کشمیر کی کلی - الیاس سیتاپوری کی تاریخی کہانیاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-21

کشمیر کی کلی - الیاس سیتاپوری کی تاریخی کہانیاں - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ

kashmir-ki-kali-ilyas-sitapuri

الیاس سیتاپوری، اردو میں تاریخی کہانیاں لکھنے والے ایسے مصنف ہیں جن کا طرز تحریر نہ صرف منفرد اور حقیقت سے قریب ہے بلکہ نصابی کتب اور تاریخ نگاری کے انداز سے یکسر مختلف ہے۔
الیاس سیتاپوری کی آٹھ (8) منتخب تاریخی کہانیوں کی کتاب "کشمیر کی کلی" تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
تقریباً ڈھائی سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 17 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔

الیاس سیتاپوری (اصل نام: محمد الیاس خان) 30/اکتوبر 1934 کو لکھنؤ (اترپردیش) کے ضلع سیتاپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق فارسی، پشتو اور داری بولنے والے پٹھان یوسف زئی قبیلے سے تھا جو کابل (افغانستان) سے ہجرت کر کے شاہجہاں پور (اترپردیش) میں آباد ہوئے تھے۔ الیاس سیتاپوری نے اپنی ابتدائی تعلیم سیتاپور میں حاصل کی اور ابتدائی عمر ہی سے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔ ان کی پہلی تاریخی کہانی جس نے قبولیت عامہ حاصل کی وہ "خانِ اعظم کا تحفہ" تھی جو ماہنامہ "سب رنگ" ڈائجسٹ کے 1971 کے کسی شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
حرم سرا، راگ کا بدن، اندر کا آدمی، چاند کا خدا، بالاخانے کی دلہن، پارسائی کا خمار، آوارہ گرد بادشاہ ۔۔۔ ان کی مقبول ترین کہانیاں باور کی جاتی ہیں جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں شمع بکڈپو (نئی دہلی) نے شائع کیں۔
کہا جاتا ہے کہ الیاس سیتاپوری نے اپنی اہلیہ ضیا تسنیم بلگرامی کے نام سے مذہبی شخصیات اور پیشواؤں کے واقعات بھی تحریر کیے چاہے وہ انبیائے کرام کے حالات زندگی ہوں یا صحابہ کرام کی تبلیغ، مجدّدین کی جدوجہد یا اولیائے کرام اور مجاہدین کے کارنامے۔
یکم اکتوبر 2003 کو الیاس سیتاپوری کراچی (پاکستان) میں انتقال کر گئے۔

مشہور اردو بلاگر ابوشامل کے بلاگ کی ایک تحریر میں مہمان بلاگر زبیر انجم نے آج سے کوئی دس سال قبل لکھا تھا:
ilyas-sitapuri
جہاں تک الیاس سیتاپوری کی تاریخ نگاری کا تعلق ہے تو ان کا انداز ٹیکسٹ بک یا مستند انداز تاریخ نگاری سے یکسر مختلف ہے۔ تاریخ نگاری کا وہ رائج انداز جو مستند سمجھے جانے والے مسلم مورخین یا مستشرقین نے اختیار کیا اس میں لکھنے والوں کا سب سے زیادہ زور واقعات کی صحت ثابت کرنے پر محسوس ہوتا ہے جو قاری کو بہت جلد بور کر کے کتاب کو دوبارہ طاقِ نسیاں میں رکھ ڈالنے پر مجبور کردیتا ہے۔میرا خیال ہے الیاس سیتاپوری نے کبھی واقعات کی صحت کو ثابت کرنے پر زور نہیں دیا بلکہ اس عہد کے مرکزی کرداروں کے بجائے ایک معمولی شخصیت سے اس عہد کو سمجھانے کی کوشش کی ہے جس سے قاری خود کو اسی دور میں چلتا پھرتا اور واقعات کو اپنے سامنے رونما ہوتے ہوئے محسوس کرتا ہے اور اس اپروچ سے کام ہی کو میں الیاس سیتاپوری کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھتا ہوں۔ اگر آپ تاریخ کو پڑھنے کے بجائے اس عہد میں لوٹنا چاہتے ہیں تو اپنے ذہن میں پہلے سے موجود تاریخ نگاری کے سانچوں کو توڑ کو الیاس سیتاپوری کی جانب آیئے یقین جانئے بہت لطف آئے گا۔

مشیر صدیقی اس کتاب "کشمیر کی کلی" کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
الیاس سیتاپوری غالباً ایشیا کا واحد تاریخی افسانہ نگار ہے جس نے تاریخ کا مطالعہ جبلت اور نفسیات کے تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہانیاں لکھتے وقت وہ قطعی غیر جانبدار نظر آتا ہے۔ اس کی کہانیوں میں تاریخ کے تمام پہلو نہایت مہارت اور چابکدستی سے سموئے ہوئے ملیں گے۔
علم و ادب، سیاست، اخلاقیات، معاشیات اور ثقافت۔۔۔ ان کی روح الیاس سیتاپوری کی کہانیوں میں اس طرح پیوست اور مربوط ملے گی کہ قاری کو ان کی سچائی پر شبہ تک نہ ہوگا۔ واقعات اور انسانی نفسیات کا گہرا مشاہدہ، اس مشاہدے کو خوبصورت اسلوبِ نگارش اور افسانوی تیکنیک سے کاغذ پر منتقل کر دینے کا عمل اس غضب کا ہوتا ہے کہ قاری خود کو اس کی کہانیوں کے ماحول میں پہنچا ہوا پاتا ہے اور زمانی اور مکانی فصل کے باوجود ان کرداروں میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں کرتا اور وہی احساسات اور جذبات کو محسوس کرنے لگتا ہے جو کہانیوں کے کرداروں میں پائے جاتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ الیاس سیتاپوری کی ہر کہانی انسانوں کی کہانی ہوتی ہے جو ہر دور کے انسانوں کے لیے ہوتی ہے۔
الیاس سیتاپوری کی کہانیوں میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ملتی ہیں ان میں ایک یہ خوبی بھی ہے کہ جو کہانی جس ملک اور جس زمانے سے متعلق ہوتی ہے اس کا لب و لہجہ، کرداروں کا اندازِ گفتگو، تشبیہہ اور استعارے، محاورات اور امثال اس ملک اور اس زمانے سے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات کہانی میں ذرا سا ٹچ یا ذرا سا اشارہ اتنا ضروری اور وزنی ہوتا ہے کہ اس کی مدد سے قاری اسی عہد میں پہنچ جاتا ہے۔
مثل مشہور ہے "خطائے بزرگاں گرفتن خطاست" جب تک اس پر عمل کیا گیا، نااہلوں اور نامعقولوں کی شان میں قصائد لکھے جاتے رہے اور ممدوحوں کو ان ساری خوبیوں کا پیکر قرار دیا جاتا رہا جن کے معانی و مطالب تک سے وہ ناآشنا رہے ہوں گے۔ آج جب الیاس سیتاپوری نے تاریخ کی اس تلخ حقیقت کو اپنی کہانیوں کی بنیاد بنایا تو لوگ چونک پڑے۔ اس کی صاف گوئی اور جرات کو بعض نے ناپسند کیا اور ناراض ہو گئے۔ لیکن بہتوں نے اسے بےحد پسند کیا اور بہت زیادہ سراہا۔ شاید اس لیے کہ باتیں دل سے کہی گئی تھیں اس لیے دلوں میں اترتی چلی گئیں۔
آج میں یہ بات پورے یقین اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ الیاس سیتاپوری کی شخصیت اور اس کے فن نے اسے پچھلوں اور ہم عصروں کے مقابلے میں نہایت قدآور اور ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔

***
نام کتاب: کشمیر کی کلی
مصنف: الیاس سیتاپوری
تعداد صفحات: 240
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 17 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ لنک: (بشکریہ: archive.org)
Kashmir_Ki_Kali-IlyasSitapuri.pdf

Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

کشمیر کی کلی - از: الیاس سیتاپوری :: فہرست مضامین
نمبر شمارعنوانصفحہ نمبر
1پہلی بات (دیباچہ: مشیر صدیقی)6
2صوفی کا انجام9
3اسکندریہ کی دوشیزہ37
4خانِ اعظم کا تحفہ68
5برک کا غلام زادہ95
6عشقِ بلقیس115
7کافر کا عشق133
8چھوٹی بیگم صاحب کی داستانِ عشق165
9کشمیر کی کلی200

Kashmir ki Kali, a collection of Urdu short stories from History by Ilyas Sitapuri, pdf download.

3 تبصرے:

  1. میں الیاس سیتاپوری صاحب کو تقریبن 45سال پہلے سے سسپنس ڈائجسٹ کےذریعے پڑھتا رھا ھوں انکی ھر کہانی لاجواب ھوتی تھی

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. سـکـنـدر ثـقـلـین کــراچی11/09/2022 5:10 AM

      میں نے الیاس سیتا پوری کی تاریخی کہانی (سلطان محمود غزنوی) کے باپ دادا سے شروع ھونے سے وفات تک کے واقعات کئی سال پڑھے لیکن اب وہ کہانی کتابی صورت میں دستیاب نہیں ، سلطنتِ سلجوقیہ بھی کئی سال لکھی گئی وہ بھی دستیاب نہیں ، آل ھلاکو خان جو ایل خانی کہلائی ، ان کی کہانی بھی کئی سال لکھی گئی ، سلطان بیبرس ، صلیبی جنگ اول ، دوئم ، سوئم بہت اچھے انداز میں طویل لکھی گئیں ، ھینی بال ، چنگیز خان ، صلاح الدین ایوبی ، نور الدین زنگی ، سلطان سلیمان قانونی ، باربروسہ اور بھی بہت سی کہانیاں ہیں جن کو قاری کتابی صورت میں پڑھنا چاھتے ہیں ، جو الیاس سیتا پوری صاحب کی نایاب تحفہ ہیں ، ان کو ضرور کتابی صورت میں آنے والی نسل کے حوالے کیا جائے۔ شکریہ

      حذف کریں
  2. الیاس سیتاپوری کے پائے کا کوئی کہانی نویس اس دور میں نہیں ہے

    جواب دیںحذف کریں