حیدرآباد میں قلعی گری کا پیشہ روبہ زوال مگر برقرار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-03-16

حیدرآباد میں قلعی گری کا پیشہ روبہ زوال مگر برقرار

پرانے شہر کے محبوب چوک میں واقع تقریباً نظر نہ آنے والی ایک دکان میں شیخ تاج الدین نامی نوجوان ایک سیاہی مائل دیگ کو ایسیڈ سے صاف کر کے فوراً اس پر ایک پتلے سے ملیشیائی ٹین کے ٹکڑے کا ملمع اس پر چڑھاتے ہیں۔
کمرے میں بھٹی کی لو سے پائی جانے والی تپتی گرمی کی شدت سے بے نیاز تاج الدين پھر روئی کے پیڈ کو نوساور (امونیم کلورائڈ) میں بھگو کر دیگ کے اندر پورے انہماک سے گھستے جاتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے چند منٹوں کے اندر وہ میلا کچیلا سیاہی مائل دیگ بالکل ایک نئے برتن کی مانند چمکنے لگتا ہے۔

تاج الدین جو کام کرتے ہیں اسے "قلعی" کا جاتا ہے اور جو افراد یہ کام کرتے ہیں انہیں "قلعی گر" کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ اب یہ کام کرنے والے گنتی کے لوگ رہ گئے ہیں۔ بنیادی طور پر تانبے اور پیتل کے برتنوں، بالخصوص پرانے اور میلے برتنوں کی قلعی کی جاتی ہے جس سے وہ چھکا چھک چمکنے لگتے ہیں۔
محبوب چوک میں ایسی صرف چند دکانیں باقی رہ گئی ہیں جو اس پیشہ سے منسلک ہیں! تاج الدین کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور اب بہت کم لوگ اس پیشے سے وابستہ رہ گئے ہیں۔ صرف وہی لوگ یہ کام کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے آبا و اجداد سے یہ ہنر سیکھا ہے ورنہ دیگر افراد ایسیڈ اور دہکتی بھٹی کے ساتھ کام کرنے سے ڈرتے ہیں۔
تانبے اور پیتل کے چمکدار مختلف قسم کے برتن، بیٹی کے جہیز میں دینا حیدرآباد کی ایک قدیم روایت ہے جو آہستہ آہستہ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔
لیکن حیدرآباد کے قدیم گھرانوں میں آج بھی تانبے کے گنگال، بھپکے، دیگ، بگھونے وغیرہ موجود ہیں جن کی چمک دھیرے دھیرے یا مسلسل استعمال سے ماند پڑتی جا رہی ہے لہذا پانچ چھ سال میں ایک مرتبہ انہیں قلعی کروانا پڑتا ہے۔

ایک او قلعی گر نعیم نے بتایا کہ ان کے زیادہ تر گاہک ہوٹلیں ہیں جہاں بڑی مقدار میں پکوان تانبے کے دیگوں اور برتنوں میں ہی ہوتے ہیں اور رمضان المبارک کی آمد سے پہلے جو کہ ہر چھوٹی اور بڑی ہوٹل میں "حلیم" تیار کی جاتی ہے وہ تانبے کے برتنوں میں ہی تیار ہوتی ہے اور اس موقع پر ان کا کاروبار زوروں پر ہوتا ہے۔ برتن کے سائز کی مناسبت سے چارجس لئے جاتے ہیں جو 50 روپے سے لیکر 1000 روپے تک بھی ہو سکتے ہیں۔

The job of Tin cladding of vessels still exists

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں