خدا کے لئے دروازے پر نام کی تختی لگائیے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-04

خدا کے لئے دروازے پر نام کی تختی لگائیے

name-plate
دوسروں کو تکلیف پہنچا کر بعض لوگوں کو بڑا مزا آتا ہے۔ اپنے گھر کے دروازے پر نام کی تختی نہیں لگانے والوں کو ہم اسی قماش کے لوگوں میں تصوّر کرتے ہیں۔
انسانوں کی دو ہی قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک سمجھدار ہوتے ہیں جو نام کی تختی لگاتے ہیں۔ اور دوسرے۔۔۔۔۔خیر جانے دیجیئے۔ اب ہم اتنے شدّت پسند بھی نہیں کہ دوسری قسم بھی بتائیں۔ آپ خود ہی سمجھ گئے ہوں گے۔ پتہ نہیں ان لوگوں کو کیا مزا آتاہے جب ہم ایک غلط دروازے پر بیل بجاتے ہیں۔ اندر سے ایک عربی عورت کچھ کہہ رہی ہوتی ہے۔ بند دروازے کے پیچھے سے کچھ سنائی نہیں دیتا۔ وہ اور زور سے مکرّرکہتی ہے۔ اور اتنے میں اسکا شوہر نامدار آکر ہم پر برس پڑتاہے ۔ پتہ نہیں وہ ہم پر شک کرتاہے یا بیوی پر۔ جی تو چاہتاہے کہ ایک تھپّڑ رسید کریں اور کہیں کہ بھائی اپنی بیوی کی ترنّم بھری آواز کی اتنی پردہ داری ہے تو اپنے نام کی تختی اپنے دروازے پر کیوں نہیں لگالیتا۔ لیکن ہم یہ کہہ نہیں سکتے اور ایک چور بن کر اسکے شوہر کی جھڑکیاں سن رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ ہم کسی اور دروازے پر بیل بجائے جاتے ہیں اندر سے کوئی آواز نہیں آتی۔ جب واپس ہونے لگتے ہیں تو اس وقت دروازہ کھلتاہے۔ کوئی صاحب گہری نیند سے اٹھ کر آنکھیں ملتے ہوئے دروازہ کھولتے ہیں۔ جب انہیں پتہ چلتاہے کہ ہم نے کسی اور صاحب کے دھوکے میں ان کا دروازہ کھٹکھٹادیاہے تو نیند خراب ہونے کا پورا غصّہ ان کے لہجے سے جھلکتاہے۔ اور ایسے دروازہ بند کرتے ہیں جیسے کسی غیر ضروری چندہ مانگنے والے کو دیکھ کر بند کیاجاتاہے۔ جی تو چاہتاہے گلا پکڑ کر باہر کھینچیں اور یہ کہیں کہ پہلے تو یہ سونے کا کوئی وقت نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی نیند کی حفاظت ان کی اپنی ذمہ داری ہے نہ کہ ہماری۔ اگر وہ اپنے نام کی تختی دروازے پر لگالیتے تو کوئی انہیں کیوں ڈسٹرب کرتا؟ لیکن بہرحال جب وہ دروازہ بند کرہی چکے ہوتے ہیں تو ہم اپنی ذلّت پر انہیں سوائے دل میں گالیاں دینے کے اور کر بھی کیاسکتے ہیں۔کبھی ایسا ہوتاہے کہ ہم کونسی منزل پر جانا ہے بھول جاتے ہیں اور سارے فلور چڑھ جاتے ہیں۔ دس بارہ فلیٹوں میں سے سوائے ایک دو کے کسی کے دروازے پر نام کی تختی نہیں ہوتی۔ سانس پھول جاتی ہے۔کچھ دیر دم لے کر نیچے اترتے ہیں اور حارث یعنی چوکیدار کو ڈھونڈھتے ہیں جو دور کہیں دوسرے چوکیداروں کے ہمراہ مٹرگشتی کررہاہوتاہے۔ ہم پوچھتے ہیں "فلاں صاحب کا کونسا فلیٹ ہے؟ "
وہ کہتاہے "معلوم نئیں صاب، ہم کو کسی کا نام یاد نئیں رہتا"
ہم کہتے ہیں "وہ انڈین ہیں"
وہ کہتا ہے "سارے انڈین پاکستانی ایک ہی شکل کے ہوتے ہیں، کوئی چینی یا جاپانی ہو تو یاد رکھے"
ہم کہتے ہیں "بھائی وہ بڑے شریف آدمی ہیں"
وہ کہتا ہے "یہاں سارے بڑے شریف رہتے ہیں کوئی چھوٹا یا منجھلا شریف نہیں رہتا"۔
اب ہم انہیں فون کرتے ہیں جو وہ اٹھاتے نہیں۔ ہم وقت کی بربادی کی کوفت لئے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اگلی ملاقات میں بجائے اسکے کہ وہ صاحب شرمندہ ہوں الٹا ہمیں شرمندہ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں "ارے حضت، ذرا دوسرے فلور کے تین نمبر فلیٹ پر بیل بجادیتے"۔ اب ہم انہیں کیا بتائیں کہ نمبر ایک او ردو پر ذلّت سہنے کے بعد ہم میں اتنی ہمّت کہاں تھی کہ تین نمبر پر بیل بجاتے۔ہم پوچھتے ہیں کہ آپ نے فون کیوں نہیں اٹھایا؟ جواب میں معذرت خواہی کی جگہ الٹا ہم پر ہی برس پڑ تے ہیں کہ "آپ دس منٹ کے بعد پھر فون کرلیتے؛ میں میچ کے دوران فون کو خاموش کردیتاہوں"۔ہم بحث و تکرار کو ختم کرنے جھلّا کر کہتے ہیں "بھائی ، دو چار ریال میں کسی بھی اسٹیشنری میں حروف تہجّی مل جاتے ہیں، خرید کر اپنا نام دروازے پر لگانے میں آپ کو کیا پرابلم ہے؟ وہ فرماتے ہیں۔ "بھائی نام نہیں تو کیا ہوا، کمپنی کے نام کا اسٹیکر تو ہے"۔ اب ان کا منہ نوچ لینے جی چاہتاہے۔ کیا ہمیں الہام ہوگا کہ وہ کس کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ خیر ایک نام کی تختی دروازے پر نہ لگانے کے نتیجے میں آئے دن ہم کو لوگوں سے اسی طرح کی حجّت و تکرار کا سامنا رہتاہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ سمجھدار لوگ ہم کو ڈاکٹریٹ کرنے والے ہی نظر آئے کیونکہ یہ لوگ ڈاکٹریٹ کرتے ہی اسلئے ہیں کہ ڈاکٹر فلاں کے نام کی تختی لگائیں۔ اس سے پہلے انہیں کبھی تختی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ بلکہ ایسے بھی ڈاکٹر صاحبان کو ہم نے دیکھا ہے جو ابھی پی ایچ ڈی میں اڈمیشن بھی نہیں لیتے کہ اپنے نام کی تختی بنانے کا آرڈر دے ڈالتے ہیں جس طرح کہ بعض نیک بزرگ اپنے انتقال سے پہلے ہی اپنا کتبہ بمعہ شجرہ نسب اور کوئی اچھا سا شعر لکھواکر تیار رکھتے ہیں۔ کاش ایسا ہوتا کہ میٹرک یا انٹر کے بعد بجائے گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کے سیدھے پی ایچ ڈی ہوتی، گھر گھر نام کی تختی ہوتی۔ اگر یونیورسٹی یا حکومت گریجویشن یا پوسٹ گریجوشن کو اتنا ضروری ہی سمجھتی ہے تو پی ایچ ڈی کے بعد ان ڈگریوں کو رکھے۔ پہلے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگاکر نام کی تختی لگانے سے سماج کے کتنے فائدے ہوسکتے ہیں یہ نہ حکومت کو اندازہ ہے اور نہ یونیورسٹیوں کو ہے۔
یہ بھی ہمارا مشاہدہ ہے کہ لوگ زندگی میں تو کبھی اپنے دروازے پر نام کی تختی نہیں لگاتے لیکن ان کے مرنے کے بعد ان کی اولاد ان کی قبر پر نام کا کتبہ ضرور لگادیتی ہے شائد اسلئے کہ خالی زمین سمجھ کر قبرستان کے متولی کسی اور کو قبر کی زمین نہ بیچ ڈالیں۔اور شب برات یا شب قدر میں قبروں کی زیارت کے لئے آنے والوں کو کتبہ دیکھ کر اندازہ ہوجائے کہ مرحوم کی زندگی میں تو کوئی شناخت نہیں تھی لیکن مرنے کے بعد ایک شاندار شناخت ہے۔ اسلئے اپنے دروازوں پر نام کی تختی نہ لگانے والوں کو عبرت کیلئے ہم اکثر قبر کے کتبوں ہی کی مثال دیتے ہیں۔ مگر لوگ بھی بڑے ڈھیٹ ہوتے ہیں۔
ہمیں نام کی تختی نہیں لگانے سے پھر بھی اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی بعد کی تکرار سے ہوتی ہے۔ کسی کا پتہ پوچھتے پوچھتے ہم ساری گلیاں چھان مارتے ہیں سارے دوکانداروں سے پوچھ لیتے ہیں کوئی پتہ نہیں چلتا لیکن جب صاحبِ مقصود ملتے ہیں تو ڈانٹتے ہیں کہ "آپ نے دوسری گلی کے نکّڑ پر اگر جہانگیر قصّاب سے پوچھ لیاہوتا یا پانچویں رائٹ پر قاسم ٹیلر سے پوچھ لیا ہوتا تو وہ فوری بتادیتا"۔ گویا اب کسی کا پتہ پوچھیں تو ساتھ ہی وہ پتے بھی پوچھ لیا کریں جن سے ان کا پتہ پوچھا جاسکتاہے۔ ہم ایک راز کے بات بتادیں کہ اگرآپ محلّے کی دوکانوں اور کاریگروں کا زیادہ سے زیادہ ادھار باقی رکھاکریں تو وہ لوگ آپ کانام اور پتہ اچھی طرح یاد رکھتے ہیں ۔ اسطرح ان لوگوں کو پتہ بتانے میں آسانی ہوتی ہے۔ جب آپ کسی دوکاندار سے کسی کا پتہ پوچھیں اور وہ فوری بتادے تو سمجھ جائیے کہ سب سے زیادہ ادھار انہی صاحب کا ہے۔ اور کسی کا پتہ بتانے میں دوکاندار کو بہت دیر سوچنا پڑے تو سمجھ جایئے وہ کوئی شریف آدمی ہیں جو پیسے فوری ادا کردیتے ہیں اسلئے انہیں کوئی یاد نہیں رکھتا۔
ہم نے کئی بار سوچا کہ دروازے پر نام نہ لکھنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے۔ پتہ چلاکہ کچھ لوگ قلندر مزاج ہوتے ہیں۔ انہیں اپنی پہچان کروانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔پوچھنے پر بڑی انکساری سے کہتے ہیں " فقیر کے گھر پر آتا ہی کون ہے"۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ اگر دروازے پر فقیر کا نام لکھا ہوگا تو لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے کہ جس فقیر یا افلاسی کی تلاش میں وہ ہر دروازے پر بیل بجارہے ہیں وہ کم از کم یہاں نہیں رہتا۔
ایک صاحب نے قلندارانہ اور بے نیازانہ فرمایا کہ "نام میں کیا رکھا ہے"۔ (ہمارا اشارہ ڈاکٹر عابد معز کی طرف بالکل نہیں ہے)۔ یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ نام میں کچھ نہیں رکھا ہے لیکن نام کی تختی میں کیا کیا رکھا ہے یہ ہمارے تلخ تجربات کی روشنی میں آپ جان ہی گئے ہوں گے۔ اب ہم وہ گالیاں کیسے بتائیں جو اُس وقت ندر سے نکلتی ہیں جب ہم دو تین دروازوں کے بیچ کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس دروازے پر کھٹکا ماریں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ ہم پوسٹ مین نہیں بنے ورنہ اب تک تو ہمیں ٹی بی ہوچکاہوتا۔
کوئی صاحب فرماتے ہیں کہ میری رائٹنگ بڑی خراب ہے اسلئے میں نے نام نہیں لکھا۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جنکو ماں باپ بچپن میں پڑھنے کے لئے سختی برتتے تھے اور یہ کتابیں بیچ کر فلم دیکھتے تھے۔ کاش اُس وقت تھوری سی محنت کرلیتے تو آج اپنا نام تو کم از کم اپنے دروازے پر لکھ کر ماں باپ کا نام روشن کرتے۔
ایک صاحب نے فرمایا کہ "نام کی تختی سے چوروں کو اندازہ ہوجاتاہے کہ گھر میں کتنا مال موجود ہوسکتاہے۔" ہم نے کہا کہ بھائی نام کے ساتھ اگر اپنی ڈگریاں اور عہدوں کی تفصیل بھی لکھیں گے تو یقیناًچوروں کو اندازہ ہوجائیگا۔ صرف نام ہی لکھ دیجئے تاکہ کچھ شریفوں کو بھی اندازہ ہوجائے کہ آپ کہاں رہتے ہیں۔لیکن انہوں نے فرمایا کہ نام بھی بہت کچھ کہتاہے۔ میرا پورا نام "عبدالحکیم زرداری"ہے ۔ ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ سوئس بنک کا کوئی لاکر یہاں بھی ہوگا۔
ایک صاحب نے فرمایا کہ تختی بہت مہنگی پڑتی ہے۔ اگر یہ بات ہے تو پھر سماجی فلاحی انجمنوں کو چاہئے کہ ایسے افراد کے لئے چندے کی اپیل کریں اور ان کو اپنی پہچان قائم کرنے میں مدد کریں۔
البتہ ہمارے ایک دوست ہیں جنکے دروازے پر ان کے نام کی خوبصورت تختی دیکھ کر ہم ہمیشہ ان کے تعلیم یافتہ ہونے کی دلیل تصوّر کرتے تھے، ایک دن ان کے گھر گئے تو نام کی تختی غائب تھی۔ ہم نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ بھائی اس عمارت میں زیادہ تر عرب رہتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ شکّی مزاج ہوتے ہیں اسلئے ایک دوسرے کے گھر پر جب تک نام کی تختی نہ لگی ہو بیل نہیں بجاتے۔ جیسے ہی کسی رفیق کا نام دیکھتے ہیں فوری بیل بجادیتے ہیں۔ کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ انڈین پاکستانی بڑی فرمانبرداری اور مروّت سے بتادے گا کہ کون کہاں رہتاہے۔ اسلئے تنگ آکر میں بھی سعودی ہوگیا ہوں یعنی میں نے بھی نام کی تختی نکال پھینکی ہے۔ اور جب سے نکالی ہے، بڑا سکون ہے۔ رات بے رات نہ کوئی بیل بجاتاہے نہ نیند خراب ہوتی ہے۔
اب آپ ہی بتائیے ہم کریں تو کیا کریں؟ نام کی تختی نہ ہوتو ہم سزا بھگتّے ہیں۔ ہو تو گھر والے عذاب بھگتتے ہیں۔

***
aleemfalki[@]yahoo.com
موبائل : 00966504627452
ڈاکٹر علیم خان فلکی

The issue of name plate, Humorous Essay. - Dr. Aleem Khan Falaki

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں