استفسارات و جوابات - شفیق الرحمن - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-02-27

استفسارات و جوابات - شفیق الرحمن

istefsaraat
سوال:
میں نے فن زندگی پر چند کتابیں پڑھیں جوبے حد پسند آئیں، ان میں چست رہنے اور مسکرانے کی خاص طو رپر تلقین کی گئی تھی۔ چنانچہ میں نے معمول بنا لیا کہ چہرے پر مسکراہٹ رہے۔ اس سے بڑا فائدہ ہوا اور میں ہر وقت مسرور رہنے لگا۔ لیکن جہاں جاتا ہوں لوگ مشتبہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں، جیسے مجھ سے خفا ہوں۔ چند ایک تو صاف صاف پوچھ چکے ہیں کہ بات کیا ہے ؟
یا تو مجھے مسکرانا نہیں آتا اور یا وہ کتابیں غلط تھیں۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب:
نہ آپ کی مسکراہٹ میں نقص ہے نہ ان کتابوں میں۔ کاش کہ آپ نے پہلے پوچھ لیا ہوتا تو ہم خبردار کر دیتے کہ ہمارے ہاں خوش رہنے کا رواج نہیں ہے، لہذا مسکراہٹ کی وجہ دریافت کی جاتی ہے۔ ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ آپ دل ہی دل میں خوش ہولیا کریں لیکن مسکرایا نہ کریں۔
اسی موضوع پر ایک اور صاحب بھی ہم سے شکایت کر چکے ہیں کہ ہر دلعزیز بننے اور نئے دوست بنانے کی غرض سے انہوں نے فن زندگی پر کتابیں پڑھیں۔ جب ہدایات پر عمل کیا تو جو رہے سہے چند دوست تھے ان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
یہ کتابیں اغیار کے لئے لکھی گئی ہیں، ہمارے لئے نہیں۔

سوال:
جدید مجرد آرٹ کے ایک شاہکار کو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس کا عنوان تھا’بال سنوارتی ہوئی حسینہ‘لیکن تصویر میں نہ حسینہ تھی نہ زلفیں، غور کرنے پر ایک گھوڑا البتہ جھانکتا ہوا نظر آیا۔
جواب:
ہم نے بھی وہ تصویر دیکھی ہے، آپ خوش نصیب ہیں کہ کچھ تو نظر آیا، ہم تو گھوڑا بھی نہ دیکھ سکے۔ یہ تجریدی آرٹ ہے مجرد آرٹ نہیں۔ اور اس کے شاہکار دیکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جس حصے میں آرٹسٹ کے دستخط ہوں، اسے تصویر کا نچلا حصہ سمجھنا چاہئے۔

سوال:
کوئی میرے متعلق طرح طرح کی جھوٹی افواہیں مشہور کر رہا ہے۔ میں صلح پسند اور مرنجان مرنج ہوں، اس لئے ضبط کرتا رہا ہوں لیکن اب تو حالات ناقابل برداشت ہو گئے ہیں، ایسے انسان سے کیا سلوک کرنا چاہئے ؟
جواب:
جب تک افواہیں جھوٹی ہیں پروا نہیں کرنی چاہئے البتہ پر کبھی کبھی شبہ ہوتا ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ دماغ بالکل درست ہے، لیکن اگر واقف کاروں ،د وستوں اور اجنبیوں کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگے تو پھر لازمی طور پر خلل آ چکا ہے، جس کا علاج ماہرین نفسیات بھی نہیں کر سکتے۔

سوال:
مجھے جس لڑکی سے محبت ہے وہ حسین ہونے کے علاوہ انٹلکچوئل بھی ہے۔ میں انجینئر ہوں، اس لئے مجھے علم و ادب سے قطعاً دلچسپی نہیں ہے۔ ابھی تک پیغام نہیں بھجوایا ہے کیونکہ وہ دلی دکنی، بھرتری ہری، ہربرٹ اسپنسر اور ابو نواس پر بری طرح فریقہ ہے۔ ہر وقت انہی حضرات کی باتیں کرتی رہتی ہے۔ مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں ؟
جواب:
ہمارے خیال میں آپ کو فوراً پیغام بھجوانا چاہئے۔ اتنے حضرات کی موجودگی میں ذرا سی دیر بھی خطرناک ہو سکتی ہے۔

سوال:
میری شادی ہونے والی ہے، منگیتر کے متعلق صرف اتنا جانتی ہوں کہ بے حد سوشل ہیں اور مجھے مکسڈڈنرز۔۔ (MIXED DINNERS) پر جانا ہوگا، خواتین کی دعوتوں کا تجربہ تو ہے لیکن یہ تقریب میرے لئے بالکل نئی ہے کیا آپ اس پر روشنی ڈال سکیں گے ؟
جواب:
پہلے زمانے میں ڈنر محض سوشل مقاصد کے لئے دیا جاتا تھا اب یہ لڑکے پیدائش، عقیقہ، منگنی یا نکاح، ترقی، افسر اعلیٰ کی آمد یا دوسروں کی بہت سی دعوتوں کا احسان اتارنے کے سلسلے میں ہوتا ہے۔ ڈنر والے دن یا ایک روز پہلے دعوتی رقعہ آتا ہے۔ اس درخواست کے ساتھ کہ تشریف آوری کی اطلاع ضرور دیجئے، لیکن اطلاع کوئی نہیں دیتا (تاکہ بلانے والا قیاس آرائی کرتا رہے کہ کتنے مہمان آئیں گے، پانچ یا ساٹھ؟) سب کو عموماً آٹھ بجے بلایا جاتا ہے لیکن نو بجے پہونچنے والوں کو بھی گھر پر کوئی نہیں ملتا۔ لوگ ساڑھے نو سے آنا شروع کرتے ہیں اور ساڑھے دس بجے تک آتے رہتے ہیں۔ ویسے دیر سے آنے کی وجوہات سب کو زبانی یاد ہوتی ہیں۔ مجمع ذرا سی دیر کے لئے مکسڈ رہتا ہے، پھر یک لخت تاش کے پتوں کی طرح خواتین ایک طرف ہو جاتی ہیں، اور مرددوسری طرف۔ سردیاں ہوں تو خواتین انگیٹھی کے سامنے جا بیٹھتی ہیں۔ گرمیوں میں سارے پنکھے ان کے لئے مخصوص ہو جاتے ہیں۔ پتے ایک مرتبہ پھر بنٹتے ہیں، ملازمت پیشہ ایک طرف ہو جاتے ہیں، بزنس والے ایک طرف اور ٹھیکیدار اور زمیندار تیسری طرف۔
اس کے بعد نہایت ہی خوشگوار گفتگو شروع ہو جاتی ہے۔ جناب وہ فائل واپس نہیں بھیجی آپ نے۔۔ اسید صاحب نے مکان بھی بنا لیا پھر ان کا تبادلہ کیوں نہیں ہوتا؟۔۔ ۔ اور باتیں چھوڑئیے، یہ بتائیے کہ لوہا کیسے ہتھیالیا آپ نے ؟۔۔ ۔ جناب میں نے کیس اس طرح بگاڑا ہے کہ سب ٹاپتے رہ جائیں گے۔۔ ۔ سات سو میں آپ نے مکان کیسے دے دیا؟ ہمیں بھی یہ نسخہ بتائیے۔۔ کلیمنر کی پیشی ہو گئی؟
خواتین دوسری خواتین کے (جو مدعو نہیں ہوتیں ) لباس کے بے سلیقگی، ان کے خاوندوں کی تنزلی، ان کے بچوں کی بد تمیزی اور ان کے خانگی جھگڑوں کے متعلق تازہ ترین اطلاعات پیش کرتی ہیں۔
ملازم سب کو گولڈ فلیک یا کیپٹین کے سگریٹ دیتے ہیں اور شربت کے لمبے لمبے گلاس زبردستی پلاتے ہیں۔۔ شربت یوں تو کئی قسم کے ہوتے ہیں، شربت آم، شربت بادام، شربت انار، لیکن مٹھاس اور ذائقے میں ایک سے ہوتے ہیں، فرق ہوتا ہے تو رنگ کا۔ اور دو گلاس پی لینے کے بعد بھوک آدھی رہ جاتی ہے۔ ساتھ ساتھ پکوڑوں، آلو کے قتلوں اور چاٹ سے تواضع کی جاتی ہے۔ برابر کے کمروں میں برتن اور چمچے کھڑکتے ہیں اور ڈانٹنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ پھر یک لخت، کھانا تیار ہے، کا نعرہ لگتا ہے اور بھاگڑ پڑ جاتی ہے۔ آدھ گھنٹے تک مکمل خاموشی رہتی ہے۔ کبھی کبھی معاف کییجئے اور زیادہ مرچوں کی وجہ سے سوں سوں کی آوازیں آ جاتی ہیں۔ ذرا سی دیر میں سوائے چاولوں کے اور کچھ نہیں بچتا۔
سب کو پان تقسیم کئے جاتے ہیں، چنانچہ انہیں مجبوراً میز پوش اور پردوں سے ہاتھ پونچھنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد عالم پسپائیت چھا جاتا ہے۔ لوگ صوفوں اور آرام کرسیوں پر دراز ہو کر بار بار گھڑی دیکھتے ہیں، اچانک ایک صاحب اٹھ کر میزبان سے کہتے ہیں۔ بھابی کے خالو رات کی گاڑی سے آنے والے ہیں، فوراً ایک اور صاحب خالو کی بھابی کا بہانہ پیش کر دیتے ہیں۔ اتنے میں وہ سب جن کے خالو وغیرہ نہیں آ رہے ہیں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر بھاگڑ پڑ تی ہے، اور یوں لگتا ہے جیسے سنیما کا شو ابھی ختم ہوا ہے۔ ہر ایک کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ سب سے پہلے نکل جائے۔
لیکن اگلے مہینے جب اسی تقریب کے متعلق یوں پوچھتا ہے تو کچھ لوگ حیران ضرور ہوتے ہیں، پچھلے مہینے شہر کے مشہور سوشل جوڑے بیگم احمد اور میاں اے احمد کے ہاں ایک شاندار ڈنر ہوا۔ احمد زکو آرائشی سامان کا بہت شوق ہے۔ چنانچہ ان کا مکان پریوں کا محل معلوم ہورہا تھا۔ مسز احمد جن کا نام پروین ہے لیکن ریٹا کے نام سے مشہور ہیں، آبی غرارہ اور چیتے کی کھال کا کوٹ پہنے ادھر ادھر پھر رہی تھیں۔ کھانا نہایت لذیذ تھا۔ ایک دو سالن تو خود ریٹا نے پکائے تھے۔
میں نے دیکھا کہ ایک کونے میں ہنس، مکھ رضیہ عارف الدین شلوار قمیص پہنے مسٹر قطب الدین سے باتیں کر رہی تھیں، قطب الدین صاحب انٹلکچوئل گفتگو کی وجہ سے خواتین میں کافی ہر دلعزیز ہیں۔ افسوس کہ مسزا قطب الدین کسی خاص وجہ سے تشریف نہ لا سکیں۔ رضیہ جنہیں سب ڈیزی کہتے ہیں مشہور سوشل ور کر ہیں اور کافی عرصے سے ولایت جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ کسی نے میرے کان میں چپکے سے کہا کہ شید اس کی نوبت ہی نہ آئے اور موسم بہار سے پہلے ہی ان کی شادی ہو جائے۔
ایک طرف بیگم رحمت (جنہیں سنی کہا جاتا ہے ) اپنی صاحبزادی بیگم حسین کے ساتھ بیٹھی ہوئی مشرق وسطی کے کلچر پر گفتگو کر رہی تھیں۔ ان کابیل بوٹوں والا سیاہ شال سب نے پسند کیا۔
رحمت صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔
میں نے یہ بھی دیکھا کہ ننھی(عینی بیگم قلندر)اپنی نواسی مسز فریڈی(بیگم فاضل) سے کلاسیکی موسیقی پر بحث کر رہی تھیں۔ ننھی نے قوس قزح کے رنگوں والی ساڑی پہن رکھی تھی۔ جیسے وہ پیرس سے لائی ہیں۔ مسز فریڈی کی صاحبزادی جارجی(زیتون) ماشاء اللہ خوب صورت ہے اور کافی بڑی ہو گئی ہے۔ ریڈیو پر مقامی خبریں نشر کرتی ہے، اتنی رونق میں بھی مس لطافت(لینا) اور مسٹر کرامت کی سرگوشیاں میں نے سن لیں۔ مسٹر کرامت ابھی ابھی پوسٹ ہو کر آئے ہیں۔ سنا ہے کہ خوب ناچتے ہیں، اور ابھی تک کنوارے ہیں۔ لینا ملگجے لباس اور ریچھ کی کھال کے کوٹ میں بالکل اطالوی دوشیزہ معلوم ہورہی تھیں۔ کھانے کی میز پر احدز اپنے ہونو لولو کے سفر کے واقعات سناتے رہے۔ آدھی رات تک پارٹی رہی۔ اور اس قدر کامیاب تھی کہ مہمانوں کا گھر جانے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ
امید ہے کہ آپ سمجھ گئی ہوں گی کہ مکسڈڈنرز کیا ہوتے ہیں۔

سوال:
اردو افسانہ کس منزل پر پہونچ چکا ہے ؟
جواب:
اس منزل پر کہ اب اس کے متعلق طرح طرح کے شکوک پیدا ہونے لگے ہیں۔ آج کل اس کی دو قسمیں بتائی جاتی ہیں، معمولی کہانیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اس انحطاط اور جمود کی علامات ہیں جو اردو ادب اور خصوصاً ً افسانے پر طاری ہے اور جو چیزیں بہت عمدہ ہوں وہ لازمی طور پر غیر ملکی ادب سے چرائی ہوئی ہیں۔ چنانچہ پوزیشن یہ ہے کہ یا تو افسانہ نگار غیر ملکی ادب سے متاثر ہیں ورنہ ان پر جمود اور انحطاط ہو چکا ہے اور وہ ختم ہو چکے ہیں۔

سوال:
جمشید بھائی (جو دور کے کزن بھی ہیں ) سہ پہر کو ہمارے ہاں آ جاتے ہیں، اور نو دس بجے سے پہلے نہیں جاتے، لو چلے، آندھی آئے، بارش ہو، وہ بلاناغہ ساری شام ہمارے ہاں گذارتے ہیں۔ ابھی تک انہوں نے پیغام نہیں بھجوایا۔ میں اکثر سوچتی رہتی ہوں کہ ان کا کیا ارادہ ہے ؟
جواب:
ہو سکتا ہے کہ انہیں محبت ہو گئی ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دوپہر کے بعد جمشید بھائی کو کوئی کام نہ ہوتا ہو، اور بے کاری کی وجہ سے آ جاتے ہوں۔
(شام تقریباً سات بجے ختم ہو جاتی ہے نو دس تک نہیں چلتی۔ )

سوال:
مجھے سگریٹ نوشی کی عادت ہے۔ تمباکو والے (بلکہ قوام والے ) پان خوب کھاتا ہوں، پلاؤ، پراٹھے، حلیم، سریپ ائے، فرنی اور حلوے پر جان چھڑکتا ہوں۔ سردی ہو یا گرمی قیلولہ ضرور کرتا ہوں، اور ورزش سے سخت نفرت ہے۔ وزن بھی ڈھائی من پختہ ہے۔ لوگ کہتے ہیں، اس طرح عمر کم ہو جائے گی۔ درازیِ عمر کے لیے یوگا کی ورزشیں تجویز کرتے ہیں۔ غذا اور نیند بھی کم کرنے کو کہتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب:
اگر یوگا، فاقہ کشی اور ہر وقت کے جاگنے سے عمر میں اضافہ ہوا بھی تو بچپن ساٹھ کے ساتھ ہو گا، یعنی بڑھاپا ذرا طویل ہو جائے گا۔ ہمارے خیال میں اگر جوانی قوام، سری پائے، اور قیلولے کے سہارے گذر جائے تو پیری کا فکر بے سود ہے۔

سوال:
مجھے مغربی ممالک سے بڑی چڑ ہے۔ ان کی ہر بات سے مادہ پرستی ٹپکتی ہے۔ آپ بتاسکتے ہیں کہ یہ اتنے مادہ پرست کیوں ہیں ؟ نیز مشکی رنگ کو ذرا صاف کرنے کے طریقے معلوم ہوں تو لکھئے۔
جواب:
مغربی ممالک میں عورتوں کی تعداد مقابلتاً زیادہ ہے۔ لہذا وہاں اتنی مادہ پرستی نہیں ہے جتنی کہ مشرق میں جہاں عورتیں کم ہیں اور مرد زیادہ۔۔ ۔ مشکی رنگ کے متعلق عرض ہے کہ
حسن کو چاہئے انداز و ادا ناز و نمک
کیا ہوا گر ہوئے گوروں کے طرح گال سفید

سوال:
میرے خاوند دفتر سے آتے ہی فائلوں، کلرکوں، آفیشل خطوں اور افسروں کا ذکر شروع کر دیتے ہیں۔ ساری شام بلکہ رات تک یہی ذکر چلتا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ کیا دفتر میں انہیں اس موضوع پر گفتگو کرنے کاموقعہ نہیں ملتا؟
جواب:
دفتر میں لوگ بیوی، بچوں، فلموں، بزرگوں، خانگی حالات اور بازار کے بھاؤ کا ذکر کرتے ہیں۔

ماخوذ از مجلہ: افکار کراچی
شمارہ: 85 ، ستمبر 1958

Questions & Answers, Humorous Essay by: Col. Shafeeq-ur-Rahman.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں