انشائیہ یا پادر ہوائیہ - کالم خامہ بگوش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-16

انشائیہ یا پادر ہوائیہ - کالم خامہ بگوش

inshaiah
بابائے انشانیہ ڈاکٹر وزیر آغا سے غیر مشروط نیاز مندی کے باوصف "انشائیہ" ہمارے گلے سے نہیں اترتا۔ خود ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں کو تو ہم اس لئے پڑھ لیتے ہیں کہ ہمارے پڑھے لکھے ہونے کا بھرم قائم رہ سکے ، لیکن کسی دوسرے شخص کے انشائیے پڑھنے سے ہم اس لئے ڈرتے ہیں کہ کہیں اس شخص کے پڑھے لکھے ہونے کا بھرم نہ جاتا رہے۔ وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا اپنے علم اور مشاہدے کے زور پر مضمون کی ہوا خوب باندھ لیتے ہیں ، لیکن ہما شما تو بس ہوا ہی پھانکتے نظر آتے ہیں۔
آج کل انشائیہ نگاری کا بہت زور ہے ۔ ہر وہ شخص جو صحیح اردو کے چار جملے بھی نہ لکھ سکتا ہو ، بڑی آسانی سے چار صفحوں کا انشائیہ لکھ لیتا ہے۔ یہ آسانی اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ انشائیے کے دامن میں وسعت ہو نہ ہو، موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے۔
رائی سے لے کر پہاڑ تک اور ماچس سے لے کر آتشزدگی تک، آپ کسی بھی موضوع پر کچھ بھی لکھ سکتے ہیں اور اسے انشائیے کا نام دے سکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ آل پاکستان باربر ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری جناب اسلام سلمانی بھی اپنے رسالے"سنگھار" کے اداریوں کو انشائیہ قرار دیتے ہیں۔
اخباروں اور رسالوں ہی میں انشائیے نہیں چھپ رہے ، کتابی صورت میں بھی یہ جنس بہ افراط نظر آتی ہے ۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو پچھلے دو برسوں میں تین درجن سے زیادہ انشائیوں کے مجموعے شائع ہو کر منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں ۔ یہاں تو بات ٹھیک تھی ، لیکن جب سے انشائیے پر تحقیقی و تنقیدی کتابیں شائع ہونا شروع ہوئی ہیں صورتحال خاصی تشویشناک ہو گئی ہے ۔
پچھلے دو تین برسوں میں انشائیے پر جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ، ان میں سے پہلی "ممکنات انشائیہ" ہے جو مشکور حسین یاد کی تصنیف ہے ۔ اس میں مصنف نے یہ دعوی کیا تھا کہ انہوں نے سب سے پہلا انشائیہ اس وقت لکھا تھا جب وہ تیسری جماعت میں پڑھتے تھے ۔ ہم نے اس موقف کی تائید میں عرض کیا تھا کہ یاد صاحب کا پہلا انشائیہ ہی نہیں ، باقی تمام انشائیے بھی تیسری جماعت ہی کے زمانے کے لکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔
انشائیے پر دوسری کتاب ڈاکٹر انور ساجد کی تھی۔ ڈاکٹر انور سدید محنتی بھی ہیں اور صاحب علم بھی، نیز محنت اور علم کو صرف کرنے میں خاصے کشادہ دوست بھی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جتنی محنت اور جتنا علم انشائیے پر صرف کیا ہے، اگر اس سے کہیں کم محنت اور علم کسی معقول موضوع پر صرف کرتے تو ہم جیسے سادہ لوح قارئین ناکردہ گناہوں کی سزا سے بچ سکتے تھے ۔ مطلب یہ کہ انشائیہ پڑھنے سے دنیا اور انشائیے پر تنقید پڑھنے سے عاقبت خراب ہوتی ہے ۔
انشائیے کے بارے میں تیسری کتاب ڈاکٹر سلیم اختر کی ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے ۔ ویسے تو انہی دنوں ڈاکٹر صاحب کی ایک اور ضخیم کتاب "نفسیاتی تنقید" بھی چھپی ہے (جو ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے) لیکن یہ اہل علم کے کام کی چیز ہے۔ علمی اور نفسیاتی دونوں طرح کے مریضوں میں ہمارا شمار نہیں ہوتا ، لہذا اس بھاری پتھر کو چھوڑ کر ہلکے پھلکے موضوع یعنی انشائیے تک محدود رہنا ہمارے اور ڈاکٹر سلیم اختر دونوں کے مفاد میں ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر ہمارے ان چند ادیبوں میں سے ہیں جو لکھنے پڑھنے کے معاملے میں خود کفیل ہیں ۔ یعنی انہوں نے اتنا زیادہ لکھا ہے کہ اگر زندگی بھر اس کو پڑھتے رہیں تو انہیں کسی دوسرے مصنف کی کوئی تحریر پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب از راہ علم پروری ایسا نہیں کرتے۔ وہ اپنی تحریروں کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کہ ایک بار جو کچھ لکھ دیا پتھر کی لکیر بن گیا ۔ جس طرح پرانی داستانوں میں مڑ کر دیکھنے والے پتھر بن جاتے تھے ، کچھ اسی قسم کا اندیشہ یہاں بھی ہوگا۔ البتہ دوسروں کی تحریروں کو وہ بڑی محنت اور توجہ سے پڑھتے ہیں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید پر ان کی خاص نظر ہے ، جسے عنایت کی نظر کہا جا سکتا ہے ۔ ان دونوں کی شاید ہی کوئی تحریر ایسی ہوگی جو بار بار ڈاکٹر سلیم اختر کی نظر سے نہ گزری ہو اور ہر بار اس تحریر میں انہیں پہلے سے زیادہ غلطیاں نظر نہ آئی ہوں۔ بہ الفاظ دیگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی عمر عزیز کا ایک حصہ ڈاکٹر وزیر آغاز اور ڈاکٹر انور سدید کے غلط نامے مرتب کرنے میں صرف کیا ہے ۔ زیر نظر کتاب "انشائیے کی بنیاد" میں بھی انشائیے سے زیادہ مذکورہ دونوں ڈاکٹروں کی بنیادیں کمزور کرنے کا فریضہ انجام دیا گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ زیر نظر کتاب اردو تنقید و تحقیق میں اہم اضافہ ہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے موضوع سے متعلق مواد کی فراہمی میں خاصی محنت سے اور اس مواد کی چھان پھٹک میں بڑی دقت نظری سے کام لیا ہے۔ اس کے ابتدائی ابواب اگرچہ کہیں کہیں سے " آلودۂ ذاتیات" نظر آتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ان میں انشائیے کے فنی اور تاریخی پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ پہلے باب میں مغرب میں"ایسے [Essay]" کی خصوصیات اور تاریخ کا بیان ہے ۔ دوسرے میں سر سید اور مسٹر رام چندر کے انشائیوں کا ذکر ہے ۔ تیسرے باب میں "نیرنگ خیال" کے حوالے سے محمد حسین آزاد کا تذکرہ ہے ۔ چوتھا باب سر سید کے معاصرین اور ان کے بعد کے اہل قلم کی تحریروں میں انشائیے کی روایت سے متعلق ہے ۔ اگلا باب انشائیے کی اصطلاح کے بارے میں ہے کہ یہ اصطلاح کب وضع ہوئی اور مختلف ادوار میں کن کن معنوں میں استعمال ہوتی رہی۔ چھٹا باب انشائیے کی تکنیک کے متعلق ہے اور اس کے آخر میں انشائیہ نگاروں کے لئے ایک ہدایت نامہ بھی ہے جس میں اس قسم کی ہدایات ملتی ہیں:
1۔ غیر ضروری طوالت سے بچو۔
2۔ بور مت کرو۔

ہمارے خیال میں ڈاکٹر سلیم اختر کو ایک ہدایت نامہ انشائیے کے نقادوں اور محققوں کے لئے بھی مرتب کر دینا چاہئے جس میں اس قسم کی ہدایات ہوں:
1۔ وقت کی قدر کرو۔
2۔ کاغذ ضائع مت کرو۔

ساتویں باب کا موضوع ہے "انشائیہ کیا نہیں؟" اس میں ڈاکٹر عباد ت بریلوی کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ انشائیے کی حدیں غنایت سے جا ملتی ہیں۔ گویا انشائیہ پڑھنے کی نہیں گانے بجانے کی چیز ہے۔
اب تک اس کتاب میں دبستانِ سرگودھا سے چھیڑ چھاڑ ضمنی طور پر ہوتی رہی تھی لیکن ساتویں باب میں معاملہ الٹا ہو گیا ہے ، یعنی انشائیے کا ذکر چھیڑ چھاڑ کی حد تک ہے اور دبستان سرگودھا اصل موضوع بن جاتا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر انشائیے کی برائیاں گنواتے ہوئے مثالیں دبستان سرگودھا سے دیتے ہیں اور خوبیوں کی تلاش میں اس دبستان سے باہر نکل جاتے ہیں اور باہر جاکر بھی سوائے مشکور حسین یاد کے کوئی ان کے ہاتھ نہیں لگتا ۔ یہ وہی مشکور حسین یاد ہیں جن کی کتاب"ممکنات انشائیہ" کا دیباچہ ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا تھا اور اب ڈاکٹر سلیم اختر نے "عوض معاوضہ گلہ ندارد" کے اصول کے تحت اپنی کتاب کا انتساب یاد صاحب کے نام کر دیا ہے ۔"انشائیے کی بنیاد"کے اس انتساب ہی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انشائیے کی بنیادیں کتنی مضبوط ہیں ۔

ڈاکٹر سلیم اختر نے اسی ساتویں باب میں جو دراصل "گلستان" کے پانچویں باب کی طرح مصنف کی زندہ دلی کا آئینہ دار ہے ، دبستان سر گودھا کے ایک رکن غلام جیلانی اصغر کی تعریف بھی کی ہے اور اس انداز میں۔۔۔
"غلام جیلانی اصغر صاحب 'اوراق' میں چھپنے کے باوجود اچھے انشائیہ نگار ہیں۔" اس"باوجود" کا بھی جواب نہیں، مطلب یہ کہ اوراق میں چھپنے والا ، اچھا لکھنے والا نہیں ہو سکتا ، لیکن غلام جیلانی اصغر مستثنیات میں سے ہیں۔ حیرت ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر، جو خود ایک زمانے میں اوراق میں چھپتے رہے ہیں ، اب اس حد تک سنگدل کیسے ہو سکتے ہیں کہ انہیں "اوراق" میں چھپنے والے تمام ادیب غیر معیاری نظر آنے لگے ۔

کتاب کے اگلے ابواب نفسیات، شخصیت، اسلوب ، تازگی، فکر، تنوع اور قاری کے حوالے سے لکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر نے ان مباحث پر خوب جم کر لکھا ہے۔ ان کا علم ان ابوا ب میں پوری طرح ظاہر ہوتا ہے ۔ چودھواں باب"انشائیے کا زوال" ہے اور اس کے بعد "انشائیہ کدھر۔۔۔" کے عنوان کے تحت "اُدھر" یعنی دبستان سرگودھا کی طرف رخ کر کے زوال کی نشان دہی کی ہے ۔ کتاب کی جان اس کا آخری باب ہے جس کا عنوان صحیح طور پر" ناگفتنی" رکھا گیا ہے ۔ اس میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ڈاکٹر وزیر آغاز اور ڈاکٹر انور سدید کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو کوئی دوسرا نہیں کہہ سکتا۔ انشائیہ نگاری کے کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیے:

"ڈاکٹر وزیر آغاز کی ذاتی کوششوں اور ان کے پالتو ناقدین کی سعی بسیار کے باوجود بھی اس مصنف کو درجۂ اعتبار نہ ملا۔"

"تنقید میں خاندان غلاماں کے بانی ڈاکٹر انور سدید کی قماش کے شخص سے غیر جانب داری پر مبنی تنقید کی دیانت کی توقع بے سود ہے ۔"

اس قسم کی نظر نظمیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ کاش ڈاکٹر سلیم اختر جیسا صاحب علم و نظر انشائیے پر لکھتے ہوئے ایسا غیر سنجیدہ انداز اختیار نہ کرتا ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب بھی کیا کریں، موضوع ہی ایسا ہے کہ اس پرسنجیدگی سے کچھ لکھنا ممکن نہیں ۔
اس کتاب کے ہر دوسرے صفحے پر ڈاکٹر وزیر آغا کا نام ملتا ہے اور بعض صفحوں پر تو یہ نام کئی کئی دفعہ درج ہوا ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر ایک طرف تو ڈاکٹر وزیر آغا کا نام بھی سننا گوارا نہیں کرتے اور دوسری طرف ان کے نام کی گردان بھی کیے چلے جاتے ہیں ۔ ہمیں تو یہ کوئی نفسیاتی مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ جسے کوئی ایسا نقاد ہی حل کر سکتا ہے جس نے نفسیاتی تنقید پر پی ایچ ڈی کے لئے مقالہ لکھا ہو۔

(15/ جنوری 1987ء)

ماخوذ از کتاب:
سن تو سہی (مشفق خواجہ کی منتخب تحریریں)
مرتبین : ڈاکٹر انور سدید ، خواجہ عبدالرحمن طارق

Insha'aiah ya Padar hawa'aiah. Column: Mushfiq Khwaja [khama-bagosh].

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں