معروف صحافی و ادیب علی سفیان آفاقی کا لاہور میں انتقال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2015-01-28

معروف صحافی و ادیب علی سفیان آفاقی کا لاہور میں انتقال

Ali-Sufyaan-Afaqi
معروف صحافی،فلم ساز اور کہانی نگار علی سفیان آفاقی آج بیاسی برس کی عمر میں لاہور میں وفات پاگئے ۔

علی سفیان آفاقی 22/ اگست 1933ء کو بھوپال کے شہر سیہور میں پیدا ہوئے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور میں سکونت پذیر ہوئے اور عملی صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ روزنامہ آفاق سے وابستگی کی وجہ سے وہ اپنے نام کے ساتھ آفاقی لکھنے لگے۔ اسی دوران ان کے تعلقات فلمی شخصیات سے استوار ہوئے تو انہں نے پہلے بطور کہانی نگار اور بعد ازاں بطور فلم ساز اور ہدایت کار فلمی صنعت سے وابستگی اختیار کی۔
انھوں نے جن فلموں کی کہانی اور مکالمے لکھے ان میں ٹھنڈی سڑک، فرشتہ، جوکر، تقدیر، عندلیب، دوستی، آس، انتظار، اجنبی، آبرو، عاشی، پلے بوائے،مس کولمبو اور کبھی الوداع نہ کہنا کے نام سرفہرست ہیں۔
جبکہ بطور فلم ساز ان کی فلموں میں کنیز، آدمی، میرا گھر میری جنت ، سزا اور آس کے نام شامل ہیں۔
1989ء میں انھوں نے لاہور سے ماہنامہ "ہوش ربا" ڈائجسٹ نکالا، بعد ازاں وہ ہفت روزہ فیملی میگزین سے بطور مدیر وابستہ ہوئے۔ 1990ء کی دہائی میں انھوں نے کراچی سے نکلنے والے جریدے "سرگزشت" میں 'فلمی الف لیلہ' کے نام سے پاکستان کی فلمی دنیا کا احوال لکھنا شروع کیا جو قارئین میں بے حد مقبول ہوا ۔ ان کی وفات تک اس سلسلے کی ڈھائی سو سے زیادہ اقساط شائع ہوچکی تھیں ۔

علی سفیان آفاقی نے کئی سفرنامے بھی تحریر کیے جو پڑھنے والوں میں بے حد پسند کیے گئے ۔ ان سفرناموں میں یورپ کی الف لیلہ، طلسمات فرنگ، ذرا انگلستان تک، نیل کنارے اور دیکھ لیا امریکا کے نام سر فہرست ہیں ۔
علی سفیان آفاقی نے 27 جنوری 2015ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پائی۔

***
مقصود الہی شیخ کے مرتب شدہ جریدہ "مخزن" کے شمارہ:10 میں علی سفیان آفاقی کا مختصر تعارف شائع ہوا تھا۔ راشد اشرف کے شکریہ کے ساتھ ذیل میں پیش ہے۔

پیدائش : 22/ اگست 1933 وسط ہند کی مسلم ریاست بھوپال کے شہر سیہور میں
تعلیم : بھوپال، میرٹھ اور لاہور، بی اے آنرز
صحافت کا آغاز: 1951ء جماعت اسلامی کے ترجمان روزنامہ "تسنیم" لاہور سے۔

یہ اخبار بند ہونے کے بعد ہفت روزہ "چٹان" اور روزنامہ "نوائے وقت" 1953 میں لاہور سے روزنامہ "آفاق" کے پہلے دور میں "آفاق" سے وابستگی (مدیر: پروفیسر سرور اور منیجنگ ایڈیٹر: میر نور احمد)۔ آفاق میں فلمی صفحے کی اشاعت سے روزنامہ صحافت میں پہلی بار فلمی صفحے کا تعارف۔

"آفاق" کے دوسرے دور میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر وابستگی مدیر غلام رسول مہر منیجنگ ایڈیٹر میر نور احمد، اس کے بعد م۔ش کے ہفت روزہ "اقوام" کی ادارات۔
روزنامہ "زمیندار" کی بندش کے بعد مولانا اختر علی خاں کے صاحبزادے منصور علی خاں کے زیر اہتمام روزنامہ "آثار" سے بطور جوائنٹ ایڈیٹر وابستگی آفاق، نوائے وقت، امروز، احسان وغیرہ میں "دام خیال" اور "دریچے" کے عنوان سے کالم نویسی۔ روزنامہ "جنگ" میں دریچے کے عنوان سے کالم نویسی ہفت روزہ "نگار" میں کالم نویسی۔ پاکستان ٹائمز، امروز، احسان اور کراچی کے اخبارات میں مضامین اور آرٹیکل، انٹرویوز فیچرنویسی۔

لاہور، کراچی اور انڈیا کے مختلف جرائد میں مضمون نویسی، ایڈیٹر "سیارہ" ڈائجسٹ ایڈیٹر ہفت روزہ فیملی میگزین لاہور۔

فلمی دُنیا سے وابستگی
1957ء میں شباب کیرانوی کی شراکت میں فلم "ٹھنڈی سڑک" بنائی۔ پہلی بار فلم کی کہانی، مکالمے اورمنظر نامہ لکھا۔ یہ مزاحیہ اور طنزیہ فلم تھی۔

1972ء میں مصنف فلمساز اور ہدایت کار کے طور پر "آس" بنائی۔ اس کی بعد اور بھی متعدد فلمیں بنائیں اور ڈائریکٹ کیں۔
1958ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد صحافت سے قطع تعلق کرنے کے بعد کل وقتی طور پر فلم سے وابستگی اختیار کی۔ فلم "جنگلی" کا اسکرپٹ لکھا۔ ہدایت کار حسن طارق و فلمساز اے مجید کی یہ فلم جو مشرقی پاکستان میں سندر بن کے جنگلات میں بنائی جارہی تھی، مگر مکمل نہ ہو سکی۔ اسی زمانے میں "ایاز" کے مکالمے اور منظر نامہ تحریر کیا۔ "آدمی" کے مکالمے اور منظر نامہ لکھا۔
دوستووِسکی کے ناول "کرائم اینڈ پنیشمنٹ" کو "فرشتہ" کے نام سے اخذ کیا اور بھی کئی فلموں کا تحریری کام کیا۔ 1965 میں بطور فلمساز و مصنف حسن طارق کے اشتراک سے "کنیز" بنائی، اس کے بعد "میرا گھر میری جنت" بطور مصنف فلمساز بنائی۔ حسن طارق سے علیحدہ ہوکر "سزا" بنائی، جس میں نئے ہیرو جمیل کو متعارف کرایا اور پہلی بار روزینہ کو ہیروئن کاسٹ کیا۔

بیرونی ملکوں کے ساتھ مشترکہ فلمسازی کے سلسلے میں کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں اور فلمبندی کا اہتمام کیا۔ 1989ء میں لاہور سے "ہوشربا" ڈائجسٹ نکالا جو ایک سال تک جاری رہا۔ انگلستان چلے جانے کے بعد بند کر دیا۔

لاہور سے شام کا اخبار "نوروز" نکالا جو کم و بیش ایک سال کے بعد بند کردیا، کیونکہ اس وقت لاہور میں زیادہ تعداد میں ہاکرز دستیاب نہ ہو سکے۔
1969ء سے بیرونی ملکوں کے سفر شروع کئے۔ مختلف فلموں کے یونٹوں کے ہمراہ کئی ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ سیر و سیاحت کی غرض سے بھی یورپ، امریکہ، کینیڈا، ایشیا کے مختلف ممالک کا کئی بار دورہ کیا۔
1984ء سے 1990ء تک ایڈورٹائزنگ کے شعبے سے وابستگی۔
1990ء میں ادارہ نوائے وقت کی طرف سے لاہور سے جاری ہونے والے اپنی نوعیت کے پہلے ہفت روزہ "فیملی میگزین" کی ادارت۔

Renown Journalist and writer Ali Sufyaan Aafaqi died in Lahore

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں