خالد جاوید سے ایک گفتگو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2018-08-20

خالد جاوید سے ایک گفتگو

khalid-jawed
مکالمہ: عمر فرحت
بشکریہ / بحوالہ : کتابی سلسلہ 'دنیا زاد' (کتاب:46) ، ترتیب و تالیف: آصف فرخی
عمر فرحت:
تجریدی افسانہ کیا ہے اور آپ کے نزدیک تجرید کیا ہے؟
خالد جاوید:
تجریدیت [Abstractionism] بنیادی طور پر مصوری سے ادب میں آئی ہے، نہ صرف تجریدیت بلکہ سررئیلزم [surrealism]، شعور کی رو [Stream of consciousness] اور آزاد تلازمہ خیال وغیرہ بھی وہیں سے آئے ہیں۔ ڈالی [Salvador Dali]، پکاسو [Picasso] اور مونے [Joan Miro] وغیرہ تجریدی اور سرریلسٹک آرٹ کے نمائندہ کہے جا سکتے ہیں۔ افسانے میں جب اس تکنیک کو برتا جاتا ہے تو افسانے میں کوئی ایک موضوع ہیں رہتا اور کردار کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ واقعے کو اصل شکل میں پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا بلکہ فنکار کے لاشعور کی پراسرار دنیا اس واقعے کو کس شکل میں دیکھتی ہے، یہ اہم ہو جاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسی کہانیوں میں وحدت تاثر نام کی پرانی شے کا کوئی عنصر نہیں ہوتا بلکہ یہ تو لکھی ہی جاتی ہیں لگاتار وحدت تاثر کو صدمہ پہنچانے کے لئے۔ تجریدی کہانیوں کو اینٹی اسٹوری کا نام بھی دیا گیا ہے۔ فرانس کے فکشن نگار "راب گریے [Alain Robbe-Grillet]" نے سررییلزم کی تکنیک پر مبنی کہانیاں اور ناول لکھے ہیں جو بہت مشہور اور متنازعہ رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ماڈرن لٹریچر کا جتنا بھی سرمایہ ہے وہ سب سررییلزم اور دادا ازم [Dadaism] کے رجحانات پر مبنی ہے۔ ایک زمانے میں اس ادب کو "زوال پرست" بھی کہا جاتا تھا۔ اب یہ لفظ زیادہ استعمال نہیں ہوتا۔
دراصل"حقیقت پسندی" کا مطلب محض سامنے نظر آنے والی ٹھوس دنیا کو ہی دیکھنا نہیں ہے یہ تو حقیقت کا محض ایک رخ ہے ۔ مذہب، دیومالا، فلسفہ، نفسیات اور یہاں تک کہ اب تو سائنس نے بھی حقیقت کے نام نہاد ٹھوس اور سامنے کے تصور پر ضرب لگائی ہے۔ انسان کا شعور تو محض ایک گلیشئر کی مانند ہے جس کا صرف ایک حصہ سامنے ہے، باقی کے نو حصے غرق آب ہیں۔ یعنی لاشعور، شعور سے زیادہ وسیع حقیقت ہے ۔ حقیقت کے اس سامنے کے تصور کو تو ہمارے زمانے میں جادوئی حقیقت نگاری نے رد کر کے رکھ دیا ۔ وسطی امریکہ کے ادیبوں مثلاً بورخیس [Charles Borkhuis]، مارکیز [Marquis de Sade] اور کورتازار [Julio Cortazar] وغیرہ اس یک رخی حقیقت نگاری کے خلاف ہیں۔
تجریدی فکشن سب سے پہلے تو روایتی قسم کی بلکہ سطحی قسم کی حقیقت پسندی کے خلاف ایک ردعمل کے طور پر سمجھنا چاہئے۔ شاعری میں رجحان بہت مقبول ہوا مگر فکشن کیونکہ زمان اور مکان کے بغیر لکھنا مشکل ہے۔ اس لئے تجریدی فکشن زیادہ تر شعوری کاوش سے لکھا گیا اور یہ کاوش خود اپنے آپ میں اس لاشعوری کیفیت کے خلاف تھی جس کو لکھنے کی منشا مصنف کی تھی۔ آپ مصوری اور شاعری میں تو یہ سب بہت آسانی سے کر سکتے تھے مگر فکشن کی زبان میں یہ آسان نہ تھا ۔ اس لئے جب قاری کو بغیر پلاٹ، بغیر موضوع اور بغیر کردار کا فکشن پڑھنے کو ملا تو وہ الجھ کر رہ گیا۔ ہمارے یہاں اردو کا قاری تو کچھ زیادہ ہی معصوم تھا۔ ناول اور افسانے تو وہ محض تفریح کے لئے پڑھتا آیا تھا اس لئے اس نے ایسی کہانیوں کو فوری طرف پر یکسر رد کر دیا۔ مغرب میں ایسا نہیں ہوا ۔ وہاں پر فنکار کو اپنی اپنی طرح سے لکھنے کی آزادی ہے اور وہاں کے قاری نئے تخلیقی تجربوں کا استعمال کرتے آتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کے ساتھ، ادب اور آرٹ میں آئے ہوئے نئے رجحانات، تجربات اور اظہار کے نئے طریقوں کے ساتھ ساتھ ان کا قاری بھی ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کرتا رہتا ہے اور لکھنے والے کے تخلیقی تجربے میں شریک ہونے کی لگاتار کوشش کرتا رہتا ہے۔
مثال کے طور پر ارجنٹینا کے ادیب "بورگیس [Jorge Luis Borges]" کو ہی لے لیں۔ اس کی ساری کہانیاں خواب اور شعور اور لاشعور کے درمیان کے دھندلکے میں لکھی گئی ہیں۔ کبھی کبھی تو اس کی کہانیں جیومٹری کی مابعد الطبیعیات کے حدود میں بھی داخل ہو جاتی ہیں مگر اس کے باوجود وہ نہ صرف لاطینی امریکہ بلکہ یوروپ میں بھی آج سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں سے ایک ہے۔
فرانس کے ادیب"جارجس تہائی [Georges Bataille]" اور پولینڈ کے "برونوشلز [Bruno Schulz]" کو بھی آپ اسی زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ بہرحال اس دنیا میں سب کو اپنی اپنی بات کہنے کا حق اور آزادی ہونا چاہئے۔ آرٹ کی ماہیت ہی جمہوری ہوا کرتی ہے ۔ آپ کسی بھی قسم کے آرٹ پر کم ازکم آج کی دنیا میں تو پابندی لگا نہیں سکتے اور اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی ہر بات اور ہر چیز، ہر ایک کے لئے نہیں ہوا کرتی۔

عمر فرحت:
جدید افسانے کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ معروضِ وجود میں آیا جب کہ جدید تر یعنی ہم عصر افسانہ جدید افسانے کا رد عمل نہیں بلکہ اس کی توسیع ہے ۔ آپ کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟
خالد جاوید:
دیکھئے اصل بات یہ ہے کہ آپ کے افسانے کی روایت میں یہ سب چیزیں شامل ہوتی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی رد عمل بھی ہوتا ہے ۔ جب لکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کے عہد کی حیثیت بدل چکی ہے اور پرانے خطوط پر لکھے جانے والے اسلوب میں وہ اپنے تخلیقی تجربے کا اظہار نہیں کر سکتا۔ تب وہ ایک نیا اسلوب ، نیا ڈکشن اور نئی تکنیک کو اختیار کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے اورکبھی کبھی خود اس کا ذاتی رجحان بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عہد کے مروجہ تخلیقی ضابطوں اور سانچوں کو توڑ کر آگے نکلنا چاہتا ہو۔ اردو افسانے کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ یہاں فیشن کے بطور چیزوں کی تقلید کا رجحان زیادہ رہا ہے، ترقی پسند افسانے کے زمانے میں بھی اور جدیدیت کے زمانے میں بھی۔ میں صرف اچھے افسانہ نگاروں سے معاملہ رکھنا چاہتا ہوں، کسی رجحان یا تحریک سے نہیں۔ پریم چند، منٹو، بیدی اور انتظار حسین میرے لئے اہم ہیں اور اس کے ساتھ ہی، انور سجاد، بلراج مین را اور سریندر پرکاش بھی۔ یہ سلسلہ رکتا نہیں اور آگے چل کر نیر مسعود، سید محمد اشرف، شمس الرحمن فاروقی، صدیق عالم، خورشید اکرم اور رضوان الحق بھی میرے پسندیدہ افسانہ نگاروں کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آپ آج جسے جدید تر افسانہ (چاہیں تو مابعد جدید افسانہ بھی کہہ سکتے ہیں) کہہ رہے ہیں۔ اس میں ترقی پسند اور جدید افسانے دونوں کا خمیر ملا ہوا ہے ۔ کہیں کسی ایک کے خلاف ردعمل بھی نظر آتا ہے اور کہیں اپنی انفرادی اپج بھی۔ توسیع والی بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی۔ ہر عہد کا اپنا ایک بیانیہ ہوتا ہے توسیع نہیں، بلکہ بیانیہ کی روایت میں نئی نئی چیزیں شامل ہوتی جاتی ہیں۔ توسیع سے تو کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پہلے والا افسانہ محدود تھا۔ جبکہ یہ ہرگز نہیں ہے۔ ہر عہدکا بیانیہ ادب کی تاریخ کا ناگزیر حصہ ہے ، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے ادبی روایت میں کلاسیک کا درجہ حاصل ہوتا جاتا ہے مگر شرط یہی ہے کہ وہی فن پارہ زندہ رہے گا جو اعلیٰ فن کے تقاضوں اور معیارات پر کھرا اترتا ہو ورنہ "تاریخ کا کوڑے دان" تو ہمیشہ سے ہی موجود رہا ہے اور میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ اچھا افسانہ کبھی بھی ترقی پسند تحریک، جدیدیت کی تحریک یا مابعد جدیدیت کے رجحانات کے علمی یا تنقیدی ڈسکورس کا پابند ہو کر نہیں لکھاجا سکتا۔ وہ علمی ڈسکورس الگ ہیں اوران کی اہمیت بھی الگ ہے مگر تخلیقی تجربہ اور تخلیق ان سب سے جداگانہ ہے ۔

عمر فرحت:
ایک دور تھا جب اردو افسانہ بلندیوں پر تھا لیکن بعد ازاں اس کے سفر میں تکان کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کی وجوہات کیا ہیں؟
خالد جاوید:
دراصل پہلے، ایک زمانہ تھا جب لوگ کم از کم زبان لکھنا جانتے تھے ۔ افسانہ اچھا تھا یا معمولی، یہ تو بعد کی بات تھی ، آج کے لکھنے والے زیادہ تر ایسے ہیں جو زبان کے تخلیقی تقاضوں کی پرواہ نہیں کرتے ، افسانے کو صحافتی زبان میں لکھنا پسند کرتے ہیں ، بیانیہ سے انہیں کوئی غرض نہیں، وہ اسکرین پلے زیادہ لکھتے ہیں۔ بیانیہ کم، قاری کی پرواہ انہیں ضرورت سے زیادہ ہے۔ قاری کی ذہنی تربیت کرنے میں انہیں رتی برابر دلچسپی نہیں۔ جو افسانہ ہر قاری کی سمجھ میں فوراً آ جائے، اسے ہی بڑا افسانہ قرار دے دیا جاتا ہے ۔ انہیں یہ بھی احساس نہیں کہ پریم چند، منٹو، بیدی اور انتظارحسین کے افسانے بھی فوری طور پر قاری کی سمجھ میں نہیں آ سکتے اور ان کے متن میں پوشیدہ معنی اور اس کے انسلاکات کی تفہیم و تعبیر بہت آسانی کے ساتھ نہیں کی جا سکتی۔ یہ دراصل ماس میڈیا کا زمانہ ہے یا جسے اوڈورنو [Theodor Adorno] کی زبان میں"کلچرل انڈسٹری [Culture industry]" کہا جا سکتا ہے، لیکن سچا آرٹ ماس میڈیا سے مختلف ہے ، اور صرف سچے اور اعلیٰ آرٹ کے ذریعہ ہی انسان موجودہ ذہنی اور اخلاقی گراوٹ سے نجات پا سکتا ہے ۔
مگر آپ کے سوال کے جواب میں، میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جس تھکان کا آپ نے ذکر کیا ہے وہ محض افسانے میں ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر تمام ادب اس کا شکار ہو رہا ہے ۔ ناول ہو یا شاعری، کوئی بھی ماس میڈیا کی اس کلچرل انڈسٹری سے بچ نہیں پا رہا ہے ۔ تمام آرٹ ہی اس صارفیت کی یلغار کی زد میں ہے ۔ ہمارے زمانے میں ہر سچے آرٹ پر ایک برا وقت آن پڑا ہے ۔ اس صورت حال سے بچنے کا ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ سمجھ دار قاری کو اپنی ذہنی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہئے۔ اسے ادب کا صارف نہیں بننا چاہئے اور اسے محض تفریح کا وسیلہ نہیں سمجھنا چاہئے ۔ادب و آرٹ کی دنیا میں Play Theory نہیں بلکہ Game Theory کا عمل ہوتا ہے ۔ یعنی تخلیق میں تخلیق کار اور قاری دونوں کی شرکت ہوتی ہے، مگر یہ بھی ہے کہ ہر مصنف کا کوئی نہ کوئی قاری ضرور ہوتا ہے ۔ بھلے ہی وہ نادیدہ قاری ہو، سو مصنف کو اس نادیدہ قاری کے لیے لکھنا چاہئے۔ دوسروں کی پرواہ اسے کرنا نہیں چاہئے ۔

عمر فرحت:
بعض افسانہ نگاروں نے جنس کو سنسنی پیدا کرنے کا وسیلہ بنایا ہے لیکن نئے افسانہ نگاروں نے اسے اہمیت نہیں دی۔ ایسا کیوں؟
خالد جاوید:
ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں فرایڈ اور لارنس وغیرہ پر بہت بات ہوتی تھی۔ ان لوگوں کا اثر ہماری شاعری اور افسانے دونوں پر بہت زیادہ تھا ۔ مگر اس زمانے میں بھی کسی اچھے افسانہ نگار نے جنس کو سنسنی پیدا کرنے کا وسیلہ نہیں بنایا۔ کیا منٹو اورعصمت چغتائی کے افسانوں سے جنسی سنسنی پھیلتی ہے؟ ممتاز مفتی کے بارے میں ضرورت یہ بات کسی حد تک کہی جا سکتی ہے مگر ان کا بھی ہر افسانہ اس قبیل کا نہیں ہے ۔ میں افسانے میں جنسی پہلوؤں کے اظہار کا مخالف نہیں ہوں، مگر میلان کنڈیرا کی اس بات کا قائل ہوں کہ اگر کسی افسانے یا ناول میں جنس کا بیان، انسانی وجود میں پوشیدہ جہات کو دریافت کرنے کا سبب بنتا ہے ، تب تو یہ بہت بڑی خوبی ہے ورنہ محض سنسنی پھیلانے کے لئے، یہ ایک کمزور اور سستے ادیب کا آلہ ہی کہا جائے گا۔
لیکن میرے خیال میں آج کوئی کمزور اور سستا ادیب بھی جنس کو سنسنی پھیلانے کا وسیلہ نہیں بنا سکتا ۔ آج تو کوئی وہی وہانوی اور مست رام تک کو نہیں پڑھتا۔ اس کی وجہ وہی ماس میڈیا کلچر ہے۔ اب پورنو ویڈیو (Porno Videos) اور بلیو فلمیں ہر وقت انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں اور ہم انہیں اپنی جیب میں پڑے ہوئے موبائل فون تک پر، جب دل چاہے دیکھ سکتے ہیں۔ فحش زبان، فحش لباس اور گندی گالیاں تک ہماری تہذیبی زندگی میں شامل ہوکر گھل مل گئی ہیں۔ فلموں کے ائیٹم سانگ ، یا ٹی وی کے سوپ اوپیرا اور اشتہارات اور ان کی جسمانی زبان نے جنس کو ایک معمولی اور ہر وقت آسانی سے دستیاب ہو جانے والی چیز بنا دیا ہے ۔ اب کسی کو سنسنی حاصل کرنے کے لئے، جنس کا بیان، افسانے میں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ مجھے علم نہیں کہ نئے افسانہ نگاروں نے کس حد تک جنس کے اس سنسنی خیز پہلو سے گریز کیا ہے ۔ میں نے نئے افسانہ نگاروں (اگر آپ کی مراد 1990ء کے بعد کے لکھنے والوں سے ہے) کو بہت کم پڑھا ہے اور اسے میں اپنی تساہلی اور کم علمی پر محمول سمجھتا ہوں۔ اگر نئے افسانہ نگاروں نے جنس کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے تو اس لئے کہ وہ اب جنس کے بیان کو ایک پرانی اور فرسودہ چیز سمجھتے ہیں اور جوش کی سوانح، یادوں کی برات، میں انہیں کوئی چٹخارہ نہیں محسوس ہوتا مگر کچھ کہانیاں ، حال ہی میں، ایسی بھی میری نظر سے گزری ہیں جن میں انٹرنیٹ سیکس یا ٹیلی فون سیکس کے بارے میں کافی لکھا گیا ہے ۔ یہ سب چیزیں محض کلچرل انڈسٹری کا حصہ ہیں۔ مصنف کے دعوی کے باوجود نہ تو ان سے کسی قسم کی بصیرت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ ہمارے ضمیر کے دروازے پر دستک دے کر اسے ڈسٹرب کر سکتی ہے۔

عمر فرحت:
ادب اور تنقید کے درمیان کیا رشتہ ہے؟ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
خالد جاوید:
ادب انسانی تجربے کے مکمل علم و آگہی کا نام ہے اور اس علم وآگاہی کے اظہار کی صلاحیت صرف انسان کے پاس ہے۔ نسل انسانی نے مصائب اور دکھ و کرب کا جو طوفان پیدا کیا ہے، ادب اس کی ترجمانی کرتا ہے ۔ ہر ادبی تحریر اپنے پراسرار روحانی تجربے کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ عکاسی اپنے وسیع تر مفہوم میں ہی ممکن ہے ۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جس تجربے کی زیادہ سے زیادہ عکاسی ہو رہی ہو ، وہی تو دراصل سب سے زیادہ تاریک ،دبیز اور پراسرار تھا۔ ایسی صورت میں ادب پارے کی تفہیم و تعبیر کا کام صرف چند نکات کی طرف نشاندہی کرنے سے ہی ممکن نہیں ہو جاتا ۔ ادب میں تنقید کرنے کا مطلب 'ادب' کو جاننے اور سمجھنے کا ہوتا ہے ۔ مگر یہ جاننا محض معروضی ہی نہیں، موضوعی بھی ہونا چاہئے۔ یہاں جان لینے کا مطلب "ہو جانا" ہے یعنی یہ Being سے Becoming تک کا سفر ہوتا ہے ۔ تب تخلیق وہ ہو جاتی ہے جو ہم تھے اور "ہم" وہ کہ جو تخلیق ہے۔ ایلیٹ نے اپنے مضمون "تنقید کے منصب" میں لکھا ہے کہ اسے اس بات سے انکار نہیں کہ فن اپنے علاوہ اور بہت سے مقاصد کو پورا کر سکتا ہے مگر دراصل خود فن کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ ان مقاصد سے باخبر بھی ہو۔ ایلیٹ نے ایک طرح سے تخلیق یعنی ادبی فن پارے کے لئے بے خبری کو شرط قرار دیا ہے اور تنقید کے لئے باخبری کو ، ہمارے زمانے میں جو تنقید کو ایک دوسرے درجے کی سرگرمی مان لیا گیا ہے اس کا سبب چند مکتبی نقادوں کی عامیانہ آراء ہیں، ورنہ تنقید اور تخلیق کا رشتہ ایک ایسا فطری عمل ہے جس کے بارے میں بہت سے بےمعنی اور بے تکے سوالات قائم ہی نہیں کیے جا سکتے ۔ میں ان لکھنے والوں میں سے نہیں ہوں جو نقادوں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ اپنے ناول "نعمت خانہ" کے پیش لفظ میں یہ سب باتیں میں بہت تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔
تخلیق اپنے رد عمل کے طور پر اپنی تنقید کو پیدا کرتی ہے۔ تخلیق کی تعمیر میں ہی تنقید کی صورت مضمر ہوتی ہے ۔ بے خبر تخلیق کے بطن سے باخبر تنقید کا برآمد ہونا ایک قسم کی بامعنی اور اخلاقی ہلاکت خیزی ہے ۔ یہ ایک دوسری تخلیق کا جنم لینا ہے جس کے لئے گزشتہ تخلیق کے خلیوں کی ہلاکت خیزی کے موجب خون کے چیتھڑوں کا بکھرنا لازمی ہے۔ ان خون کے چیتھڑوں میں لپٹ کر ہی وہ باہر آتی ہے۔ ہر عضویاتی اکائی کے مقدر میں یہی لکھا ہے کہ جس کے لئے اسے شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔
اس لئے ہر زندہ نسل کو اپنی تنقید خود ہی تشکیل کرنا پڑتی ہے۔ ہر دور اپنے گزشتہ دور سے ذہنی، سماجی اور فکری اعتبار سے مختلف ہوتا ہے ۔ معاشرے میں تخلیقی بانجھ پن پیدا ہی اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی جامد و اکہرے حصار میں قید ہوکر خود اپنے ہی نظریے کی فرسودگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تنقید اور ادبی تخلیق دونوں مل کر ایک نئی اور وسیع تر دنیا کی تشکیل کرنا چاہئے ۔تنقید تخلیق یا ادب پارے کی ضد نہیں ہے ۔ تنقید کی بنیاد بھی وہی ہے جو خود ادب کی ہے ۔ تنقید نگار اصل میں ایک اعلی تربیت یافتہ قاری ہی ہوتا ہے ۔ کوئی بھی معاشرہ ذہنی اور اخلاقی اور روحانی و مادی اعتبار سے بھی تب ہی ترقی کرسکتا ہے جب اس میں ایسے تربیت یافتہ قاری زیادہ سے زیادہ پائے جاتے ہوں۔
مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے یہاں قاری کی نشوونما تقریبا رک سی گئی ہے ۔ اس کی تربیت ہی نہیں ہوپارہی ہے ۔ وہ ادب کا محض صارف ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اس کے اسباب کی طرف میں پہلے ہی اشارہ کرچکا ہوں۔ مارگریٹ میڈ نے کہا تھا کہ ادب کوئی عوامی پیشاب گھر نہیں ہے کہ اگر اسے تعمیر کیاجاتا ہے تو پھر یہ خیال بھی رکھاجاتا ہے کہ ہر کوئی اس میں آسانی کے ساتھ آجابھی سکے۔ ادب میں سہل پسندی بہت خطرناک شے ہے اور ہمارا قاری اس کا شکار ہوتا جارہا ہے ۔

عمر فرحت:
آپ کا میدان ادب کے علاوہ فلسفہ بھی رہا ہے ۔ ادب اور فلسفے کے تعلق پر کچھ روشنی ڈالئے۔
خالد جاوید :
دیکھئے ادب محض تخیلی اڑان کا نام نہیں ہے اور یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ ادب میں تخیل اور عقل ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ یہ ہم آہنگی الگ چیز ہے اور یہ ادبی تحریر کی کوئی واحد یا لازمی شرط نہیں قرار دی جاسکتی ۔ اس ضمن میں Yeatsنے کہا تھا کہ "عقل تو ان تجربات سے منطقی نتائج اخذ کرنا چاہتی ہے جو ہمارے حواس خمسہ کی رہین منت ہیں مگر تخیل ان تجربات تک رسائی کا خواہش مند ہے جو ہماری حسیات سے ماورا اشیاء کے باطن سے متعلق ہیں، لہذا دونوں کی ہم آہنگی کے بجائے ان کی آویزش کو اہمیت دی جانی چاہئے ۔ ان تجربات میں ایک آپسی رشتہ بھی ہوسکتاہے۔ اس رشتے کو سمجھنے کے لئے تخیل اپنی منطق کو بروئے کار لاتا ہے ۔ تخیل کی یہ منطق، اشیائے باطن کا یہ پر اسرار پہلو ہر ادبی تحریر کو چاہے وہ فکشن ہو یا شاعری، ایک مابعد الطبیعیاتی جہت عطا کرتے ہیں اور یہی وہ مقام ہے جہاں کوئی بھی ادبی فن پارہ فلسفے کے کناروں کو چھوکر گزرتا ہے ۔"
ژاک درید ابھی یہ قبول کرتا ہے کہ ایک زمانے تک وہ فلسفہ اور ادب دونوں میں سے کسی ایک کو رد کرتے ہوئے ہچکچاتے رہے ۔ دریدا پر بہت بعد میں یہ واضح ہوا کہ ہر ادبی تحریر کی ماہیت اور اس کے جز میں میں ہی فلسفیانہ پہلو شامل ہوتے ہیں ۔ بہت بعد میں جب دریدا نے شیکسپیر کے رومیوجولیٹ کے متن کا دوبارہ سے مطالعہ کیا تو اسے ان کناروں کا علم ہوا جن کی حدود کو پار کر کے وہ ادبی متن فلسفے کو چھو چھو کر واپس آتا ہے ۔ دریدا کے مشہور زمانہ نظریہ رد تشکیل کا آغاز در اصل اسی نکتے سے ہوتا ہے ۔
آپ تنقید میں بھی یہ صورت حال دیکھ سکتے ہیں ۔ تنقیدی شعور بجائے خود ایک فلسفیانہ شے کا نام ہے۔ اگر صرف اقدار کے تعین کی بات ہی کی جائے تو فلسفہ اقدار فلسفے کی ایک شاخ ہے جو اقدار کا معروضی اور موضوعی دونوں اعتبار سے مطالعہ کرتی ہے لیکن صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تنقید کا کام ادب کی پر اسراریت کا احاطہ کر کے اسے بھی اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو کہنا چاہئے کہ اسے تنقید کا منصب نہیں حاصل ہوسکتا۔
دوسری بات یہ کہ فلسفے میں عمومی کلیے بنالیے جاتے ہیں مگر ادب میں ایسا نہیں ہوتا پھر بھی ادب فلسفے کے بہت قریب ہے ۔ فلسفے کی تحریکوں مثلاً جمالیات ، نفسیات ، مارکسزم اور وجودیت نے ادب کی تحریکوں کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ اکثر انہیں پیدا بھی کیا ہے ۔ لارنس نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ"فن کا ملا فلسفے" پر منحصر ہے۔
میرے خیال میں ہر اعلیٰ ادبی فن پارے سے کسی نہ کسی قسم کی مابعد الطبعیات(فلسفہ) ضرور دریافت کیا جاسکتا ہے مگر میں لفظ"دریافت" پر زور دے رہا ہوں ۔ ایسا نہیں ہے کہ فلسفیانہ تصورات کو سطحی انداز میں سہل پسندی سے کام لیتے ہوئے شاعری، افسانہ یا ناول میں رقم کردینا چاہئے جو ایک بھونڈی بات ہے ۔ اصل بات متن کی قوت ہے ۔ متن میں کیا کیا پوشیدہ ہے ، اس کا علم لکھنے والے کو بھی نہیں ہوتا ۔ اسے تو زندہ نسلیں خود دریافت کرتی ہیں اور میں پھر ایک بار کہوں گا کہ زندہ نسلیں با شعور اور حساس قاری سے تشکیل پاتی ہیں۔ یہی شاید ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔

عمر فرحت:
اپنی تخلیقات کے بارے میں خود آپ کے خیالات کیا ہیں؟
خالد جاوید:
کوئی بھی خیال نہیں ۔ میں اپنی تحریروں کے بارے میں اور خود اپنے بارے میں کبھی سنجیدہ نہیں رہا۔ دنیا میں اتنا کچھ اچھا لکھا گیاہے کہ میرے لکھے ہوئے کی اس دنیا میں اہمیت ہی کیا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ میں لکھنے کے بعد فوراً اسے بھول جاتا ہوں ۔ میرے افسانے اور ناول اب میرے شعور سے باہر جاچکے ہیں ۔ اب وہ میرے لئے صرف ایک یاد بلکہ یاد کی یاد بن کرر ہ گئے ہیں ۔ ان کے بارے میں سوچنا بھی میرے لئے تکلیف دہ ہے ۔ میں اب اس کیفیت سے باہر آچکا ہوں ۔ لکھنا میرے لئے ایک تکلیف دہ کیفیت اور اچانک اکیلے ہوجانے کا نام ہے ۔ یہ کیفیت پھر کبھی آئے گی یا نہیں ۔ یہ مجھے بھی معلوم نہیں ۔ میرے ناخن پتھر پر خراشیں ڈالنے کے لئے پھر کبھی لپکیں گے ، میں یہ بھی نہیں جانتا ۔ اس لئے اپنی تخلیقات(اگر وہ تخلیقات کہی جاسکتی ہیں) کے بارے میں کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں۔ امید ہے کہ آپ میری اس مجبوری کے لئے مجھے معاف کردیں گے ۔

An interview with Khalid Jawed. Interviewer: Umar Farhat

1 تبصرہ: