عجب یہ ہند کی دیکھی بہار ہولی میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-22

عجب یہ ہند کی دیکھی بہار ہولی میں

holi-colors
شہر کی مصروف زندگی میں جب ہولی جیسا تیوہار دستک دیتا ہے تو دل اپنے گاؤں کی اور کھنچا چلا جاتا ہے۔ وہ گاؤں جس نے میری پیدائش کے ساتھ ہی یہ احساس دلایا کہ آپ ہندوستانی ہیں۔ مشترکہ تہذیب کیا ہوتی ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں؟ یہ تو بہت بعد کا قصہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میری آنکھ اسی تہذیب میں کھلی۔ گھر کے آگے اپنے مسلم دادا دادی کے مکانات تھے اور گھر کے ٹھیک پیچھے اشرفی دادا، چھتر دادا اور بدھئ بھیا کے چھپر رکھے ہوئے تھے۔ شمال میں سنت رام بھیا اور شنکر دادا کے مکانات تھے۔
ایسے میں جب ہولی کا تیوہار آتا تو گھر کی چھت سے اس کا منظر ہی کچھ اور ہوتا۔ صبح ہی سے چہل پہل شروع ہو جاتی۔ بیچ گاؤں میں سڑک کے کنارے ہولیکا جلائی جاتی۔ جہاں ہندو سے زیادہ مسلمان لڑکے آگ تاپ رہے ہوتے۔ دادا ابا سے سنا ہے کہ گزشتہ دنوں میں گاؤں کے تمام مسلم حضرات بھی ہولیکا کی لکڑی جمع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اور ہولیکا دہن کے لئے لکڑیوں کا ایک بڑا سا ڈھیر لگ جاتا تھا۔ سب لوگ ہولیکا دہن کرتے۔ آگ تاپتے اور پھر رنگ برسنا شروع ہو جاتا۔
ہولی کھیلنے کی شروعات میرے گھر کے پیچھے شنکر دادا کے دوارے سے ہوتی۔ گاؤں بھر کے لوگ یہیں جمع ہو جاتے۔ بھگاڑے سے کوشل دادا اپنے ساتھ ایک پوری ٹیم لے کر آ پہنچتے اور رنگین محفل سجا دی جاتی۔ لوگ خوب ناچتے گاتے اور ایک دوسرے پر رنگوں کی بارش کرتے ۔ اس وقت عبیر کا چلن اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ اسلئے وہی لال ہرے،پیلے رنگوں کا استعمال کیا جاتا۔ پیسہ بچانے کیلئے کچھ لوگ تو بالٹی بھر پانی میں صرف ایک پڑیا رنگ ڈال کر پوری محفل کو نہلا دیتے۔ کیا کرتے وہ لوگ بھی۔ اب دوار پر آئے ان باراتیوں کا سواگت بھی تو ضروری تھا۔ اسلئے جس سے جو بن پڑتا جیسا بن پڑتا وہ خاطر داری کرتا۔ اور پھر گجھیا تقسیم کرکے خوشیاں بانٹتا۔
ادھر آنگن سے کسی کی بھابی جھانکتی نظر آتیں اور دیور حضرات رنگ لے کر دوڑ پڑتے۔ کبھی کبھی تو یہ نکھٹو دیور تاکتے رہ جاتے اور بھابھیاں ہی ان کی نیکروں میں رنگ بھر دیتیں۔ پچکاری کا استعمال اس وقت بچے کرتے تھے۔ بڑے بوڑھے لوٹے سے رنگ ڈالتے اور محبت مزید جوش مارتی تو بالٹی ہی اٹھا کر نہلا دیتے۔ کچھ لڑکیاں تو ایسے بچتے پھرتیں جیسے انہیں رنگوں سے جنم جنم کا بیر ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے پتہ چلتا کہ کسی نے گھر میں گھس کر ان کا چہرہ لال کر دیا ہے۔

سنت رام دادا تو اس دن کنویں کی منڈیر پر ہی پڑے رہتے۔ بات یہ تھی کہ بھانگ بڑی قسمت سے راس آتی ہے اور وہ یہ موقع گنوانا نہیں چاہتے تھے۔ اسلئے اپنا کام تمام کرکے وہ آرام سے لیٹ جاتے اور دھوپ کی حرارت سے رنگ میں بھنگ ملایا کرتے۔ چھت پر سے یہ منظر کتنا دلکش ہوتا۔
''ارے بھائی جان ادھر دیکھو ادھر'' (پیچھے سے کوئی چھوٹا بھائی چلا کر کہتا۔)
'' بھئ جان باہر نہ جایو۔۔سب چھیپ دے ہیں'' (بغل سے کوئی بہن خیر خواہانہ انداز میں چیختی)۔
'' اچھا وہ وہاں گئے ہیں۔۔۔آنے دو ابھی خبر لیتی ہوں۔۔اگر کپڑا خراب ہوا تب بتاؤں گی'' (نیچے سے امی جان کی آواز آتی۔)
کچھ دیر بعد گانے بجانے والوں کا قافلہ ہمارے دوار آ پہنچتا۔۔ دوار پر ایک پلی بچھا دی جاتی اور سارے لوگ وہاں بیٹھ کر کچھ دیر گاتے بجاتے۔ دادا، ابو، چچا اور بھائ لوگوں سے ہاتھ ملا کر ہولی کی مبارکباد لیتے۔ گھر کی طرف سے بطور تحفہ انہیں کچھ پیش کیا جاتا۔ اور پھر وہ لوگ گاتے بجاتے آگے بڑھ جاتے۔
''رنگ برسے ہو بھیگے چنر والی، رنگ برسے''.......'ہولی ہے'

گانے بجانے والوں کا قافلہ ایسے ہی پورے گاؤں میں چکر لگاتا۔ گاؤں کی اکثریت مسلم ہونے کے باوجود اس دن ہر گلی میں رنگ ہی رنگ بکھرا ہوتا۔ ہاں لیکن یہ کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی کے اوپر زبردستی رنگ ڈال دیا گیا ہو۔ ہم مسلم بچے تو اکثر انہیں گانے بجانے والوں کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہتے لیکن انہوں نے کبھی بھی ہمارے اوپر رنگ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
ادھر دوپہر ہوتی کہ رنگ کھیلنے کا وقت ختم ہو جاتا۔ اب سب لوگ نہانے دھونے میں لگ جاتے۔ نئے نئے کپڑے پہن کر ہولی ملن کیلئے نکل پڑتے۔ کوئی اپنی بہن کے یہاں گجھیا کا تھیلا لئے جا رہا ہے۔ کوئی کسی مسلم دوست کے گھر مٹھائیاں بھیجوا رہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد دادا جان گھوم پھر کر گھر آ جاتے۔ ان کے پاس گجھیوں کا ایک تھیلا ہوتا۔ پتہ چلتا کہ فلاں فلاں نے دیا ہے۔ ہم بچے ان گجھیوں کے بڑے شوقین تھے۔ دیکھتے ہی دوڑ پڑتے۔ خوب مزے سے کھاتے۔ اور ایک لمحے کو ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ مٹھائیاں ہمارے ہی گھر بنی ہیں۔

ہولی کا یہی چہرہ تھا جو میں نے دیکھا۔ اسی ماحول میں میں نے ہولی کو پہچاننے کی کوشش کی ۔ اور انہیں رسومات کے ساتھ ہولی آج بھی میرے ذہن کے پردوں پر رنگ ابھارتی ہے۔
لیکن تھوڑا ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے دیکھا کہ گاؤں کے لوگ ہولیکا دہن سے بیزار ہونے لگے ہیں۔اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ بہت غور کیا تو پتہ چلا کسی پنڈت صاحب کا اپدیش سننے کے بعد لوگوں میں شانتی کا بھاؤ پیدا ہو گیا ہے۔
شائد یہی وجہ تھی کہ رفتہ رفتہ اس محفل میں مسلم بچوں کی تعداد کم ہوتی گئی۔ مٹی کا وہ ٹیلہ جسے تھانہ کہتے تھے اور جہاں برسوں سے ہولیکا دہن ہوتا چلا آیا تھا،ادھر کچھ سالوں میں پکی اینٹوں کے ایک مندر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اور اس کے سامنے ہولیکا کے لئے جمع کی گئیں مٹھی بھر لکڑیاں گاؤں کا پورا قصہ بیان کر رہی تھیں۔

***
فیضان الحق (جے۔این۔یو، دہلی)۔
ای-میل: faizanhaque631[@]gmail.com
فیضان الحق

The composite culture of Holi in India. Article: Faizan-ul-Haq, Delhi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں