مختصر افسانے پر ایک نظر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-03

مختصر افسانے پر ایک نظر

urdu-afsana
سید وقار عظیم نے مختصر افسانے کی تعریف یہی کی ہے کہ ایسا افسانہ جو ایک نشست میں پڑھا جاسکے اور اس افسانے میں منفی اعتبار سے پلاٹ کردار، عمل اور چونکا دینے والے انداز کی تمام خوبیاں موجود ہوں تو اپنے اختصار کی وجہ سے ایسا افسانہ مختصر افسانہ کہلاتا ہے ۔ مختصر افسانہ صرف جذبات اور احساسات کی نمائندگی ہی نہیں کرتا بلکہ سیاسی حالات، فسادات، سماجی نابرابری، نا انصافی بلکہ انسانی ذہنی کیفیات کو بھی بیان کرتا ہے ۔ مختصر افسانے کے لئے لازمی ہے کہ وہ اختصار پسند ہو، جسمیں کہانی بھی مکمل ہو اور کردار بھی مکمل ہو، اور پڑھنے کے دوران مسرت و بصیرت حاصل ہو ۔ تب ہی مختصر افسانہ اپنا تاثر چھوڑ سکتا ہے ۔ ایک نشست میں پڑھے جانے والے افسانہ کومختصر افسانہ کہاجاتا ہے ۔ جس کے لئے پندرہ منٹ تا آدھا گھنٹہ کا وقت متعین کیاجاسکتا ہے ۔
افسانے کی ابتداء بھی دہلی میں ہوئی اور اس کی ترویج و ترقی کے بہت سے مراحل اسی شہر میں تکمیل پائے۔1903ء اور1904ء یا1905ء تک مختصر افسانے کی ابتداء کے جو نقوش ملتے ہیں وہ دہلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ علامہ راشید الخیری کے ایک مکتوب نما افسانے کو جس کا عنوان" نصیر اور خدیجہ " ہے ۔ دہلی کا پہلا افسانہ ماناجاتا ہے ۔اور خود اردو کا بھی دہلی مختصر افسانے کی اپنی ایک تاریخ اور ایک ادبی روایت ہے ۔ "مختصر افسانوں میں رومان کی داستانیں بھی ملتی ہیں ۔بلکہ زندگی اور اس کے حقائق سے وابستگی اور ان سے فراری بھی مختصر افسانے کی ضرورت ہے ۔ انسانی مسائل، ضروریت اور سہولتوں کو پیش نظر رکھ کر افسانہ نگار مختصر افسانے کی بنیاد رکھتے ہیں ۔ ہر افسانہ نگار قاری کے لئے کچھ نہ کچھ دلچسپی کا سامان مہیا کرتا ہے اور تخلیق کار کی حیثیت سے ہماری زندگی میں شریک ہوتا ہے ۔ اس طرح مختصر افسانہ نگار زندگی اور مسائل کا رازداں ہوتا ہے۔ مختصر افسانہ مغرب سے ضرور آیا لیکن اس کے پنپنے،بڑھنے اور بار آور ہونے کے لئے یہاں کی زمین پہلے سے ہموار تھی چنانچہ جیسے ہی تراجم و طبع زاد تخلیقات کے ذریعہ سجاد حیدر یلدرم ، سلطان حیدر جوش، نیاز فتح پوری اور پریم چند وغیرہ کے ہاتھوں اردو میں مختصر افسانہ کا آغاز ہوا تو پڑھے لکھے طبقے کو اس سے مانوس ہونے میں دیر نہ لگی ۔
"مختصر افسانہ چاہے کہیں سے بھی آیا ہو لیکن ہماری سر زمین کے تخلیق کاروں کو اس کے سنوارنے اور سجانے کا ہنر آتا تھا اسی لئے مختصر افسانہ کو ہندوستان کی سر زمین میں شہرت حاصل ہوئی۔"اردو ادب میں منشی پریم چند کو مختصر افسانہ کا بانی مانا جاتا ہے ۔"منشی پریم چند کے دور میں افسانے کا آغاز ہوا ۔ جسمیں کہانی بھی شامل تھی اور طویل افسانے بھی مختصر افسانے کا لفظ اس دور میں عام افسانے کے لئے ہوتا تھا ۔ جو طویل بھی ہوسکتا تھا اور مختصر بھی ۔ دور حاضر میں جس مختصر افسانے کی بنیاد پڑی ہے اس سے منشی پریم چند کے دور کا کوئی تعلق نہیں ۔ آج چند لفظوں میں ایک یا دو صفحات پر مشتمل قصوں کو مختصر افسانہ کہاجانے لگا ہے ۔ چند صفحات پر مشتمل ہو تو مختصر افسانہ اور چند لفظوں اور جملوں پر مشتمل ہو تو منی افسانہ کہاجاتا ہے ۔"جہاں تک مختصر افسانہ کے موضوع کا سوال ہے اس کے لئے کوئی حد بندی نہیں کی جاسکتی کوئی بھی موضوع ہوسکتا ہے ۔ اردو میں افسانے کے آغاز سے سو برس پ ہلے امریکہ میں افسانہ کا آغاز ہوچکا تھا اور یورپ میں اس نے اپنے ارتقاء کی ایک صدی پوری کرلی تھی ۔ موجودہ صدی جس میں ہندوستان میں افسانہ نگاری کا آغاز ہوا وہ اپنی تبدیلیوں کے لحاظ سے بہت غیر معمولی صدی ہے ۔"
اس سے پتہ چلتاہے کہ یورپ میں پہلے افسانے کی بنیاد پڑی اور اس کی ایک صدی بعد ہندوستان میں اردوافسانے کی داغ بیل پڑتی ہے ۔ اردو میں مختصر افسانے کئی موضوعات پر لکھے گئے ہیں۔ ان میں سیاسی مسائل بھی نظر آتے ہیں سماجی اور اقتصادی بھی۔ ان سب ہی مسائل کو پیش کرنے میں افسانہ نگاروں نے ہندوستانی سماج کی روح کو نمایاں کردیا ہے ۔ ان سماجی مسائل میں جہاں پرانے رسم و رواج و روایات کو افسانوں میں سمویا گیا ہے ۔ وہیں معاشی مسائل غربت اور غریبوں کی بے کسی و مجبوری کی داستانیں بھی موضوع میں اس قدر جذب ہوکر نمایاں ہوتی ہیں کہ وہ کسی فرد کی داستان نہیں معلوم ہوتی بلکہ ہر انسان کا درد محسوس ہوتا ہے ۔" دہلی میں افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی کے ابتدائی چند برسوں میں ہوا لیکن مختصر افسانے کے نقوش سر سید کے یہاں خصوصیت کے ساتھ اور بعض دوسرے ادیبوں کی تحریروں میں عمومی طور پر مل جاتے ہیں۔ جن کے فنی حدود کا تعین زمانہ بہ زمانہ ہوتا رہا۔ پہلے دور کے افسانے بہت حد تک ہنگامہ1857ء کے اثرات مابعد اور سرسید تحریک کے زیر اثر رہے۔ قدیم قصوں اور کہانیوں کا بھی کم و بیش ادبی اور فکری پر تو ابتدائی دور کے ان افسانوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔" قدیم دور کے افسانوں میں وہی پرانی باتیں ہوتی ہیں اور آج کل کے مختصر افسانوں کی زبان دلچسپ اور جامع ہوتی ہے ۔ اردو میں اصلاحی افسانے زیادہ لکھے گئے۔ آج کے افسانوں میں جدت زیادہ ہوتی ہے اور وعظ و نصیحت کے لئے لکھے جانے والے افسانے بہتر تاثر نہیں چھوڑتے ۔ البتہ با مقصد اور اصلاحی افسانے اپنا اثر دکھاتے ہیں ۔
"ترقی پسند تحریک نے مختصر افسانے کوبڑی تیزی سے معیاری بننے میں مدد دی ۔ دس برس کے اندران کی بعض تخلیقات دنیا کی بہترین افسانوی تخلیقات کی ہمسری کے قابل ہوگئیں۔ اس طرح1936ء سے1947ء تک کے ہمارے مختصر افسانے زندگی اور فن دونوں کے لئے باعث ناز و افتخار رہے۔"
ترقی پسند تحریک کے ذریعے مختصر افسانے کا جنم ہو ااور اردوکے افسانہ نگاروں نے قارئین کو اعلی درجہ کے افسانوں سے نوازا اور ترقی پسند تحریک نے سماج میں ادب کو ترقی دی ۔ جس میں سب سے زیادہ مختصر افسانہ کو شہرت ملی کیونکہ مختصر افسانے میں کم وقت بات دوسروں تک پہونچانے اور جذباتی انداز میں موثر اظہار اور متاثر کرنے کی خصوصیت موجود تھی ۔ اس لئے مختصر افسانہ کو تیزی سے ترقی حاصل ہوئی ۔ مختصر افسانے کے بارے میں سید احتشام حسین کا نظریہ ملاحظہ ہو ۔" انہوں نے مختصر افسانہ کو بیسویں صدی کی پیداوار قرار دیا اور اس مختصر افسانے کے ابتدائی نقوش کے سلسلے میں سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند ہی کو اہم قرار دیا ہے۔" اس بیان سے ثبوت ملتا ہے کہ اردو میں مختصر افسانہ بیسویں صدی میں شروع ہوا اور اردوکے پہلے افسانہ نگاروں کی حیثیت سے سجاد حیدر یلدرم اور منشی پریم چند کا نا م لیاجاتا ہے ۔ سجادحیدر یلدرم اردو مختصر افسانے کے پہلے مترجم اور پریم چند مختصر افسانے کے پہلے تخلیق کار ہیں۔ مختصر افسانے میں ہونے والی تبدیلی کے بارے میں یہ کہاگیا ہے۔"مختصر افسانے کی تاریخ میں1935ء کا سال ایک اہم سنگ میل ہے ۔ افسانوی نثر کی کوئی بھی صنف ہو اس کو داستان سے ہی جنم لیناپڑتا ہے ۔ وقت کی کمی کی وجہ سے دور حاضر میں منی افسانہ پیدا ہوا ۔ جس طرح وقت رکتا نہیں آگے بڑھتا ہی جاتا ہے ۔ فن بھی کہیں نہیں رکتا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے ۔ فن دور حاضر میں زندگی کو طلب کرتا ہے ۔ ہمارے افسانہ نگاروں نے مشرقی و مغربی تمدن اور عالمی اخلاقی اصولوں کو اردو زبان میں متصل کر کے اردو افسانے کو دوسری عالمی زبانوں کے ہم پلہ بنادیا۔ انسانی زندگی ، رہن سہن ان کی نزاکتوں اور لطافتوں سے روشناس کروانا بھی اردو افسانے کی خوبی ہے ۔ مادی مصروفیات کی وجہ سے انسان کو وقت کی کمی محسوس ہوئی ۔لیکن وہ کہانی پڑھنے کے شائق رہا اور وہ قصہ کا اس انداز سے مطالعہ کرنا چاہتا تھا کہ جس کے ذریعے وقت بھی بچے اور کہانی پڑھنے کا بھی شوق پورا ہو۔ ایسے ہی بے شمار مسائل کی وجہ سے ایک نئی صنف نے جنم لیا جسے مختصر افسانہ کہتے ہیں ۔ مختصر افسانے میں پلاٹ سب سے زیادہ مربوط ہوتا ہے کیونکہ مختصر افسانے میں مکمل واقعات بیان کئے جاتے ہیں لیکن مختصر انداز میں یہی تخلیق کار کی خوبی ہے کہ وہ کس طرح مختصر وقت میں پوری بات بیان کرے ۔ مختصر افسانے میں دو یا ایک ہی کردار پیش کئے جاتے ہیں۔ اس سے سارے کرداروں کی زندگی کا پتہ چلتا ہے ۔ کم وقت اور کم الفاظ میں کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے ۔ اور انجام بھی فوری سامنے آتا ہے ۔ کم وقت کی وجہ سے قاری میں اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی ۔ مختصر افسانے میں ایک ہی واقعہ کے اطراف کہانی گھومتی ہے پس منظر بھی مختصر انداز میں بیان کیاجاتا ہے اور مختصر افسانے کا اسلوب بھی ناول ہی کی طرح جچا تلا ہوتا ہے ۔ لیکن مختصر افسانے میں صدیوں کی بات اشاروں میں پوری کرلی جاتی ہے ۔ اس اعتبار سے مختصر افسانہ معمہ یا پہیلی نہیں بلکہ اظہار کا قیمتی وسیلہ بن جاتا ہے کیونکہ اس وقت میں شروع سے آخر تک تخلیقی حسیت کار فرما ہوتی ہے ۔ اس خوبی کی وجہ سے مختصر افسانہ اہمیت کا حامل ہے ۔

A view on urdu afsana. Article: Dr. Rafat Sultana

2 تبصرے:

  1. بہت اچھا لکھا ہے۔ اگر اس میں مزید نام بھی درج کر لیے جاتے تو یہ ایک مکمل تبصرہ ہو جاتا۔ مثال کے طور پر نیر مسعود صاحب (لکھنو) جنہوں نے طاوءس چمن کی مینا، سیمیاء جیسی عظیم تصانیف لکھیں جو مختصر افسانے حلقہ میں آتی ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں