پیش لفظ اور مضمونچہ - البتہ - یوسف ناظم - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2019-01-07

پیش لفظ اور مضمونچہ - البتہ - یوسف ناظم

article-albatta-yusuf-nazim

مصنف اب اپنی کتاب کا پیش لفظ نہیں لکھا کرتے کیونکہ کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ کتاب کے شرو ع ہی میں اس کا بھرم کھل جائے ۔ پیش لفظ کی کوئی ادبی اہمیت ہے بھی نہیں۔ اسی لئے ادب کے ذخیرے میں مقدموں کے مجموعے تو ملتے ہیں لیکن پیش لفظ اب تک کسی مجموعے کی زینت نہیں بن سکے ۔ پیش لفظ، بطور لفظ بھی اتنا معمولی ہے کہ اس کی جمع تک بھی نہیں ہے ۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ ہنستے ہنساتے پیش لفظ لکھ لیا کرتے تھے۔ رواں، دواں، ایک مسلسل مضمون کی شکل میں۔ اب جو پیش لفظ سامنے آ رہے ہیں، وہ مسلسل نہیں ہوتے بلکہ پہلودار ہوتے ہیں۔ یعنی ان کا ہر پہلو الگ الگ ہوتا ہے ۔ ان کی شکل نثری نظموں کی سی ہوتی ہے ہر جملہ نئی سطر سے شروع ہوتا ہے۔ بعض جملے تو نصف یا ایک چوتھائی سطر کے بھی ہوتے ہیں، ان میں تفصیل کم اور ترسیل زیادہ ہوتی ہے ۔ میں بھی چاہتا تھا کہ ایسا ہی پیش لفظ لکھوں (کم سے کم دیکھنے میں تو خوبصورت ہوگا) لیکن بلیغ جملے اس وقت بنتے ہیں جب لکھنے والے کے پاس کہنے کے لئے کچھ ہو۔ میں تو زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتا ہوں کہ میں 1944ء سے مسلسل لکھ رہا ہوں ۔ اسے آپ لکھناکہیں گے یا ضد؟ ادیب کی ضد کا تو خیر کوئی جواز ہوتا ہے لیکن میرے ساتھ ساتھ مصطفی کمال مدیر "شگوفہ" کو بھی غالباً ضد ہو گئی ہے کہ وہ میری کتابیں چھاپتے رہیں گے ۔۔۔ یہ کتاب بھی انہیں کی غفلت کا نتیجہ ہے ۔ میرے معاملات میں وہ تیسری مرتبہ یہ غلطی کر رہے ہیں۔
ادھر کچھ دنوں سے مزاحیہ کتابیں (یعنی مزاحیہ مضامین کی کتابیں) زیادہ تعداد میں چھپ رہی ہیں۔ کچھ کتابوں میں تو واقعی مزاح ہوتا ہے اور کچھ میں قاری اپنی طرف سے مزاح پیدا کر لیتے ہیں ۔۔۔ میں حسب معمول قاریوں سے تعاون کا طلب گار ہوں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اچھی کتاب وہ ہوتی ہے جو ایک ہی نشست میں ختم ہو جائے ۔ممکن ہے یہ فارمولا صحیح ہو لیکن مزاحیہ کتابیں اس فارمولے سے مستثنیٰ ہونی چاہئیں۔ یہ قاری سے تھوڑی فرصت مانگتی ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میری یہ کتاب، میری پچھلی کتابوں سے بہتر ہے کیونکہ یہ بھی کوئی معیار ہوا؟ لیکن بہر حال یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر آپ نے اس سے پہلے میری کوئی کتاب نہیں پڑھی ہے تو کوئی حرج نہیں۔ وہ سب ایسی ہی تھیں۔

یوسف ناظم
7/ نومبر 1981ء
19۔الہلال 13 کرشن چندر مارگ
باندرہ ریکلمیشن۔ بمبئی 400050
المرقوم:7/ نومبر 1981ء (المرقوم کسی عمارت کا نام نہیں ہے)

٭ کھیلوں میں سب سے اچھا کھیل، قلا بازی ہے۔ اس کھیل میں حصہ لینے کے لئے چھوٹی بڑی عمر کی قید نہیں ہوتی بلکہ اس میں سب سے اعلیٰ درجے کی قلا بازی اس شخص کی ہوتی ہے جس کی عمر کم سے کم پچھتر سال ہو۔ یہ عمر مسلسل قلابازیوں کی ہوتی ہے۔ قلا بازوں کا سب سے اچھا میدان سیاست کا میدان ہوتا ہے ۔اس پر گھاس بچھی ہوتی ہے ۔
٭ بھائیو اور بہنو کہہ کر جب بھی کوئی مقرر عوام سے مخاطب ہوتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یا تو مقرر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے یا اسے چند در چند وجوہ کی بنا پر عاق کر دیا گیا ہے ۔
٭ غربت لا علاج مرض ہے۔ اس مرض کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اپنی غربت دور کر کے سمجھتے ہیں سب کا بھلا ہو گیا۔
٭ انکم ٹیکس ادا کرتے وقت بھول جانا چاہئے کہ اہل و عیال کے لئے بھی کچھ پس انداز کرنا ضروری ہوتا ہے ۔۔۔ ویلفیر اسٹیٹ میں ایسی فضول باتیں نہیں سوچی جاتیں۔
٭ ادب، کوئی منفعت بخش فعل نہیں لیکن اس میں سہولت یہ ہے کہ ادب میں داخلے کے لئے کوئی انٹرویو نہیں ہوتا۔
٭ کتنے ہی والدین جنہوں نے انپی طالب علمی کے زمانے میں کبھی ہوم ورک نہیں کیا، اپنے بچوں کا ہوم ورک کرنے پر جبراً مامور کئے جاتے ہیں ۔ ان بچوں کے فیل ہونے کا ذمہ دار استادوں کو کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے ۔ ان اساتذہ کو تو معلوم تک نہیں ہوتا کہ ان کے طالب علم کون ہیں۔۔ اساتذہ تعلیم کے معاملے میں معصوم اور بے قصور لوگ ہوتے ہیں۔
٭ سنا گیا ہے کہ بعض اسکولوں میں چھوٹے بچوں کے داخلے کے لئے ان کے والدین کو انٹرویو دینا پڑتا ہے ۔ یہ والدین مارے شرمندگی کے کوئی احتجاج بھی نہیں کر سکتے ۔ والدین کو فیملی پلاننگ کی طرف راغب کرنے کی یہ بھی ایک تدبیر ہے ۔
٭ ایک زمانہ تھا جب شہر کے ہر محلے میں ایک میر محلہ ہوا کرتا تھا جس کا ہر شخص ادب کرتا تھا۔ آج بھی محلے والے ایک شخص کا ادب کرتے ہیں لیکن یہ شخص میر محلہ نہیں "دادا " کہلاتا ہے ۔
٭ آدمی کی تخلیق کو کتنے قرن گزر گئے اور آدمی آج بھی اشرف المخلوقات ہے۔ اتنے عرصے تک اشرف المخلوقات بنے رہنا معمولی بات نہیں۔
٭ سنا گیا ہے، ان دنوں خون کے بنکوں میں جو کچھ بھی خون جمع ہے وہ ناقص ہے ۔ مجبوری ہے خون بیچنے والوں کا خون ناقص نہیں تو کیا خالص ہوگا۔ خون بیچنے والوں کا خون نہیں، خون کا عطیہ دینے والوں کا بھی خون دیکھ سمجھ کر وصول کرنا چاہئے۔ اس طرح خون خرابے سے کیا حاصل؟
٭ صدمے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ ذہنی صدمہ، جسمانی صدمہ، اور مالی صدمہ۔ ذہنی صدمہ، ادیبوں اور شاعروں سے پہنچتا ہے ۔ جسمانی صدمہ ، قانونی اور غیر قانونی زوجاؤں سے ۔ مالی صدمہ سے البتہ 80/ فیصد لوگ محفوظ رہتے ہیں، ان کے پاس کچھ ہو تو صدمہ پہنچے یا یوں ہی پہنچ جائے۔
ایک اور صدمہ ہوتا ہے جو کچھ کچھ خوشی کا باعث ہوتا ہے ۔ اسے انگریزی میں "پلیزنٹ شاک" کہا جاتا ہے۔ یہ ٹرینوں کے وقت پر چلنے سے پہنچتا ہے (شاذ و نادر)۔
٭ اگر آدمی اپنے پیشے پر زیادہ توجہ نہ کرے تو زندگی کے کئی شعبوں میں بے پناہ ترقی کر سکتا ہے یعنی اتنی کہ دوسرے پناہ مانگنے لگیں۔
٭ آنکھوں سے کئی کام لئے جا سکتے ہیں ۔ اکثر لوگ اپنی آنکھوں سے صرف چشم پوشی کا کام لیا کرتے ہیں، خاص طور پر حکومتیں۔ اگر ایک ملک کسی دوسرے ملک پر حملہ کر دے تو یہ تیسرے ملک کے لئے چشم پوشی کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ گھریلو معاملات میں بھی ایسے کئی زریں موقعے آتے ہیں۔
٭ ڈاکٹر ہر دو منٹ بعد اپنے ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ جانا اسے ہی کہتے ہیں۔ مریضوں سے زیادہ نرسیں پریشان رہتی ہیں۔
٭ بیت المال میں سب سے بڑا حصہ اس شخص کا ہوتا ہے جو اول خویش بعد درویش کا سبق بھولا نہ ہو۔

ماخوذ از کتاب: البتہ (مزاحیہ مضامین)
تصنیف: یوسف ناظم
پی۔ڈی۔ایف کتاب ڈاؤن لوڈ

Albatta, Humorous Essays of Yusuf Nazim.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں