ہندوستان اور پاکستان - اپنی فلموں کے آئینے میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-16

ہندوستان اور پاکستان - اپنی فلموں کے آئینے میں

indo-pak-movies
شمع (نئی دہلی) غیرمنقسم ہندوستان کا وہ پہلا فلمی ادبی رسالہ تھا جس کی اشاعت کا آغاز 1939 میں ہوا اور جس نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھی سرحد کے دونوں پار "شمع" اسی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا رہا۔ جولائی 1950 میں شمع نے ڈھائی سو صفحات کا ایک خاص نمبر شائع کیا ، جس میں اس دور کے مقبول ادیب زکی انور کا ایک دلچسپ انشائیہ بھی شامل اشاعت تھا۔
ذیل میں وہی انشائیہ ملاحظہ فرمائیں۔

مان لیجئے کہ ۔۔۔ کسی بھی ملک کا ایک سیاح ہندوستان اور پاکستان آیا۔
سیاح یہاں کے بارے میں بالکل صحیح حالات معلوم کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ان گنت ہنودستانی اور پاکستانی اخباروں کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور ہندوستانی اور پاکستانی رہ نماؤں اور حکمرانوں کی تقریریں سننے لگا۔ مگر اخبارات پڑھنے یا تقریریں سننے سے اس کی بالکل سیری نہیں ہوئی۔ بلکہ وہ اور بھی الجھ کر رہ گیا کیونکہ ایک اخبار اگر کسی چیز کو آم کہتا تھا تو دوسرا املی اور تیسرا اور اسی چیز کا امرود کہہ دیتا اور چوتھا، نارنگی، اسی طرح اگر ایک رہ نما یا حکمراں بتاتا کہ یہ دن ہے تو دوسرا کہتا رات پھر تیسرا کہتا شام ہے، اور چوتھا کہتا صبح ہورہی ہے۔
سیاح بہت پریشان ہوا کہ آخر وہ صحیح رائے قائم کرے تو کیسے ؟ اس نے ارادہ کیا کہ دونوں ملکوں کے ایک ایک شہر اور ایک ایک گاؤں میں گھوم گھوم کر صحیح معلومات اکٹھا کرے۔ مگر یہ کام بہت مشکل تھا۔ سیاح الجھ رہا تھا کہ کرے تو کیا کرے ؟ کیا یہ بہتر نہ ہو کہ ہندوستان اور پاکستان ، ایک بھول بھلیاں کاریمارک ٹھونک کر واپس چل دے ؟
سیاح نے اپنی ذہنی پریشانی دور کرنے کے لئے یہاں کے ایک عقل مند آدمی سے ملاقات کی، اور اپنی ساری دشواریاں، اور اپنا ارادہ کہہ سنایا اور پھر اپنی ناکامی پر اظہار تاسف کیا۔
عقل مند آدمی مسکرایا اور پھر کہنے لگا۔
"آپ تو پڑھے لکھے اور سمجھدار آدمی ہیں، آپ یہ تو جانتے ہی ہوں گے کہ کسی بھی ملک کی فلم، وہاں کی تہذیب، وہاں کے تمدن وہاں کی اقتصادی، معاشی سماجی اور عوامی حالتوں کی تصویر ہوتی ہے۔ "
" بے شک۔۔ مجھے یقین ہے۔۔ بے شک" سیاح نے جواب دیا۔
تو پھر محترم۔۔ ۔ عقل مند آدمی نے کہا"آپ اتنی تکلیف کیوں مول لیتے ہیں، شہر شہر اور گاؤں گاؤں کی سیر کر کے آپ حکومتوں کی نظر میں مشکوک بھی ہو جائیں گے، بہتر ہے کہ بس آپ ہندوستانی اور پاکستانی فلمیں دیکھنا شروع کر دیجئے، آپ کا ارادہ پورا ہو جائے گا۔۔ "
"ویری گڈ۔۔ ۔ "سیاح اچھل پڑا۔۔ یہ بات بتائی ہے ویری گڈ۔۔ آپ نے بہت سہل ترکیب بتائی۔ تھینک یو، عقل مند آدمی، تھینک یو۔ "
"پھر ایک کام کیجئے "عقل مند آدمی کہنے لگا۔ " میں آپ کو حکومتوں کی طرف سے ہندوستان اور پاکستان کے کسی بھی سنیما ہال کے فرسٹ کلاس کا فری پاس دلوائے دیتا ہوں۔ آپ اس پاس کو تازندگی کام میں لا سکیں گے اور بس کل ہی سے آپ کیجئے یہ کہ ہندوستان اور پاکستان کی صحیح معلومات اکٹھا کرنے کے اور طریقے چھوڑ کر بس آنکھیں بند کر کے فلمیں دیکھنا شروع کر دیجئے۔
"لیکن جناب۔۔ ۔ "سیاح چونکا۔۔ آنکھیں بند کر کے فلمیں دیکھنی کیوں کر ممکن ہے ؟"
"اجی حضرت۔ عقل مند آدمی ہنسنے لگا۔ "آنکھیں بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اور دوسرے کاموں کی طرف سے خیال ہٹا کر بس فلمیں ہی دیکھتے رہیے۔ "
"او آئی سی۔۔ اب میں سمجھا۔۔ ۔ "سیاح نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن فوراً ہی کچھ سوچ کر اس کا چہرہ اتر گیا، وہ ذرا بوکھلا کر بولا، لیکن جناب اتنی ساری فلمیں لگاتار دیکھتے دیکھتے میری آنکھوں کا کیا بنے گا؟"
"کیا بنے گا؟" عقل مند آدمی اطمینان سے بولا۔ " کچھ بھی تو نہیں میں حکومت سے اس بات کا بھی انتظام کرائے دیتا ہوں اور آپ کو مختلف نمبروں کی سو ڈیڑھ سو عینکیں دلوائے دیتا ہوں جب بھی آپ محسوس کریں کہ آپ کو عینک تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، آپ ان دیڑھ سو عینکوں میں سے کوئی مناسب عینک پسند کر لیں۔ اس کے علاوہ آپ کو ایک اور فری پاس بھی دلوادوں گا جس کے ذریعے آپ ہندوستان کے کسی بھی آنکھوں کے ڈاکٹر سے فری علاج کراسکیں گے اور کسی بھی عینک فروش سے اپنی پسند کی عینک خرید سکیں گے، سمجھے آپ؟"
"گڈ۔۔ ۔۔ گڈ۔۔ ۔۔ ۔۔ ویری گڈ۔ آپ تو کمال کے آدمی ہیں۔۔ تھینک یو سر۔۔ " سیاح چلانے کے انداز میں کہنے لگا۔ "میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ "
"ایک بات پھر سن لیجئے۔ "عقل مند آدمی نے اپنی لمبی اونچی ٹوپی کو ذرا ٹیڑھی کرتے ہوئے کہا، ان تمام رعنائیوں کے باوجود خدا کے لئے ایسا نہ کر بیٹھنا کہ فلمیں دیکھنے کے علاوہ کسی اور طریقے سے ہندوستان اور پاکستان کی حالتوں کی معلومات حاصل کرنے لگو۔ آیا مزاج شریف میں ؟"
"بالکل آ گیا صاحب، بالکل آ گیا۔۔ ۔ "سیاح بولا۔ " آخر مجھے بے ضرورت مصیبت مول لینے سے حاصل کیا ہے ؟ بہر حال مجھے اس ملک کی معلومات حاصل کرنی ہے اور فلم کسی بھی ملک کی تہذیب کا آئینہ ہوتی ہے۔ "
"مجھے خوشی ہوئی کہ آپ ایک سمجھدار آدمی ہیں۔ " عقل مند آدمی نے مسکرا کر کہا۔ پھر دونوں اٹھ کر پاس کے کسی اچھے ریستوران میں چائے پینے چلے گئے۔

دوسرے ہی دن سیاح کو ہندوستان اور پاکستان کے کسی بھی سنیما گھر میں، زندگی بھر فرسٹ کلاس میں سنیما دیکھنے کا اور آنکھوں کا مفت علاج کرانے کا اور کسی بھی عینک فروش کے ہاں سے کیسی ہی عینک خریدنے کا پاس مل گیا۔ ان پاسوں کے اور پرمٹوں کے علاوہ انہیں ڈیڑھ سو مختلف نمبروں کی عینکیں، اور انٹرول میں لسی شربت یا چائے یا سگریٹ پینے کے لئے کچھ الاؤنس مقرر کر دیا گیا۔
اور مسلسل ڈیڑھ سال تک وہ سیاح مختلف شہروں میں گھوم گھوم کر ایک سے ایک فلمیں دیکھتا رہا۔ اور جب اس نے محسوس کیا کہ اب وہ ہندوستان کے بارے میں بہت کچھ معلوم کر چکا۔ تو ایک دن وہ اس عقل مند آدمی کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔ ۔ سلام کلام کے بعد سیاح نے کہا۔
"میرا کام ختم ہو گیا صاحب۔ "
"آپ نے میری بتائی ہوئی ترکیب کو کیسا محسوس کیا؟" عقل مند آدمی نے پوچھا۔
"ویری گڈ۔۔ ۔ بہت عمدہ، نہایت ہی سہل اور شان دار، میں سچ کہتا ہوں میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں کہ فاہیماں اور میگا تھینز کی روحوں کے مونہہ میں بھی پانی آ جائے گا۔ ان کی روحیں تڑپ تڑپ اٹھیں گی۔ "سیاح اور بھی جذباتی اندازمیں کہنے لگا۔ "میں نے آپ کے شری رام چندر جی اور سلطان صلاح الدین سے لے کر موجودہ زمانے تک کے حالات معلوم کر لئے اور وہ بھی محض اٹھارہ مہینوں میں ! یقین مانئے اٹھارہ مہینے کی مدت ہی کیا ہے ؟ مشہور ماہر فن رومولونے محض ہندوستانی ساڑھی، ہندوستانی جلیبی اور قطب مینار کی تحقیقات میں برسوں لگا دئیے تھے۔ وہ بھی وہ ہرگز کامیاب نہ ہوتا اگر اسے ایک ہنودستانی افسانہ نگار کا تعاون حاصل نہ ہوتا، اور میں نے، میں نے تو جناب ریسرچ کی دنیا میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ "
"بہت خوشی ہوئی کہ آپ کامیاب ہو گئے۔ "عقل مند آدمی نے کہا۔
"اجی صاحب یہ سب کچھ تو آپ ہی کی بدولت ہوا۔ ورنہ مجھ حقیر سیاح کی کیا مجال تھی کہ اتنے لمبے چوڑے ملکوں کے صحیح حالات کا تجزیہ کرتا، سیاح نے ذرا عاجزی سے کہا۔
"نہیں صاحب۔ " عقل مند آدمی نے جواب دیا۔ " میں نے کیا کیا ہے ؟ میں نے تو محض آپ کو ایک پردیسی سمجھ کر آپ کی ذرا سی مدد کی ہے۔ "
"خیر یہ سب رہنے دیجئے۔ " سیاح بولا۔ " اب سنئے، میں نے اپنے ملک کے ایک پبلشر سے باتیں بھی کر لی ہیں، بس میں وطن پہنچ جاؤں تو آپ کے ہاتھوں میں میری اس ریسرچ پر شہرہ آفاق کتاب گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش ہو گی۔ ضرور پڑھنا میرے بھائی۔ ضرور پڑھنا۔ " سیاح ذرا رکا، عقل مند آدمی کچھ کہنے والا ہی تھا کہ سیاح بول اٹھا۔ اور ہاں میں نے ابھی سے تم اپنے ہم وطن سیاحوں اور ریسرچ کرنے والوں سے باتیں کر لی ہیں۔ بس میرے وہاں پہنچتے ہی ایک سیاح اور ریسرچر کانفرنس ہو گی۔ ہندوستان اور پاکستان پر میں ایک طویل تقریر کروں گا۔ اور وہ تقریر ہمارے ملک کے ریڈیو سے نشر بھی ہو گی اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی نشر ہو گا۔ میں آپ کو ضرور اطلاع دوں گا۔ آپ ضرور سنئے گا۔ ضرور میرے دوست ضرور۔۔ ۔
میں آپ کی کتاب بھی ضرور پڑھوں گا، اور آپ کی تقریر بھی سنوں گا آپ مطمئن رہئے۔ عقل مند آدمی نے جواب دیا۔
تھیک یو۔۔ تھینک یو۔۔ ۔ شکریہ، شکریہ۔۔ سیاح بولا اور ہاں جناب آج ہی میں آپ کے پاس آپ کی دلوائی ہوئی عینکیں بھجوادوں گا اور کل ہی میں روانہ ہو جاؤں گا۔ میرے دل میں ہندوستان پر شان دار تقریر کرنے اور اپنی کتاب"گولڈن لینڈز" عرف سنہرے دیش " جلد سے جلد مکمل کر لینے کا شوق خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے، دیکھئے کل ہی میں جا رہا ہوں ہوائی اڈے پر ضرور آنا صاحب ورنہ بڑا رنج رہے گا۔
بھلا یہ بھی کہنے کی بات ہے، میں ضرور ضرور آؤں گا۔ "عقل مند آدمی نے جواب دیا اور چائے پلا کر سیاح کو رخصت کر دیا۔
دوسرے دن عقل مند آدمی نے سیاح کو ڈنر پر بلایا۔ ہندوستان کے دوسرے عقل مند آدمیوں، فلم پروڈیوسروں، ڈائرکٹروں ایکٹروں اور ایکٹریسوں سے متعارف کرایا۔ سیاح کا کام بتایا۔ اس کی کامیابی پر لوگوں کو خوش ہونے کی رائے دی۔ اور دو بجے ان لوگوں نے ہوائی اڈے تک جا کر سیاح کو رخصت کر دیا۔
اور دو تین ہفتوں کے بعد ایک دن سیاح کا ایک خط عقل مند آدمی کے نام آیا جس میں اس نے سیاحوں اور ریسرچروں کی کانفرنس کی تاریخ اور وقت بتایا تھا۔ یہ بتایا تھا کہ اس کی تقریر اردو میں کس وقت اور کتنے میٹر سے سنی جا سکے گی۔
اور مقر رہ دن کو معینہ وقت پر سیاح کی اردو تقریر شروع ہوئی۔
shama-july-1950
"ہندوستان اور پاکستان۔۔ عجیب و غریب ممالک!۔۔ بے شک اے میرے ساتھیو۔ ہندوستان اور پاکستان سانپوں کے ملک تو نہیں، مگر جادوگروں، شاعروں، عاشقوں، معشوقوں گانے والوں اور والیوں، ناچنے والوں اور والیوں کے سنہرے دیش ہیں۔ وہاں کی تہذیب نرالی ہے، وہاں کی حالتیں انوکھی ہین، بے شک اے میرے دوستو۔۔ ۔ ہندوستان اور پاکستان ہی ہیں وہ دیش جن کے بارے میں مقدس کتابوں میں کہا گیا ہے کہ ایسا دیش جہاں عیش ہی عیش ہوں گے، اس کا نام جنت ہے، سواے میرے بھائیو اور بہنو۔۔ ہندوستان اور پاکستان جنت ہے۔ اور جنت سے ہو کر ارہا ہوں، اور آج میں اسی جنت کے بارے میں آپ لوگوں کو اپنی ریسرچ اور اپنی سیاحی کا خلاصہ بتاؤں گا۔
میں پوچھتا ہوں کہاں ہے فاہیاں کی روح، کہاں ہے میگا تھینز کی اسپرٹ، کہاں چھپا بیٹھا ہے رومولو جس نے محض ساڑھی، قطب مینار اور جلیبی کی تحقیق میں برسوں لگا دئیے تھے۔ آئے، کوئی بھی آئے اور مقابلہ کرے میری تحقیق کا۔ دیکھے کہ میں نے کیس کیسی عجیب و غریب با توں کا پتہ لگایا ہے، آئے آئے اور دیکھے کہ ہندوستان اور پاکستان کے عجائبات محض ساڑھی، قطب مینار اور جلیبی تک محدود نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان عجیب و غریب اور سنہرے دیش ہیں۔ یہاں ہزاروں اور لاکھوں عجائبات بھرے پڑے ہیں۔
مگر، میرے دوستو آج اپنی اس تقریر میں، میں صرف خلاصہ عرض کروں گا، کیوں کہ ایک تو وقت کی قلت ہے، دوسرے اگر میں سب ہی کچھ آج ہی بتادوں گا تو میری زیر طبع کتاب، گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش کی سیل پر برا اثر پڑے گا اگر آپ کو اس عجیب و غریب جنت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلوم کرنے کی تڑپ ہو تو میں آپ کو مخلصانہ رائے دیتا ہوں کہ آپ میری کتاب گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش ضرور ضرور پڑھئے گا۔
تو اے میرے دوستو، میں آپ کو اس جنت کے بارے میں بتاتا ہوں۔
میں اپنی تقریر میں جو کچھ بھی بیان کرں گا اس سے آپ کو یہ صاف صاف پتہ لگ جائے گا کہ ہندوستان اور پاکستان کتنے بے نظیر ملک ہیں لیکن میرے دوستو، مجھے ایک بات کا البتہ شدید افسوس ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے بعض اخبار محض جھوٹے ہیں، اور ان کے لکھنے والے بے ایمان اور غلط گو ہیں۔ مثال کے طور پر، میں یہ واقعہ کہتا ہوں کہ ایک دن میں ہندوستان کے کسی بڑے شہر کے بازار میں ٹہل رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان اخبار فروش، جس نے قمیص اور پتلون پہنی ہوئی تھی۔ جس کے بال الجھے ہوئے اور داڑھی اور مونچھ بے ترتیبی سے بڑھے ہوئے تھے۔ ایک اخباربیچتا پھر رہا تھا میں نے چار آنے دے کر اس سے اخبار خرید لیا۔ اور نزدیک ہی کے ایک کیفے میں بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ میں نے پڑھا میرے ساتھیو، کہ ہندوستان کے عوام، مزدور کسان، ہندوستان کے آزاد ہو جانے کے باوجود بھوکوں مر رہے ہیں۔ ان کے جسم پر کپڑے نہیں ہیں اور ان کے پاس رہنے کے لئے گھر نہیں ہیں، اور ان کا نعرہ ہے
مانگ رہا ہے ہندوستان روٹی کپڑا اور مکان
یہ آزادی جھوٹی ہے دیش کی جنتا بھوکی ہے

اخبارمیں لکھا ہوا تھا میرے دوستو کہ ہندوستان والوں کو آزادی بے شک ملی ہے، مگر بھوکے مرنے کی۔۔ اور ایک طویل وقفے کے بعد جب میں کیفے سے باہر نکلا تو مجھے یہ دیکھ کر بہت صدمہ ہوا کہ اسی اخبار فروش کو پولیس کے چند سپاہی پکڑے لئے جا رہے ہیں۔ لیکن جب مجھے سارے ہندوستان میں فرسٹ کلاس میں سنیما دیکھنے کا فری پاس مل گیا۔ اور میں نے پچاس ساٹھ فلمیں دیکھ لیں۔ تو سچ کہتا ہوں میرے دوستو کہ مجھے اس اخبار فروش کی گرفتاری سوچ کر بے انتہا خوشی ہوئی۔ کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ وہ ہاکر جھوٹے اخباربیچنے کے جرم میں پکڑا گیا ہو گا۔ کیوں کہ میں نے جو فلمیں دیکھیں ان میں بہت ساری ہندوستانی مزدوروں اور کسانوں کے گھرانوں سے متعلق تھیں۔ لیکن واہ رے ہندوستانی مزدوروں اور کسانوں کی غربت! اف میں بیان ہی نہیں کر سکتا میرے دوستو کہ ہندوستان اور پاکستانی عوام کتنی موج اڑاتے ہیں۔
ان کی غذا فرسٹ کلاس اور مقوی ہوتی ہے۔ ان کے کپڑے شاندار بھڑکیلے، صاف ستھرے اور نفیس ہوتے ہیں۔ ان کی عورتیں مغربی ممالک کی فیشن ایبل لڑکیوں کی طرح غازہ، کریم، اسنو، لپ اسٹک کا خوب خوب استعمال کرتی ہیں اور ہندوستانی اور پاکستانی عوام پیدل بہت کم چلتے ہیں۔ وہ تانگوں اور کرائے کی موٹروں پرسیر کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں چائے پیتے ہیں۔ بات بات پر سگریٹ سلگاتے ہیں۔ اور غم دوران سے اتنی دور ہیں اتنی دور ہیں کہ وہ چھوٹ کر عشق کرتے ہیں اور غم جاناں میں مبتلا رہتے ہیں۔

میں سچ کہتا ہوں، دوستو کہ میں تو چند فلموں کو دیکھ کر یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کہانیاں مزدوروں اور کسان گھرانوں کی ہیں۔ لیکن کسی فلم میں، فلم شروع سے پہلے بیگ گراؤنڈ سے یہ آواز آئی تھی۔۔ "ہندوستان کے مزدور گھرانوں کی داستان" کسی میں کہا گیا تھا"کسانوں کے دھڑکتے دلوں کی آواز" اور کسی میں کچھ، کسی میں کچھ۔ اور یہی اشارات تھے جنہوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان فلموں کو ہندوستان کے عوام کی زندگی کی تصویر سمجھوں۔ مگر واہ رے ہندوستان اور پاکستان اور وہاں کے مزدور کسان۔ دوستو! وہ مل میں کام نہیں کرتے۔ مگر مزدور ہیں، کام کرتے بھی ہیں تو بس کبھی کبھی، کسان ہیں توبس کیا کہتے ہیں ان سنہرے دیشوں کے کسانوں کا۔ وہ کبھی ہل نہیں چلاتے۔ کبھی ٹریکٹر نہیں چلاتے، کبھی غلہ نہیں بوتے۔ مگر جب دیکھو کھیتوں میں غلے کی بالیاں لہلہا رہی ہیں۔ میں نے کبھی کسی لڑکی کو بیلوں کے تھان میں بیلوں کو چارہ ڈالتے یا گیرج میں ٹریکٹر کو گریس ڈالتے نہیں دیکھا۔ مگر وہ بہر حال کسان ہی تھیں۔ اور ان کے کھیتوں میں فصل ہمیشہ تیار پائی۔ واہ واہ۔۔ کیا جنت ہے !

میرے بھائیو! اس چار آنے والے جھوٹے اخبار میں لکھا ہوا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان کے غریب کسان مزدور بے گھر ہیں۔ ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں۔ مگر میں کیابتاؤں۔ میرے دوستو! کہ اخبار میں کیا سفید جھوٹ چھپتا تھا۔ سچی بات کہتا ہوں، ہندوستان کے غریب مزدور اور کسان کے گھر کتنے شاندار ہوتے ہیں، وہاں کھانے کپڑا بدلنے اور سونے کے الگ الگ کمرے ہوتے ہیں۔ وہاں غسل خانہ ہوتا ہے۔ باورچی خانہ ہوتا ہے۔ غرض ہندوستان کے مزدور اور کسانوں کا گھر اعلی درجہ کا ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ان کے نفیس گھروں کے باہر کی دیواروں میں دوچار اپلے تھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن اندر ان کے کمروں میں میزیں اور کرسیاں ہوتی ہیں۔ کوچ ہوتے ہیں۔ مسہریاں ہوتی ہیں۔ ریڈیو ہوتے ہیں، اور شان دار فریموں میں تصویریں بھی آویزاں ہوتی ہیں۔ کمرے کی نقاشی اور رنگ بھی کچھ کم دیدہ زیب نہیں ہوتے۔
غرض، میرے دوستو، میں نے وہاں کے اس عقل مند آدمی کی مدد سے محض ڈیڑھ سال میں پوری پانچ سو فلمیں دیکھیں۔ اور آپ ضرور مانتے ہوں گے کہ کسی بھی ملک کی فلمیں اپنے ملک کی تصویریں ہوتی ہیں۔ ملک کی حالتوں کا آئینہ ہوتی ہیں۔ اوراس آئینے میں میں نے دیکھ لیا، دوستو کہ ہندوستان اور پاکستان میں غریب سرے سے ہیں ہی نہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کا غریب سے غریب لڑکا بھی سوٹ میں ملبوس رہتا ہے۔ اور غریب سے غریب لڑکی بھی مغربی ممالک کے اونچے گھر انوں کی لڑکیوں کی طرح شان سے رہتی ہے ان کے ناخن بھی مغربی ممالک کے اونچے گھرانوں کی لڑکیوں کی طرح رنگین اور طوطے کی چونچ جیسے ہوا کرتے ہیں۔
یہاں پر میں ایک بات اور واضح کر کے تواریخ کے ریسرچ ڈپارٹمنٹ پر ایک بہت ہی عظیم الشان احسان کرنا چاہتا ہوں۔
مغربی فیشن پرست لوگ بیسیوں صدی کے فیشن پر نازاں ہیں۔ لڑکیاں بلاوز، ٹیڑھی مانگ، ترشے ہوئے بال لمبے ناغن، ترشے ہوئے ابرو، اونچی ایڑیوں کی جوتیوں اور رنگے ہوئے بسوں پر فخر کرتی ہیں لڑکے فاونٹین پن اور گھڑی پر نازاں ہیں۔ غرض بیسویں صدی کے لوگوں کو یہ خوش فہمی ہے کہ آج کا فیشن ان کی اپنی شاہکار ایجاد ہے۔ ان کے فن کا کمال ہے، ان کے دماغ کی اختراع ہے۔ مگر واضح رہے، میرے بھائیو, کہ یہ سارے کے سارے فیشن ہندوستان میں اسی وقت سے رائج ہیں جب رام چندر جی کا زمانہ تھا، اور ان سے پہلے بھی بعض لڑکیاں آڑی مانگیں نکالتی تھیں۔ لپ اسٹک لگاتی تھیں۔ بلاوز پہنتی تھیں اور لمبے ناخن رکھا کرتی تھیں۔ گویا آج سے دس ہزار برس پہلے بھی ہندستانی تہذیب ٹھیک رہی تھی۔ ٹھیک تو نہیں قریب قریب وہی تھی جس پر آج بیسویں صدی کے بے وقوف لوگ اکڑتے ہیں۔ چنانچہ مجھے پراچین زمانے کے متعلق فلمیں دیکھ کربہت خوشی ہوئی، میرے بھائیو اور بہنو کہ ہندوستان ہی ہماری بیسویں صدی کے تہذیب کا بابا آدم ہے۔۔ اے ہندوستان تیری ہستی مبارک ہے۔
موجودہ دور میں ہندوستان اور پاکستان کے عوام اتنے خوش حال ہیں، اتنے خوش حال ہیں کہ انہیں زندگی یا غم دوراں کے کسی بھی دوسرے موضوع سے نہ کوئی دلچسپی ہے نہ لگاؤ ہے۔ اور نہ ان کے نزدیک زندگی کا کوئی اور اہم مسئلہ ہی ہے۔ بس وہ چھوٹ کر محبت کرتے ہیں اور محبت کئے جاتے ہیں۔ اور محبت کئے جانے کا نعرہ لگاتے ہیں کتنے ہی عشق کی پر خطر راہ میں قربان بھی ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ان کی قربانی دیکھ کر کوئی دوسرا ہرگز متاثر نہیں ہوتا۔ ہرگز خوفزدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اور بھی زور شور سے عشق کرنے لگ جاتا ہے۔ ہر ایک عاشق سابقہ عاشقوں کا اور ہر ایک معشوق سابقہ معشوقوں کا ریکارڈ توڑتا جاتا ہے۔ اور محبت کرنے کا معیار روز بروز بلند سے بلند تر ہوتا جاتا ہے۔ محبت کرنے کی تکنیک روز بروز ترقی کرتی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر کل کسی عاشق نے مکتب سے محبت شروع کی، دوسرے دن دوسرے عاشق نے اسکول میں درس محبت پڑھا اور پھر تیسرے دن کالج میں کسی نے محبت کا لکچر سنا۔
لیکن ہندوستان اور پاکستان کی سماج میں عاشق و معشوق پر طرح طرح کے ظلم ڈھانے کا رواج بہت ہی روح فرسا ہے، اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ محبت کرنے والے جوڑے کے حالات سازگار ہوتے ہی نہیں اور ایسی حالتوں میں موت ہی اسے سکون بخشتی ہے اور عاشق و معشوق آسمان پر جانے کے بعد ہی اطمینان سے ملتے ہیں اور وہ پھر اپنے اوپر ظلم ڈھانے والوں کو چڑانے کے لئے کبھی کبھی آسمان سے زمین پر اتر آتے ہیں۔
لیکن اکثر محبت کرنے والوں کے لئے حالات سازگار بھی ہو جاتے ہیں اور ان کی شادیاں ہو جاتی ہیں۔ لیکن میں نے اتنا بے شک محسوس کیا کہ محبت میں موت ہی کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔ اور محبت کے اس انجام سے ہر ایک محبت کرنے والا واقف ہوتا ہے اور اسیلئے وہ ادھر عشق میں ہاتھ لگاتے ہیں اور ادھر اپنے گھروں میں زہریلی دوا کی شیشی یا بغیر لائسنس کا پستول لاکر رکھ لیتے ہیں، تاکہ ضرورت کے وقت کام آئے اور جب وہ مر جانے کے موڈ میں ہوں تو آسانی سے مرسکیں۔
زہر کی شیشی یا بغیر لائسنس کے پستول کا انتظام کرنے میں محبت کرنے والے بڑے چوکس ہوتے ہیں۔ اور کیسا ہی غریب گھرانے کا عشق کیوں نہ وہاں زہر کی شیشی یا بغیر لائسنس کا پستول پہنچ ہی جاتا ہے۔
کچھ محنت کرنے والے گلے میں پھندہ لگا کر یا اپنے سینے میں چھرا گھونپ کربھی مرتے ہیں مگر یہ طریقہ عام نہیں اور کچھ حد تک فیشن کے خلاف بھی ہے۔ بغیر لائسنس کے پستول اور سنکھیا کی شیشی ہی کے ذریعے مرنے کی صورت زیادہ چالو ہے۔ چنانچہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دور اندیش عاشق اور معشوق اپنی جیب میں ہی زہر کی شیشی لئے پھرتے ہیں اور جب وہ خود کشی کرنے کی موڈ میں آ جاتے ہیں تو پان کے ساتھ زہریلا کرکھا جاتے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے محبت کرنے والوں کی موت ایک اور طرح سے بھی ہوتی ہے اور وہ صورت اتنی عجیب و غریب ہے کہ کوئی شخص جو خدا کے وجود کا منکر ہو اورجادوگری کو بھی محض ٹرک سمجھتا ہو، وہ اگرہندوستانی عاشقوں اور معشوقوں کی اس طرح کی موت کو دیکھ لے تو وہ بے شک خدا کی قدرت کا قائل ہو جائے۔ اور نہیں تو کم سے کم جادوگری کی روحانیت اور اہمیت پر ضرور ایمان لے آئے۔
وہ صورت یہ ہے، میرے دوستو کہ ہندوستان اور پاکستان کے محبت کرنے والے جب محسوس کرتے ہیں کہ ان کے محبت کے حالات نازک سے نازک تر ہوتے جا رہے ہیں اور امید کی مدھم سی کرن بھی نظر نہیں آتی تو وہ مرنے کی تمنا کرتے ہیں اور بس فوراً ہی زور شور کی آندھی چلنے لگتی ہے۔ عظیم الشان طوفان آ جاتا ہے یادریاؤں میں ایسی بھاری طغیانی آتی ہے کہ دریا کا پانی چائے بناسکنے کے لائق ابلنے لگتا ہے۔ بڑے بڑے مگر ادھر اُدھر بے تابی کے عالم میں دوڑنے لگتے ہیں۔ عظیم الشان درخت دھڑا دھڑ گرنے لگ جاتے ہیں۔ ٹھیک اسی وقت محبت کرنے والے کسی بہت بڑے درخت سے دب کر مر جاتے ہیں، یا دریا میں کود پڑتے ہیں، یا ان کا پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ دریا میں گر جاتے ہیں۔ اور انہیں مگر نگل جاتا ہے، یا پھر ایسا ہوتا ہے کہ عاشق اور معشوق دریا میں کسی چھوٹی سی خوبصورت سی ناؤ میں محو سر ہوتے ہیں اور اسی وقت دریا میں طغیانی آتی ہے۔ اور ان کی ناؤ بھنور میں پھنس کو تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔ محبت کرنے والے دریا کی پرسکون تہہ میں سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔ اور پھر بھوت بن کر اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو دق کیا کرتے ہیں۔
ناؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے ایک اور بہت ضروری بات یاد آ گئی جس کا علم ہونا ہر اس آدمی کے لئے ضروری ہے جسے تواریخ اور ریسرچ کے فن سے دلچسپی ہو اور جو ہندوستان اور پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتا ہو۔
وہ بات یہ ہے کہ جس طرح اکثر ممالک میں ہر ایک ملکی کے لئے فوجی تربیت یعنی ٹریننگ ضروری ہے اور ادیب، شاعر، پروفیسر اداکار مصور سب کو فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں مندرجہ ذیل فنون کی تربیت جبریہ دی جاتی ہے۔

1۔ ناؤ کھینا۔
2۔ گانا
3۔ ناچنا(عموماً عورت کے لئے )
4۔ موٹر چلانا
5۔ سائیکل چلانا
6۔ موٹر سائیکل چلانا۔
7۔ فلسفہ محبت
8۔ ماں باپ یا کسی بھی بزرگ کو نہایت صفائی، خوبصورتی اور غصے کے ساتھ طمانچہ مارنا( عموماً عورتوں کے لئے )
9۔ شاعری کرنا۔
10۔ ٹھیٹر کمپنی چلانا

واضح ہو کہ عشق کرنے کی باضابطہ ٹریننگ نہیں دی جاتی، کیونکہ ہندوستانی عشق کرتے ضرور ہیں مگر ان کا ایمان ہے کہ عشق کیا نہیں جاتا بلکہ ہو جاتا ہے۔
بہر حال ابھی میں دوسرے فنون پر روشنی نہیں ڈالوں گا۔ ابھی میں صرف یہ کہہ رہا تھا کہ ہندوستانی اور پاکستان ناؤ چلانے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ خصوصاً ً عشق کرنے والے تو اور بھی ماہر ہوتے ہیں۔ اور وہ دوسرے ملاحوں سے ناؤ چلانے میں ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان اور پاکستان کا شاعر، وہاں کا ادیب، وہاں کا مصور وہاں کا سادھو، وہاں کا فقیر، وہاں کا ڈاکٹر، ہر ایک ناؤ چلانا جانتا ہے اور عورتیں بھی اس فن میں یکتا ہوتی ہیں۔
میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں، میرے دوستو! کہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے نزدیک عشق کرنے کے علاوہ اور کوئی کام ہی نہیں۔ کیونکہ وہ حد درجہ خوشحال اور غم دوراں سے قطعی طور پر بے نیاز ہوتے ہیں۔ چنانچہ میں اپنی اس تقریر میں بھی ہندوستان اور پاکستان کے صرف اسی پہلو پر روشنی ڈالوں گا، کیوں کہ وہاں کا عشق، خدا کا دیا ہوا ایک مقدس عطیہ ہے۔ اور اسی لئے اب میں اس مقدس عطیے کی تفصیل بیان کرتا ہوں۔
ہندوستان اورپاکستان والوں کا عشق مختلف طریقوں سے شروع ہوتا ہے مثلاً یہ کہ ایک لڑکی کھڑی ہے، اس کے گال پر ایک کالا سا تل ہے ایک لڑکا اس کے گال کا تل دیکھ کر تل کی شان میں ایک مصرعہ فرمادیتا ہے لڑکی، جسے طمانچہ مارنے کی خاص طور پر ٹریننگ دی جاتی ہے۔ لڑکے کو ایک طمانچہ جڑ دیتی ہے لیکن اسی وقت سے وہ اس لڑکے سے محبت کرنے لگتی ہے۔
یا پھر یہ ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کی موٹر راستے میں خراب ہو گئی۔ کوئی لڑکا جو چاہے موٹر کی مرمت کرنا جانتا ہے یا نہیں، موٹر کو بس چھودیتا ہے اور جادو کے زور سے موٹر درست ہو جاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے سے عشق کرنے لگ جاتے ہیں۔
یا پھر کسی لڑکی کا بٹوا گم ہو گیا ہے وہ دیوانہ وار اپنے بٹوے کو تلاش کرتی ہے، اسی وقت بٹوا ایک لڑکا پالیتا ہے، وہ اس بٹوے کو لڑکی کے حوالے کر دیتا ہے اور محبت ٹھن جاتی ہے۔
کبھی کبھی بٹوا گر جاتا ہے اور کوئی اٹھا کر لڑکی کو دے دیتا ہے اور یہیں سے محبت شروع ہو جاتی ہے۔
کبھی پنگھٹ پر کسی کو پہلی نظر کا تیر لگتا ہے اور کبھی کالج میں، کبھی محض آنکھیں ہلتے ہی محبت ہو جاتی ہے۔
پڑوس کی لڑکی ضرور ہی پڑوس کے کسی لڑکے سے محبت کرتی ہے۔ اور ان کی خط و کتابت پتنگ کے ذریعے ہوتی ہے، یعنی لڑکا اپنے دل کا حال ایک پتنگ پر لکھ کر اس وقت پتنگ اڑاتا ہے جب اس کی محبوبہ اپنے بالا خانہ پر ہوتی ہے اور لڑکا اپنی پتنگ لڑکی کی گود میں گرادیتا ہے۔ اس طرح نشانے پر پتنگ گرانے کے لئے شاید وہ خاص طور پر تربیت پاتے ہیں۔
تھیٹر کی ایکٹریس پر کوئی نہ کوئی ضرور ہی عاشق ہو جاتا ہے۔
تھیٹر کا تذکرہ آیا تو ایک بات اور قابل ذکر یاد آ گئی کہ ہنودستانی اور پاکستانی تھیٹر کا شو پانچ منٹ سے دس منٹ تک کا ہوتا ہے، بس اتنی ہی دیر کے لئے ہی ہندوستان کے مال دار لوگ نو آنے سے لے کر دس روپے تک خرچ کر ڈالتے ہیں۔ اور بسا اوقات کوئی لڑکا جو تھیٹر کی کسی رقاصہ سے عشق کرتا ہے سارا کا سارا ہال ریزرو کر لیتا ہے اور محض اپنی اور اپنے پرائیویٹ سکریٹری کے ساتھ شو دیکھتا ہے۔
ہندوستانی اور پاکستانی کالج کے لڑکے اور لڑکیاں ضرور ہی عشق کرتی ہیں۔
بہر حال عشق کسی نہ کسی طرح شروع ہو جاتا ہے اور اب دوسرا اسٹیج شروع ہو جاتا ہے۔
اب عشق کرنے والے تین کام ضرور ہی کر لیتے ہیں۔ کیونکہ ہندوستانی اور پاکستانی محبت کرنے والے عاقبت اندیش ہوتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ انہیں کن کن حالات سے گزرنا ہے اور عاقبت اندیشی کے طور پر وہ جو کام کرتے ہیں وہ یہ ہیں:

1۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ وہ اپنے گھروں میں زہریلی دوائی کی ایک شیشی یا بغیر لائسنس کا پستول لا کر رکھ لیتے ہیں، تاکہ جب وہ ان حالات سے گزرنے لگیں جہاں موت لازمی ہے تو انہیں دقت نہ ہو۔
2۔ لڑکا اور لڑکی دونوں ہی کچھ محبت بھرے، کچھ وصال کے کچھ جدائی کے اور کچھ مرنے سے قبل گانے کے لئے نئے نئے گانے یاد کر لیتے یہں۔ اور انہیں موقع بہ موقع گاتے ہیں۔ اس سلسلے میں گانے کی ایک قسم یہ ہوتی ہے کہ کچھ گانے لڑکا اور لڑکی یعنی عاشق اور معشوق مل کر یاد کرتے ہیں، لی کن ان کے یاد کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ پہلے شعر کا مصرعہ لڑکی یاد کرتی ہے اور دوسرا مصرعہ لڑکا اسی طرح دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ لڑکا یاد کرتا ہے اور دوسرا مصرعہ لڑکی۔ ایسے گانے اگر وصال کے ہوئے تو دونوں مل کر گاتے ہیں اور اگر جدائی کے ہوئے تو وہ ایسا کرتے ہیں کہ ٹیلیگرام کے ذریعے ایک دوسرے سے طے کر لیتے ہیں کہ کب اور کس وقت گانا گایا جائے۔ اور جب طے ہو جاتا ہے تو ٹھیک مقر رہ وقت پر دونوں گانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک مصرعہ لڑکی گاتی ہے کہ دوسرا لڑکا۔ اور اسی طرح پورا گانا گالیا جاتا ہے۔
3۔ محبت شروع کرنے کے بعد وہ جو تیسرا اور ضروری کام کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکا دونوں ہی کچھ سازندوں کو ملازم رکھ لیتے ہیں اور ان پر جادو کر کے انہیں ایسا غائب کر دیتے ہیں کہ سازندے سب کو دیکھیں مگر سازندوں کو کوئی نہ دیکھ سکے۔ ان سازندوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ پیانو، طبلے، ہارمونیم، وائلن، کتے کے رونے جیسی آواز کے ساز اور طرح طرح کے دوسرے ساز لئے لڑکی اور لڑکے کے ساتھ ساتھ پھرتے رہتے ہیں، اور جہاں لڑکا یا لڑکی کوئی گانا گانے لگتی ہے بس سازندے بھی ساز بانے لگتے ہیں، واضح ہو کہ پہلے ہی سے یہ بات طے شدہ ہوتی ہے کہ کون سا گانا کس دھن سے گایا جائے۔
عشق کا دوسرا اسٹیج ظلم و ستم کا اسٹیج ہوتا ہے، ہندوستانی اور پاکستانی عشق جب دوسرے اسٹیج پر پہنچتا ہے تو محبت کرنے والوں پر ہر چہار طرف سے ظلم و ستم ڈھائے جانے لگتے ہیں۔ لڑکی کی ملازمت چھٹ جاتی ہے اکثر اس کا باپ اسے عاق کر دیتا ہے، بے چارے پر مار پڑتی ہے جب وہ اپنی ہونے والی بیوی کے لئے زیور خرید کر لے جاتا ہوتا ہے تو دن دھاڑے بیچ بازار میں اسے کوئی لٹیرا، لوٹنے کی کوشش کرتا ہے بڑی زبردستی کشتی ہوتی ہے، لیکن ہندوستانی لڑکا جیسے ہی عشق کرنے لگتا ہے اس میں بڑی توانائی آ جاتی ہے اور وہ اتنا بہادر ہو جاتا ہے کہ بڑے بڑے پہلوان کو دے مارتا ہے۔
دوسری طرف لڑکی پر بھی مصیبتیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ اس کا گھر سے باہرنکلنا بند کر دیا جاتا ہے، اور عموماً ہندوستانی لڑکیوں کی ماں سوتیلی ہی ہوا کرتی ہے اس لئے وہ اس پر اور بھی ظلم کرتی ہے۔ اور کبھی کبھی دوسرے ہی اسٹیج میں یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کی شادی کہیں اور، کسی بوڑھے کھوسٹ مرد سے ٹھیک کر دی جاتی ہے۔ لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود عاشق اور معشوق ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ لڑکا کسی اونچے مقام پر پہنچ کر لڑکی کو پکارتا ہے اور اس کی پکار کی آواز لڑکی کے گھر میں پہنچ جاتی ہے درآنحالیکہ اس کا گھر دور دراز ہوتا ہے۔ لیکن عشق کی پکارمیں کچھ ایسی جادوگری ہوتی ہے کہ لڑکا پکارتا ہے تو لڑکی کے علاوہ کوئی نہیں سنتا۔ اور اگر لڑکی پکارتی ہے تو بس لڑکا ہی سن سکتا ہے۔

دوسرے ہی اسٹیج میں بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کی شادی کسی بوڑھے کھوسٹ سے ہو جاتی ہے۔ اور لڑکا کسی نہ کسی طرح مر جاتا ہے پھر لڑکی بھی اپنے عاشق کا ساتھ دے دیتی ہے، اور کبھی لڑکی پہلے مرتی ہے اور لڑکا بعد میں۔ اور یہ باتیں عشق کا تیسرا اسٹیج کہلاتی ہیں۔

تیسرے اسٹیج میں کبھی کبھی یہ ہوتا ہے کہ سارے کے سارے ظالم لوگ جن کا نام سماجی بھیڑئیے رکھا جاتا ہے۔ ایک لخت لڑکے اور لڑکی پر مہربان ہو جاتے ہیں اور دونوں محبت کرنے والوں کی شادی ہو جاتی ہے۔
یہ تو تھی، میرے بھائیو اور بہنو، ہندوستانی اور پاکستانی عشق کی ایک مختصر سی تصویر۔ لیکن اس پہلو کے علاوہ بھی ہندوستان اور پاکستان کے بہت سارے پہلوؤں کا میں نے مطالعہ کیا ہے، لیکن ان کی تفصیل میری زبر طبع کتاب "گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش" میں آئے گی، سردست میں ان پہلوؤں پر اختصار کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔

1۔ ہندوستان اور پاکستان کاعشق۔۔ ۔
اس پہلو پر آپ نے بہت کافی سن لیا۔

2۔ ہندوستان اور پاکستان کی شاعری۔۔ ۔ اس موضوع پر بھی بہت کچھ عرض کر چکا ہوں۔ ہندوستان کی شاعری بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے۔ وہاں کے شعراء کو شعر موضوع کرنے میں بہت زیادہ دقت نہیں ہوا کرتی۔ وہ ایک منٹ میں ایک لمبی چوڑی غزل لکھ لیتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک عاشق ابھی اپنی کسی غزل کا ایک ہی شعر موضوع کر سکتا ہے کہ اسے کسی ناگفتہ حالت کے تحت شاعری چھوڑ کر بھاگ جانا پڑتا ہے اور تب اس کی معشوقہ اپنی فن جادوگری میں مہارت کی وجہ سے عاشق کے بنائے ہوئے شعر پر دس بارہ شعر مزید بس آن کی آن میں بنالیتی ہے۔ اتنی جلدی کہ وہ موضوع کرتی جاتی ہے اور گاتی جاتی ہے اور جادو سے غائب کئے ہوئے سازندے ساز بجاتے جاتے ہیں۔ اور اتنی موضوع دھن میں جیسے پہلے سے گانے کا ری ہرسل ہو چکا ہو اور ہندوستانی شاعری پر میں انگشت بدنداں تو جب ہوا جب میں نے دیکھا کہ ٹھیک معشوقہ ہی کی بنائی ہوئی غزل عاشق بھی بناڈالتا ہے۔

3۔ ہندوستان اور پاکستان کی موسیقی۔۔
ہندوستانی اور پاکستانی موسیقی کا مقابلہ دنیا کے کسی بھی ملک کی موسیقی نہیں کر سکتی۔ کیونکہ بسا اوقات یہاں کے سازندے ایسا ساز بجاتے ہیں کہ صرف ایک ہارمونیم سے طبلے، پیانو، وائلن، کلارنٹ اور بہت سارے سازوں کی آواز نکلنے لگ جاتے ہیں۔ اب آپ اسے فن موسیقی کا کمال سمجھئے یا جادوگری کا مگر ایسا ہوتا ہی ہے۔

4۔ ہندوستان اور پاکستان کی جادوگری۔۔
ہندوستانی اور پاکستانی جادوگری پر میں نے بہت کچھ کہا ہے، پھر بھی ابھی بہت کچھ کہنا ہے، لیکن جتنا میں کہنا چاہتا ہوں اتنا ابھی نہیں کہوں گا۔ کیوں کہ ساری باتیں بتادینے میں میری زیر طبع کتاب گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش کے سیل پر بھی اثر پڑے گا اور ریڈیو والوں نے مجھے اتنا وقت بھی نہیں دیا ہے، لہذا اختصار کے ساتھ عرض کرتا ہوں۔
عمر کی زنبیل کا نام آپ نے سنا ہو گا، زنبیل کی خوبی یہ تھی کہ اس میں ساری دنیا سما سکتی تھی۔ ہندوستان اور پاکستان کے ہر ایک گھر میں ایسی زنبیل ہوا کرتی ہے اور جب کوئی آدمی سارے خاندان کے ساتھ بھی کسی دوسری جگہ جانے لگتا ہے تو اس کے ساتھ کچھ زیادہ سازوسامان نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف ایک گٹھری ہوتی ہے جس میں آپ تو ایسا محسوس کریں گے چار جوڑے کپڑے بھی مشکل سے سما سکتے لیکن اس میں بہت سارے سامان بند ہوتے ہیں۔ کیوں کہ جب دوسری جگہ پہنچ کر وہ نیا گھر آباد کرتے ہیں تو یک لخت اس گھر میں سارے ضروری سامان موجود ہوتے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان میں ایک قسم کے فقیر ہوتے ہیں، جنہیں میں نے جادوئی فقیر کا نام دیا ہے۔ اس قسم کے فقیر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ موقع بہ موقع نازل ہوتا ہے اور کسی آدمی کے عین حالات کے مطابق گانا گاتا ہوا گزر جاتا ہے، جادو ئی فقیر کو ہر ایک شخص کے دل کا حال اور زندگی کی الجھنیں معلوم ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ کوئی دوسرا مورخ یا ریسرچ کرنے والا اسے غیب داں فقیر کہے، ایسا کہنا بھی درست ہے۔
ہندوستانی اور پاکستانی لڑکیاں جب حاملہ ہوتی ہیں تو وہ اپنے پیٹ پر جادوئی منتر پھونک دیتی ہیں اور ان کا پیٹ اس عمل کے کرنے سے حمل رہنے کے باوجود بالکل اونچا نہیں ہوتا۔ اور نویں مہینے میں بھی بالکل معمولی ہی رہتا ہے، جیسے اسے حمل ہے ہی نہیں۔ ہاں لیکن کبھی کبھی کسی کنواری لڑکی کا پیٹ اونچا ہوا کرتا ہے۔ لیکن وہ حاملہ ہرگز نہیں ہوتی۔
ہندوستانی اور پاکستانی جادوگری کے بارے میں میں اب کچھ اور نہیں کہوں گا اگر آپ کو تاریخ اور ریسرچ سے سچا پریم ہے تو میری زیر طبع کتاب گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش میں پڑھ لینا۔

5۔ ہندوستان اور پاکستان کی تعلیم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ہندوستان اور پاکستان کی تعلیمی حالت بہت بلند اور قابل رشک ہے۔ وہاں کی دیہاتن اور غیر تعلیم یافتہ لڑکی بھی اتنی پڑھی لکھی ہوتی ہے کہ ادق فلسفیانہ باتیں کرتی ہیں، فلسفہ محبت کی تو خیر انہیں جبریہ تعلیم ہی دی جاتی ہے، لیکن زندگی کے دوسرے بعض موضوع پر بھی وہ ارسطو اور سقراط کی طرح بحث کرتی ہے۔
ہندوستان میں بہت کم وقتوں میں بہت اعلی تعلیم دی جاتی ہے، مثال کے طور پر ایک شخص جو دن بھر ٹوکری بناتا ہے اور رات کے بارہ بجے تک اپنی معشوقہ کے ساتھ خوش گپی کرتا ہے اور گانے گاتا ہے وہ صرف بارہ بجے سے دو بجے تک پڑھ کر دو تین مہینوں میں ایک فرسٹ کلاس میڈیکل ڈاکٹر ہو جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اس عرصے میں وہ محض دو تین بار کالج جاتا ہے اور علم جراحی تو اسے خود بخود ہی آ جاتا ہے۔ ا ور اس خود بخود آ جانے کے باوجود بھی ہندوستان اور پاکستان میں کبھی بھی ایک آپریشن بھی ناکامیاب نہیں ہوا۔ یہ ہے یا نہیں قابل رشک بات؟
مگر ہندوستان اور پاکستان کے زیادہ تر لڑکے ولایت میں پڑھتے ہیں۔ یہ بالکل عجیب بات ہے شاید یہ اس لئے ہوتا ہے کہ دوسرے ممالک کا ہنر بھی ہندوستان اور پاکستان اپنے اندر رکھنا چاہتا ہے اور یہ کوئی بری بات نہیں۔ اور پھر مالی ھالت ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی اتنی اچھی ہے کہ وہ ولایت میں پڑھنا ہی زیادہ پسند کرتے ہیں۔
ہندوستان کے کالجوں، سکولوں اور مکتبوں میں عشق کی تعلیم خاص طور پر دی جاتی ہے، خاص طور پر بھی اور عملی طور پربھی۔

6۔ ہندوستان اور پاکستان کی صحت۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی صحت بہت اچھی ہے، ایک نوجوان لڑکا آسانی کے ساتھ پچاس ساٹھ طاقت ور دشمنوں کا مقابلہ کر لیتا ہے اسی طرح ایک لڑکی بھی اپنے دشمنوں کو ہرا دیتی ہے لیکن یہ کہتے ہوئے دوسری طرف یہ بھی کہنا ہو گا کہ ہندوستانی اور پاکستانی بہادر پچاس ساٹھ کی تعداد میں ہونے کے باوجود کسی لڑکے یا لڑکی سے ہار جاتے اور جب میں نے غور کیا تو مطلب میری سمجھ میں آ گیا۔ مطلب یہ ہے کہ عشق کرنے والے لڑکے یا عشق کرنے والی لڑکیوں میں یہ جادوئی بہادری ہوتی ہے دوسروں میں نہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ایک تو مرتے ہی بہت کم ہیں اور جو مرتے بھی ہیں ان کے اعداد و شمار یہ ہیں: تھائی سس سے ایک فی صدی، معمولی کھانسی سے چوبیس فی صدی اور خود کشی سے ستر فی صدی اور پانچ فیصدی کسی دشمن کی گولی کا نشانہ بنتے ہیں، عموماً اپنے رقیب کی گولی کے۔
بعض لوگوں کو تھائی سس ہوتا ہے، نہیں تو چوبیس فیصدی کو ایک عجیب و غریب بیماری ہو جاتی ہے جس میں محض کھانسی ہوتی ہے اور دو تین دنوں میں مریض مر جاتا ہے۔
مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کا دماغ کل پرزوں سے فٹ ہے اور معمولی سی چوٹ سے دماغ کی کوئی چول کھسک جاتی ہے یا ڈھیلی ہو جاتی ہے اور آدمی ساری پرانی باتیں بھول جاتا ہے۔ اب تک دماغ کی چول مرمت کرنے والے کی دکان ہندوستان یاپاکستان میں ایک بھی نہیں ہے۔ اور دوسرے ممالک کے ٹیکنیکل کام جاننے والوں کے لئے یہ سنہرا موقع ہے کہ وہ دماغ کی فٹنگ کی دکان ہندستان میں کھ ول دیں۔ اب تک اس خرابی کا وہاں کوئی علاج نہیں۔ البتہ جب پھر کبھی اتفاقیہ طور پر اس آدمی کو پھر چوٹ لگتی ہے تو چول خود بخود کس جاتی ہے اور اپنی جگہ پر آ جاتی ہے۔ اور ایک لخت اس آدمی کو سب کچھ یاد آ جاتا ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کی صحت کے بارے میں کہتے ہوئے میں ایک عجیب و غریب بات کہنے کا فخر حاصل کرتا ہوں، وہ حیرت انگیز انکشاف یہ ہے کہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے جسم کے اندر ایک اور جسم ہوتا ہے ایک اور آدمی ہوتا ہے، ٹھیک اوپر ہی والے آدمی کی شکل و صورت کا۔ اور یہ اندر کا آدمی اوپر والے آدمی کا بالکل ہم شکل ہوتا ہے۔ ویسے ہی لباس پہنتا ہے اور ویسے ہی بولتا چالتا ہے اور جبن اوپر والے آدمی پر کوئی مصیبت آتی ہے، یا وہ کسی الجھن میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ اندر والا آدمی اس کے جسم سے نکل آتا ہے اور اوپر والے اپنے ہم شکل کو گر کی باتیں بتا کر، ضروری باتیں سمجھا کر اور اس کوصحیح ہدایت دے کر پھر اس کے جسم میں سما جاتا ہے۔ بعض مورخ اس بات کو ہندوستان اور پاکستان کی جادوگری کے ضمن میں رکھ سکتے ہیں اور میرا خیال ہے وہ حق بجانب ہوں گے۔
اسی طرح ہندوستان اور پاکستان کی جادوگری کے بارے میں بتاتے ہوئے میں نے حاملہ عورتوں کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، اسے ہندوستان کی صحت کے ضمن میں رکھنا بھی نامناسب نہیں ہے۔

7۔ ہندوستان اور پاکستان کے مذاہب۔۔ ۔
ہندوستان اور پاکستان میں زیادہ تر دو مذاہب کے ماننے والے لوگ ہیں، ایک مذہب کے ماننے والے کو مسلمان اور دوسرے کو ہندو کہتے ہیں۔ ہندوؤں کا خدا مٹی کا ہوتا ہے اور مسلمانوں کا ہوا کا، جسے کوئی دیکھ نہیں سکتا۔ پھر بھی مسلمان ایک کاغذ پراپنے خدا کا نام لکھ کر اس کو اپنے کمرے میں ٹانگ دیتے ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں۔ اور اس کی تمنائیں واقعی پوتی ہوتی رہتی ہیں۔ اسی طرح ہندواپنے مٹی والے خدا سے سب کچھ مانگتے ہیں اور انہیں بھی ملتا رہتا ہے، یہاں تک کہ یہ مٹی کے خدا ملازمت، بچے، صحت، گھر وغیرہ دینے کے علاوہ نقد روپے بھی دیتے ہیں۔
ہندو اور مسلمان آپس میں کبھی کبھی لڑتے نظر آتے ہیں، لیکن ملتے کبھی نہیں ہمیشہ الگ الگ رہتے ہیں۔ صرف ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک مسلمان لڑکی کی سہیلی ایک ہندو لڑکی تھی۔ بس صرف ایک بار، اور اسی طرح ایک دو بار میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک مسلمان مرد کا دلی دوست اس کا پڑوسی ہندو تھا۔ بس۔۔ ۔ اورمجموعی طور پر یہ دونوں مذاہب کے لوگ الگ الگ رہتے ہیں لیکن ان کی حالتوں میں کوئی فرق نہیں، اور اوپر بیان کی ہوئی ساری باتیں دونوں مذاہب کے لوگوں کے حالات ہیں۔
مذاہب کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک بات اور قابل بیان ہے کہ کبھی کبھی کسی ہندو کی کسی الجھن کو سلجھانے کے لئے کرشن بھگوان نمودار ہو جاتے ہیں، اور بسا اوقات کسی مسلمان کی کسی گتھی کو سلجھانے کے لئے قبر کے مردے قبر سے نکل نکل پڑتے ہیں۔

8۔ ہندوستان اور پاکستان کے پولس اور عدالت کے محکمے۔۔
ہندوستان اور پاکستان کا محکمہ پولیس بہت کمزور ہے اور ایک جیب کترا سیکڑوں پولیس والں کوبرسوں تک حیران و پریشان کرتا رہتا ہے۔ بڑی بڑی مشکلوں کے بعد گرفتار ہوتا ہے، پھر نکل بھاگتا ہے اور جب وہ جیب کترا اس بھاگم بھاگ سے خود ہی پریشان ہو جاتا ہے تو اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دیتا ہے۔
یہی حال محکمہ خفیہ پولیس کابھی ہے۔ ایک پاکٹ مار اور ایک عورت بلیک ماکیٹر خفیہ پولیس والوں کو برسوں تک دھوکہ دے سکتی ہے اور خفیہ پولیس والے ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ تاوقتیکہ وہ بھی اپنے آپ کو خود سے ان کے حوالے نہ کر دیں یہاں تک کہ ہندوستانی کرفیو کی رات میں بھی اطمینان سے گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے جج اور منصف بڑے قابل ہوتے ہیں، اور منٹوں میں بڑے بڑے خون کی تحقیق بھی کر لیتے ہیں اور فیصلہ بھی سنادیتے ہیں۔

9۔ ہندوستان اور پاکستان کے کاروبار۔۔ ۔
ویسے تو زیادہ تر ہندوستان بغیر کچھ کام کئے، اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں، اور اچھے گھر میں رہتے ہیں، پھر بھی کچھ لوگ کچھ پیشے کرتے ہیں جو یہ ہیں۔۔ ۔

1۔ بینک کا کاروبار دس فیصدی
2۔ پروفیسری بیس فیصدی
3۔ ڈاکٹری پندرہ فیصدی
4۔ پاکٹ ماری(جیب کترنا) دس فیصدی
5۔ ناٹک کمپنی کا کاروبار بیس فیصدی
6۔ بیرسٹری تیس فیصدی
7۔ بلیک مارکٹنگ دو فیصدی
8۔ چاقو چھری بیچنا تین فیصدی

10۔ ہندوستان اور پاکستان کی زبان۔۔ ۔
ہندوستان اور پاکستان کی خاص زبان ہندوستانی ہے پھر بھی کچھ لوگ انگریزی ملی جلی ہوئی ہندوستانی بولتے ہیں، اور کچھ سنسکرت ملی لی اور کچھ عربی اور فارسی ملی جلی۔۔ ہندوستان میں ایک اور زبان بھی رائج ہے جسے میں بالکل نہیں سمجھ سکا، اور یہ زبان زیادہ تر شاعری کے کام میں آتی ہے۔ بعض مصرعے ملاحظہ فرمائیے۔
در در ترا نارے در در تر تر در نارے در
ہواوو اوئی ہووو وہاؤ ہو۔۔
للہ للہ لا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ دادا دوا دوا۔۔ ۔
ڈاڈاڈا۔۔ ۔ ڈڈ۔۔ ۔۔ ڈدڈ۔۔ ۔۔ ۔۔ ڈڈ
میرا خیال ہے کہ ان زبانوں کی تحقیق کے لئے ریسرچوں کو کوشش کرنی چاہئے اور اس انوکھی زبان کو سیکھنا چاہئے۔
اور اب میں ہندستان اور پاکستان کے زبردست آرٹ وہاں کے رقص کے بارے میں کہوں گا۔

11۔ ہندوستان اور پاکستان کا رقص۔۔ ۔۔ ہندوستان اور پاکستان کا بہت ہی قدیم اور عظیم فن یہاں کا رقص ہے مجھے افسوس ہے کہ رقص کچھ ایسی چیز ہے جس کا ترتعلق بس دیکھنے ہی سے ہو سکتا ہے۔ اور دیکھ ہی آپ حضرات ہندوستان اور پاکستان کے رقص کے کمال کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ پھر بھی میں کچھ ضرور بتاؤں گا۔
ہندوستان اور پاکستان کا رقص ایک الہانہ فن ہے اور رقص کرتے وقت ایک رقاصہ خود کو کچھ اس طرح گم کر دیتی ہے کہ اسے اپنی چھاتی یا ٹانگوں کی عریانیت تک کا بھی بالکل خیال نہیں رہتا۔ اور بس وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز ناچتی جاتی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کے بعض رقص ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہم آپ رقص کے فن سے لا علم لوگ کچھ بھی نہیں سمجھ سکتے۔ مثال کے طور پر ایک رقص میں نے ایسا دیکھا جسے ہم جاہل لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت بڑے نقارے رکھ کر ان پر فارورڈ مارچ ہورہا تھا۔ یا پھر ایک ایسا رقص تھا جس میں رقاصہ بظاہر ایسی لگتی تھی کہ وہ پاگل ہے اور طبلے، پیانو پر دوڑتی پھرتی ہے۔
اور اب سب سے آخر میں ہندوستان اور پاکستان کی فلموں کے بارے میں بتاؤں گا۔

12۔ ہندوستان اور پاکستان کی فلمیں۔۔ ۔۔
جیسا کہ بڑے بڑے دانشوروں کا خیال ہے کہ کسی بھی ملک کی فلمیں ملک کی سچی تصویر اور ملک کی حالتوں کا آئینہ ہوا کرتی ہیں۔ اسی کے مصداق میں نے ہندوستان اور پاکستان کی فلمیں دیکھ کر آپ کے سامنے ان دو بڑے ملکوں کی تصویر کشی کی ہے۔
اس سلسلے میں مجھے افسوس ہے کہ ہندوستان کی بعض فلمیں میں نے ایسی دیکھیں جو ہندوستان کی سچی تصویر ہرگز نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ میرا خیال ہے وہ بھی ہندوستان کے بعض جھوٹے اخباروں کی طرح جھوٹی ہیں، اور پولیس کو چاہئے کہ وہ ان کے پروڈیوسروں کو بھی پکڑ لے جائے وہ فلمیں یہ ہیں:

1۔ ایک ہی راستہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ حالانکہ ہندوستانیوں کو کسی بھی راستے کی ضرورت نہیں ہے، وہ ہر طرح بخیریت تمام ہیں۔
2۔ روٹی۔۔ ۔۔ ۔۔ حالانکہ ہندوستانیوں کے نزدیک روٹی کا سوال کوئی اہم سوال ہی نہیں۔ یہاں کوئی بھی بھوکا نہیں۔
3۔ دھرتی کے لال۔۔ ۔ ایک قحط کی کہانی ہے، حالانکہ ہندوستان میں کبھی کوئی قحط نہیں آیا۔
4۔ نیچا نگر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ حالانکہ ہندوستان سب سے اونچا نگر ہے۔
5۔ چھوٹا بھائی۔۔ ۔۔ ایک غیر جنسی محبت کی کہانی ہے، حالانکہ ہندوستان میں صرف جنسی محبت ہی ہوا کرتی ہے۔
6۔ سوئم سدھا۔۔ ۔۔ ۔ ایک عورت ایک مرد کو آدمی بناتی ہے، حالانکہ ہندوستان حد درجہ سدھرا ہوا ملک ہے یہاں کسی قسم کے سدھار کی ضرورت نہیں۔
7۔ کلپنا۔۔ ۔ ہندوستان کے فن رقص کی توہین ہے۔ یہ رقص کی فلم ہے، لیکن بالکل ہی مہمل رقص پیش کیا گیا ہے، حالانکہ ہندوستان کا رقص عظیم ہے۔

اس بارے میں ایک اور بات میں آپ کو بتاؤں۔ ہندوستان سے ایک فلمی پرچہ نکلتا ہے، شمع، اس نے ابھی گنائی ہوئی سب جھوٹی فلموں کی تعریف کی۔ میرے خیال میں وہ بھی جھوٹ کی اس بڑی سازش میں شریک ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ ہندوستان اور پاکستان میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ شاید یہ اس کی جھوٹی پالیسی کی وجہ سے ہے۔
اگر ہندوستان کی حکومت میری بتای ہوئی ان جھوٹی فلموں پر پابندی لگائے، تو ان فلموں کی تعریف کرنے والے اس اخبار کو بھی بند کر دیا جائے۔ ورنہ یہ آئندہ بننے والی ایسی ہی جھوٹی اور بے کار فلموں کی تعریف کرتا رہے گا۔ اور اس سے ہندوستان اور پاکستان کی زندگی پر برا اثر پڑے گا۔

اور اب میرے دوستو، میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔
لیکن آخر میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھا پنے اس عقل مند ہندوستانی دوست کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، جس کی مدد سے مجھے کسی بھی سنیما ہال کے فرسٹ کلاس میں کتنی ہی مدت تک سنیما دیکھنے کا فری پاس ملا، اور عینکوں کی ایک ڈھیری ملی اور کسی بھی آنکھ کے ڈاکٹر سے مفت علاج کرانے کا پرمٹ ملا اور یہ میرے اسی عقل مند ہندستانی دوست کی عنایتوں کا نتیجہ ہے، کہ میں نے اتنا عظیم الشان ریسرچ کیا۔ میں نے اتنی بڑی تقریر کر ڈالی اور میری ایک عظیم الشان اور بے مثال کتاب چھپ رہی ہے جس کا نام گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش۔
تاریخ اور ریسرچ کے ماہروں کو میں پر خلوص رائے دیتا ہوں کہ وہ میری کتاب"گولڈن لینڈز عرف سنہرے دیش" ضرور پڑھیں۔ جس میں ہندوستان کے بارے میں میں نے بہت کچھ لکھا ہے، بہت کچھ میرے دوستو۔۔ بہت کچھ۔۔ ۔
ہندوستان کا وہ عقل مند آدمی بھی سیاح کی تقریر سن رہا تھا۔ تقریر ختم ہوئی تو اس نے ریڈیو بند کر دیا اور مسکرانے لگا۔ پھر وہ ایک ہندوستانی فلم کا عمدہ گانا گنگانے لگا۔
مورے جو بنا کا دیکھو ابھار، پپی، جو بنا کا دیکھو ابھار ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

ماخوذ از رسالہ: شمع ، نئی دہلی (خاص نمبر)
شمارہ: جولائی - 1950

India and Pakistan in terms of their movies. Article: Zaki Anwar

1 تبصرہ:

  1. اتنا زیادہ پڑھنے کے بعد تبصرہ نگار فوت ہو جاتا ہے تبصرہ کیا عالم بالا سے لکھے گا۔

    جواب دیںحذف کریں