والا یہ کمپنیاں اور فون اپنے ساتھ نہیں لے گیا۔
اگلے ہفتے میں نے اخبار میں،برسی کا ایک اشتہار دیکھا ، ایک نوجوان کی تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ آج ان کی موت کو ایک سال ہوگیا ہے ، لیکن آج بھی ہم اسی طرح سوگوار ہیں جیسے ایک سال پہلے تھے ۔میں نے سوچا کہ اس جوان کی موت کی برسی پر جاکر اس کے رشتہ داروں کا غم بانٹنا چاہئے ۔
پتہ پر پہنچا تو گھرمیں کوئی نہیں تھا سوائے ایک منشی کے۔ میں نے پوچھا: بھیا گھر کے لوگ کہاں ہیں؟ کہنے لگا، کشمیر گئے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا: لیکن آج تو ان کے فلاں رشتے دار کی برسی ہے ، جو پچھلے سال جوانی میں وفات پاگئے تھے ، انہوں نے خود اخبار میں اشتہار دیاہے آج تو وہ غم سے نڈھال ہوں گے، پہاڑ پر کیسے چلے گئے۔
منشی نے جواب دیا۔حضور پہلی با ت تو یہ ہے کہ مرنے والااسی سال کی عمر میںفوت ہواتھا، جوانی میں نہیں ۔ آپ کو جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ اخبار میں چھپی ہوئی تصویر سے ہوئی ہے ، وہ تصویر جوانی کی تھی، دوسری بات یہ اخبار میں اشتہار ان کے وارثین نے خود نہیں دیا۔ ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی معرفت دیا گیا ہے ۔ اب رہ گئی یہ بات کہ وارثین پہاڑ پر کیوں گئے ہیں تو بھیا رونے کے لئے یہ ضروری نہیںکہ آدمی سخت گرم آب و ہوا میں ہی روسکتاہے ، کشمیر میں ڈل لیک میں شکارے میں بیٹھ کر رونے میں کیا برائی ہے ؟
اس کی بات سن کرمجھے احساس ہوا کہ واقعی کوئی برائی نہیں بلکہ اسی شکارے میں بیٹھ کرمیں اگر ان کا دکھ بانٹ سکتا تو کتنا اچھا ہوگا۔
میں نے منشی جی سے اتنی شکایت ضرور کی کہ انہیں مرنے والے کی جوانی کی تصویر شائع نہیں کروانی چاہئے تھی کہ اس سے خواہ مخواہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے ۔ منشی کہنے لگا : آخری عمر میں بزرگوار کولقوہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ان کی تصویر بڑی بھیانک آئی تھی۔ ایسی تصویر چھپواکر وارثین شرمسار نہیں ہونا چاہتے تھے کہ وہ کسی ٹیڑھے میڑھے بزرگ کے رشتے دار ہیں۔
دوبارہ ناکام ہونے کے باوجود بھی میں ہمت نہیں ہارا۔ ایک دن میں نے اخبار میںایک ایسے بزرگ کی موت کا اشتہار پڑھا جو وارثین کی طرف سے نہیں بلکہاس بزرگ کی کمپنی کے ملازمین کی طرف سے دیا گیا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ مرنے والا ایک شفیق مالک تھا جس کے مرنے سے اس کے ملازمین سوگوار ہیں۔
میں اس بزرگ کی یاد میں منعقد ہونے والی میٹنگ میں شامل ہونے کے لئے چل دیا، میٹنگ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ملازمین سوگوار تو ہیں لیکن بزرگ کی موت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ اس بزرگ کے نوجوان بیٹے نے زبردستی ملازمین کی تنخواہ سے پیسے کاٹ کر اخبار میں اس میٹنگ کااشتہار دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد میں تھوڑا سا مایوس ہوگیا۔ مجھے لگا جیسے میں زندگی بھر کسی کا غم نہ بانٹ سکوں گا ، جب سوگواروںکے پاس بانٹنے کو کچھ ہے ہی نہیں تو میں بانٹوں کیا؟
انہی دنوں میرے دفتر کے ایک ساتھی کی موت ہوگئی ، سعید حیدرآباد کارہنے والا تھا ۔ اور دلی میں ملازمت کے لئے آیا ہوا تھا ، وارثین کو اطلاع دی گئی لیکن ریلوے میں ہڑتال ہونے کی وجہ سے کوئی وقت پرپہنچ نہ پایا،مجبوراً ہم دفتر کے کچھ ساتھی اسے دفنانے کے لئے نکل پڑے ، فیصلہ یہ ہوا کہ اسے جامعہ ملیہ کے قبرستان میں دفن کیاجائے ۔
جنازہ پہلے مسجد میںلے جایا گیا تاکہ نماز جنازہ ادا کی جاسکے ، اتفاقاً اس دن جمعہ تھا بے شمار لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں موجود تھے ۔ وہ سب سعید کے جنازے میں شامل ہوگئے۔ بہت سے لوگوں کو جنازے کے ساتھ دیکھ کر کسی کو خیال ہوا کہ کوئی بہت بڑا ادمی فوت ہوگیا ہے ، چنانچہ اس آدمی نے میرے قریب آکر پوچھا: کون صاحب تھے ، کسی بڑے عہدے پر فائز تھے کیا؟
میں نے جواب دیا: ایسی تو کوئی بات نہیں، معمولی ملازم پیشہ آدمی تھے۔تب تک ہم قبرستان میں پہنچ چکے تھے قبر کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر وہ کہنے لگا:
"قسمت والا تھا کہ دیار غیر میں موت ہوئی، لیکن پھر بھی جنازے میں ہزاروں لوگ شامل ہوئے اور پھر قبرستان میں ایسی جگہ نصیب ہوئی کہ ایک طرف میجر جنرل نواز خان لیٹے ہوئے ہیں، ایک طرف پرنسپل برکت علی صاحب ہیں ۔ اور ایک طرف جناب علی محمد سابق ممبر پارلیمنٹ۔"
مجھے اس شخص کے غمزدہ چہرے کو دیکھ کر بہت ترس آیا ۔میں نے کہا:
"حضور اگر آپ چاہیں تو آپ اس قبر میں لیٹ جائیں اور ان بڑے آدمیوں کی صحبت کا لطف اٹھائیں ۔ میں اپنے دوست کو کہیں اور لے جاتا ہوں۔"
میں تو سمجھتا تھا کہ میں نے اس شخص کا غم بانٹنے کی کوشش کی ہے لیکن میرے دوستوں کا خیال ہے کہ میرے جملے میں تضحیک کا پہلو نکلتا تھا۔
میں پریشان ہوں کہ کس طرح لوگوں کے غم میں شمولیت کروں ، کس طرح ان سے درد کا رشتہ قائم کروں ۔ اس سلسلے میں مجھے دوستوں کے مشوروں کی ضرورت ہے ۔ ہے کوئی کرم فرما جو میری رہنمائی کرے ۔
ماخوذ از کتاب:
سارے جہاں کا درد (طنزیہ و مزاحیہ مضامین)
مصنف: دلیپ سنگھ
ناشر: حسامی بک ڈپو، حیدرآباد۔ (سن اشاعت: مئی 1990)
سارے جہاں کا درد (طنزیہ و مزاحیہ مضامین)
مصنف: دلیپ سنگھ
ناشر: حسامی بک ڈپو، حیدرآباد۔ (سن اشاعت: مئی 1990)
Saare jahan ka dard. Humorous Essay by: Dileep Singh
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں