حیدرآباد کے کھانے اور دستر خوان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-10-14

حیدرآباد کے کھانے اور دستر خوان

hyderabad-traditional-dishes
حیدرآباد میں کھانے کے مختلف اوقات ہیں۔ صبح کا ناشتہ جو چھ بجے صبح سے دس بجے تک ہوا کرتا تھا۔ چائے کا استعمال پچھلے زمانے میں حیدرآباد میں نہیں تھا۔ لیکن بعد کو اس کا رواج ہو گیا ۔ دوپہر کا کھانا گیارہ بجے سے دو تین بجے تک ہوا کرتا ۔ رات کا کھانا شام چھ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک ہوا کرتا تھا۔
حیدرآباد میں چاول کا استعمال زیادہ ہے، اس کے ساتھ گیہوں کی روٹی بھی استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں کی آب و ہوا کے لحاظ سے کھٹاس کا استعمال ضروری ہے ۔ نمک مرچ اور ترشائی بھی اچھی مقدار میں سالنوں کے پکانے میں ڈالی جاتی ہے۔ کھٹے سالن مٹی کی ہانڈی میں پکائے جاتے تھے۔ پانی کی صراحیاں، اور گھڑے اور مٹی کے دوسرے برتن کثرت سے استعمال میں لائے جاتے تھے ۔
تانبے کے برتن دیگچیاں، تھالے، لگن ، گنگال وغیرہ تو قلعی کرائے جاتے اور پکوان اور کھانے کے برتن بھی چینی کے ساتھ ساتھ تابنے ہی کے ہوتے تھے۔
باورچی خانہ، جو رہنے سہنے کے کمروں اور دالان سے کافی دور آنگن میں بنایا جاتا تھا ۔ ہر گھر مٹی کے چولھے ہوتے اور گھر سے دھواں نہ اٹھے تو بدشگونی سمجھتے تھے ۔ پکوان لکڑی اور کوئلوں پر ہوتا تھا۔
صبح ہوتے ہی ہر کام سے پہلے گھر کو جھاڑو دی جاتی تھی، ہندو خواتین گھر کے اندر کے ساتھ ساتھ دہلیز پر پر بٹو لگاتے اور گھر کے سامنے چھڑکاؤ کرتے اور خاص ڈیزائن کے مگوھٹے بناتی تھیں ، نہا دھو کر خواتین عبادت کرتیں اور پکوان کے لئے باورچی خانے میں پہنچ جاتیں۔

حیدرآباد میں جو غذائیں استعمال کی جاتی ہیں وہ بہت لذیذ اور مرغوب ہوتی ہیں۔ گھروں میں پکانے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگ بازاروں سے تیار کی ہوئی غذائیں استعمال کر لیتے ہیں۔ حلوائی کی دکانوں سے مٹھائیاں خرید کر کھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ راستوں پر بیوپاریوں سے سیو دال، چڑوا، مرچی بھجیے، پکوڑی، لقمی اور مختلف تلن کی چیزیں مل جاتی ہیں۔
قطب شاہی دور سے آصفجاہی دور تک دستر خوان میں وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ خصوصاً گوشت کے پکوان میں ایرانی ، ترکی، افغانی پکانوں کا کافی اضافہ ہوا۔ ملکوں کے امتزاج کے ساتھ ساتھ غذاؤں کا ایک معیار آصفجاہی دور سے ہی قائم ہوچکا تھا۔

حیدرآباد کے خاص خاص کھانے
حیدرآباد میں دستر خوان سرخ رنگ کے ہوتے اور فرش پر بچھائے جاتے۔


ناشتہ میں اکثر کھچڑی ، قیمہ، پاپڑ، انڈے، تلا ہوا گوشت اور براٹھے، روغنی روٹی ، ڈبل روٹی ان میں سے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ۔ نہاری، کھڑی دال یا میٹھی دال ناشتہ میں پکائی جاتی تھیں۔
گرم گرم کھچڑی ناشتے میں گھی، قیمہ اور اچار کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اس پر پاپڑ تو سونے پر سہاگہ کا کام کرتے ہیں۔


قدیم زمانے میں یہاں کا عام ناشتہ بازاری نہاری رہا ہے جو امیر اور غریب سب کی مرغوب غذا ہے ۔ اکثر گھروں میں راتب مقرر تھا چار پیسے کی نہاری دو پیسے کے کلچے، ایک شخص ایک آنہ میں ناشتہ کر لیتا تھا ۔ دکن میں نہاری سرا، پائے اور زبان کی ہوتی ہے ۔


چاکنہ حیدرآبادی کی خاص غذا ہے ۔ اپنا ایک مخصوص ذائقہ رکھتا ہے ، اس میں بکرے کا سر ، کلیجی ، دل، اوجھڑی اور سردان ڈال کر پکاتے ہیں۔ مرچی کی زیادتی اور لونگ کے پھول کے استعمال سے اس کا ذائقہ اور بڑھ جاتا ہے اور زبان کا چٹخارہ بھی۔ جوار کی روٹی کے ساتھ کھانے میں بڑا مزہ دیتا ہے ۔


پورن پوری: حیدرآباد کے سوا اور کہیں نہیں بنتی۔ پرانے زمانے میں شاہی رکاب دار کی پورن پوری بہت مشہور تھی ۔ سرخی مائل تقریباً دیڑھ انچ موٹی مانڈے ملے ملے دس گیارہ پتہ، اس قدر ملائم ہوتی ہے کہ بلا ٹوٹے آسانی سے نکل آتی ہے ، پورن کا پکانا، میدے کا گوندھنا، ماندھے کا بیلنا، ان سب کو سیکھنے کا بہت تناسب ہوتا ہے ۔
حلوائی کے مل مل کا شاہی قلا قند اور بالائی یہاں بہت شوق سے کھائی جاتی ہے جوزی حلوہ تو بہت ذائقہ دار ہوتا ہے ۔


بگھارے بیگن: حیدرآباد میں کھٹے کا بہت استعمال ہوتا ہے ، یہاں مرچی بھی زیادہ کھائی جاتی ہے ۔ یہ سالن اکثر بریانی کے ساتھ دعوتوں میں دسترخوان کی زینت بنتا ہے ۔ اودے اودے بیگن چن لئے جاتے ہیں، مسالہ اور املی(پکی) کا کھٹا، نمک اور مرچ، ہلدی اور میٹھے تیل کی مناسبت سے اس سالن کی لذت بڑھ جاتی ہے۔ مٹی کی ہنڈیا میں پکایا جائے تو سالن میں سوندھا پن آ جاتا ہے ۔ سارے بیگن کو کاٹ کر نمک پانی میں ڈال دیتے ہیں ، ورنہ بیگل کسالے ہو جاتے ہیں۔ مسالوں میں تل، زیرہ بوجوار کھوپرا ، مونگ پھلی، تل اور پیاز کی ڈلیوں کو گرم راکھ میں رکھ کر بھونا جاتا ہے ۔ جب وہ گرم ہو جاتی ہے تو راکھ سے نکال کر پیاز کو بھی باریک پیس لیتے ہیں۔ زیرہ اور لہسن کے بگھار تیار کرلیتے ہیں ۔ پھر بیگن کے بیچ میں ایک لکیر نمک کا کنکر رکھ کر مرچ مسالوں کو بھرا جاتا ہے ۔ ہانڈی میں ڈال کر خوب بھونتے ہیں۔ بعد کو املی کا کھٹا ڈالتے ہیں ، کریا پات، ہری مرچ اور کوتھمر وغیرہ ڈالتے ہیں، اچھی طرح دم دیتے ہیں انگار پر دم ہوئے سالن میں تیل اوپر تو بہت آ جاتا ہے تب ہی سالن میں ذائقہ آجاتا ہے ۔


شیر خرما: یوں تو حیدرآباد میں ہمہ اقسام کے میٹھے پکتے ہیں لیکن حیدرآباد کا شیر خرما خاص ذائقہ رکھتا ہے یہاں پر اس میٹھے کے پکانے کا طریقہ بھی الگ ہے ۔
شیر خرما کا جز سیویاں ہوتی ہیں۔ یہ اصل دودھ سے بنایا جاتا ہے۔ باریک سیویوں کو، جسے یہاں 'چٹے کی سیویاں' کہتے ہیں، گھی میں سرخ مائل رنگ تک تل کر اس میں دودھ ڈالا جاتا ہے، بقدر ضرورت شکر ڈال دی جاتی ہے، کھجوریں بھی شامل کی جاتی ہیں۔ بادام، کاجو، پستے کی سلائیوں اور چرنجی صاف کر کے تل لیتے ہیں اور شیر خرما میں ڈالاجاتا ہے ۔ شیر خرما تو عید الفطر کی خاص ڈش ہے ۔ اس کے رکھنے اور کھانے پینے کے لئے خاص بلوری کٹورے ہوتے ہیں۔ نہاری ہوئی سیویوں پر گھی، شکر، رنگینی چوبا اور مغزیات ڈال کر سجایا جاتا ہے۔ یہ شیر خرما اور سیویان عیدالفطر کے روز بطور حصہ ایک دوسرے کے گھر بھیجتے ہیں ۔ اور اس سے مہمانوں کی ضیافت کی جاتی ہے ۔


بریانی: حیدرآباد میں چاول کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے ، کھانے میں سادے چاول، بگھارا کھانا، کھچڑی، قبولی، نہاری، ترکاری کا کھانا ۔۔۔ جیسے روزانہ کچھ نہ کچھ پکتے ہی ہیں ۔ لیکن حیدرآباد کی بریانی بہت مشہور ہے ۔ اپنا ایک خاص ذائقہ رکھتی ہے، اور سب ہی حیدرآبادی جو گوشت کھاتے ہیں ، بریانی بڑے چاؤ سے کھاتے ہیں اور اس کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ بریانی تقریباً ہر بڑی دعوت کا لوازمہ ہوتی ہے۔ بریانی جو اکثر دعوتوں میں ہوتی ہے وہ دو گوشتہ ہوتی ہے۔ بریانی مرغ اور مچھلی اور کوفتوں کی بھی بنائی جاتی ہے۔ انڈوں اور ٹھانوں کو بھی ڈالا جاتا ہے ۔ بریانی کا چاول عام چاول سے الگ ہوتا ہے اس میں خوشبو ہوتی ہے جیسے کہ امرتسر کے چاول کالا بھات، کھچڑی چاول وغیرہ۔
بریانی کے لوازمہ میں لقمی، کباب، مرغ، سادہ آلو کا قورمہ، شیرمال ، دہی کی چٹنی وغیرہ بھگارے بیگن یا مرچ مسالے دار سالن ضرور ہوتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ ایک دو میٹھے ۔ زمانہ قدیم ہی سے شیر مرغ یا کدو کی کھیر، گل فردوس، ڈبل کا میٹھا یا قربانی کا میٹھا۔۔۔ ان میں سے ایک کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے ۔ دعوتوں کا پکوان باورچی کرتے ہیں ، شاہی باورچی ایسے پکوان بہت عمدہ طریقہ پر یکاتے ہیں۔


دالچہ: حیدرآباد کا یہ سالن بھی خاص ہے ۔ دالچہ اکثر کدو کا ہوتا ہے ، کبھی کبھی بیگن یا ٹماٹر کا بھی دالچہ یہاں پکتا ہے ۔ دالچہ اکثر بگھارے کھانے کے ساتھ نیازوں اور چھوٹی موٹی تقاریب یا پھر اکثر غربا کے شادی بیاہ کے موقوں پر بھی بگھارا کھانا، دالچہ، آلو میتھی گوشت یا قورمہ پکواتے ہیں اور اس کے ساتھ جو میٹھے چاول پکائے جاتے ہیں ، دکن میں اس کو 'میٹھا کھانا' کہتے ہیں اکثر غریب لوگ چھوٹی بڑی تقریبوں میں ضرور پکواتے ہیں۔ دالچہ میں گوشت ہڈی دار ، نمک، مرچ ، املی چنے کی دال، گرم مسالہ ہرا مسالہ ڈال کر پکاتے ہیں ، دار چینی اور گرم مسالا صرف یہاں دالچے میں ڈالا جاتا ہے ، ورنہ اکثر کھٹے سالنوں میں خوشبودار مسالہ صرف مسالوں کے سالنوں میں ڈالے جاتے ۔


تل کی چٹنی: یہ حیدرآبادکی خاص چٹنی ہے جو ناشتہ میں کھچڑی کے ساتھ کھائی جاتی ہے ، تل کو بھونتے اور صاف دھو لیتے ہیں ۔ ہری مرچ کوتھمر پودینے اور املی کے ساتھ پیس لیاجاتا ہے ، چٹنی پیسنے کے بعد پیاز کتر کر ملاتے دیتے ہیں، بڑی ذائقہ دار ہوتی ہے اس کے کھانے سے صفرا کم ہوتا ہے ۔

10۔
مچھلی کا سالن: دکن میں مچھلی کثرت سے ہوتی ہے کیونکہ یہاں بیشمار ندیاں، تالاب، کنٹے وغیرہ ہیں ، مچھلی بہ آسانی دستیاب ہوتی ہے ، فش مارکٹ سکندر آباد اور بیگم نازار کی مشہور ہے۔ اور یہاں بہت لوگ خریدنے آتے ہیں ، حیدرآباد میں جہاں گڑ بڑ زیادہ ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا یہ مچھلی مارکٹ ہے ، مچھلی تلی ہوئی ، مٹنگ مبنڈر بھی ملتی ہے ۔اور نمایشوںاور میلوں میں بھی تلی ہوئی مچھلی بکتی ہے ۔ لوگ بڑے شوق سے خریدکھاتے ہیں مچھلی کھٹے میں مسالوں کے ساتھ پکی ہو تو کچھ دن بھی رہ سکتی ہے ۔ اکثر سالن بھی ہانڈی ہی میں پکایاجاتا ہے ۔
حیدرآباد میں ماہرپکوان مچھلی کے کانٹوں کو الگ کر کے پکاتے ہیں ۔ تاکہ پکاتے وقت کانٹوں کے چھبنے سے خصوصاً بچے محفوظ رہے۔ یہاں روہو، وٹہل مچھلی، کوتا معروف پاپلیٹ مچھلی بھی بہت ملتی ہے ۔ لیکن گول مرل مچھلی س کا ذائق بہت اچھا ہوتا ہے استعمال کرتے ہٰں ۔ دریائی جھنگوں کا سالن بھی خاص خاص لوگوں کے پاس پکتا ہے ، مچھلی موسم سرمامیں اور بارش میں اکثرت سے کھائی جاتی ہے ۔ بہت گرم اور صحت بخش ہونے کی وجہ سے مچھلی یہاں کی مرغوب غذا ہے ۔

11۔
بمبل مچھلی: دکھنیوں کی خاص غذا ہے ، دکن کے لوگ کبھی انگاروں پر بھون کر ویسے ہی کھالیتے ہیں پیاز کے سالن میں بمبل مچھلی یا سوکھے جھینگے ڈال کر جواری کی روٹی کے ساتھ کھایا کرتے ہیں جو سستی اور دیر پا رہنے کی وجہ سے گھروں میں جمع رکھی جاتی ہے ۔
کبھی کبھار ملک اور بیگن پکاتے ہیں، مزہ دار سالن ہوتا ہے تل کر بھی کھاتے ہیں۔

12۔
دہی کی کڑی: دہی کی کڑی پر بھی حیدرآبادی بڑے شوق سے پکاتے ہیں اور کھاتے ہیں ، وہی کو ہلدی مرچی نمک اور زیرے کی باریک پیسی ہوئی پکنی ملا کر باریک ململ کے کپڑے سے چھان لیتے ہیں ، اور اس میں ہرا مسالا، کریاپات ڈال کر ابالتے ہیں، بھجئے چنے کی دال کے بیشن کے تل کر اس میں ملاتے ہیں، یہ بھجئے بیسن میں ہری ہری مرچ سی ہوں ، تھوڑی سی سرخ مرچ ،ہلدی، زیرہ، پیسا ہوا، اور پیاز کو باریک کتر کر بھکا لیتے ہیں پھر کڑھائی پر تل لئے جاتے ہیں، بھگار جس میں سوکھی مرچ ، لہسن کی چھلی ہوئی پوتھاں، زیرہ کریا پات کومیٹھے تیل میں تل کر جب سرخ ہوجائے بھگارتے ہیں۔
اکثر یہ سالن سیروتفریح کو جاتے وقت یا سفر کرتے وقت ساتھ لے جاتے ہیں ویسے بھی جس گھر میں دہی کی کڑی پکی تو محلے والوں کو یا جس ایک ایک کٹورا دہی کی کڑی بطور تحفہ ضرور بھیجی جاتی ہے ۔

13۔
چاول کی کڑی: حیدرآباد کی خاص چیز ہے ، یہ تو صرف حیدرآبادہی میں پکائی جاتی ہے ۔ کسی دوسری جگہ نہیں پکائی جاتی ہے ۔ یہ مزے میں سوندھی اورلذیذ ہوتی ہے ۔ خشکے کے ساتھ پاسندوں کے سالن کے ساتھ جس میں گوشت کی مکی بنائی جاتی ہے مسالے، چنے دہی اور مسالوں کو ڈال کر بناتے ہیں کھائیں تو کھانے لطف اور بڑھ جاتا ہے ۔
چاول کی کنکیاں بھگا کر زیرا بوجوار اور لہسن کے ساتھ پیس لیتے ہیں اور املی کا کھٹا نکال کر اس میں مرچ نمک، ہلدی اور ہرا مسالہ ڈال کر کم آنچ پر ہنڈی میں پکاتے ہیں ، اور مسلسل ہلاتے ہیں بعد کو سرخ مرچ زیرے اور لہسن کا بگاردیتے ہیں، ذائقہ دار کڑی خشکہ یا جوار کی روٹی ، بیگن میتھی کے سالن کے ساتھ بڑی شوق سے کھائی جاتی ہے ۔

14۔
چگر: حیدرآباد کی خاص ترکاری ہے ، دراصل چگر املی کے کونپلوں کو کہتے ہیں ، دکن میں جنگلات میں یا پھر شہر کے باغات میں املی کے درخت کثرت سے اگتے ہیں، یہ ترش ہوتا ہے ، گوشت کے ساتھ یا بمبل مچھلی جھنگوں کے ساتھ یا چگر بیگن یا چگر مرغ بھی پکایاجاتا ہے ۔ روٹی یا خشکے دونوں ہی کے ساتھ مزا دیتا ہے ۔

15۔
مرغ کا سالن: یہ پرندہ دکن کے پولٹری فارمس میں دستیاب ہوتا ہے، ویسے ہی گاؤں اور شہر کے اکثر گھروں میں زب قدیم میں مرغیاں اور بکریاں ضرور پائی جاتی تھیں۔
مرغ کا سالن، قورمہ، دالچہ، بریانی وغیرہ حیدرآباد میں لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں ، جب کوئی مہمان آتے ہیں تو مرغ کے سالن اور بگارے کھانے سے مہمان کی ضیافت کرنا لازمی بات ہے ۔ اور بڑے شوق سے یہاں کے لوگ مرغ کا سالن کھاتے ہیں ۔ اکثر شیر مال یا تندوری روٹی کے ساتھ مرغ کا سالن کھایاجاتا ہے ۔

16۔
امباڑے کی بھاجی: حیدرآبادکی ترکاریوں میں پالک ، سویا، میٹھی، قرفے چکے بھاجیاں ہیں۔ لیکن انمباڑے کی بھاجی خصوصیت رکھتی ہے غربا کے گھروں میں اکثر اور امراء کے گھروں میں وقتاً فوقتاً پکائی جاتی ہے اور جواری کی روٹی کے ساتھ یا چاول کے ساتھ کھانے کا ذائقہ بڑھاتی ہے ، اس کا اچار بھی بنایاجاتا ہے ۔ گوشت یا چنے کی دال کے ساتھ بھی پکائی جاتی ہے ۔

17۔
کھٹی دال: حیدرآباد کے ہر گھر میں تقریبا روزانہ پکائی جاتی ہے ، کڑی اور دال بیچے والی ہانڈیاں کہلاتی ہیں۔ دکن کا محاورہ ہے”دال بچے پال”یہ مزہ دار اور سستا سالن ہے ، اوڑھ، مونگ اور چنے کی دال یہاں بہت ہوتی ہے لیکن مسور کی دال حیدرآباد میں پکتی ہے ۔ یہ دال گلا کر کھٹا مرچی نمک اور ہرا مسالہ اور کریا پات ڈالتے اور بھگارتے ہیں ۔ دال گلاتے وقت اگر نمک ڈال دیاجائے تو نہیں گلتی۔ دال کو گھوٹنی جو لکڑی کی بنی ہوتی ہے اس سے گھوٹتے ہیں۔ کھٹا ڈالکر خوب پکا کر ہی بگارا جاتا ہے کھٹا پکنے میں نمک ڈالاجاتا ہے ۔

حیدرآباد میں جو پکوان ہوتے ہیں وہ مختلف ممالک کے پکوان یہاں شامل کردئیے گئے ہیں ، جیسے ترکی، عربی، انگریزی، پکوان وغیرہ صرف دکن مخصوص کھانوں نے ہم نے یہاں ذکر کیا ہے ۔
دستر خوان کی بدولت مل جل کر کھانے پینے کا رواج ہوا۔ اور مہمانداری کی رسم جاری ہوئی ۔ اس زمانے میں حیدرآباد میں مہمانداری اور میزبانی کے رسوم اور کھانوں کا معیار بالکل بدل گیا ہے ۔
میلے کے زمانے میں دعوتی محلوں ، دیوڑھیوں گھروں اور باغوں میں ہوتی تھیں لیکن اب بنگلوں اور ہوٹلوں میں پر لطف مح ایٹ ہوم اور ڈنر ہوتے ہیں ، اس سے ہٹ کر قدیم طرز کے ولیمے ، دعوت رو کی رادر عیدوں کی دعوتیں بھی ہوتی ہیں لیکن انو کوئی خاطر میں نہیں لاتا ۔ اس دور کی دعوتوں میں بڑی حد تک نمائش یا غرض کا فرما ہوتی ہے ، شادی کا دستر خوان عموماً سرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ نوشاہ کے دستر خوان کو خصوصیت سے بنایاجاتا ہے ، پہلے اور اس پر زردوزی کا کام ہوا کرتا تھا ۔ کھانے کے لوازمات پر ورق ضرور لگایاجاتا تھا۔ کاج کارن کے کھانوں اور خصوصاً دولہا اور دلہن کے دستر خوانوں عورتوں کے دستر خوان پر بھی جو کھاتے لگائے جاتے تھے چاندی کے ورق سے انہیں سنوارا جاتا تھا ۔ پان کے بیڑوں اور میوے ابھر مرسوم ہیں ورق کا استعمال کثرت سے ہوتا تھا اب یہ رواج چند ہی گرہوں کی حد تک رہ گیا ہے ۔

دولہا کے دستر خوان پر ایک آدھ میٹھے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ دولہے کے بیٹھنے کے لئے فرش پر بیچ میں مسند بچھائی جاتی ہے اور چھت پر منڈپ شادی میں اور دعوتوں میں جو دستر خوان بچھائے جاتے ہیں ان پر ایک ہی بیٹھگ میں پچاس پچاس سو سو آدمیوں کھانا کھاسکتے ہیں۔
بعد کو چوکیوں پربھی کھانا کھلائے جانے لگا اورلوفے بھی اکثر رکھے جاتے ہیں لیکن مسلمان کھڑے ہوکر اس طرح کھانا پسند نہیں کرتے۔
مختصر یہ ہے کہ دستر خوان تہذیبی زندگی کا اہم جز بن گیا ہے ۔ میزبانی اور مہمان نوازی حیدرآباد کا طرہ امتیاز تھی ۔ اب بھی امیر اور غریب سب ہی مہمان نوازی کرتے ہیں ، اور کمال رکھتے ہیں ۔ پکوان بھی حیدرآباد میں ہنر کا درجہ رکھتا ہے ۔

ماخوذ:
کتاب "حیدرآباد کی مشترکہ تہذیب" (سن اشاعت: فروری 1985)
تالیف: اقبال جہاں قدیر

The traditional dishes of Hyderabad. Article: Iqbal jahan Qadeer

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں