کتاب و سنت کی معرفت کا اسلوب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-04

کتاب و سنت کی معرفت کا اسلوب

quran-sunnat
اگر یہ کہاجائے کہ کتاب اللہ کے مفاہیم اور دین کے جن آثار کا تذکرہ کیا گیا ہے ، ان کی معرفت کے حصول کا ذریعہ اور طریقہ کیا ہے تو جواب یہ ہے کہ کتاب اللہ کے مفاہیم اوردین کی معرفت کا ذریعہ وہ صحیح احادیث و آثار ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے یا آپ کے بالغ نظر صحابہ کرام سے مروی ہیں جنہوں نے بذات خود قرآن کریم کے نزول کا مشاہدہ کیا اور اس کی تفسیر کا علم حاصل کیا۔
اگر یہ کہا جائے کہ صحیح اور ضعیف احادیث و آثار کی پہچان کیسے کی جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث و آثار کی صحت و ضعف کی پہچان ایسے ماہرین اور نقاد علماء کی تنقیدو تحقیق کے ذریعے سے حاصل کی جائے گی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں خصوصی فضیلت بخشی ہے اور انہیں ہر دور اور ہر عہد میں علم کی معرفت سے نوازا ہے ۔

صحیح حدیث:
صحیح وہ حدیث ہوتی ہے جس کی
(1)سند متصل ہو، یعنی ہر راوی نے اسے اپنے استاذ سے اخذ کیا ہو۔
(2) اسکا ہر راوی عادل ہو، یعنی کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو، صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو ، شائستہ طبیعت کا مالک ہو اور با اخلاق ہو۔
(3) وہ کامل الضبط ہو ، یعنی حدیث کو تحریر یا حافظے کے ذریعے سے کماحقہ محفوظ کرے اور آگے پہنچائے۔
(4) وہ حدیث شاذ نہ ہو ۔(شاذ و ہ حدیث ہے جس کا راوی ثقہ ہو اور بیان حدیث میں اپنے سے زیادہ ثقہ یا اپنے جیسے بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کرے ۔
(5) اس میں کوئی(ظاہری یاباطنی) علت نہ ہو۔

ضعیف حدیث:
ضعیف وہ حدیث ہے جس میں صحیح اور حسن کی تمام صفات جمع نہ ہوں۔

کتاب اللہ کے مفاہیم اور رسول اللہ ﷺ کی سنن جاننے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ نقل و روایت کا طریقہ ہے لہذا یہ واجب ہے کہ ہم عادل ، ثقہ ار مضبوط حافظے اور قوی بط کے مالک راویوں اور غفلت وہم اور کمزور حافظے کا شکار ہونے والے اور جھوٹے اور من گھڑت احادیث وضع کرنے والے راویوں کے مابین تمیز کریں۔ جب دین اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے ہمارے پاس صرف راویوں کے ایک دوسرے سے نقل کرنے سے آیا ہے تو ہم پر ان کی معرفت اور پہچان لازم ہے ، نیز ہماری یہ ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ ہم آیا ت و احادیث نقل کرنے والے راویوں کے بارے میں تحقیق کریں، ان کے احوال کی جانچ پڑتال کریں اور پھر روایتِ حدیث کے معاملے میں عدالت وثقاہت اور ضبط کی ان شرائط کے مطابق ان راویوں کی توثیق کریں جنہیں پرکھ لیا گیاہے ۔

نقل حدیث اور روایت میں کسی پر عدالت و ثقاہت کا حکم لگانے کا تقاضا یہ ہے کہ توثیق شدہ راوی بذات خود امانت دار ہوں ، اپنے دین کے جاننے والے ہوں اور متقی، پرہیز گار، حدیث کے حافظ باوثوق اور ماہر ہوں ۔ کھرے کھوٹے میں تمیز کی استعدادرکھتے ہوں۔ بکثرت غفلتوں کی وجہ سے کسی غلط بیانی کا شکار نہ ہوتے ہوں ۔ جن باتوں کو انہوں نے حفظ اور ذہن نشین کیا ہو، ان کے معاملے میں ان پر اوہام غالب نہ آتے ہوں۔ اغلاط کی بنا پر شکوک و شبہات میں مبتلا نہ ہوتے ہوں۔

(محدیثین کے نزدیک "حافظ" وہ ہے جس نے متون احادیث اور ان کے اصل حاصل کئے، متعدد کتب کا سماع کیا اور علل و اسانید اور اسماء الرجال کی معرفت حاصل کرنے کے ساتھ احادیث کی کثیر تعداد کو حفظ کیا ہو اور رجال کو طبقہ بہ طبقہ اس طرح محفوظ کیا ہو کہ ان کے احوال، سوانح اور ان کے شہروں کی پوری معرفت حاصل کی ہو۔ بعض متاخرین علماء نے کہا ہے کہ جس نے ایک لاکھ احادیث باسند یاد کی ہوں، وہ حافظ ہے۔
(اصول الحدیث از ڈاکٹر خالد علوی 1/50،51،52)

مزید برآں ہماری یہ ذمہ داری بھی ہے کہ ثقہ راویوں سے ان راویوں کو الگ کردیاجائے جن پر جرح و تعدیل کے ماہرین نے جرح کی ہو اور ہمارے لئے ان کے جھوٹ جیسے پوشیدہ معاملات سے پردہ اٹھایا ہو۔ اسی طرح غفلت ، سو، حفظ اور کثرت خطا ، سہو اور شکوک و شبہات جیسے عیوب کے شکار راویوں کو آشکارا کیا ہو تاکہ اس دین (اسلام) کے دلائل، اس کے نقوش اور اللہ کی زمین پر اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو امانت داری سے دوسروں تک پہنچانے والوں کو پہچانا جاسکے ۔ جو راوی اس میزان پر پورے اتریں وہی عادل اور ثقہ ہیں ، لہٰذا جس بات کو وہ روایت کریں اسے مضبوطی سے تھام لیاجائے ،اس پر اعتماد کیاجائے ، اس کے مطابق فیصلہ کیاجائے اور اسی کے مطابق دین کے امور چلائے جائیں ۔

اس بحث و تحقیق کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کی پہچان ہو جو ایسے جھوٹے ہیں کہ جان بوجھ کر احادیث گھڑتے ہیں یا پھر وہ جھوٹ توبولتے ہیں لیکن ان کا جھوٹ عمداً نہیں ہوتا بلکہ وہم کی وجہ سے ہوتا ہے، نیز غفلت ، نسیان، اغلاط اور کمزور حافظے کے مالک افراد کی پہچان حاصل ہو ، ان کے احوال لوگوں پر منکشف ہوں اور ان اسباب کی خبر ہو جن پر ان کی روایت کا دارومدار ہے ،اور پھر ان احادیث کا مقام متعین کیاجائے ۔ اگر روایت کرنے والا جھوٹا ہے تو اس کی روایت جھوٹی ہوگی ۔اگر وہ وہمی ہے تو اس کی روایت ایک وہم اور اگر وہ اغلاط کامرتکب ہوتا ہے تو اس کی روایت ایک غلطی سمجھی جائے گی ۔ یہی مجروح راوی ہیں، لہذا ان میں سے جس راوی کی حدیث کو ساقط الاعتبار قرار دینا واجب ہے اس کی حدیث کو ساقط قراردیاجاتاہے اوراس کاکوئی اعتبار کیاجاتا ہے نہ اس پر عمل کیاجاتا ہے ۔
جس راوی کی حدیث پرکھنے کے لئے لکھنی واجب ہو اسے اسی اعتبار سے لکھاجاتا ہے، پھر ان میں سے بعض راویوں کی حدیث عمدہ آداب و اخلاق، اچھے پندو نصائح ، ترغیب و ترہیب اور رمی اور انکسار والے امور پر مشتمل ہوتی ہے ۔ پھر اس بات کی بھی ضرورت محسوس کی جاتی ہے کہ راویوں کے طبقات اوران کے احوال کی درجہ بندی کو واضح کیاجائے اور ان کے درجات کا اختلاف بیان کیاجائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان میں سے کون راویوں کے بارے میں نکتہ چینی، تنقید اور چھان پھٹک ، تحقیق، بحث اور ان کی پہچان کی اہلیت رکھتا ہے ، جو لوگ اس مقام و مرتبہ کے حامل ہیں وہی دوسروں کی جرح و تعدیل اور تزکیے کی اہلیت رکھتے ہیں۔نیز یہ بھی معلوم ہوسکے کہ کون بذات خود عادل ہے اور حدیث کو وثوق اور صحیح ضبط کے ساتھ حفظ کرنے والاہے ، چنانچہ اسی مقام کے حاملین عادل اور ثقہ راوی ہیں۔

ان میں سے بعض راوی اپنی روایت کے معاملے میں صدق اور دین کے معاملے میں متقی ہیٰں۔ لیکن وہ ایسے حافظے کے مالک ہیں جس سے بسا اوقات وہم صادر ہوجاتا ہے ۔ ایسے راویوں کو نقاد اور ماہر اہل فن نے قبول کیا ہے کہ ان کی حدیث کو حجت سمجھاجاتا ہے ۔ان میں سے بعض ایسے “صدوق” راوی بھی ہیں جو دین کے معاملے میں متقی ہیں جب کہ حدیث کے معاملے میں ایسی غفلت کے شکار ہیں کہ ان کے قول میں وہم، خطا اور اغلاط کی بھرمار ہے، چنانچہ ترغیب و ترہیب، زہد اور آداب و اخلا قیاتوغیرہ کے متعلق ان کی احادیث کو لکھاجاتاہے اور حلت و حرمت کے متعلق ان کی احادیث کو قابل حجت قرار نہیں دیاجاتا۔

بعض راوی ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپ نے آپ کو ثقہ اور صدوق مرتبے کے راویوں سے ملانے کی کوشش کی اور راویوں کے مابین تدلیس ( تدلیس کرنے والے راوی کو مدلس کہتے ہیںاور مدلس وہ حدیث ہے جس کا راوی کسی وجہ سے اپنے استاد یا استاد کے استاد کا نام(یا تعارف) چھپائے لیکن سننے والے کو یہ تاثر دے کہ میں نے ایسا نہیں کیا اور سند متصل ہی ہے، حالانکہ اس سند میں راویوں کی ملاقات اور سماع توثابت ہوتا ہے مگر متعلقہ روایت کا سماع نہیں ہوتا۔)کی توفن رجال کے ماہرین اورنقاد پر ان کا جھوٹ ظاہر ہوگیا ، چنانچہ ان کی حدیث کو ترک کردیا گیا،ان کی روایت کو چھوڑ دیا گیا اور ساقط الاعتبار قرار دے دیا گیا ، لہٰذا ان کی احادیث کے ساتھ علم و عمل میں مشغول نہیں ہواجاتا۔

ماخوذ از کتاب: امام سفیان بن عیینہ
تصنیف: صلاح الدین علی عبدالموجود
اردو ترجمہ: پروفیسر حافظ عبدالرحمن ناصر (سن اشاعت: مئی 2008)

The skills of learning Quran & Sunnah.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں